کیا کریں جی ماحول ہی ایسا ہے

شیطان بڑا شاطر ہے وہ انسان کے سامنے مختلف طریقوں سے برائی کو مزین اور نیکی کو مشکل بناتا ہے اس کے پھیلائے ہوئے وسوسوں میں سے ایک وسوسہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خیال ڈال دیتا ہے کہ کیا کریں جی ماحول ہی ایسا ہے
دیکھو ناں جی جب تک جھوٹ نہیں بولیں گے مارکیٹ میں دکان نہیں چل سکتی
اتنی کو ملاوٹ تو بہرحال کرنی ہی پڑتی ہے
صرف دین ہی تو نہیں، دنیا کے ساتھ بھی تو چلنا پڑتا ہے
کیا کریں جی اب وہ زمانہ نہیں رہا
دکان میں سگریٹ نہیں رکھیں گے تو گاہگ خالی چلا جائے گا
ڈھول ڈھمکہ نہیں کریں گے تو الیکشن کیمپین کیسے کرسکتے ہیں
سیاست کا ماحول ہی ایسا ہے غلط لوگوں سے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے
وغیرہ وغیرہ
گویا کہ ہم اپنے ہر گناہ کو ماحول کے کھاتے ڈالتے ہیں
آئیے دیکھتے ہیں کہ آیا واقعی ماحول نیک نہیں بننے دیتا!؟

یوسف علیہ السلام کی مثال

ہوا یہ کہ یوسف علیہ السلام کو حاکم وقت کی بیوی بند کمروں میں تنہائی میں جا کر برائی کی دعوت دینے لگی
ذرا اندازہ کیجیے کہ یوسف علیہ السلام کتنے برے ماحول میں پھنس چکے تھے
اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟
(تفسير القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

لیکن ان سب کے باوجود یوسف علیہ السلام نے کتنی شاندار بات کہی
فرمایا :
مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔

جیل میں شاندار کردار

جیل کا ماحول کس قدر تربیت سے عاری ہوتا ہے کہ ہر طرح کے جرائم پیشہ لوگ جیل میں ہوتے ہیں، یوسف علیہ السلام ایک جھوٹے کیس میں جیل چلے گئے، جیل میں آپ کے ارد گرد بد قماش لوگ تھے، دن رات انہی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا، مگر اس کے باوجود آپ جیل میں بہترین کردار کے حامل رہے حتی کہ جیل کے لوگوں نے گواہی دی
إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں۔
یوسف : 36
بلکہ
جب بادشاہ نے جیل کے ایک پرانے رہائی پانے والے قیدی کو یوسف علیہ السلام کو جیل سے باہر لانے کے لیے بھیجا تو چونکہ وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ پہلے جیل میں رہ چکا تھا اور آپ کی سچائی اور اچھے کردار کو دیکھ چکا تھا تو جب وہ جیل میں یوسف علیہ السلام کو آکر ملا تو ان الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا
يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ
یوسف! اے نہایت سچے!
یوسف : 46

حکومت میں شاندار کردار

اور
پھر جب یوسف علیہ السلام حکومت میں آگئے اور وقت کے بادشاہ بن گئے حکومت اور پھر قحط سالی کی وجہ سے سب لوگ آپ کے محتاج ہوگیے
اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس اقتدار آجاتا ہے وہ سرکش ہوجاتا ہے، اس میں اکڑ اور تکبر آجاتا ہے، وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزوروں پر ظلم ڈھاتا ہے
لیکن یوسف علیہ السلام کی حسن سیرت دیکھیے کہ اس سب کے باوجود اپنی رعایا کے ساتھ انتہائی حسن سلوک کرنے والے تھے حتی کہ لوگوں نے گواہی
إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
بے شک ہم تجھے احسان کرنے والوں سے دیکھتے ہیں
یوسف : 78

یعنی آپ انتہائی لاچاری کی حالت میں بھی نیک تھے اور انتہائی شان و شوکت کی حالت میں بھی نیک ہی تھے
معلوم ہوا کہ اچھی طبیعت اور اچھی فطرت کے مالک لوگ ماحول سے متاثر نہیں ہوتے، بڑے بڑے مناصب، عہدے یا مصیبتیں ان کے کردار نہیں بدل سکتیں

پہلی کوشش یہ کریں کہ آپ برے ماحول میں داخل ہی نہ ہوں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
التوبة : 119

نیک لوگوں کے پیچھے چلنے اور ان کے ساتھی بننے کی دعا سکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یوں تعلیم دی ہے
فرمایا
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
الفاتحة : 6
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔
الفاتحة : 7

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا :
لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ
(ترمذی : ​2395)
مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے

امام مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں
إنك أن تَنقُلَ الحجارة مع الأبرار؛
خيرٌ من أن تأكل الحلوى مع الفجَّار
« روضة العقلاء صفحة 100»
آپ نیک لوگوں کے ساتھ پتھر منتقل کریں یقیناً یہ آپ کے لئے برے لوگوں کے ساتھ مٹھائی کھانے سے کہیں بہتر ہے

اللہ تعالیٰ، برے ماحول سے متاثر نہ ہونے والوں کی تعریف کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان میں عِبَادُ الرَّحْمَنِ کہہ کر اپنے نیک بندوں کی کچھ صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان کی ہے
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
اور وہ جو جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔
الفرقان : 72
اس پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :
’’کہ وہ جھوٹ اور باطل کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔‘‘

وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا : کا صاف مطلب ہے کہ برے ماحول سے متاثر ہونے کی بجائے اسے اچھے طریقے سے بائی پاس کرجاتے ہیں

برے ماحول کو سلام کہہ کر آگے چلتے بنو

فرمایا :
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔
القصص : 55

دوسری آیت میں فرمایا :
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔
الفرقان : 63

برے ماحول کو چھوڑ دو

فرمایا :
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا
اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا
الأنعام : 70

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ برے ماحول میں بیٹھو ہی نہ

فرمایا :
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔
الأنعام : 68

ایسا مثالی کردار کہ زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی زنا نہ کیا

عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مخالف بلوائی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي
(أبو داؤد : 4502، صحیح)
اور اللہ کی قسم ! میں نے کبھی زنا نہیں کیا ‘ جاہلیت میں نہ اسلام لانے کے بعد ۔ اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا اس ( اسلام ) کے بدلے کوئی اور دین ہوتا ‘ اور میں نے کسی کو قتل بھی نہیں کیا ہے ‘ تو پھر یہ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں ؟

سبحان اللہ عثمان رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ان کے روشن کردار کی کس قدر ترجمانی کررہے ہیں کہ
فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ
وہ زمانہ جاہلیت کہ جب عورت منڈی کے مال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی
اور ایک عورت اچھا بچہ جننے کے لیے دس دس آدمیوں کے پاس جانے کی مجاز ہوتی تھی
اور لوگ اپنی بدکاری کی داستانیں فخریہ طور پر شعری انداز میں بیان کیا کرتے تھے
اور حد یہ تھی کہ رب تعالیٰ کے مقدس ترین گھر کعبۃ اللہ کا طواف بھی ننگے ہو کرکرنے میں حرج محسوس نہیں کی جاتی تھی
ایسے حالات میں ایک خوبصورت نوجوان کا بدکاری کی غلاظت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ماحول سے متاثر نہ ہونے کی اعلی مثال ہے

زمانہ جاہلیت سے ہی شراب ترک کر رکھی تھی

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عُثْمَانُ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
سیدنا عثمان اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما نے دور جاہلیت ہی سے شراب چھوڑ دی تھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت کردار

اور یہی زمانہ جاہلیت تھا ہرطرف فحش منہ کھولے برائی کی طرف مائل کررہی تھی
مگر ایک خوبصورت اور کمال جسمانی قوت کا مالک جوان جو اپنی جوانی کے عروج سے گزر رہا تھا ایسا پاکباز اور پارسا کہ عرب کی کنواری لڑکیاں بھی اس سے حیاء کا درس لیتی تھیں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنْ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا
(بخاری : 3562)
پردہ نشیں کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا والے تھے

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ( زمانہ جاہلیت میں ) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو ( تاکہ پتھر اٹھا نے میں تکلیف نہ ہو ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بے ہوش ہو کر آپ زمین پر گرپڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔
(بخاری : 1582)

چند مثالیں

پچھلے دنوں شیخ عاطف کو دیکھا کہ بہت ہائی کلاس لوگوں کو لیکچر دے رہے ہیں جبکہ چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی ہے

انٹرنیشنل کرکٹ کے ماحول سے سب واقف ہیں کہ کس قدر حیا باختہ اور فحش سے لبریز ہوتا ہے، جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کا ایک خوبصورت بلے باز ہاشم آملہ کے نام سے مشہور ہے، مسلمان آدمی ہے، چہرے پر خوبصورت داڑھی سجا رکھی ہے، کسی شراب یا خنزیر کی پروڈکشن والی کمپنی کا اسٹیکر اپنی وردی پر نہیں لگاتا، نہ صرف خود بلکہ اس کی بیوی بھی اسٹیڈیم میں باپردہ ہوکر آتی ہے

انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم میں دو لڑکے ہیں جن کا نام معین علی اور عادل رشید ہیں، ٹیم کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر جونہی کوئی غیر شرعی ایکٹیوٹی ہوتی ہے تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے ہیں

آسٹریلیا کا خواجہ عثمان ہے، ٹیم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیت لیا، سیلیبریشن کا موقع آیا تو سب کھلاڑی شراب کے ساتھ اچھلنے کودنے لگے، عثمان نے یہ ماحول دیکھا تو سائیڈ پہ کھڑا ہو گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ کپتان نے آئندہ مستقل اس طریقے پر پابندی لگا دی

باپردہ عورتوں نے پردے میں رہ کر پائیلٹ بن کر جہاز اڑائے ہیں

یہ سب مثالیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اگر انسان کے اندر نیکی کا مخلص جذبہ موجود ہو تو اس کے آگے ماحول کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا

مانتے ہیں کہ ماحول اثر انداز ہوتا ہے لیکن

لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم اور صراط مستقیم دکھا کر برے ماحول سے بچاؤ کی قوتِ مدافعت بھی تو دے رکھی ہے
اب ہوتا یہ ہے کہ ہم خود ہی اندر سے برے ماحول اور بری عادات کو پسند کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان سے بچنے کی نہ کوئی تدبیر اور کوشش کرتے ہیں نہ ہی کبھی سوچتے ہیں اور دل کی تسلی کے لیے یہ بہانہ ڈسپلے پہ رکھ لیتے ہیں کہ جی کیا کریں ماحول ہی ایسا ہے

ابراہیم علیہ السلام کے والد کے گھر کا ماحول

ابراهيم علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے، آپ نے آنکھ کھولی تو والد، والدہ، برادری، خاندان، ملک و قوم سب کے سب شرک کی غلاظت میں لتھڑے ہوئے تھے روئے زمین پر کوئی ایک بھی ذی روح انسان ایسا نہیں تھا جو ابراہیم علیہ السلام کا طرفدار ہو، ماحول کی آلودگی کس قدر تکلیف دے تھی کہ سگا باپ مشرک قوم کے مذہبی امور کا ذمہ دار اور بت تراش تھا مگر اس سب کے باوجود آپ کا کردار ہمارے سامنے ہے

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے والد کے گھر کا ماحول

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے والد آتش پرست تھے بلکہ اپنے مذہب کے داعی اور کٹڑ تھے، سلمان نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی، مگر دل میں حق کی تلاش کی تڑپ تھی، یہی تڑپ لیے نکل پڑے، ماحول کے بندھن توڑ دیے، دربدر ہوئے، اور بالآخر حق کو پا ہی لیا

سب کچھ ماحول ہی نہیں کچھ خود بھی بدلنا پڑتا ہے

سامری کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، اس نے فرعون کے مظالم کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، فرعون کے ظلم و سرکشی اور اپنی قوم کی ذلت و پستی میں پروان چڑھا
پھر اس نے اپنی آنکھوں سے موسی علیہ السلام کے معجزات اور واضح نشانیاں دیکھیں، موسی علیہ السلام اور جادوگروں کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، جادوگروں کو ایمان لاتے ہوئے دیکھا، فرعون اور اس کے لشکر کو سمندر میں ڈوبتے ہوئے دیکھا
جس شخص نے اتنے بڑے بڑے مشاہدات کیے ہوں اس کا ایمان تو بلند و بالا پہاڑوں سے بھی مضبوط ہونا چاہیے
لیکن اس سب کے باوجود وہ کفر کرتا رہا بلکہ کفر، شرک اور اپنی قوم کی تباہی کی طرف دعوت دیتا رہا، قوم کے لیے بچھڑا بنا کر اس کی عبادت کی طرف بلاتا رہا

مختلف ماحول اور مختلف نتیجے

قارون بنی اسرائیلی تھا ، اسی ماحول میں پلا تھا
جبکہ
آل فرعون کا مومن آدمی، فرعون کی پارلیمنٹ کا ممبر تھا
دونوں کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے
مگر قارون بے ایمان ہی رہا اور آل فرعون کا وہ شخص مومن بن گیا

بلال رضی اللہ عنہ امیہ مشرک کے گھر رہتے تھے
جبکہ ابوطالب و ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھریلو تعلق دار تھے
دونوں کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے
جبکہ بلال مسلمان ہوگئے اور ابولہب بے ایمان ہی رہا

نوح علیہ السلام کا بیٹا اور لوط علیہ السلام کی بیوی نبیوں کے گھروں میں رہتے تھے
جبکہ
فرعون کی بیوی ایک انتہائی سرکش اور ظالم کے گھر رہتی تھی
دونوں کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے

دراصل جو جس طرح کا ہوتا ہے اسے اسی طرح کا ماحول پسند آتا ہے

کاٹنے والے بھڑ اکثر اپنا چھتا نیم، ادھریک یا اس طرح کے کڑوے درختوں پر بناتے ہیں
گندی مکھی اکثر گند پر بیٹھتی ہے
شہد کی مکھی اکثر میٹھے اور خوبصورت پودے تلاشتی ہے

خبیث فطرت شخص کو خبیث ماحول ہی پسند ہوتا ہے بس اپنی خباثت چھپانے کے لیے ماحول کو قصور وار قرار دیتا ہے
اور نیک فطرت شخص ماحول کی خرابی سے بھی اپنا صاف راستہ نکال لیتا ہے

دو بادشاہوں کا ایک جیسا ماحول اور دونوں کے الگ الگ فیصلے

نجاشی رضی اللہ عنہ حبشہ کے بادشاہ تھے، خود بھی عیسائی تھے اور رعایا بھی
اسی طرح قیصر، روم کا بادشاہ تھا، خود بھی عیسائی تھا اور رعایا بھی
دونوں کا ماحول سیم تھا
دونوں کی طرف ایک ہی دین کی دعوت پہنچی
ایک نے قبول کر لی
اور دوسرا محروم رہ گیا

تمام انبیاء کرام علیہم السلام بگڑے ہوئے ماحول ہی میں مبعوث ہوئے ہیں

لیکن ان سب کے باوجود انبیاء کرام علیہم السلام نے ماحول سے متاثر ہو کر اللہ کی عبادت، تقوی، خدا خوفی اور تعلق باللہ میں ذرا بھر بھی فرق نہ آنے دیا

مثال کے طور پر آج کچھ لوگ جمہوری سیاست کو انبیاء کی سیاست قرار دے کر اپنے تئیں نبیوں والا کام کررہے ہیں (یہ الگ بحث ہے کہ آیا مروجہ سیاست واقعی انبیاء کی سیاست ہے یا کچھ اور ہی ہے)

میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سیاست کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ سیاست دان بن کر مروجہ ملکی سیاست کے تمام ناجائز طریقوں کو قبول کر لیا جائے اور وہ سبھی رنگ ڈھنگ اپنا لیئے جائیں جو کسی مذہب بیزار اور خوف خدا سے عاری سیاسی جماعت یا شخص میں نظر آتے ہیں اور اگر کوئی روکے تو اسے ماحول کا بہانہ پیش کر دیا جائے کہ جی سیاست کا ماحول ہی ایسا ہوتا ہے

گزارش ہے کہ سیاست اگر انبیاء کی سنت ہے تو اس کا طریقہ کار بھی انہیں سے ہی سیکھنا ہوگا جیسا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام جب معاشروں میں تشریف لائے تو ان کے معاشرے ہر طرح کی غلاظت برائی اور نافرمانی سے لتھڑے ہوئے تھے لیکن انبیاء کی سیاست، فہم و فراست سے لبریز کمال سیاست تھی کہ معاشرے کی آلودگی میں آلودہ ہونے کے بجائے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے معاشرے کو سیدھی راہ پر گامزن کیا لھذا ہمیں بھی انہی کی پیروی کرنا ہوگی
فرمایا :
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر
الأنعام : 90

لھذا یاد رہے کہ سیاست میں آنے کے بعد علمائے کرام کا یہ کام نہیں کہ عوام کے جذبات واحساسات کے مطابق کام کریں بلکہ ان کا اصل فریضہ یہ ہے کہ ان کے جذبات کو صحیح رخ پر ڈال کر ان کے تعاون سے معاشرے کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کا مقصد حاصل کریں۔

ماحول جیسا بھی ہو عقیدے اور تربیت پر کمپرومائز نہ کریں

اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں
البقرة : 3

ایمان بالغیب میں بہت سی غیبی چیزیں آتی ہیں جنہیں ماننا بنیادی عقائد میں شامل ہے
تفسیر بیضاوی میں اس کا ایک دلچسپ معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ آپ کی عدم موجودگی یا آپ سے دور رہ کر بھی وہ ایمان برقرار رکھتے ہیں

جیسا دیس ویسا بھیس تو منافقین کی نشانی ہے

یہ تو منافق لوگوں کا کام ہے کہ ماحول دیکھ کر اپنا نظریہ تبدیل کر لیتے ہیں
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ
اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں۔
البقرة : 14

ھد ھد کی استقامت

آج بہت سے لوگ مغربی ممالک، یورپ وغیرہ سے واپس لوٹتے ہیں تو ان کے ماحول سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ صبح و شام وہاں کی ترقی اور ڈسپلن کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، ان کی بڑھائی اور اپنی قوم کی کمتری بیان کرتے رہتے ہیں

ھدھد کفار کے ممالک میں گیا تو واپس آ کر ان کی تعریفیں کرنے کی بجائے ان کے شرک کی قباحت بیان کی کہنے لگا :
إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ
بے شک میں نے ایک عورت کو پایا کہ ان پر حکومت کر رہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔
النمل : 23
وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ
میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال مزین کر دیے ہیں، پس انھیں اصل راستے سے روک دیا ہے، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔
النمل : 24
أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
تاکہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔
النمل : 25
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو عرش عظیم کا رب ہے۔
النمل : 26