۔ خیر کی تمنا اور اس کے حصول کے لیے لفظ ”کاش‘‘ کا استعمال

899۔ سیدنا ابو کبشہ انماری ﷺ نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رِزَقَهُ اللهُ مَالًا وَعِلْمًا، فَهُوَ يَتَّقِي رَبَّهُ فِيهِ، وَيَصِلُ بِهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلهِ فِيهِ حَقًّا، فَهٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْمًا، وَلَمْ يَرْزُقُهُ مَالًا. فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ. فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالًا، وَلَمْ يَرْزُقُهُ عِلْمًا، فَهُوَ يُخْبَطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَلَا يَعْلَمُ لِلهِ فِيهِ حَقًّا، فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقُهُ اللهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلَتُ فِيهِ بِعَمَلِ فَلَانٍ، فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ)) (أخرجه أحمد: 18024، 18031، والترمذي: 2325، وابن ماجه:4228)

’’دنیا چار طرح کے لوگوں کے لیے ہے، ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ۔ مانے مال اور علم عطا کیا، وہ اس کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کے حق کو بھی پہچانتا ہے،یہ قدر و منزلت کے اعتبار سے سب سے افضل ہے۔ دوسرا وہ بندہ جسے اللہ نے علم سے نواز الیکن مال نہیں دیا، وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح خرچ کرتا اسے اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا، پہلے اور دوسرے) دونوں کا اجر برابر ہے۔ تیسرا وہ بندہ جیسے اللہ تعالٰی نے مال دیا لیکن علم عطا نہیں کیا، وہ بغیر علم کے بے وقوفی سے مال خرچ کرتا ہے، اس حوالے سے اپنے رب سے نہیں ڈرتا اور نہ اس کے ذریعے سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس کے بارے میں اللہ کا حق پہچانتا ہے، یہ قدر و منزلت کے اعتبار سے۔ سے بدترین آدمی ہے۔: چوتھا وہ آدمی جسے اللہ نے علم دیا نہ مال لیکن وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی لال کی طرح کام کرتا، اسے اس کی نیت کے مطابق ملے گا اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے۔‘‘

900۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَىَّ ثَلَاتٌ، وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنِ)) (أخرجه البخاري: 2389، 6445، 7228، ومُسْلِمٌ:991)

’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ مجھ پر تین دن گزر جائیں اور اس میں سے کوئی چیز میرے پاس باقی ہو۔ ہاں، قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اگر انسان سے کوئی خیر کا کام رہ جائے یا آدمی میں اس کی استطاعت نہ ہو تو اس پر اظہار ندامت کرتے ہوئے اس طرح کہنا جائز ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا