خوارج اور ان کی خصلتیں

1015۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے کپڑے میں چاندی تھی اور رسول اللہﷺ اس سے مٹھی بھر بھر کے لوگوں کو دے رہے تھے۔ تو اس نے کہا: اے محمد (ﷺ) عدل کیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((وَيْلَكَ! وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ؟ لَقَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِن لَمْ أَكَنْ أَعْدِلُ))

’’تیرے لیے ویل (ہلاکت یا جہنم) ہوا اگر میں عدل نہیں کر رہا تو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کر رہا ہوں تو میں نا کام ہو گیا اور خسارے میں پڑ گیا۔‘‘

اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کو قتل کر دوں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((مَعَاذَ اللهِ أَنْ يَّتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتَلُ أَصْحَابِي إِنَّ هٰذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآن لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا يَمْرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ))(أخرجه مسلم:1063)

’’(میں اس بات سے) اللہ کی پناہ (مانگتا ہوں ) کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا۔ (یہ لوگ) اس طرح اس (دین اسلام) سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے (آگے) نکل جاتا ہے۔

توضیح و فوائد: مسلمانوں کے غلو کرنے والے ایک گروہ کو خوارج کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہے، حالانکہ وہ اس عقیدے کی بنیاد پر خود دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اگرچہ جمہور اہل علم کے نزدیک یہ بدعتی اور گمراہ ہیں لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں۔

حدیث مذکورہ میں ان کی نشانی یہ بتائی گئی ہے وہ قرآن بھی پڑھیں گے لیکن اس کے باوجود اسلام سے دور ہوں گے۔ آپ ﷺنے انھیں قتل اس لیے نہیں کرایا کیونکہ وہ اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے قتل سے لوگوں کے دل اسلام سے متنفر ہو سکتے تھے۔

1016- سیدنا ابو سعید خدری رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺکی خدمت میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا تو آپ نے اسے چار اشخاص میں تقسیم کر دیا: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی جو بنو نبہان کا ایک آدمی تھا اور علقمہ بن علاقہ عامری جو بنو کلاب کا ایک فرد تھا۔ اس تقسیم پر قریش اور انصار غصے سے بھر گئے کہ آپﷺ نجد کے سرداروں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إنَّنَا أَتَأَلَّفُهُمْ)) ’’میں انھیں تالیف قلوب کے لیے دیتا ہوں۔‘‘

اس دوران میں ایک آدمی سامنے آیا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخسار ابھرے ہوئے، پیشانی اونچی، ڈاڑھی گھنی اور سرمنڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اے محمد اللہ سے ڈریں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((مَنْ يُطِعِ اللهَ إِذَا عَصَيْتُ، أَيَأْمَنُنِي اللهُ عَلٰى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي؟))

’’اگر میں اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے لگوں تو اور کون فرماں برداری کرے گا؟ اللہ تعالی نے تو مجھے اہل زمین پر امین بنایا ہے لیکن تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔‘‘

ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ میرے خیال میں وہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ آپﷺ نے انھیں روک دیا۔ جب وہ شخص چلا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ ضِئْضِيءِ هٰذَا أَوْفِي عَقِبِ هٰذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ)) (أخرجه البخاري:3344، 4667، ومسلم:1064)

’’اس شخص کی نسل یا اس کے نسب سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کریم تو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ اگر میں انہیں پالوں تو ضرور انھیں ایسے قتل کروں جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوئی ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: گہری آنکھیں یا گھنے بال خوارج کی نشانیاں نہیں بلکہ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ مسلمان کو قتل کریں گے اور کافروں کو سلامت چھوڑ دیں گے۔ اس کردار کے لوگ ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ شروع میں یہ قلیل افراد تھے، رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اس حدیث میں اشارہ ہے کہ جب یہ منظم طور پر گروہ بن جائیں تو انھیں قتل کرنا جائز ہے۔

1017۔ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:

((سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمَ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الَّدِينَ كَمَا يمْرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (أخرجه البخاري:3611، 6930، و مسلم: 1066)

’’عنقریب (خلافت راشدہ کے) آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی، وہ لوگ کم عمر اور کم عقل ہوں گے، (بظاہر) مخلوق کی سب سے بہترین بات کہیں گے، قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین کے اندر سے اس طرح تیزی سے نکل جائیں گے جس طرح تیر تیزی سے شکار کے اندر سے نکل جاتا ہے، جب تمھارا ان سے سامنا ہو تو انھیں قتل کر دینا، جس نے انھیں قتل کیا اس کے لیے یقینًا قیامت کے دن اللہ کے ہاں اجر ہے۔‘‘

1018۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يكونُ فِي أُمَّتِي فِرْقَتَانِ فَيَخْرُجُ مِنْ بَيْنِهِمَا مَارِقَةٌ، یَلَى قَتْلَهُمْ أَوْلَاهُمْ بِالْحَقِّ))(أخرجه مسلم:1065)

’’میری امت میں دو گروہ ہوں گے، ان دونوں گروہوں میں سے ایک ایسا گروہ نکلے گا جو دین سے مرتد ہو جائے گا۔ اور انھیں وہ گروہ قتل کرے گا جو حق کے زیادہ لائق اور قریب ہوگا۔‘‘

توضیح و فواند: سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما سے وابستہ مسلمانوں کے دو گروہ تھے۔ ان دونوں سے خوارج الگ ہوئے اور انھوں نے سیدناعلی اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں کو کا فر کیا۔ بالآخر نہروان کے مقام پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے جنگ کی۔

……………