کسی سے دم کی درخواست کرنا

768۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((عُرِضَتْ عَلَىَّ الْأُمَمُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ وَالنَّبِيَّانِ يَمُرُّونَ، مَعَهُمُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ ليْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتّٰى وَقَعَ فِي سَوَادٍ عَظِيمٍ، قُلْتُ: مَا هٰذَا؟ أُمَّتِي هُذِهِ؟ قِيلَ: بَلْ هٰذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، قِيلَ: انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ، فَإِذَا سَوَادٌ يَمْلَأُ الْأُفُقَ، ثُمَّ قِيلَ لِي: انْظُرْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا فِي آفَاقِ السَّمَاءِ فَإِذَا سَوَادٌ قَدْ مَلَأَ الْأُفُق، قِيلَ: هٰذِهِ أُمَتُكَ، وَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ هُؤُلَاءِ سَبْعُونَ الْفَا بِغَيْرِ حِسَابٍ))

’’میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں تو ایک نبی اور دو نبی گزرنے لگے، ان کے ساتھ لوگوں کے گروہ گزرتے تھے اور کچھ نہیں ایسے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا، آخر (میرے سامنے) ایک بھاری جماعت میں موجود ایک نبی رونما ہوئے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کیایہ میری امت ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی امت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا: آپ افق کی طرف نگاہ اٹھائیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو آسمان کے کناروں تک چھائیہوئی ہے، پھر مجھے کہا گیا کہ ادھر اُدھر دیکھو، میں کیا دیکھتا ہوں کہ عظیم ترین ہجوم نے آفاق کو بھرا ہوا ہے، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے، ان میں سے منتر ہزار لوگ ایسے ہیں جو حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

پھر آپﷺ (حجرے میں) داخل ہو گئے اور یہ وضاحت نہ کی کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ لوگ آپس میں ان کے متعلق بحث کرنے لگے کہ وہ ہم لوگ ہیں جو اللہ تعالی پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کی ہے، اس لیے وہ لوگ ہم ہیں یا ہماری اولاد جو اسلام میں پیدا ہوئی کیونکہ ہم تو دور جاہلیت کی پیداوار ہیں۔ جب یہ باتیں نبی ﷺ کو معلوم ہوئیں تو آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا:

((هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَیَّرُونَ وَلَا يَكْتَوُونَ وَعَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ))

’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے ( بدشگونی نہیں لیتے) اور داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘

 یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ تعال یعنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ان میں سے ہوں؟

آپ نے فرمایا: ((نعم)) ’’ہاں (تم ان میں سے ہو)۔‘‘

پھر دوسرا ( آدمی) کھڑا ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں بھی ان میں سے ہوں؟

آپ ﷺنے فرمایا: ((سَبَقَكَ بِهَا عُکاشة)) ’’عکاشہ تم سے بازی لے گیا ہے۔‘‘(أخرجه البخاري: 3410، 5705، 5752، 6472، 6541، و مسلم: 220)

توضیح و فوائد: دم کرانا جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے دم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا تو وہ بغیر حساب کتاب جنت میں جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ پر خود ہی دم کرلے یا بغیر مطالبے کے اسے کوئی دوسرا دم کر دے تو یہ امر بھی اس کے بغیرحساب کتاب جنت میں جانے میں مانع نہیں ہوگا۔

769۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان کے گھر میں ایک (نا بالغ) بچی کو دیکھا،

اس کے چہرے پر چھائیاں پڑی تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:

((اِسْتَرْقُوا لَهَا، فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ)) ’’اسے دم کراؤ، یقینًا اسے نظر لگی ہے۔‘‘(أخرجه البخاري:5739، ومسلم:2197)

770۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

((أَمَرَنِي النَّبِيُّ ﷺ …….أَوْ أَمَرَ…….. أَنْ يُسْتَرْقٰی مِنَ الْعَيْنِ)) (أخرجه البخاري: 5738، ومسلم: 2195)

’’نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا،یا (کہا کہ) آپ نے آپ نے حکم دیا، کہ نظر بد لگ جانے سے دم جھاڑ کیا جائے۔‘‘

توضیح و فوائد: مذکورہ بالا دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو دم کرانے کی ترغیب دینا جائز ہے، خصوصاً جب بیماری کا علم ہو جائے کہ اسے فلاں بیماری ہے اور اس کا علاج دم میں ہے۔