مغرب اور عشاء کی نماز کی قراءت

عَن جُبَيْرِ بنِ مُطْعَم رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يقْرَأُ بِالطُّورِ فِي الْمَغْرِبِ. (متفق عليه)
(صحیح بخاری: كتاب الجهاد والسيرة باب فداء المشركين، صحيح مسلم: كتاب الصلاة، باب القراءة في الصبح)
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا۔
وَعَن جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ يُصَلَّى مَعَ رسول اللهﷺ ثُمَّ يَأتِي فَيَؤُمَّ قَوْمَهَ، قَوْمَهُ فَأَمَّهُم، فَافْتَتَحَ بِسُوْرَةِ البَقَرَةِ، فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ، فَقَالُوا لَهُ: أَنَافَقْتَ يَا فُلان؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، وَلَآتِيَنَّ رَسُولَ الله فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَتٰى رسولَ الله ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا اَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ، وَإِنَّ مُعَاذَا صَلَّى مَعَكَ العِشَاءَ ثُمَّ أَتَى فَافْتَتَحَ بِسُوْرَةِ البَقَرَة، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهﷺ عَلَى مُعَاذٍ فَقَالَ : يَا مُعَادُ أَفَتَّانٌ اَنْتَ اِقْرأَ، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا﴾، ﴿وَالضُّحٰي﴾، ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشٰی﴾، وَ ﴿سَبِّحِ اسْم رَبِّكَ الْأَعْلٰى﴾. (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم کتاب الصلاة، باب القراءة في العشاء)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول الله ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے پھر گھر آکر اپنے لوگوں کی امامت کرتے وہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر آئے پھر اپنی قوم کی امامت کی اور سورہ بقرہ شروع کر دی ایک شخص نے، وہاں سے ہٹ کر سلام پھیر دیا اور اکیلے نماز پڑھ کر چلا گیا، لوگوں نے کہا تو منافق ہو گیا ہے؟ وہ بولا نہیں، اللہ کی قسم میں منافق نہیں ہوں، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ضرور جاؤں گا اور آپ سے ماجرا بیان کروں گا پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم دونوں والے میں دن بھر اونٹوں سے پانی نکالتے ہیں اور معاذ آپ کے کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر آئے اور سورۂ بقرہ شروع کردی۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے معاذ! کیا تو فسادی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى ﴾ ﴿ سَبِّحُ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ پڑھا کر۔
وَعَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ : أَنَّهُ كَانَ فِي سفَرٍ فَصَلَّى العِشَاءَ الْآخِرَةَ فَقَرَا فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَينِ ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾. (متفق عليه).
صحیح بخاري: كتاب الأذان، باب القراءة في العشاء صحيح مسلم: كتاب الصلاة، باب القراءة في العشاء)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں تھے اور عشاء کی پہلی دو رکعت میں سے کسی ایک رکعت میں آپ نے ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ پڑھی۔
تشریح:
نبیﷺ مختلف نمازوں میں مختلف سورتیں پڑھتے تھے کبھی مغرب کی نماز میں قصار مفصل سے پڑھتے تو کبھی طوال مفصل سے پڑھتے، البتہ عشاء کی نماز میں آپ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالضُّحَى﴾ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى﴾ ﴿وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعلٰی﴾ کو پڑھا اور انہیں زیادہ لمبی قراءت کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن اگر امام ان سورتوں کے علاوہ کسی بھی وقت کوئی بھی سورت یا آیت پڑھنا چاہے یا پڑھتا ہے تو جائز ہے لیکن امام کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے لمبی یا چھوٹی سورت پڑھنی چاہئے۔ سورہ حجرات سے سورہ ناس تک کی سورتوں کو ’’مفصل‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لئے کہ ان میں (بسم اللہ) سے فصل کا تکرار ہے۔ سورہ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک ’’طوال مفصل‘‘ سورہ بروج سے لے کر سورہ بینہ تک ’’اوساط مفصل‘‘ اور سورہ بینہ سے لے کر سورہ ناس تک ’’قصار مفصل‘‘ کہلاتی ہیں۔
فوائد:
٭ کبھی کبھی مغرب کی نماز میں قراءت لمبی کرنا مشروع ہے۔
٭ عشاء کی نماز میں اوساط مفصل کی سورتیں پڑھنا مستحب ہے۔
٭ قراءت کو اتنی لمبی کرنا کہ لوگوں کے لئے بھاری ہو خلاف سنت ہے۔
٭٭٭٭