خودکشی کی شرعی حیثیت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ﴿وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾ [النساء:29]
سورۃ النساء کی ایک انتہائی مختصر مگر انتہائی جامع آیت کریمہ کا ایک ٹکڑا اس وقت تلاوت کیا گیا ہے، اللہ رب العزت نے اس میں ایک زبر دست قسم کی نصیحت فرمائی ہے۔ اور وہ نصیحت یہ ہے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ﴾
’’اور اپنے نفسوں کو قتل نہ کرو۔‘‘
اس کے تین مطلب اہل علم نے بیان کیے ہیں۔
پہلا مطلب: خود کشی نہ کرو۔ یعنی اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں قتل نہ کرو۔ شریعت اسلامیہ میں خودکشی انتہائی خطر ناک گناہ ہے۔ کیونکہ اس ایک گناہ میں کتنے سارے گناہ داخل ہیں۔ ایک تو یہ اللہ کی امانت کو ضائع کرتا ہے کیونکہ جان اللہ کی امانت ہے۔ اسے اپنے ہاتھوں ختم کرنا درست نہیں۔ دوسرا یہ بے صبری کا نتیجہ ہے۔ تیسرا یہ اللہ پر توکل نہ ہونے کی علامت ہے۔ چوتھا یہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پختہ ایمان والے متقی پرہیز گار لوگ کبھی بھی خود کشی نہیں کرتے بلکہ خود کشی زیادہ تر کافروں میں پائی جاتی ہے یا بدعمل قسم کے نام نہاد مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اور معمولی سی بات پر بے دین لوگ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکشی کرتے ہیں۔ امتحان میں فیل ہو گیا خودکشی کر لی۔ معاشی پریشانی میں مبتلا ہو گیا زہر پی لیا۔ پسند کی شادی نہ ہوئی۔ گولیاں کھا لیں۔ والدین سے کوئی مطالبہ پورا نہ ہوا۔ خود کشی کرلی۔
آج آئے دن یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ یہ وارداتیں عام ہو گئی ہیں، ہمارے شہر میں اسحاق کوٹ کا واقعہ ہے لڑکا اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ لڑکی اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گئی اور دونوں نے محبت میں ناکامی کی بناء پر ایک دوسرے کو دکھلا کر بیک وقت زہریلی گولیاں کھا لیں اور خود کشی کر لی۔ اسی طرح حافظ آباد روڈ کے ایک شخص نے اپنے باپ سے مطالبہ کیا کہ مجھے ملازمت کے لیے باہر بھیجو، گھر میں ہر نعمت موجود تھی اچھا بھلا کارخانہ چلتا تھا۔ باپ نے سمجھایا: بیٹا باہر جا کر کسی کی نوکری کرو گے یہاں تیرا حکم چلتا ہے، باہر نہ جا۔ لیکن بیٹے نے باپ کی نصیحت ماننے کی بجائے خود کشی کر لی، اور ایسے واقعات بے شمار ہیں۔
حالانکہ یہ خطرناک گناہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس کی خطرناکی مختلف انداز میں بیان فرمائی:
صحیح بخاری ومسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں سول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے پہاڑ (کی بلندی) سے خود کو گرا کر خود کشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں خود کو گراتا رہے گا اور جس شخص نے زہر (کا پیالہ) پی کر خودکشی کی تو زہر کا پیالہ اس کے ہاتھ میں ہوگا، وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زہر کے پیالے سے گھونٹ گھونٹ پیتا رہے گا اور جس شخص نے خود کو نیزہ مار کر خودکشی کی، تو نیزہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں اس نیزے کو مارتا رہے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الطب، باب شرب السم والدواء به و بما يخاف منه (5778) ومسلم (109)]
اور صیح بخاری میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ
’’جو شخص اپنا گلا گھونٹ کر (خودکشی) کرتا ہے تو وہ اسی طرح دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹا ر ہے گا اور جو شخص خود کو نیزہ مار کر قتل کرتا ہے وہ جہنم میں بھی خود کو نیزہ مارتا رہے گا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الطب، باب شرب اسم والدواء به و بما يخاف منه (5778) ومسلم (109)]
اور متفق علیہ حدیث ہے، حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نےخبر دی کہ
’’تم سے پہلے دور میں ایک زخمی شخص تھا اس نے گھبراہٹ (کے عالم) میں چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ دیا (اور) خون نہ رکنے کے سبب وہ فوت ہو گیا تو اللہ نے اس کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ میرے بندے نے خود کو (قتل کر کے) مرنے کے لیے مجھ سے جلدی کی (یعنی طبعی موت کے بجائے خودکشی کی ہے)۔ اس لیے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الجنائز، باب ترك الصلاة على القاتل نفسه (978) و ابوداود (3185)]
اور صحیح مسلم میں یہ واقعہ لکھا ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جب مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی تو طفیل بن عمرو دوسی اور اس کی قوم کے ایک آدمی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے ہجرت کی۔ (وہاں جا کر) وہ بیمار ہو گیا (اور) اس نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں کو کاٹ دیا، اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہہ نکلا اور وہ فوت ہو گیا۔ چنانچہ طفیل بن عمرو نے اس شخص کو خواب میں دیکھا کہ اس کی شکل وصورت نہایت اچھی ہے اس نے دونوں ہاتھوں کو چھپا رکھا ہے (تطفیل بن عمرو) نے اس سے دریافت کیا: تیرے پروردگار نے تیرے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ اس نے بتایا، میرے پروردگار نے مجھے نبی ﷺ کی جانب ہجرت کرنے کی وجہ سے معاف کر دیا ہے۔ انہوں نے (مزید) دریافت کیا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تو نے اپنے ہاتھوں کو چھپایا ہوا ہے، یہ کیوں؟ اس نے بتایا: مجھے کہا گیا کہ ہم تیرے جسم کے اس حصے کو درست نہیں کریں گے۔ جس کو تو نے خود بگاڑا ہے (طفیل بن عمرو) نے اس خواب کو نبیﷺ کے سامنے بیان کیا تو رسول اللہﷺ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ اس کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الدليل على أن قاتل نفسہ لا يكفر، رقم: 311]
غور فرمائیے! خودکشی کتنا خطرناک گناہ اور اس کی سزا کتنی خطرناک ہے۔ اور یہ جرم دین اسلام سے اعراض کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے پھیلتا جا رہا ہے۔
اسلام تو اس قدر صبر سکھلاتا ہے کہ خود کشی تو کجا دین اسلام میں تو موت کی دعا تک جائز نہیں۔
صحیح بخاری میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیکو کار ہے تو شائد وہ مزید نیک اعمال کرلے اور اگر وہ بدکار ہے تو شائد اللہ سے معافی مانگ کر اس کو راضی کرلے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب المرضى، باب تمنى المريض الموت (5673) ومسلم (2682) و احمد (8196)]
اور صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے اور موت آنے سے پہلے موت کی دعا نہ کرے اس لیے کہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کی امیدیں منقطع ہو جاتی ہیں بلاشبہ مومن کی طویل عمر سے اس کی نیک اعمال میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء باب كراهة تمنى الموت لضر نزل به رقم: 6819]
اور متفق علیہ حدیث ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کے لاحق ہونے کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر ضرور ہی کچھ کہنا ہو تو دعا کرے:
(اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خيرًا لي) [صحيح البخاري كتاب المرض باب تمنى المريض الموت رقم: 5671 و مسلم رقم 6814]
’’(اے اللہ) مجھے زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے اور مجھے موت سے ہمکنار کر جب موت میرے لیے بہتر ہو۔‘‘
لیکن آج معمولی معمولی بات پر لوگ خود کشی کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، آئیے! غفور و رحیم رب کے دین اور رحمہ العلمین پیغمبر کی تعلیمات کو اپنائیے اور تباہی و بربادی سے بچ جایئے، یہی راستہ دنیا و آخرت میں سکون حاصل کرنے کا راستہ ہے، اور اس کے برعکس خود کشی سے سکون نہیں ملتا بلکہ عذاب مسلسل ملتا ہے۔
دوسرا مطلب – ايك دوسرے کو قتل نہ کرو:
دین اسلام میں باہمی اخوت و محبت کی اس قدر تعلیم دی گئی ہے کہ ایک دوسرے کو ایک جان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی اپنے ارشادات گرامی میں یہی انداز بیان فرمایا، اور دین اسلام میں اہل اسلام پر ایک دوسرے کا قتل سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’مومن (شخص) ہمیشہ فراخی میں رہتا ہے یعنی اس کو نیک اعمال کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ جب تک وہ ناحق خون نہیں بہاتا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى: (ومن يقتل مؤمنا الخ)، رقم: 6864]
اور بخاری و مسلم میں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ) [صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب القصاص يوم القيامة (6533)]
’’قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خونوں کا فیصلہ ہوگا۔‘‘
اور صحیحین میں ہے، حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے دریافت کیا، اے اللہ کے رسولﷺ آپ بتائیں اگر میری کسی کافر سے مڈبھیٹر ہو جائے ہم دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جائیں، وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار کا (وار) کر کے اسے کاٹ دے پھر وہ مجھ سے ایک درخت کی (اوٹ میں) ہو کر مجھ سے بچاؤ اختیار کرلے اور کہے، میں اللہ (کی رضا) کے لیے اسلام لے آیا اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں اسے قتل کرنے کا ارادہ کروں تو وہ ’’لا اللہ الا اللہ‘‘ کہہ دے تو کیا اس کلمہ کے کہنے کے بعد میں اس کو قتل کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اسے قتل نہ کر۔‘‘
اس نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے تو میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تو اسے قتل نہیں کر سکتا، اگر تو اسے قتل کرے گا تو وہ تیرے اس مقام میں ہو گا جو اس کے قتل کرنے سے پہلے تھا اور تو اس کے اس مقام میں ہوگا۔ جو اس کا اس کلمہ کے کہنے سے پہلے تھا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى: (ومن يقتل مؤمنا الخ) رقم: 6865 ومسلم رقم: 274]
اور متفق علیہ حدیث ہے، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے جہینہ (قبیلہ) کے چند لوگوں کی طرف بھیجا۔ چنانچہ میں ایک شخص کے پاس گیا میں نے اسے نیزہ مارنا چاہا، اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ میں نے (پھر بھی) نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا، پھر میں نبی سلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کو سارا واقعہ کہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تعجب ہے! تو نے اسے قتل کر دیا۔ حالانکہ وہ گواہی دیتا تھا کہ صرف اللہ معبود برحق ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ملی یا اس نے تو بچاؤ کے لیے ایسا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کیا تو نے اس کے دل کو چیر کر معلوم کر لیا تھا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الديات، باب قول الله تعالى: ﴿ومن أحياها﴾ رقم: 6872 و مسلم (277)]
لیکن آج دس روپے میں بندہ قتل ہو جاتا ہے۔ آج سب سے ستا مسلمان کا خون ہے۔ کہیں مسلمانوں کا سیاسی قتل، کہیں معاشی قتل، کہیں خاندانی قتل اور کہیں محض انانیت کی بناء قتل، ہر طرف خون مسلم بہ رہا ہے، کافر بھی بہا رہے ہیں اور دین سے دوری کی بناء پر مسلمان بھی ایک دوسرے کا لہو بہا رہے ہیں، یاد رکھئے مسلمان کا خون اگر ہر طرح سے محفوظ ہو سکتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کے دین کا نفاذ کیا جائے اس کے علاوہ کسی طریقے سے خون مسلم کا تحفظ ممکن نہیں۔
تیسرا مطلب گناہوں کے ذریعے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ کیونکہ گناہ انسان کے لیے انتہائی مہلک چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے بڑے بڑے گناہوں کا نام موبقات رکھا فر مایا:
(اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ) [صحيح البخاري، كتاب الوصايا، باب قول الله تعالى ﴿ان الذين يأكلون أموال اليتمي ظلما…﴾ (2766) (5764)]
’’سات مہلک گناہوں سے بچو۔‘‘
معلوم ہوا گناہ، نافرمانی فسق و فجور اور معاصی و ذنوب کا ارتکاب کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔
یہی مضمون سورۃ البقرہ میں ان الفاظ میں مذکور ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ [البقرة: 195]
’’اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
یعنی گناہوں، نافرمانیوں کے ذریعے اور فرائض و واجبات ترک کر کے اپنے آپ کو تباہی میں نہ ڈالو۔ حقیقت ہے گناہوں کے ذریعے سے ہونے والی ہلاکت انتہائی خطرناک ہلاکت ہے۔ اس لیے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَكُمْ﴾ [النساء:29]
’’گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔‘‘
لیکن آج لوگوں کی اکثریت گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے اپنے آپ کو بڑی بے دردی کے ساتھ ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، لوگ گناہوں کے خطرناک انجام سے بے پرواہ ہو چکے ہیں اور دن رات گناہوں کی دلدل میں ڈوبے رہتے ہیں۔
آخری بات
﴿إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾ [النساء:20]
’’یقینا اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
معلوم ہوا احکام الہیہ انسان کے لیے اللہ کی رحمت ہیں کیونکہ ان پر عمل کرنے سے دنیا میں امن وسکون، قبر میں امن و سکون اور آخرت میں بھی امن و سکون حاصل ہوتا ہے، اور انسان ہلاکت و تباہی سے بچ جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔