خطبۂ حجۃ الوداع (1)
اہم عناصرِ خطبہ:
01.خطبۂ حجة الوداع کی اہمیت
02.عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کے اہم نکات
03.منیٰ میں خطبۂ یوم النحر
پہلا خطبہ
موسمِ حج کی مناسبت سے ہم پچھلے تین خطبوں میں حج کی فرضیت واہمیت، اس کے فضائل اوراحکام وآداب کے علاوہ فضائل حرمین شریفین پر روشنی ڈال چکے ہیں اور احکام وآداب کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دوران کئی مرتبہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب فرمایا تھا۔ سب سے اہم خطبہ وہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں بھی خطبہ ارشاد فرمایا۔ آج کے خطبۂ جمعہ میں انہی خطبات کو بیان کرنا مقصود ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
*عرفات میں خطبۂ حجة الوداع
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں پہنچے، یہاں آپ کیليے نمرۃ میں ایک خیمہ لگایا گیا تھا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی (قصواء) پر کجاوہ رکھنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی کے درمیان آئے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ هَذَا فِیْ شَهْرِکُمْ هَذَا فِیْ بَلَدِکُمْ هَذَا، أَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِیَّةِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ، وَدِمَائُ الْجَاهِلِیَّةِ مَوْضُوْعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَةَ بْنِ الْحَارِثِ کَانَ مُسْتَرْضِعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَیْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِیَّةِ مَوْضُوْعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوْعٌ کُلُّهُ، فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْهُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَةِ اللّٰہِ، وَلَکُمْ عَلَیْهِنَّ أَنْ لَّا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَهُوْنَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوْهُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِه کِتَابَ اللّٰہِ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ یَرْفَعُهَا إِلَی السَّمَاءِ وَیَنْکُتُهَا إِلَی النَّاسِ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ…) (صحیح مسلم:1218)
’’بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال ایسے ہی قابل احترام ہیں جس طرح تمھارا یہ دن تمھارے اس مہینے میں اور تمھارے اس شہر میں محترم ہے۔ خبردار! جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں تلے دفن ہوگئے اور جاہلیت کے خون ختم ہوگئے۔ سب سے پہلے میں اپنے (خاندان کے) خونوں میں سے ابن ربیعۃ بن الحارث کا خون ختم کرتا ہوں جو بنوسعد میں دودھ پیتا تھا اور اسے ہذیل نے قتل کر دیا تھا اور جاہلیت کا سود ختم ہو گیا اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے سود کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور وہ ہے عباس بن عبد المطلب کا سود، چنانچہ وہ پورے کا پورا ختم کر دیا گیا ہے اور تم عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور تم نے اللہ کے کلمہ کے ذریعہ ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔ تمھارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں اتنا مار سکتے ہو جس سے چوٹ نہ آئے اور ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انھیں دستور کے مطابق رزق اور لباس مہیا کرو اور (جان لو) میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جسے تم نے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ ہے کتاب اللہ اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے یقینا دین پہنچا دیا۔ (ذمہ داری) ادا کر دی اور امت کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ شہادت فضا میں بلند کی اور اسے لوگوں کی طرف ہلاتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو بھی گواہ رہ، اے اللہ تو بھی گواہ رہ، اے اللہ تو بھی گواہ رہ۔۔۔‘‘
اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتیں ارشاد فرمائیں جو یہ ہیں:
01.خونِ مسلم کی حرمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے شہر، حرمت والے ماہ اور حرمت والے دن کی طرح خونِ مسلم کو حرمت والا قرار دیا، یعنی اسے ناحق طور پر بہانا حرام فرما دیا۔ اس ليے مسلمان کے خون کی حفاظت کرنا ضروری امر ہے۔
جو شخص کسی مسلمان کو قتل کرتا ہے اس کیليے سخت وعید ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَٰلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُۥ وَأَعَدَّ لَهُۥ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (النساء4 :93)
’’اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس نے اس کیليے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے شخص کو پانچ وعیدیں سنائی ہیں، پہلی یہ کہ اس کی سزا جہنم ہے، دوسری یہ کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، تیسری یہ کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے، چوتھی یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت (پھٹکار) کا مستحق ہے اور پانچویں یہ کہ اس کیليے اللہ تعالیٰ نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں خونِ مسلم کی حرمت کو یوں بیان فرمایا: (لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ یَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إلِاَّ بِإِحْدَی ثَلاَثٍ: اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِیْنِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ) (متفق علیہ)
’’کوئی مسلمان جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ (برحق) نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس کا خون حلال نہیں۔ ہاں تین میں سے ایک شخص کو قتل کیا جا سکتا ہے اور وہ ہیں: شادی شدہ زانی، قاتل اور دین (اسلام) کو چھوڑنے اور جماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘
کسی مومن کو ناجائز قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے! اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِغَیْرِ حَقٍّ) (سنن ابن ماجہ:2619،سنن الترمذي عن عبد اﷲ بن عمرو:1395۔وصححہ الألباني)
’’دنیا کا خاتمہ کسی مومن کے ناجائز قتل سے اللہ تعالیٰ پر زیادہ ہلکا ہے۔‘‘
اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِیْ دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللّٰہُ فِیْ النَّارِ) (سنن الترمذي:1398۔وصححہ الألباني)
’’اگر آسمان والے اور زمین والے (تمام کے تمام) ایک مومن کے خون میں شریک ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دیتا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ روزِ قیامت سب سے پہلے خونوں کا حساب لیا جائے گا۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ الدِّمَاءِ) (متفق علیہ)
’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
اس ليے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنا دامن مسلمان کے خون سے محفوظ رکھے اور کسی کو ناجائز قتل نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ لَا یُشْرِكُ بِه شَیْئًا، لَمْ یَتَنَدَّ بِدَمٍ حَرَامٍ، دَخَلَ الْجَنَّةَ) (سنن ابن ماجہ:2618۔وصححہ الألباني ی)
’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا تھا اور اس نے حرمت والا خون نہیں بہایا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر اس نے توبہ کرلی، ایمان لے آیا اور عمل صالح کر کے ہدایت کے راستے پر گامزن ہوگیا۔ تو انھوں نے کہا: وہ ہلاک ہو جائے، اس کیليے ہدایت کیسے ممکن ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: (یَجِیْئُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُتَعَلِّقٌ بِرَأْسِ صَاحِبِه، یَقُوْلُ: رَبِّ، سَلْ هذَا لِمَ قَتَلَنِیْ) (سنن ابن ماجہ:2621۔ وصححہ الألباني)
’’قیامت کے روز قاتل ومقتول دونوں آئیں گے، مقتول اپنے قاتل کے سر کے ساتھ چمٹا ہوگا اور کہے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟‘‘
پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وہ آیت ﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ ….﴾ نازل فرمائی اور اسے منسوخ نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجہ:2621۔ وصححہ الألباني)
02.مالِ مسلم کی حرمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خونِ مسلم کی طرح مالِ مسلم کو بھی حرمت والا قرار دیا۔ لہٰذا کسی مسلمان کے مال پر ناجائز طور پر قبضہ کرنا حرام ہے۔ اللہ رب العزت کافرمان ہے:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَٰرَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾ (النساء4 : 29)
’’اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خرید وفروخت ہو (تو ٹھیک ہے۔)‘‘
نیز فرمایا:﴿ وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَٰطِلِ وَتُدْلُوا۟ بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا۟ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ (البقرۃ 2:188)
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو اور نہ ہی حاکموں (یا قاضیوں) کو رشوت دے کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
ان دونوں آیات میں (بِالْبَاطِلِ) یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا، کسی کا مال غصب کرنا، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سود کھانا، امانت میں خیانت کرنا، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ۔
دوسری آیت میں خاص طور پر حاکموں کو رشوت دے کر کسی کا مال ناجائز طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ اس دور میں یہ چیز عام ہے۔ چنانچہ تھانوں میں پولیس کو رشوت دے کر جھوٹے کیس درج کروا ليے جاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو نہ صرف پریشان کیا جاتا بلکہ ان پر ظلم کیا جاتا ہے اور گواہوں، وکیلوں اور ججوں کو رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی شریف آدمی کا مال ہتھیانے یا اس کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کیليے ہی کیا جاتا ہے۔ فإلی ﷲ المشتکي ولا حول ولا قوۃ إلا باﷲ
اور مال کی حرمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مال چرانے والے شخص کیليے بہت سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا جَزَآءَۢ بِمَا كَسَبَا نَكَٰلًا مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ (المائدۃ 5: 38)
’’اور چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کیا اور عذاب ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ اللّٰہَ وَهُوَ عَلَیْهِ غَضْبَان) (متفق علیہ)
’’جو آدمی جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کر لے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پرسخت ناراض ہوگا۔‘‘
اور جوے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْخَمْرُ وَٱلْمَيْسِرُ وَٱلْأَنصَابُ وَٱلْأَزْلَٰمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَٰنِ فَٱجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (المائدۃ5 :90)
’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب، جوا، وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور فال نکالنے کے تیر (یہ سب) ناپاک ہیں اور شیطان کے کام ہیں۔ لہٰذا تم ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو۔‘‘
03.امورِ جاہلیت کا خاتمہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں تلے دفن ہوگئے‘‘
یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کے خاتمہ کا اعلان فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگوں میں رائج تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر کئی احادیث میں ان میں سے بعض امور کی نشاندہی فرمائی۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (أَرْبَعٌ فِیْ أُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِیَّةِ، لَا یَتْرُکُوْنَهُنَّ: اَلْفَخْرُ فِیْ الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِیْ الْأَنْسَابِ، وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیَاحَةُ) (صحیح مسلم:934)
’’میری امت میں چار کام امورِ جاہلیت میں سے ہیں جنھیں وہ چھوڑنے پر تیار نہ ہونگے: حسب ونسب کی بنیاد پر دوسروں پر فخر کرنا، کسی کے نسب میں طعن اندازی کرنا، ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا اور میت پر ماتم کرنا۔‘‘
04.جاہلیت کے خون ختم
خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں تمام امورِ جاہلیت کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا وہاں خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے خون ختم فرمائے، یعنی اگر جاہلیت میں کسی نے کسی کو قتل کیا تھا تو اب اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔
جاہلیت کے دور میں لوگوں میں پشت در پشت، نسل در نسل اور سالہا سال خون کا بدلہ لینے کیليے جنگیں چلتی رہتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے ان خونوں کو ختم فرما دیا اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کا خون معاف کیا جو کہ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا تھا۔
جبکہ اللہ تعالیٰ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٰنًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا﴾ (آل عمران3 :103)
’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پھر تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔‘‘
05.سود ختم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ٔ حجۃ الوداع میں جاہلیت کے سود کو بھی ختم فرما دیا۔ جاہلیت میں جب ایک مالدار کسی کو قرضہ دیتا تو سود کے ساتھ دیتا، پھر جب قرضہ لینے والا مقررہ مدت میں قرضہ واپس نہ کرتا تو قرضہ دینے والا مدت بڑھا دیتا اور اس کے ساتھ سود کی مقدار میں بھی اضافہ کر دیتا۔ یوں کرتے کرتے سود اصل قرضہ سے زیادہ ہو جاتا۔ یہ بد ترین ظلم ہے اور اسے اسلام نے قطعی طورپر حرام کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوا۟ ٱلرِّبَوٰٓا۟ أَضْعَٰفًا مُّضَٰعَفَةً ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾(آل عمران3 :130)
’’اے ایمان والو! تم بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی پا سکو۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ (البقرۃ2:279-278)
’’اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اگر تم سچے مومن ہو توجو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیليے تیار ہو جاؤ۔ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا اصل مال تمھارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
لہٰذا سودی لین دین سے سچی توبہ کرتے ہوئے اسے فورا چھوڑ دیں اور نہ کسی شخص یا کسی بنک سے سود پر قرضہ لیں‘ خواہ اپنی ضروریات کیليے ہو یا تجارتی مقاصد کیليے ہو‘ اور نہ کسی کو سود پر قرضہ دیں اور نہ ہی کسی بنک میں فکس منافع پر رقم جمع کرائیں کیونکہ یہ بھی سود ہی کی ایک شکل ہے۔
سود کتنا بڑا گناہ ہے! اس کا اندازہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کر سکتے ہیں: (اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حَوْبًا، أَیْسَرُهُمَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ) (سنن ابن ماجہ:2274وصححہ الألباني)
’’سود میں ستر گناہ ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں سے نکاح کر لے۔‘‘
اور دوسری روایت میں ہے: (اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا أَدْنَاهَا مِثْلُ إِتْیَانِ الرَّجُلِ أُمَّهُ…) (الطبراني عن البراء صحیح الجامع للألباني:3537)
’’سود کے بہتر دروازے ہیں اور اس کا سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن حنظلۃ الراہب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دِرْهَمُ رِبًا یَأْکُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ سِتَّةٍ وَّثَلَاثِیْنَ زَنْیَةً) (سلسلۃ الأحادیث الصحیحة :1033)
’’سود کی حرمت کو جانتے ہوئے اس کا ایک درہم کھانا اللہ کے نزدیک چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ: ’’۔۔۔۔۔۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے حتی کہ ہم خون کی ایک نہر پر پہنچ گئے۔ ایک آدمی اس کے اندر کھڑا ہوا تھا اور دوسرا اس کے کنارے پر۔ کنارے پر کھڑے ہوئے آدمی کے سامنے ایک پتھر پڑا ہوا تھا، اندر کھڑا ہوا آدمی جب باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو کنارے پر کھڑا ہوا آدمی وہ پتھر اس کے منہ پر دے مارتا اور اسے اس کی جگہ پر واپس لوٹا دیتا۔ وہ بار بار ایسا کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: آگے چلو تو ہم آگے چلے گئے… پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ … جسے آپ نے خون کی نہر میں دیکھا تھا وہ سود خور تھا…‘‘ (صحیح البخاري)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا، وَمُوْکِلَهُ، وَکَاتِبَهُ، وَشَاهِدَیْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ) (صحیح مسلم:1598)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
برادران اسلام! لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سود سے مال بڑھتا اور اس میں اضافہ ہوتا ہے حالانکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ﴿وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِىٓ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُوا۟ عِندَ ٱللَّهِ ۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٰةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾(الروم30:39)
’’اور تم لوگ جو سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور تم لوگ جو زکاۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کیليے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ يَمْحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰا۟ وَيُرْبِى ٱلصَّدَقَٰتِ﴾ (البقرۃ2 :276)
’’اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے۔‘‘
ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ سود سے مال میں اضافہ نہیں بلکہ کمی واقع ہوتی ہے، ہاں جو چیز مال میں بڑھوتری کا سبب بنتی ہے وہ ہے صدقہ وزکاۃ! اور جو لوگ سودی لین دین کرکے ہمیشہ اپنا روپیہ پیسہ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِہٖ إِلٰی قِلَّةٍ)
’’ کوئی شخص چاہے کتنا سودلے لے ، اس کا انجام آخر کار قلت اور خسارہ ہی ہوگا۔‘‘
06.عملی نمونہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جاہلیت کے خونوں کا بدلہ معاف فرمایا تو سب سے پہلے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ پیش فرمایا اور اپنے خاندان کا خون معاف کر دیا، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے سود کو باطل قرار دیا تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان میں سے عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا سود ختم کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر داعی کو اپنی دعوت پر سب سے پہلے خود عمل کر کے لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے، اس سے اس کی دعوت زیادہ مؤثر ہوگی اور دوسرے لوگ اسے جلدی قبول کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿أَتَأْمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ ٱلْكِتَٰبَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ (البقرۃ2 :44)
’’کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو؟ کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں!‘‘
نیز فرمایا:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ ٱللَّهِ أَن تَقُولُوا۟ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾ (الصف61 :3-2)
’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہیں کرتے۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (…رَأَیْتُ لَیْلَةَ أُسْرِیَ بِیْ رِجَالًا تُقْرَضُ أَلْسِنَتُهُمْ وَشِفَاهُهُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَّارٍ، فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیْلُ، مَنْ هؤُلَاءِ؟ قَالَ: هؤُلَائِ خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ یَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ، أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ) (أحمد:120/3و180بإسناد حسن)
’’میں نے شبِ معراج میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اور ان کے ہونٹ آتش ِجہنم کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔ کیا انھیں عقل نہیں آتی؟‘‘
07.عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبۂ حجۃ الوداع میں حقوقِ نسواں کے متعلق خاص طور پر تاکید فرمائی اور عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جیسا کہ آج کل اس سلسلے میں ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسلام نے خواتین کے تحفظ کیليے اصول و ضوابط مقرر کئے ہیںاور جس طرح اسلام نے خواتین کے حقوق کی پاسداری کی ہے، اس طرح کسی اور دین میں نہیں کیا گیا اور اگر دورِ جاہلیت کی عورت اور خاتونِ اسلام کے مابین مقارنہ کیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ہم دور کیوں جائیں، آج بھی جن ملکوں میں حقوق نسواں کی بات کی جاتی ہے اور جہاں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہاں عورت کی حالت کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی قدر ومنزلت کیا ہے! اس کی قیمت تو راستے پر گری ہوئی چیز سے بھی زیادہ نہیں۔ اور جو شخص جب چاہے، جہاں چاہے اسے اپنے دامِ فریب میں پھنسا لیتا ہے۔ جبکہ مسلم معاشرے میں بسنے والی با پردہ اور شریف خاتون کی زندگی کو سامنے رکھ لیا جائے تو دونوں کی زندگیوں میں نمایاں فرق معلوم ہو جائے گا۔ اُس کی زندگی ذلت وخواری کی زندگی اوراِس کی زندگی شریفانہ، باعزت اورپر وقار زندگی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کی تاکید فرمائی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ مَا فِیْ الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِیْمُهُ کَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَکْتَهُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ) (صحیح البخاري:5185و 5186،صحیح مسلم:1468)
’’تم عورتوں کے متعلق اچھے سلوک کی میری وصیت قبول کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے، اگر آپ اسے سیدھا کرنا چاہیں گے تو اسے توڑ ڈالیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں گے تو اس کا ٹیڑھا پن بدستور باقی رہے گا، لہٰذا تم عورتوں سے اچھا برتاؤ ہی کیا کرو۔‘‘
08.خاوند بیوی کے بعض حقوق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے عمومی حقوق کی تاکید کرنے کے بعد خاص طور پر خاوند بیوی کے بعض حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(وَلَکُمْ عَلَیْهُنَّ أَن لَّا یُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ أَحَدًا تَکْرَهُوْنَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)
’’اور تمھارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں اتنا مار سکتے ہو جس سے چوٹ نہ آئے۔ اور ان کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انھیں دستور کے مطابق رزق اور لباس مہیا کرو۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی پر خاوند کے منجملہ حقوق میں سے ایک حق یہ بیان فرمایا کہ بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں کسی شخص کو داخل ہونے کی اجازت نہ دے اور کسی ایسے شخص کو اس کے بستر پر آنے کی اجازت نہ دے جسے وہ نا پسند کرتا ہو۔
ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(…وَلَا تَأْذَنَّ فِیْ بَیْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ) (صحیح البخاري:5195، صحیح مسلم: 1026)
’’اور وہ خاوند کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت ہرگزنہ دے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرے تو خاوند اسے اس طرح مار سکتا ہے کہ اسے اس سے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمْ اِمْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، ثُمَّ یُجَامِعُهَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ) (صحیح البخاري،النکاح،باب ما یکرہ من ضرب النساء:5204،صحیح مسلم، الجنة،باب النار یدخلہا الجبارون:2855)
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتا ہے، پھر دن کے آخر میں اس سے ہمبستری بھی کرے۔‘‘
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند پربیوی کا حق بیان فرمایا کہ وہ اسے دستور کے مطابق اور اپنی مالی استطاعت کے بقدر خوراک اور لباس مہیا کرے۔
حضرت معاویہ القشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوَهَا إِذَا اکْتَسَیْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِیْ الْبَیْتِ) (أحمد:447/4،سنن أبي داؤد،النکاح،باب فی حق المرأۃ علی زوجہا:2142،سنن ابن ماجہ، النکاح،باب حق المرأۃ علی الزوج:1850،صحیح الترغیب والترہیب للألباني:1929)
’’اس کا حق یہ ہے کہ جب تم خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ اور جب تم خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ اور منہ پر نہ مارو اور گالی گلوچ نہ کرو اور اگر اسے چھوڑنا ہو تو گھر ہی میں چھوڑو۔‘‘
09.کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم
عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) کو مضبوطی سے تھام لے، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کو سیکھیں، پڑھیں، اس میں غور وفکر کریں اور اس پر عمل کریں۔
لیکن افسوس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکیدِ شدید کے باوجود آپ کی امت آج قرآن مجید سے دور ہو چکی ہے اور قرآن مجید محض الماریوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ بہت سارے مسلمان اسے پڑھنا تک نہیں جانتے اور جو پڑھنا جانتے ہیں ان میں سے اکثر کو پورا قرآن مجید تو کجا سورت فاتحہ تک کا معنی ومفہوم بھی معلوم نہیں۔ حفاظِ قرآن مجید تو ماشاءاللہ بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنانے والے بہت کم ہیں!
عزیزان گرامی! قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی سب سے افضل کتاب ہے اور اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ اسی ليے اللہ تعالیٰ نے اس میں بار بار یہ چیلنج فرمایا کہ تمام فصحاء وبلغاء اکٹھے مل کر اس جیسی ایک سورت بھی لا کے دکھائیں۔ پھر اس نے یہ کھلا اعلان کیا کہ تمام جن وانس مل کر بھی اس جیسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے۔
﴿قُل لَّئِنِ ٱجْتَمَعَتِ ٱلْإِنسُ وَٱلْجِنُّ عَلَىٰٓ أَن يَأْتُوا۟ بِمِثْلِ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِۦ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾(الإسراء17:88)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمام انس وجن مل کر اس قرآن جیسا لانا چاہیں تو اس جیسا نہیں لا سکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔‘‘
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی عظیم الشان کتاب‘ اللہ تعالیٰ نے کیوں نازل فرمائی؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خود ارشاد فرمایا: ﴿ كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ مُبَٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوٓا۟ ءَايَٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ﴾(ص38:29)
’’یہ بابرکت کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کی کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقل وخرد والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اس ليے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلائیں۔خود بھی اس میں غور فکر کریں اور اولاد کو بھی حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ وتفسیر بھی پڑھائیں تاکہ اس سے نصیحت حاصل ہو سکے، کیونکہ قرآن مجید کا معنی ومفہوم معلوم کئے بغیر اس سے نصیحت حاصل کرنا ناممکن ہے۔
قرآن مجید دنیوی اور اخروی بھلائیوں کی طرف انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور ایسا مضبوط راستہ دکھلاتا ہے جو انسان کو جنت تک پہنچا دیتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:﴿ إِنَّ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ يَهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ﴿٩﴾ (الإسراء17 :10)
’’یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کیلئے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
یاد رہے کہ کتاب اللہ (قرآن مجید) میں دیگر احکامات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اطاعت کی جائے اور وہ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس سے منع کریں اس سے پرہیز کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے:﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓا۟ أَعْمَٰلَكُمْ ﴿٣٣﴾ (محمد47 :33)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو‘‘
اس آیت کریمہ سے اور اس کے علاوہ دیگر کئی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں کتاب اللہ (قرآن مجید) کو مضبوطی سے تھامنا اور اسے اپنا دستورِ حیات بنانا فرض ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرنا بھی فرض ہے۔ اسی ليے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دیا اور اسی ليے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا: (فَاعْقِلُوْا أَیُّهَا النَّاسُ قَوْلِیْ، فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ، وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِه صلي الله عليه وسلم) (السنة للمروزي:68 من حدیث ابن عباس رضی اﷲ عنہ)
’’اے لوگو! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ ہے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہدایت کے چشمے ہیں اور انہی دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے سے ہی گمراہی سے بچا جا سکتا ہے۔
10.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت تک دین ِکامل پہنچایا
عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخرمیں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟لوگوں کے جمِ غفیر نے بیک زباں ہو کر کہا کہ آپ نے ہمیں دینِ الٰہی پہنچا دیا، اللہ کی امانت ادا کر دی اور ہماری خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بھی تین مرتبہ گواہ بنایا ۔۔۔۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دینِ الٰہی مکمل طور پر امانت داری کے ساتھ اپنی امت تک پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بات کی طرف اپنی امت کی راہنمائی فرمائی جس میں اس کی خیر وبھلائی تھی۔ ارشاد نبوی ہے: (مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَهَیْتُکُمْ عَنْهُ) (حجة النبي صلی اللہ علیہ وسلم للألباني،ص103)
’’میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کرنے والی ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی کام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو۔ تواس حقیقت کو جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ دین میں کسی قسم کی کمی بیشی، یا نئے نئے کام ایجاد کرنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں، ورنہ نئے نئے کاموں کو ایجاد کر کے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (معاذ اللہ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اولیں ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے!
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مَنِ ابْتَدَعَ فِیْ الْإِسْلاَمِ بِدْعَةً یَرَاهَا حَسَنَةً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلي الله عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَةَ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی (الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا) وَلاَ یَصْلُحُ آخِرُ هذِہِ الْأُمَّةِ إِلَّا بِمَا صَلَحَ بِهِ أَوَّلُهَا، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا‘‘
’’جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوی کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت (اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی (یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا۔) اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو: ’’آج میں نے تمھارے ليے تمھارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے ليے پسند کرلیا‘‘ … پھر امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اس امت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہوسکتے ہیں جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے اور جو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا۔‘‘
اور اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اور میدانِ عرفات ہی میں یوں کھول کر بیان فرمایا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (…أَلاَ وَإِنِّیْ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ، وَأُکَاثِرُ بِکُمُ الْأُمَمَ، فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْهِیْ، أَلا وَإِنِّیْ مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّیْ أُنَاسٌ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أُصَیْحَابِیْ؟فَیَقُوْلُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِیْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ) (سنن ابن ماجہ:3057۔وصححہ الألباني)
’’خبردار! میں حوضِ (کوثر) پر تمھارا استقبال کرونگا اور تمھارے ذریعے دوسری امتوں پر اپنی امت کی کثرت ثابت کرونگا۔ لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرنا۔ خبردار! میں لوگوں کو بچاؤں گا اور کچھ لوگوں کو مجھ سے دور رکھا جائے گا۔ میں کہونگا: اے میرے رب! یہ تو میرے چند ساتھی ہیں؟ تو وہ جواب دے گا: آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا ایجاد کیا تھا!‘‘
لہٰذا دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیليے اپنے ہر خطبۂ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے: (أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ، وَخَیْرَ الْهَدْیِ هَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا، وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) (صحیح مسلم:867)
’’حمد وثناء کے بعد! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور امور میں سب برا امر وہ ہے جسے ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
نیز فرمایا: (عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةَ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَیْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ) (سنن أبي داؤد:4607 ۔وصححہ الألباني)
’’تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا۔ اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ) (متفق علیہ)
’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا وہ مردود ہے۔‘‘
جبکہ مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ) ’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
عزیزان گرامی! یہ تھا میدانِ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبۂ حجۃ الوداع۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں آپ نے عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ٔحجۃ الوداع سماعت کیا۔ آئیے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور خطبہ بھی سماعت کر لیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ہی کے موقعہ پر یوم النحر (یومِ قربانی) کو منیٰ میں ارشاد فرمایا تھا۔
*خطبۂ یوم النحر
حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ کَهَیْئَتِهِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، اَلسَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ: ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِیَاتٌ، ذُوْ الْقَعْدَۃِ وَذُوْ الْحَجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَانَ، ثُمَّ قَالَ: أَیُّ شَهْرٍ هذَا؟ قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیْهِ بِغَیْرِ اسْمِهِ، قَالَ: أَلَیْسَ ذَاالْحَجَّۃِ؟ قُلْنَا: بَلٰی، قَالَ: فَأَیُّ بَلَدٍ هذَا؟ قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیْهِ بِغَیْرِ اسْمِه، قَالَ: أَلَیْسَ الْبَلْدَۃُ؟ قُلْنَا: بَلٰی، قَالَ: فَأَیُّ یَوْمٍ هذَا؟ قُلْنَا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَیُسَمِّیْهِ بِغَیْرِ اسْمِه، قَالَ: أَلَیْسَ یَوْمُ النَّحْرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَائَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ هذَا فِیْ بَلَدِکُمْ هذَا فِیْ شَهْرِکُمْ هذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْأَلُکُمْ عَنْ أَعْمَالِکُمْ، فَلاَ تَرْجِعُنَّ بَعْدِیْ کُفَّارًا (أَوْ ضُلَّالًا) یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ مَنْ یُبَلِّغُهُ یَکُوْنُ أَوْعٰی لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلا هَلْ بَلَّغْتُ) (صحیح البخاري:4406،صحیح مسلم:1679)
’’زمانہ گھوم کر اپنی اسی حالت پر آگیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے وقت تھی۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین لگاتار (ذوالقعدہ، ذو الحجة اور محرم) اور چوتھا رجبِ مضر ہے جو کہ جمادی (الثانیة) اور رجب کے درمیان آتا ہے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ البلدۃ (مشہور شہر مکہ) نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سادن ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور نام ذکر فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ یوم النحر (قربانی کا دن) نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرمت والی ہیں جس طرح تمھارا یہ دن تمھارے اس مہینے میں اور تمھارے اس شہر میں حرمت والا ہے۔ اور تم عنقریب اپنے رب سے ملنے والے ہو، پھر وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ خبر دار! تم میرے بعد کافر (یا گمراہ) نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔ خبر دار! تم میں جو حاضر ہے وہ غیر حاضر تک پہنچائے، شاید وہ جسے پہنچائے ‘وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ پھر آپ نے فرمایا: خبر دار! کیامیں نے پہنچا دیا؟‘‘
اس خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار ماہ کی حرمت بیان فرمائی اور حرمت والے مہینوں کے مخصوص احکام ہم ماہِ محرم کے پہلے خطبہ میں تفصیل سے عرض کر چکے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون، مال اور عزت کی حرمت کو بیان فرمایا اور ہم آج کے خطبہ کے شروع میں خونِ مسلم اور مالِ مسلم کی حرمت کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کر چکے ہیں۔ رہی مسلمان کی عزت تو وہ بھی اسی طرح حرمت والی ہے جس طرح مکہ مکرمہ حرمت والا شہر اور جس طرح ذو الحجہ کا مہینہ حرمت والا مہینہ اور جس طرح یوم النحر حرمت والا دن ہے۔ یعنی جس طرح مکہ مکرمہ کی حرمت کو پامال نہیں کیا جا سکتا اسی طرح کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔ اور جس طرح ماہِ ذو الحجہ اور یوم النحر کی حرمت اور اس کے تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح مسلمان کی عزت وآبرو کا تحفظ بھی ضروری امر ہے۔ مسلمان کی عزت کے تقدس اور اس کی حرمت کی وجہ سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو شہید قرار دیا جو اپنے گھر والوں کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(…وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِیْدٌ) (سنن الترمذي:1421،سنن أبي داؤد:4772،سنن النسائي:4094،صحیح الجامع للألباني:6445)
’’اور جو آدمی اپنے گھر والوں کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اسے لوگوں کے سامنے رسوا کرنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(اَلْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُهُ وَلَا یَخْذُلُهُ وَلَا یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوٰی ههُنَا، وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، بِحَسْبِ امْرِیئٍ مِنَ الشَرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ) (صحیح مسلم:2564)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے رسوا کرتا ہے۔ اورنہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرکے فرمایا کہ تقوی یہاں ہے۔ پھر فرمایا: آدمی کی برائی کیليے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ یوم النحر کی مزید خاص خاص باتوں کی تفصیل ہم اِن شاء اللہ آئندہ خطبہ میں عرض کریں گے۔ آج کا خطبہ ہم اس دعا کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرتے دم تک صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔