کفران نعمت سے بچنا واجب ہے

ارشادر بانی ہے: ﴿اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْهِمْ ۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ۝۷۶ وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ۝۷۷ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا ؕ وَ لَا یُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۷۸ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۝۷۹ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۝۸۰ فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ ۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ۝۸۱ وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ ۚ لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا ؕ وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۠۝۸۲ تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۸۳﴾ (سورة القصص: آیت: 76۔83)۔
ترجمہ: قارون تھا تو قوم موسیٰ علیہ السلام سے لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے، ایک بار اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اتر امت! اللہ تعالی اترانے والے سے محبت نہیں کرتا۔ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دینوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔ قارون نے کہا کہ یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالی نے اس سے پہلے بہت سی بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور جمع پونچھی والے تھے۔ اور گنہ گاروں سے ان کی گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی۔ پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں لگا تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش! کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے۔ ذی علم لوگ انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں یہ بات انہیں کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر و سبار والے ہیں۔ (آخر کار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لئے تیار نہ ہوئی اور نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا۔ اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزومندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالی ہم پر فضل نہ کرتا تو ہم کو بھی دھنسا دیتا، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی؟ آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیز گاروں کے لئے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔
تشریح:
قارون بنی اسرائیل میں سے تھا جسے اللہ تعالی نے کافی دولت سے مالا مال کیا تھا جس کے خزانے کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت بھی اٹھاتے ہوئے دقت اور گرانی محسوس کرتی تھی وہ مال و دولت اور تکبر و غرور کی وجہ سے اپنی ہی قوم کا استخفاف کرتا اور مذاق اڑاتا تھا اور اپنی دولت کو ایسی جگہوں پر خرچ کرتا تھا جہاں اسے منع کیا گیا تھا اور یہ دعوی کرتا تھا کہ اس نے اسے اپنی علمی صلاحیت، فن تجارت اور طاقت کے ذریعہ حاصل کیا ہے اس میں اللہ کے فضل وکرم کا کوئی دخل نہیں۔ جب اس نے اللہ تعالی کے فضل کی ناشکری کی اور تکبر و غرور کا اظہار کیا تو اللہ تعالی نے اسے اس کے محل اور خزانوں کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا اور اس کے بعد آنے والی مخلوق کے لئے اسے عبرت بنا دیا۔ اہل ایمان کو قارون کے واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیئے کہ مال کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کسی کو مال زیادہ دیتا ہے کسی کو کم؟ اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ پر موقوف ہے، ماں کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے اور نہ پیسہ ہونا یہ معیار فضیلت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں مال و دولت کی فراوانی پر اترانے سے بچائے اور اس کو جائز جگہوں پر خرچ کرنے کی توفیق بخشے۔
فوائد:
٭ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے۔
٭ اللہ تعالی کی نعمتوں کا انکار کفر ہے۔
٭ نعمت الہی کا انکار کرنا عذاب کا سبب ہے۔
٭٭٭٭