ماہِ صفر اور بد شگونی

تمہید: مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دوسرے کے نفع نقصان کا بلکہ اپنے نفع ونقصان کا مالک بھی کوئی مخلوق نہیں۔ نبی کریمﷺ ودیگر انبیاء﷩ بھی اپنے نفع ونقصان کے مالک نہیں 1.﴿ قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرّا إما ما شاء الله … لقوم يؤمنون ﴾ الأعراف … 2. ﴿ لقد کفر الذین قالوا إن الله هو المسيح ابن مريم فمن يملك من الله شيئا إن أراد … ﴾ المائدة

• تو پھر دیگر پیر، فقیر، ولی، بزرگ جن کی قبروں کی طرف لوگ قصداً جاتے ہیں وہ بھی اپنے نفع ونقصان کے مالک نہیں: 1. ﴿ قل من رب السموت والأرض قل الله قل أفاتخذتم من دونه أولياء لا يملكون لأنفسهم نفعا ولا ضرا ﴾ الرعد …

2. ﴿ واتخذوا من دونه آلهة … ولا يملكون لأنفسهم ضرا ولا نفعا … ﴾ الفرقان

• جب وه اپنے نفع نقصان کے مالک نہیں تو دوسرے کو کیا نفع نقصان پہنچائیں گے؟!! 1. ﴿ ويعبدون من دون الله ما لا ينفعهم شيئا ولا يضرهم ويقولون هؤلاء شفعؤنا عند الله ﴾ يونس … 2. ﴿ قال أفتعبدون من دون الله ما لا ينفعكم شيئا ولا يضركم أف لكم … ﴾ الأنبياء

• الله کے علاوہ کسی کو نفع ونقصان کیلئے پکارنا، در اصل بہت بڑا ظلم، غیر اللہ کی عبادت اور شرک ہے: فرمانِ باری ہے:1. ﴿ ولا تدع من دون الله ما لا ينفعك ولا يضرك فإن فعلت فإنك إذا من الظلمين * وإن يمسسك الله بضرّ فلا كاشف له إلا هو وإن يردك بخير فلا رادّ لفضله ﴾ يونس … 2. ﴿ ولا أخاف ما تشركون به إلا أن يشاء ربي شيئا … أفلا تتذكرون * وكيف أخاف ما أشركتم … ﴾

• اگر اللہ کسی کو نفع ونقصان دینا چاہیں تو ایسے حضرات کچھ نہیں کر سکتے: 1. ﴿ قل أفرأيتم ما تدعون من دون الله إن أرادني الله بضرّ … عليه يتوكل المتوكلون ﴾ الزمر … 2. ﴿ ما يفتح الله للناس من رحمة فلا ممسك لها وما يمسك فلا مرسل له من بعده ﴾ فاطر

خلاصہ: اللہ کے علاہ کوئی نفع ونقصان کا مالک نہیں، اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہیں تو پوری دنیا مل کر کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتی: 1. ﴿ قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا هو مولـنا وعلى الله فليتوكل المؤمنون ﴾ التوبة … 2. « اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد » … 3. ابن عباس:

« واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك » الترمذي.

ماہِ صفر کی نحوست؟ : صفر کی نحوست کے بارے میں لوگوں کا غلط عقیدہ ہے کہ اس مہینے میں کوئی شروع کرنے سے خوف کھایا جائے، حالانکہ تمام مہینے اللہ کی طرف سے ہیں، ہر مہینہ میں نفع نقصان اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے: « لا عَدْوَىٰ (خود بخود متعدی) ولا طِيَرَةَ (بد شگونی) ولا هَامَةَ (پرندے کو منحوس سمجھنا) ولا صَفْرَ » البخاري ومسلم

• بد شگونی سے مراد: پختہ ارادہ کے بعد کسی شے کو دیکھ یا سن کر وہ کام نہ کرے۔ جاہلیت میں لوگ تیروں اور پرندوں وغیرہ سے عموماً بد شگونی لے کر کام کا ارادہ پختہ یا ترک کر دیتے تھے۔ اس طرح کی بدشگونی اور فال نکالنا شرک ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص اس شے کو نفع نقصان کا باعث سمجھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ پر توکل نہیں کرتا۔ عبد اللہ بن عمرو: « من ردّته الطيرة عن حاجته فقد أشرك » صحيح الجامع

• فقیروں، عورتوں وغیرہ کو منحوس سمجھنا صحیح نہیں۔ پچھلی امتوں کے لوگ اپنے انبیاء سے بد شگونی لینے تھے: ﴿ فإذا جاءتهم الحسنة قالوا لنا هٰذه وإن تصبهم سيئة يطيروا بموسىٰ ومن معه ﴾ الأعراف … صالح ﴿ قالوا اطّيرنا بك وبمن معك قال طئركم عند الله ﴾ النمل … ﴿ أينما تكونوا … وإن تصبهم حسنة يقولوا هذه من عند الله وإن تصبهم سيئة يقولوا هذه عندك … ﴾

• ستاروں سے فال نکالنا: بعض لوگ ستاروں سے فال نکالتے اور شگون لیتے ہیں کہ تمہارا ستارہ فلاں ہے، وہ آج کل گردش میں ہے، ابھی کاروبار یا شادی میں برکت نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ … حالانکہ قسمت یا مستقبل کے اُمور کا کوئی تعلق ستاروں سے نہیں:

« أربع في أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر في الأحساب، والطعن في الأنساب، والاستسقاء بالنجوم، والنياحة » مسلم … زید بن خالد جہنی سے مروی ہے کہ حدیبیہ میں رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھا کر آپﷺ نےفرمایا:

« هل تدرون ماذا قال ربكم؟ » انہوں نے کہا کہ اللہ ورسولہ اعلم، فرمایا: « قال: أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر. فأما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكواكب، وأما من قال: مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافي بي ومؤمن بالكواكب» بخاری ومسلم … « ليس منا من تَطَيَّر أو تُطُيِّر له، أو تَكَهَّن أو تُكُهِّن له، أو سَحَر أو سُحِرَ له » … السلسلة الصحيحة … « من أتى عرّافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاةُ أربعين ليلة » مسلم … « من أتى عرّافًا أو كاهنًا فصدّقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمّد ﷺ » صحيح الجامع

اگر کوئی مصیبت کی کوئی وجہ ہوتی ہے، تو وہ ہمارے اعمال ہی ہوتے ہیں، جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر مصیبت نازل کرتے ہیں۔

دوسرا خطبہ: جو لوگ اللہ کو ہی نفع ونقصان کا مالک سمجھتے اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں وہ جنت میں بغیر حساب وکتاب کے داخل ہوں گے، ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو دَم کرانے کسی کے پاس نہیں جاتے، بد شگونی نہیں لیتے بلکہ صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں:

« هم الذين لا يرقون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون … سبقك بها عكاشة » متفق عليه

« هم الذين لا يسترقون ولا يتطيرون ولا يكتوون وعلى ربهم يتوكلون » مسلم