معاف کیجئے

معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے

فرمایا :
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
آل عمران : 134

معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ ؛ فَاعْفُ عَنِّي
سنن الترمذي | 3513
اے اللہ تو لوگوں کو معاف کرنے والا اور تو معافی کو پسند کرتا ہے سو تو مجھے بھی معاف کر دے

"تو معافی کو پسند کرتا ہے:”
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اے اللہ تجھے یہ بہت پسند ہے کہ تو لوگوں کو معاف کرے
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تجھے یہ بھی بہت پسند ہے کہ لوگ لوگوں کو معاف کریں

وہ، لوگوں کو معاف کرتا تھا اور کہتا "جو گزر گیا سو گزر گیا” رب العزت نے اسے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ "جو گزر گیا سو گزر گیا”

امام ذھبی نے مسعود الهمذاني کے حالات میں لکھا ہے کہ
أنه كان من خيار الناس، وكان كثيرا ما يصفح عن الناس بقوله: "الماضي لا يُذكر”
وہ بہت اچھا آدمی تھا (اور لوگ اس پر زیادتی کرتے تو بعد میں) لوگوں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کرتا تھا کہ گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا
قيل إنّه رؤي في المنام بعد موته فقيل له: ما فعل الله بك؟
پھر ان کی وفات کے بعد کسی نے خواب میں ان سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا
تو کہنے لگے :
أوقفني بين يديه، وقال لي: يامسعود الماضي لايُذْكَر، انطلقوا به إلى الجنة”.
تاريخ الإسلام (٤٢/٣٢٧)
مجھے میرے رب نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا :اے مسعود گزری ہوئی باتیں یاد نہیں کی جاتیں جو گزر گیا سو گزر گیا (اور فرشتوں سے کہا 🙂 اسے جنت میں لے چلو

اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظیم گھونٹ

ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ جُرْعَةٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ، مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ كَظَمَهَا عَبْدٌ ؛ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ
سنن ابن ماجه | 4189
” سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ اللہ تعالیٰ کے ہاں غصہ کا گھونٹ ہے جسے بندہ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے پی جاتا ہے۔”

مجھے تھپڑ مارو اور اپنا بدلہ لے لو یا معاف کردو

مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمۃ اللّہ علیہ نے سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللّہ علیہ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ایک بار سید صاحب نے اپنے خادم خاص محمد عمر کو کسی کام کا کہا لیکن وہ انکی بات نہ سمجھ سکا اور کام نہ ہوا۔ کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ مولانا سخت پریشان ہوگئے اور جلال میں آگئے اور محمد عمر کو تھپڑ دے مارا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ کمرے سے باہر نکل گیا اور ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا، مولانا نے اسی وقت دارالعلوم کے استاذ حافظ عبدالرشید صاحب کو بلایا۔
وہ منت سماجت کر کے محمد عمر کو مولانا کے پاس لائے۔ اب مولانا بھی رو رہے ہیں اور محمد عمر بھی رو رہا ہے۔ مولانا عبدالرشید صاحب کو سارا واقعہ سنایا۔ پھر محمد عمر کی طرف متوجہ ہوئے اور بہ انداز لجاجت کہا: "لو عمر میں حاضر ہوں۔ میں نے تم کو تھپڑ مارا ہے۔ یا تو تم مجھے تھپڑ مارو اور اپنا بدلہ لے لو یا معاف کردو۔ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے”۔ مولانا رو رہے تھے اور بار بار یہ الفاظ کہہ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے محمد عمر کو منانے میں کامیاب ہوئے۔
(نقوش عظمت رفتہ ص30 -31 )
بلال حماد

معاف کرنے والے کا اجر اللہ کے ذمے ہے

فرمایا :
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔
الشورى : 40

امام احمد رحمہ اللہ نے معتصم کو معاف کر دیا

ابو علی الخرقى بیان کرتے ہیں!!
میں نے احمد بن حنبل (رحمه الله) کے ساتھ ایک رات گزاری۔ میں نے دیکھا کہ وہ رات بھر روتے رہے۔
صبح میں نے عرض کی :
”ابو عبداللہ…! آپ رات بہت روئے، خیریت تھی؟“
کہنے لگے :
”مجھے معتصم باللہ کے مارے گئے کوڑے یاد آ گئے، اور درس میں گزری یہ آیت
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔
الشورى : 40
بھی یاد آگئئ
پس میں نے سجدے میں سر رکھا
اور اللہ کے رُوبرو معتصم کے تمام مظالم کو معاف کر دیا۔“
(مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي:(468))

آپ کی وجہ سے کسی کو عذاب ملے تو آپ کو کیا فائدہ

اور إمام أحمد بن حنبل رحمه اللہ فرمایا کرتے تھے :
سامح أخاك.. وما ينفعك أن يعذب الله أخاك المسلم بسببك
سير أعلام النبلاء (٣٦٢/١١)
اپنے بھائی کو معاف کر دو آپ کو کیا فائدہ کہ آپ کے مسلمان بھائی کو آپ کی وجہ سے الله تعالی عذاب دیں

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا عمدہ بیان

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
معاف کر دینے والا رات سکون سے بستر پر سو جاتا ہے، جبکہ انتقام لینے والا مختلف معاملات کی وجہ سے پہلو بدلتا رہتا ہے۔‘‘
[ ابن أبي حاتم : ۱۰/ ۳۲۸۰، ح : ۱۸۴۸۸، قال المحقق سندہ صحیح ]
بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ

فارسی شاعر کہتا ہے

لذتے درعفواست انتقام نیست
ایں کار برکریماں دشوار نیست
(العقد الفرید:ص2/275)
"معاف کردینے سے جو لذت وسرور حاصل ہوتاہے ،انتقام لینے میں وہ مزہ کہاں۔۔۔نیک لوگوں کے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں”

لھذا در گزر کریں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
خُذِ الْعَفْوَ
در گزر اختیار کرو ۔
الأعراف : 199

اور فرمایا :
وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى
اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے
البقرۃ : 237

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہی ہے کم نہیں ہوتی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَ مَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ ]
[ مسلم : 2588]
’’صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ معاف کر دینے کی وجہ سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ کرتا ہے اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیچا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اونچا کر دیتا ہے۔‘‘

طاقت کے باوجود معاف کیجئے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
اور اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تمھیں تکلیف دی گئی ہے اور بلاشبہ اگر تم صبر کرو تو یقینا وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔
النحل : 126

حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ اللَّهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ مَا شَاءَ۔
(سنن ابو داؤد 4777، حسن)
”جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اﷲ اسے قیامت کے دن برسر مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔

یوسف علیہ السلام نے طاقت کے باوجود بھائیوں کو معاف کر دیا

یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنے والے بھائی اپنا جرم تسلیم کیے، گردنیں جھکائے سامنے کھڑے تھے
اور کہہ رہے تھے :
تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ
اللہ کی قسم! بلاشبہ یقینا اللہ نے تجھے ہم پر فوقیت دی ہے اور بلاشبہ ہم واقعی خطا کار تھے۔
يوسف : 91

یوسف علیہ السلام وقت کے حاکم تھے، ہر طرح کی فوج، طاقت اور قوت آپ کو حاصل تھی چاہتے تو ایک اشارہ کرتے اور ان کی گردنیں تن سے جدا ہو جاتیں
اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو ایسے قصور واروں پر قابو پا لینے کے بعد انھیں ہرگز معاف نہ کرتا۔
مگر
عفو و درگزر کے پیکر نبی کا کمال مظاہرہ دیکھیں بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں بخشے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
يوسف : 92

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت کے باوجود معاف کر دیا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد وہاں کے رہنے والوں سے یوسف علیہ السلام جیسا ہی سلوک کیا ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) قریش کے سرداروں اور بڑے بڑے لوگوں نے کعبہ میں پنا لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے….. تو آکر دروازے کی چوکھٹ کے دونوں کناروں کو پکڑا، پھر فرمایا :
’’اے معشر قریش! (بولو) کیا کہتے ہو؟‘‘
انھوں نے کہا :
’’ہم کہتے ہیں (آپ) رحیم و کریم بھتیجے اور چچا زاد (بھائی) ہیں۔‘‘
آپ نے پھر ان کے سامنے اپنی بات دہرائی، انھوں نے وہی جواب دیا، تو آپ نے فرمایا :
’’پھر میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا :
« لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ »
چنانچہ وہ سب نکل کر آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔ [ السنن الکبریٰ للنسائي : 382/6، ۳۸۳ح : ۱۱۲۹۸ ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی بھی بدلہ نہیں لیا

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
[ مَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِيْ شَيْءٍ يُؤْتٰی إِلَيْهِ حَتّٰی يُنْتَهَكَ مِنْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ فَيَنْتَقِمُ لِلّٰهِ ]
[بخاري : 6853 ]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی معاملے کا انتقام نہیں لیا جو آپ سے کیا گیا۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔‘‘

طائف کی وادی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر مارنے والوں پر رحم کیا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
طائف کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا
ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بے ہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا
اس نے عرض کیا
يَا مُحَمَّدُ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟
کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں؟
تو فرمایا:
بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
’’مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘
[ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین… : ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ]

شعب ابی طالب میں معاشی بائیکاٹ کرنے والوں پر جب قحط سالی کا کوڑا برسا تو رحم دل نبی نے اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے ان کے لیے دعا کی

قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا
حَتّٰی أَكَلُوا الْعِظَامَ
حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے ۔
وفی روایۃ
حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ
ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے
آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا
تو ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا :
’’یا رسول اللہ! مضر (قبیلے) کے لیے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے۔‘‘
وفی روایۃ
فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ
ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے
فَاسْتَسْقٰی فَسُقُوْا
[ بخاري : 4821 ]
خیر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا کر دی اور ان پر بارش ہو گئی

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طریقہ

صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی کا قول ہے
كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ يُسْتَذَلُّوا، فَإِذَا قَدَرُوا عَفَوْا
کہ وہ (صحابہ کرام) ذلت قبول کرنے کو ناپسند کرتے تھے، مگر جب قدرت پا لیتے تو معاف کر دیتے تھے۔
[ دیکھیے بخاری : 2446 ]

معاف کرنا بڑی ہمت کا کام ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اور بلاشبہ جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو بے شک یہ یقینا بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔
الشورى : 43

اپنی بیٹی پر تہمت لگانے والے کا وظیفہ جاری رکھا

حضرت عائشہ (رض) پر جب منافقین نے تہمت لگائی تو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے)
حضرت ابو بکر صدیق (رض) انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابو بکر صدیق (رض) کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
النور : 22

اس آیت میں ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا :
پروردگار! ”ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے” چنانچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے
صحیح بخاری، حدیث (4750)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دشمن کو گھر میں پناہ دے دی

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے جب اپنا رسالہ الاستغاثہ تصنیف کیا تو ان کے مخالف صوفی البکری کو بڑا طیش آیا اور اس نے امام پہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ موقعے کے انتظار میں تھا کہ ایک دن امام صاحب راستے میں اکیلے جاتے ہوئے مل گئے۔ اس کے ساتھ اس کے مریدوں اور اوباشوں کا ایک گروہ بھی تھا۔ انھوں نے مل کر ابن تیمیہ پہ ہلہ بول دیا اور انھیں خوب زد و کوب کیا۔ پھر انھیں زمین پہ پھینک کر فرار ہو گئے۔
لوگوں کو پتا چلا تو وہ امام کے پاس جمع ہو گئے جن میں سرکاری فوج کے لوگ بھی تھے۔ وہ سب امام سے اجازت مانگنے لگے کہ البکری سے انتقام لیا جا سکے مگر امام نے انکار کر دیا اور فرمایا:
دیکھو! اس باب میں یا تو مجھے حق حاصل ہے؛ یا تمھیں؛ یا پھر خدا کو؛ اگر یہ میرا حق ہے تو میری طرف سے وہ آزاد ہے؛ اگر تمھارا حق ہے اور تمھیں میری بات سننی ہی نہیں تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر یہ خدا کا حق ہے تو وہ جب چاہے اور جیسے چاہے اپنا حق لے سکتا ہے، تمھیں دخل اندازی کی ضرورت نہیں۔
تاہم امام صاحب کی ان باتوں کی کوئی پروا کیے بغیر لوگوں نے البکری کو ڈھونڈنا شروع کر دیا؛ مگر حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ وہ انھیں کہیں نہیں ملا کیوں کہ البکری کو چھپنے کی کوئی جگہ نہ ملی سواے امام ابن تیمیہ کے گھر کے؛ جب وہ امام سے پناہ کا طالب ہوا تو آپ نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی؛ یہی نہیں بل کہ سلطان کے ہاں اس کی سفارش کر کے اس کی جاں بخشی کرائی!!
البداية والنهاية (١٤/٧٦)، وذيل طبقات الحنابلة (٢/٤٠٠)، والعقود الدرية (ص٢٨٦)، والكواكب الدرية (ص١٣٩)

قاتلانہ حملہ آور کے بیوی بچوں کے لیے راشن بھیجتے رہے

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے زیادہ با اخلاق کون ہوا ہوگا ماضی قریب میں…. مگر ایک بدعتی اور بدعقیدہ شخص نے مسلکی مخالفت کی وجہ سے سر میں کلہاڑا مار دیا اور حملہ آور جیل میں اور مولانا ہسپتال پہنچ گئے.
مولانا نے اپنی جیب سے اس حملہ آور کے گھر کے حالات معلوم کروائے اور راشن بھجوانا شروع کر دیا.
ملزم جیل باہر آیا تو گھر آتے ہی اسے پتہ چلا کہ راشن کہاں سے آتا رہا تو سیدھا مولانا رحمہ اللہ کے پاس جاکر انکے قدموں میں ڈھیر ہوگیا.

تھے تو وہ آباء تمہارے اور تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ ان بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔
البقرة : 207

حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑنے کی فضیلت

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُهُ
سنن أبي داود | 4800
”میں جنت کی ایک جانب میں ایک محل کا ذمہ دار ہوں اس شخص کے لیے جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔ اور جنت کے درمیان میں ایک محل کا، اس شخص کے لیے جو مزاح میں بھی جھوٹ چھوڑ دے اور جنت کی اعلی منازل میں ایک محل کا اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے ۔ “

فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں 1993ء سے 4 کینال زمین کے جھگڑے کا ایک کیس چلا آ رہا ہے شاید کہ مقدمہ کی پیروی کرتے کرتے فریقین متنازعہ زمین سے زائد رقم خرچ کر چکے ہیں لیکن ہنوز صورت حال یہ ہے کہ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے

پیچھے ہٹ جانا عظیم لوگوں کا کام ہے

جیسا کہ آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل نے اپنے بھائی قابیل سے کہا تھا :
لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
اگر تو نے اپنا ہاتھ میری طرف اس لیے بڑھایا کہ مجھے قتل کرے تو میں ہرگز اپنا ہاتھ تیری طرف اس لیے بڑھانے والا نہیں کہ تجھے قتل کروں، بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
المائدة : 28

اصلی پہلوان کون؟

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ ”
صحيح البخاري | 6114
’’پہلوان ہرگز وہ نہیں جو بہت زیادہ پچھاڑ دینے والا ہو، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔‘‘

ایک شخص کو بار بار یہی نصیحت کرتے رہے کہ غصہ نہ کیا کر

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :
’’مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لاَ تَغْضَبْ ]
’’غصہ مت کر۔‘‘
اس نے کئی دفعہ درخواست دہرائی، آپ نے یہی فرمایا :
[ لاَ تَغْضَبْ ]
’’غصہ مت کر۔‘‘
[ بخاری : 6116۔ ترمذی : 2020 ]

غصے سے بچنے کی اتنی تاکید کیوں

اس لیے کہ غصہ بے شمار برائیوں، اور پریشانیوں کی جڑ ہے

علی طنطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
میں 27 سال تک قاضی رہا ہوں۔ میرے دیکھنے میں طلاق کے اکثر واقعات کا سبب مرد کا بے قابو غصہ ہوتا ہے اور عورت کا حماقت بھرا جواب۔“

لڑائی اور اختلاف میں بھی اچھا طریقہ اپنائیں

لھذا یہ بات ذہن میں رکھیں میاں بیوی کا باہم جھگڑا ہو یا کسی کے ساتھ بھی اختلاف کی شکل میں تبادلہ گفتگو کرتے ہوئے اچھے اور مناسب الفاظ کا چناؤ بہت ضروری ہے

جیسے فرمایا :
« وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ »
’’اور ان سے اس طریقے سے بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔‘‘
النحل : 125

بشار عواد معروف حفظه الله فرماتے ہیں :
خالفتُ العلامةَ الألباني في ٣٠٠ موضع، ولم أصفه إلا بالعلامة.
میں نے 300 مقامات پر علامہ البانی سے اختلاف کیا اور ہر مرتبہ علامہ کہہ کر ہی ان کا ذکر کیا!
دکتور بشار عواد معروف

ترش رویے دوسروں کو متنفر کرتے ہیں

فرمایا اللہ تعالیٰ نے :
« وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ »
’’اور اگر تو بدخلق سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے۔‘‘
آل عمران : 159

تلخ رویے جلی ہوئی روٹی سے زیادہ جذبات کو مجروح کرتے ہیں

مولانا أبوالکلام کہتے ہیں:
ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔ میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کرینگے لیکن انہوں نے اِنتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا.
لیکن۔۔۔۔۔۔۔اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی.
میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا.
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟
انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا بیٹا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہے۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے، میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔

زندگی کو شکر صبر کیساتھ خوشحال بنائیں۔
بیشک اللہ شکر کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔

قطع تعلقی کے مقابلے میں جوڑنے والے بنیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهٗ وَصَلَهَا ]
[ بخاري : 5991 ]
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو صلہ رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘

بیٹا ہمارا ایک رشتہ ختم ہوا ہے دوسرا ابھی باقی ہے

رشتے ختم ہونے کے بعد بھی وفا اور حسن تعلق کا رشتہ باقی رہتا ہے۔ ہمارے یہاں باہمی شناسا جب کشیدہ تعلقات کے دور سے گزرتے ہیں یا مکمل بریک اَپ ہوجاتا ہے تو پھر پلٹ کر بھی پرانے رفیق یا شریک سفر کی خوبیاں یاد نہیں کرتے بلکہ زبان پر بھولے سے بھی ذکر خیر نہیں آتا۔ بلکہ جب کبھی ذکر آتا ہے تو صرف برائیاں ہی بیان کی جاتی ہیں۔

استاذ العلماء، محدث دوراں حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کی بیٹی کو ان کے داماد نے طلاق دے دی تو حافظ صاحب اسے کہنے لگے :
بیٹا ہمارا ایک رشتہ( مساہرت والا) ختم ہوا ہے دوسرا رشتہ (اسلام والا) ابھی باقی ہے

حقیقت بھی یہی ہے کہ طلاق نہ تو دشمنی ہے اور نہ ہی جنگ اور نقصان کا دروازہ۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے واقع ہوجانے کے بعد طرفین سے فرمایا ہے :
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ
اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو
البقرۃ : 237

شاعر نے اس موضوع پر یوں اظہار سخن کیا ہے:
إذا ما خليلي أساء مرَّةً
وقد كان مِن قَبْلُ ذا مجمِلا
ذكرتُ المقَدَّمَ مِن فعلِه
فلم يُفسدِ الآخرُ الأوَّلا
(العقد الفرید:2/275)
"جب میرے کسی پرانے احسان مند دوست سے کوئی برائی سرزد ہوجاتی ہے تو میں اس کے سابقہ احسانات کو یاد کر تاہوں۔اس طرح پرانی دوستی بگڑنے نہیں پاتی”

ہسپتال میں تعاون کے لیے سابقہ شوہر سے رابطہ

شيخ بدر بن علي العتيبي لکھتے ہیں :

ایک سعودی عورت جس کی سرجری کا وقت قریب تھا اور اس سرجری کے لیے چھ ہزار ریال رقم کی شدید ضرورت تھی، ایسے موقع پر اسے اپنے سابقہ ​​شوہر کے علاوہ اس کی مدد کرنے والا کوئی نظر نہ آیا ، اس نے اسے میسیج کیا اور اس نے بھی پرانے تعلق کی بنیاد پر وفاداری نبھائی اور بروقت سخاوت کرکے اس کی مشکل حل کردی۔
اللہ پاک اس کا چہرہ تر و تازہ رکھے اور اس کا داہنا ہاتھ کبھی تنگ نہ ہو۔
از قلم :شیخ بدر بن علی العتیبی