خطبہ عید الاضحیٰ
قربانی: سنت ابراہیمیؑ، فضیلت ابراہیم ، قربانی سنتِ نبوی ﷺ، قربانی کے بعض اہم مسائل وآداب، ایامِ عید میں بعض منکرات کا ارتکاب
قربانی! آج عید الاضحیٰ کا عظیم دن، جس میں مسلمان ابراہیم کی سنت، نبی کریم ﷺ کے طریقہ کے مطابق جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔
تمام انبیاء کی پیروی کا حکم: ﴿أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده … ﴾ … سورة الأنعام
سیدنا ابراہیمؑ کی خاص پیروی کا حکم: ﴿قل صدق الله فاتبعوا ملة إبراهيم حنيفا وما كان من المشركين ﴾ … آل عمران
کیوں؟
1. تمام محبتوں کا محور اللہ رب العٰلمین کی ذات، اس کیلئے گھر سےہجرت، قوم سے ہجرت، بیٹے کے حلقوم پر چھری چلانا، اپنی جان اللہ کیلئے قربان کرنا۔
2. اللہ کے دشمنوں اور ان کے معبودوں (پہلے مشرکوں اور پھر شریکوں) سے کھلم کھلا بیزاری وبراءت … جب معلوم ہوجائے کہ منشائے الٰہی کیا ہے تو پھر سوچنا بھی گناہ ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ: جلیل القدر پیغمبر، خلیل اللہ: ﴿ومن أحسن دينا ممن أسلم وجهه لله وهو محسن واتَّبَعَ مِلّة إبراهيم حنيفا واتخذ الله إبراهيم خليلا﴾ النساء. تمام انبیاء آپ کی اولاد: تمام كتب انہیں پر اُتریں:
01. وَلَقَد أَرسَلنا نوحًا وَإِبرٰهيمَ وَجَعَلنا فى ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالكِتـٰبَ ۖ فَمِنهُم مُهتَدٍ ۖ وَكَثيرٌ مِنهُم فـٰسِقونَ ٢٦ الحديد،
02. وَوَهَبنا لَهُ إِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَجَعَلنا فى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالكِتـٰبَ وَءاتَينـٰهُ أَجرَهُ فِى الدُّنيا ۖ وَإِنَّهُ فِى الـٔاخِرَةِ لَمِنَ الصّـٰلِحينَ ٢٧ العنكبوت
قرآن 69 مرتبہ:
01. إِنَّ إِبرٰهيمَ كانَ أُمَّةً قانِتًا لِلَّـهِ حَنيفًا وَلَم يَكُ مِنَ المُشرِكينَ ١٢٠ شاكِرًا لِأَنعُمِهِ ۚ اجتَبىٰهُ وَهَدىٰهُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ١٢١ وَءاتَينـٰهُ فِى الدُّنيا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِى الـٔاخِرَةِ لَمِنَ الصّـٰلِحينَ ١٢٢ ثُمَّ أَوحَينا إِلَيكَ أَنِ اتَّبِع مِلَّةَ إِبرٰهيمَ حَنيفًا ۖ وَما كانَ مِنَ المُشرِكينَ ١٢٣ النحل،
02. وَمَن يَرغَبُ عَن مِلَّةِ إِبرٰهـۧمَ إِلّا مَن سَفِهَ نَفسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصطَفَينـٰهُ فِى الدُّنيا ۖ وَإِنَّهُ فِى الـٔاخِرَةِ لَمِنَ الصّـٰلِحينَ ١٣٠ إِذ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسلِم ۖ قالَ أَسلَمتُ لِرَبِّ العـٰلَمينَ ١٣١ البقرة،
03. ما كانَ إِبرٰهيمُ يَهودِيًّا وَلا نَصرانِيًّا وَلـٰكِن كانَ حَنيفًا مُسلِمًا وَما كانَ مِنَ المُشرِكينَ ٦٧ آل عمران
ہر آزمائش میں پورا اُترے:
01. وَإِذِ ابتَلىٰ إِبرٰهـۧمَ رَبُّهُ بِكَلِمـٰتٍ (اَوامر ونواہی، ہجرت، قربانی) فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قالَ إِنّى جاعِلُكَ لِلنّاسِ إِمامًا ۖ قالَ وَمِن ذُرِّيَّتى ۖ قالَ لا يَنالُ عَهدِى الظّـٰلِمينَ ١٢٤ البقرة
1. پہلے باپ کو دعوت،
2. پھر قوم کو دعوت: ستارہ، چاند اور سورج والا واقعہ،
3. جب قوم کو سمجھ نہ آئی تو کہا چال چلوں گا۔ بتوں کو توڑنے والا واقعہ،
4. پھر نمرود کے ساتھ مناظرہ، آگ میں ڈالا جانا
سیدنا ابراہیمؑ کی اس وفاداری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان تمغہ:
02. وَإِبرٰهيمَ الَّذى وَفّىٰ ٣٧ النجم
بیٹے کی قربانی جیسی عظیم آزمائش:
01. وَقالَ إِنّى ذاهِبٌ إِلىٰ رَبّى سَيَهدينِ ٩٩ رَبِّ هَب لى مِنَ الصّـٰلِحينَ ١٠٠ فَبَشَّرنـٰهُ بِغُلـٰمٍ حَليمٍ ١٠١ فَلَمّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعىَ قالَ يـٰبُنَىَّ إِنّى أَرىٰ فِى المَنامِ أَنّى أَذبَحُكَ فَانظُر ماذا تَرىٰ ۚ قالَ يـٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ ۖ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّـهُ مِنَ الصّـٰبِرينَ ١٠٢ فَلَمّا أَسلَما وَتَلَّهُ لِلجَبينِ ١٠٣ وَنـٰدَينـٰهُ أَن يـٰإِبرٰهيمُ ١٠٤ قَد صَدَّقتَ الرُّءيا ۚ إِنّا كَذٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ ١٠٥ إِنَّ هـٰذا لَهُوَ البَلـٰؤُا المُبينُ ١٠٦ وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ١٠٧ وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الـٔاخِرينَ ١٠٨ سَلـٰمٌ عَلىٰ إِبرٰهيمَ ١٠٩ كَذٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ ١١٠ إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ ١١١
قربانی نبی ﷺکا طریقہ:
قربانی نبی ﷺ کا طریقہ بھی ہے جس پر آپ نے قیامِ مدینہ کے دوران دس سال عمل فرمایا بلکہ طاقت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کو تنبیہ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ يُضَحِّيَ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَحْضُرْ مُصَلَّانَا» صحيح الترغيب، عرفات میں فرمایا: «يأيها الناس! إن علىٰ كل أهل بيت في كلّ عام أضحيةً … صحيح الترمذي
قربانی ، بنیادی مسائل:
01. اخلاصِ نیت: ریاکاری اور تعریف سننے کی خواہش ثواب کو ضائع کر دیتے ہیں: ﴿فصل لربك وانحر﴾، ﴿قل إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العٰلمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين﴾
02. ذبح صرف اللہ کیلئے: غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور (خواہ قربانی کا ہو یا کوئی اور) حلال نہیں: ﴿إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله﴾ البقرة … «لعن الله من ذبح لغير الله» … مسلم
3. نماز عید کے بعد قربانی: جو پہلے کر لے اسے دوسری قربانی کرنا ہوگی: جندب: «من كان ذبح أضحيتَه قبل أن يُصَلِّيَ (أو نُصَلِّيَ)، فليذبح مكانها أخرىٰ، ومن كان لم يذبح فليذبح باسم الله» … متفق عليه
4. جانور موٹا تازہ، بے عیب: أبو أمامة: «كنا نُسَمِّنُ الأضحيةَ بالمدينة، وكان المسلمون يُسَمِّنُون» … البخاري، براء: «أربع لا تجوز في الأضاحي: العَوْرَاء بَيِّنٌ عَوَرُها، والمريضةُ بَيِّنٌ مَرَضُها، والعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا (لنگڑا پن)، والكسيرُ الّتي لا تُنْقِي» (لاغر جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو) صحيح أبي داؤد … اسی طرح نہ کان کٹا ہو نہ سینگ ٹوٹا ہو، خصّی ہونا عیب نہیں۔
قربانی ، چند آداب:
1. چھری تیز:
1. شداد بن أوس: «إن الله كتب الإحسان علىٰ كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة، وليحدّ أحدكم شفرته وليرح ذبيحته» … مسلم،
2. ابن عباس: نبی کریم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بکری کی گردن پر پاؤں رکھے ہوئے چھری تیز کر رہا تھا، بکری بھی اُسے دیکھ رہی تھی، فرمایا: « أفلا قبل هٰذا؟ أَوَ تُرِيدُ أَن تُيِمتَهَا مَوْتَاتٍ» طبراني، صحيح الترغيب
2. اپنے ہاتھ سے ذبح:
خود نہ کر سکے تو دوسرا بھی کر سکتا ہے، عورت بھی ذبح کر سکتی ہے، مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ پر لٹائیں، پانا پاؤں اس کی گردن پر رکھیں اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر دائیں ہاتھ سے ذبح کریں:
1. أنس: «ضحّى النبي ﷺ بكبشين أملحين، فرأيته واضعًا قدمه على صفاحهما، يسمّي ويكبّر، فذبحهما بيده» متفق عليه،
2. عائشہ: نبی ﷺ نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کی ٹانگیں، پیٹ اور آنکھوں کا ارد گرد سیاہ ہوں، جب وہ لایا گیا تو آپ نے عائشہ کو حکم دیا: «هَلُمِّي المِدْيَةَ .. اشحذيها بحجر» … پھر بسم الله اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد فرماتے ہوئے ذبح کر دیا۔ مسلم
3. گوشت کی تقسیم: خود بھی کھائیں، رشتے داروں اور مساکین کو بھی کھلائیں: ﴿فكلوا منها وأطمعوا البائس الفقير﴾، ﴿فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر﴾ اپنے حصّے کا گوشت ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ شروع میں منع کیا، پھر اجازت دے دی۔
4. قربانی کی کھالیں:
5. قربانی کے ایام
ایام عید میں تفریح:
ایام عید میں بعض منکرات:
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( ہاجرہ علیہا السلام ) سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں ( وہ جلد بھاگ جائیں ) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم ( علیہما السلام ) ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام ( اپنے گھر کے لیے ) روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ، اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے ( جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے ) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ( سورۃ ابراہیم ) یشکرون تک ۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے ۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا ( پیاس کی شدت سے ) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا ( کہا کہ ) زمین پر لوٹ رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا ۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی ۔ وہ ( پانی کی تلاش میں ) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا ( تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں ) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( صفا اور مروہ کے درمیان ) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔ ( ساتویں مرتبہ ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی ، انہوں نے کہا ، خاموش ! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے ۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم ( کا کنواں ) ہے ، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے ۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے ، جس سے وہاں پانی ابل آیا ۔ حضرت ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا ( تاکہ پانی بہنے نہ پائے ) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں ۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ ! ام اسماعیل پر رحم کرے ، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں خدا کا گھر ہو گا ، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا ، اب جہاں بیت اللہ ہے ، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی ۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا ۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء ( مکہ کا بالائی حصہ ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاو کیا ( قریب ہی ) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے ، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے ۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی ۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاو ڈالنے کی اجازت دیں گی ۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا ۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے ۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی ۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے ۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ ( اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں ) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی ۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی ۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ( ہاجرہ علیہا السلام ) کا انتقال ہو گیا ) ۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا ( کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں ) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں ، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو ۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے ؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ( جاتے ہوئے ) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا ( کہ کہاں ہیں ؟ ) اور میں نے بتا دیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں ( جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے ) اپنے تیر بنا رہے ہیں ۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا ، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں ۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف ! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی ۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے ۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا ۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے ، اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے ۔ ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے ۔ ” اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما ۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے “