ماہ رمضان کی فضیلت
الحمد لله دائم الفضل والإحسان، أنعم علينا بشهر رمضان، وجعله أحد أركان الإسلام، وأجزل فيه لعباده العطاء والإنعام، أحمده سبحانه على جوده المدرار، وأشكره على نعمه الغزار، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
سب تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو مسلسل فضل و احسان کرنے والا ہے۔ اس نے ہمیں رمضان کا مہینہ دے کر احسان عظیم فرمایا ہے۔ اور اس کے روزہ کو اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اس مہینہ میں اپنے بندوں کے لئے بہت ہی زیادہ انعام و اکرام کا وعدہ کیا ہے۔ اس رب پاک کی مسلسل اور بے پایاں نعمتوں پر میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے در سول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اپنے تمام حالات واوقات میں اللہ سے ڈرو اور جملہ حرکات و سکنات میں اس کے مراقب و نگراں ہونے کا احساس رکھو اور یہ جان لو کہ اس نے بعض اوقات اور بعض ایام کو دیگر اوقات و ایام پر شرف و فضیلت بخشی ہے۔ اور ان کو اپنے مومن بندوں کے لئے نہایت گرانقدر سرمایه قرار دیا ہے۔ انہی ایام میں سے رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے۔ چنانچہ اس میں قرآن کریم ات را مخلوق پر اس کے روزے فرض قرار دیئے اور اسے عفو و در گذر اور بخشش و مغفرت کا بہت بڑا موقعہ بنایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
)من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه) [سنن نسائی: کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان و صامه ایمان و احتسابا (2082 تا 2085)]
’’جس نے ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سارے گذشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘
روزه ایک محکم فریضہ ہے۔ جسے اللہ تعالی نے گذشتہ امتوں کی طرح اس امت پر بھی مقرر کیا ہے۔ تاکہ اس کے ذریعہ بندے اپنی خیر و مصلحت حاصل کریں، فضائل و محاسن سے اپنے آپ کو سنوار میں اور اپنے نفس کو ہر طرح کی رذالتوں اور بری خصلتوں سے پاک کر کے اس کی تہذیب و تربیت کریں۔
روزہ کا فائدہ یہ ہے۔ کہ اس سے ایک مسلمان صبر و ضبط ، محنت و مشقت اور ایثار و تعاون کا خوگر ہو جاتا ہے، حیوانی اوصاف سے بالاتر ہو کر اس کے اندر ملکوتی صفات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور رب العالمین کی اطاعت اس کے احکام و فرامین کی بجا آوری اور اس کے بہترین انعام و اکرام کی امید میں وہ دنیاوی لذات و خواہشات سے دور رہتا ہے۔
روزہ کے ذریعہ در حقیقت بندے مسلم کا ایمان راسخ ہوتا ہے، نفس تقوی کے ذریعہ پاک ہو جاتا ہے۔ اور صبر وضبط کی قدرت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا ایمان اسے فرمان الٰہی کی تعمیل اور اس کے وعدہ رحمت کی تصدیق میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرتا ہے، تقویٰ اسے سب و شتم، طعن و تشنیع اور تمام منهیات و محرمات کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ اور صبر اسے حرام لذتوں اور ناجائز خواہشات سے روکتا اور طاعت الہی میں مشقتیں برداشت کرنے پر ابھارتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر اپنے ان بندوں کو جو اس کے احکام کی تابعداری اور اس کی اطاعت و بندگی کی طرف سبقت کرتے ہیں۔ مخاطب کر کے فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۱۸۳﴾ (البقرة:183)
’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے روزہ دار بندوں کو جہاں اہل ایمان کے نام سے مخاطب کیا ہے۔ وہیں یہ بھی بتایا ہے۔ کہ روزہ تقوی و پرہیز گاری کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہِ رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس مہینہ میں صبر واضح ترین صورت میں نمایاں ہوتا ہے، اور چونکہ رمضان کے روزے تقویٰ و پرہیز گاری کا سبب ہیں۔ اور اہل تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی ہے:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾ (المائده: 27)
’’اللہ تعالٰی پرہیز گاروں ہی سے قبول فرمایا کرتا ہے۔‘‘
اس لئے ایک مومن کو ماہ رمضان کی آمد سے خوشی ہوتی ہے۔ مزید برآن اس وجہ سے بھی اس کے دل کو اس ماہ سے انشراح ہوتا ہے۔ کہ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ اس میں وہ صبر کی برکتیں حاصل کرتا اور صبر کی صفت سے متصف ہو کر ان بندگان الہی کے زمرہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جن کے بارے میں رب العالمین کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر:10)
’’جو صبر کرنے والے ہیں۔ ان کو بیشمار ثواب ملے گا۔‘‘
اور یہی وجہ ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ماہ رمضان کی آمد سے انتہائی خوشی ہوتی آپ انشراح صدر اور طمانیت نفس کے ساتھ اسے خوش آمدید کہتے صحابہ کرام کو بھی اس کی آمد کی بشارت دیتے اس کے حقوق کی کما حقہ ادائیگی پر ابھارتے اور اس کی خصوصیات و فضائل سے آگاہ فرماتے تھے تاکہ اس مقدس مہینہ میں ان کے عزائم میں مزید پختگی پیدا ہو ارادے بلند ہوں اور حسنات کی طرف وہ سبقت کریں۔ چنانچہ بہتی نے شعب الایمان کے اندر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
(خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: أَيُّهَا الناس! قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جَعَل الله صيامه فريضةً وقِيامَ لَيلِهِ تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزاد فيه رزق المؤمِنِ، مَن فَطَّرَ فِيهِ صَائِمَا كَانَ مغفرة لذنوبه وعتقا لرقبته من النار وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء، قلنا يا رسول الله ليس كلنا يجد ما يفطر به الصائم، فقال صلى الله عليه وسلم: يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على مذقة لبن أو تمرة أو شربة من ماء. ومن أشبع صائمًا سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة، وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار، ومن خفف عن مملوكه فيه غَفَرَ اللَّهُ لَهُ وأعتقهُ مِنَ النار) [اس حدیث کو حافظ منذری نے بھی الترغیب والترہیب (2،4،9،15) میں تقریباً ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا کہ لوگو! ایک عظیم اور مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے۔ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالی نے اس ماہ کے روزے فرض قرار دیتے ہیں۔ اور قیام الليل نقل رکھا ہے، جو اس مہینہ میں کوئی نفل کام کرے گا اسے دیگر مہینوں کے ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ملے گا یہ مینہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ مہینہ غمخواری کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کی روزی بڑھادی جاتی ہے، جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش اور جہنم سے نجات کا سبب بن جاتا ہے، مزید برآن روز و افطار کرنے والے کے برابر اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ لیکن روزہ افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر شخص کو تو ایسی چیز میسر نہیں جس سے وہ روزه دار کو افطار کرائے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ثواب تو اس شخص کو اللہ تعالی دیتا ہے۔ جس نے گھونٹ بھر دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کو افطار کرایا ہو اور جس نے کسی روزہ دار کو کھلا کر آسودہ کر دیا تو اس شخص کو اللہ تبارک و تعالیٰ میرے حوض کوثرے ایسا جام پلائے گا کہ تاد خول جنت اسے پیاس محسوس نہ ہو گی، یہ مہینہ ایسا ہے۔ جس کے ابتدائی ایام رحمت کے ہیں۔ اور درمیانی مغفرت کے اور آخری ایام جہنم سے آزادی و نجات کے اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے ماتحتوں پر نرمی کرے گا اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور جہنم سے نجات دیدے گا۔‘‘
رمضان المبارک کے مہینہ کی یہ چند خصوصیات ہیں۔ جو رسول امین صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث کے اندر بیان فرمائی ہیں۔ تاکہ ہم اس ماہ مبارک کی قدر و منزلت پہنچانیں اور اللہ رب العالمین سے اجر و ثواب حاصل کریں۔
لیکن افسوس کہ بہت سے مسلمان اس مبارک مہینہ کا احترام نہیں کرتے اس کی قدر و منزلت نہیں پہچانتے سارا دن سونے آرام کرنے اور ذکر الہی اور تلاوت قرآن سے فضلت میں گزار دیتے ہیں۔ راتیں شہوات و نفسانیت قمار بازی الہو و لعب نیز طاعت الہی سے روگردانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔
مسلمانو! سوچو کیا اللہ کی تدبیر اور اس کی سز او عقاب سے ہم مامون ہیں؟ کیا اس فانی دنیا کے اندر ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ موت روزانہ نہ جانے کتنی جانوں کو اپنا لقمہ بنا رہی ہے۔ اور ہر ہر لمحہ ہمیں جزا و سزا کے گھر سے قریب کرتا جا رہا ہے۔ اب تک کتنے لوگ اپنے اپنے بالا خانوں اور پر عیش سامان زندگی سے رخت سفر باندھ کر راہی عدم ہو چکے ہیں۔ تنگ و تاریک اور وحشت ناک قبر ان کا ٹھکانہ بن چکی ہے، جہاں سوائے عمل صالح کے کوئی مونس و غم خوار ہے۔ نہ دنیا کا جمع کردہ ماں کچھ کام آسکتا ہے۔ ان مرنے والوں میں کتنے ایسے ہوں گے جنہوں نے دنیا کے اندر کتنا حرام کھایا ہو گا بکثرت گناہ کئے ہوں گے اچھے اچھے واعظوں کی نصیحت و موعظت ان کے لئے بے اثر اور صدا بصحرا ثابت ہوئی ہو گی۔ فرمان باری ہے: ﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ﴾ (الحجر:3)
’’آپ انہیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئے، یہ خود ابھی جان لیں گے۔‘‘
یا اللہ! تو ہماری غفلت دور کر آخرت کے لئے تیاری کی توفیق دے قبر کی تنہائی میں ہم پر رحم فرما قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ و مامون رکھ اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دے۔ مولی! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے۔ خود دور گزر پسند کرتا ہے۔ اپنی رحمت سے ہماری کو تا ہیاں معاف کر اور ہم پر باران رحمت نازل فرما۔
اعوذ بالله من الشيطن الرجيم:﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ؗ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۸۵ ﴾ (البقرۃ: 185)
’’رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے۔ جس میں قرآن اترا، راہ بتلاتا ہے۔ لوگوں کو اور اس میں کھلی کھلی دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق کو ناحق سے پہچاننے کی۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے وہ اس میں روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ اللہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے، سختی نہیں کرنا چاہتا اور یہ چاہتا ہے۔ کہ تم رمضان کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی کرو اس احسان پر کہ تم کو سیدھا رستہ چلایا اور تاکہ تم اس کا شکر کرو۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم۔
خطبه ثانیه
الحمد لله الذي هدانا للإسلام، وفضلنا به على سائر الأنام، وأحمده سبحانه وأشكره، لا تحصي ثناء عليه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، ذو الفضل العميم، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله النبي الكريم، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جس نے ہمیں مذہب اسلام کی راہ دکھائی اور اس کے ذریعہ تمام مخلوق پر ہمیں فضیلت بخشی، میں اللہ کی حمد و تعریف بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور ہم اس کی تعریف کا شمار نہیں کر سکتے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں وہ بے شمار فضل و احسان والا ہے، اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اس کے بندے اور رسول اور بزرگ نبی ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کی آل اور اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
لوگو! اللہ کا خوف کھاؤ اس کے احکام و فرامین کی تعمیل کرو، منہیات سے بچو اس کی بے پایاں نعمتوں کی شکر گزاری کرو ماہِ رمضان کی قدر و منزلت پہچانو اور ان با برکت ایام کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ رب العالمین سے توبہ و استغفار اور رجوع وانابت کرو کیونکہ یہ بڑا ہی مبارک مہینہ ہے۔ اس میں قرآن کریم نازل ہوا جو ہر قسم کی خیر و ہدایت پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے۔ جس میں رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اور گناہوں کی بخشش ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کی بخشش و رحمت حاصل کرنے کے لئے خوب خوب دعائیں کرو۔ نامناسب قول و فعل سے بچو اجر و ثواب کی امید رکھو ساتھ ہی لغو، گناہ ومعصیت اور غیبت و چغلخوری کے ذریعہ اپنے روزے برباد نہ کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔