لفظ کفر، اللہ تعالی کے ساتھ کفر کے علاوہ معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے
1013۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفَرٌ: اَلطَّعْنُ فِي النَّسَبِ، وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيْتِ)) (أخرجه مسلم:67)
’’دو چیزیں لوگوں میں ایسی ہیں جو ان کے حق میں کفر ہیں: (کسی کے) نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ اور بین وغیرہ کرنا۔‘‘
1014۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((رَأَيْتُ النَّارَ، فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ))
’’میں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں (کیونکہ) وہ کفر کرتی ہیں۔‘
لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
((يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلٰى إِحْدَاهُنَّ الدَّهُرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ)) (أخرجة البخاري:29)
’’نہیں، بلکہ وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ اگر تم ساری عمر عورت سےاچھا سلوک کرو پھر وہ معمولی سی (نا گوار) بات تم میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے: مجھے تجھ سے بھی آرام نہیں ملا۔‘‘
توضیح و فوائد: کفر کی دوقسمیں ہیں:
(1) کفر حقیقی، جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کے احکام مسلمانوں والے نہیں رہتے۔
(2) کفر مجازی یا کفر دون کفر، اس کفر سے آدمی دائرہ
اسلام سے خارج نہیں ہوتا اور اس پر مسلمانوں کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔ اس سے مراد وہ گناہ ہیں جنہیں کتاب وسنت میں کفر کیا گیا ہے جیسا کہ مذکورہ باپ کی احادیث میں ہے یعنی ان گناہوں کے ارتکاب کو جو کفر کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسلام سے خارج ہو گئے بلکہ یہ ناشکری کے معنوں میں ہے۔