معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم 2
بقلم
عمران محمدی
عفا اللہ تعالیٰ عنہ
===============
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سابقہ مضمون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے لے کر بیت المقدس تک اور پھر ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام تک ملاقات کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں، اب ہم یہاں سے آگے معراج کے موقع پر پیش آنے والے مزید واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہیں
قلموں کے چلنے کی آواز والی جگہ پر پہنچ گئے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"ثُمَّ عَرَجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ ".
مسلم : 163
’’پھر (جبریل) مجھے(اور ) اوپر لے گئے حتی کہ میں ایک اونچی جگہ کے سامنے نمودار ہوا، میں اس کے اندر سے قلموں کی آواز سن رہا تھا۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ یہاں فرشتے لوح محفوظ سے قضاء و قدر کے فیصلے نوٹ کرتے ہیں
سدرۃ المنتھیٰ کے پاس
ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی
صحيح البخاري | 3887
پھر جبریل مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت)کے پاس لے گئے
سدرۃ المنتھیٰ کی وجہ تسمیہ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس نام کی وجہ بیان فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا :
[ لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلٰی سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، إِلَيْهَا يَنْتَهِيْ مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَ إِلَيْهَا يَنْتَهِيْ مَا يَهْبِطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا ]
[مسلم : 173 ]
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات (معراج کے لیے) لے جایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے اوپر جو کچھ چڑھتا ہے اس کی انتہا وہاں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سے جو کچھ اترتا ہے اس کی انتہا بھی وہیں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے۔‘‘
سدرۃ المنتھیٰ کہاں واقع ہے
مسلم کی شرح میں نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں اسی طرح چھٹے آسمان ہی کا ذکر ہے، جب کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری روایات میں گزر چکا ہے کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ قاضی (عیاض) نے فرمایا، اس کا ساتویں آسمان پر ہونا ہی زیادہ صحیح اور اکثر کا قول ہے۔ یہی سدرۃ المنتہیٰ کے معنی کا اور نام کا تقاضا ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر ہو۔ نووی فرماتے ہیں کہ دونوں اقوال کو جمع کرنا ممکن ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں ہے اور زیادہ تر حصہ ساتویں آسمان میں ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑی ہے۔
سدرۃ المنتھیٰ کے پتوں اور پھلوں کی کیفیت
فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلاَلِ هَجَرَ، وَ إِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هٰذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی
صحيح البخاري | 3887
’’دیکھا تو اس کے بیر (پھل) ہجر شہر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتھیٰ ہے۔‘‘
سدرۃ المنتھیٰ کی خوبصورتی
سدرۃ المنتھیٰ کو کسی خاص ہی خوبصورتی نے ڈھانپ رکھا تھا ایسی خوبصورتی کہ انسانی عقل و فہم اسے اپنے الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتی اللہ تعالیٰ نے انسان کے اسی لیول کو دیکھتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے ہیں :
إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى
جب اس بیری کو ڈھانپ رہا تھا جو ڈھانپ رہا تھا۔
النجم : 16
یعنی کسی ایسی عظیم چیز نے ڈھانپ لیا جو انسانی بیان میں نہیں آ سکتی اور اگر اللہ تعالیٰ اسے اس طرح بیان فرمائے جس طرح اسے بیان کرنے کا حق ہے تو انسان کی کوتاہ عقل میں وہ سما نہیں سکتی، اس لیے اس کی تفصیل مت پوچھو۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِيْ مَا هِيَ
[بخاري : 349 ]
اور اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔
اور آپ نے فرمایا :
فَمَا أَحَدٌ مِّنْ خَلْقِ اللّٰهِ يَسْتَطِيْعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا
مسلم : 162
اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کی خوب صورتی بیان نہیں کر سکتا۔
سدرۃ المنتھیٰ کو سونے کے پروانوں نے ڈھانپ رکھا تھا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
«اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى »
کی تفسیر میں بیان کیا ہے :
فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ
مسلم : 173
اس سے مراد سونے کے پروانے ہیں۔
سدرۃ المنتھی کے پاس جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا
معراج کے موقع پر آپ نے جو بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں ان میں ایک بڑی نشانی تو جبریل علیہ السلام ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى
حالانکہ بلاشبہ یقینا اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
النجم : 13
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى
آخری حد کی بیری کے پاس۔
النجم : 14
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت :
« وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى»
کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَأَيْتُ جِبْرِيْلَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، يَنْتَثِرُ مِنْ رِيْشِهِ التَّهَاوِيْلُ الدُّرُّ وَالْيَاقُوْتُ
مسند أحمد : 4395
’’میں نے جبریل صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے۔‘‘
بیت المعمور کی زیارت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ
پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا
میں نے پوچھا:
يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذَا ؟
اے جبریل یہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا :
هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرُ مَا عَلَيْهِمْ
مسلم : 164
یہ بیت معمور ہے ، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ، جب اس سے نکل جاتے ہیں ، تو اس (زمانے) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے
تین برتن پیش کیے گئے
وہاں میرے سامنے ایک گلاس میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا ۔ میں نے دودھ کا گلاس لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا :
هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ
صحيح البخاري | 3887
یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی !
آسمانی ضیافت اور زمینی ضیافت
دودھ اور شراب کے برتن بیت المقدس میں بھی پیش کیے گئے تھے اور اب یہاں آسمان میں بھی پیش کیے جا رہے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمینی ضیافت تھی اور یہ آسمانوں کی ضیافت ہے
جنت کی سیر
سدرۃ المنتھی کے پاس ہی جنت ہے جیسے فرمایا :
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى
اسی کے پاس ہمیشہ رہنے کی جنت ہے۔
النجم : 15
چنانچہ آپ کو سدرۃ المنتھی کی سیر کے بعد جنت کی سیر کروائی گئی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيْهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ، وَ إِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ
[بخاري : 349 ]
’’پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔‘‘
مسلم (163) میں "حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ ” کی جگہ
"جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤَ” کے الفاظ ہیں
جس کا معنی ہے موتیوں کے گنبد
چار نہروں کا مشاہدہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری ۔
میں نے پوچھا: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ؟
اے جبریل علیہ السلام ! یہ کیا ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ جو دوباطنی نہریں ہیں وہ جنت سے تعلق رکھتی ہیں اور دوظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں
صحيح البخاري | 3887
صحيح مسلم میں ان چاروں نہروں کے نام بیان ہوئے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سَيْحَانُ، وَجَيْحَانُ، وَالْفُرَاتُ، وَالنِّيلُ، كُلٌّ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ".
صحيح مسلم | 2839
"سیحان ،جیحان ،فرات اور نیل سب جنت کی(طرف سے آنے والی) نہریں ہیں۔”
جنت میں نہر کوثر بھی دیکھی
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :
فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ، فَضَرَبَ يَدَهُ، فَإِذَا هُوَ مِسْكٌ،
پھر آپ نے ایک دوسری نہر دیکھی جس کے اوپر موتی اور زبرجد کا محل ہے۔ اس پر اپنا ہاتھ مارا تو وہ کستوری ہے۔
پوچھا :
"مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟”
جبرائیل! یہ کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا :
هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَكَ رَبُّكَ.
صحيح البخاري | 7517
کہ یہ کوثر ہے جسے اللہ نے آپ کے لیے محفوظ رکھا ہے۔
صحيح بخاری کی ہی دوسری روایت میں ہے :
حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ
اس کے دونوں کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔
میں نے پوچھا :
مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟
جبریل! یہ کیا ہے؟
جبریل علیہ السلام نے کہا :
هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ. فَإِذَا طِينُهُ أَوْ طِيبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ ”
صحيح البخاري | 6581
یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کی ہے ، اس کی مٹی خوشبودار کستوری ہے۔
آپ نے ان سب نشانیوں کو پوری توجہ اور یکسوئی سے دیکھا
معراج کا مقصد تو یہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگری کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائی جائیں جیسا کہ فرمایا :
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا
تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔
الإسراء : 1
اور یہ مقصد تبھی پورا ہو سکتا تھا کہ جس ذات کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے وہ پوری یکسوئی سے ان چیزوں کو دیکھے تو آپ نے واقعی ایسا ہی کیا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى
نہ نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔
النجم : 17
یعنی آپ کی نگاہ انھی نشانیوں پر مرکوز رہی، نہ دائیں بائیں ہوئی اور نہ ہی ان سے آگے بڑھی۔ خوب آنکھ بھر کر ان انوار و تجلیات کو دیکھا
لطف کی بات یہ ہے کہ صرف ظاہری آنکھ سے ہی نہیں دیکھا بلکہ ان آیات کو خوب سمجھا بھی
آپ نے صرف ظاہری آنکھ سے ہی نہیں دیکھا دل و دماغ بھی پوری طرح حاضر تھے چناچہ فرمایا :
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى
دل نے جھوٹ نہیں بولا جو اس نے دیکھا۔
النجم : 11
بسا اوقات آنکھ کوئی چیز دیکھ رہی ہوتی ہے لیکن دل اسے جھٹلا رہا ہوتا ہے جیسے نکلتے ہوئے سورج کو دیکھ کر آنکھ اسے ایک سرخ تھال سے بڑا نہیں سمجھتی لیکن دل آنکھ کو جھٹلا رہا ہوتا ہے کہ ایسا سمجھنا آنکھ کی غلطی ہے یہ تو کروڑوں تھالوں سے بڑا ہے
تصویر کو زوم کریں تو ایک انچ لمبائی والی چیز چھ انچ لمبی نظر آتی ہے لیکن دل جھٹلاتا ہے کہ آنکھ حقیقت اصلیہ کو نہیں دیکھ رہی
آنکھ آرٹیفشل زیورات اور پودوں کو دیکھ کر حقیقت سمجھ رہی ہوتی ہے جبکہ دل آنکھ کو جھٹلا رہا ہوتا ہے کہ یہ وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہی ہے
معراج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری آنکھ سے جو دیکھا دل نے بھی تصدیق کی کہ ہاں یہ ایسے ہی ہے جیسے دیکھا جا رہا ہے
لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى
بلاشبہ یقینا اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔
النجم : 18
فرشتوں نے حجامہ کی ترغیب دی
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلَأٍ إِلَّا قَالُوا : يَا مُحَمَّدُ، مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ ”
سنن ابن ماجه | كِتَابُ الطِّبِّ. | 3479
معراج کی رات میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی گزرا تو اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حجامہ(سینگی) کا حکم دو
کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزر ہوا کہ جنہیں عذاب ہو رہا تھا
غیبت کرنے والوں کو عذاب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَمَّا عُرِجَ بِي, مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ
جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔
میں نے کہا :
مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟
اے جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟
انہوں نے کہا :
هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ
سنن أبي داود | 4878 ،صحيح
یہ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں ۔
بے عمل واعظین کا انجام
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ، قُلْتُ : مَا هَؤُلَاءِ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ خُطَبَاءُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، كَانُوا يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ، وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ، وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ، أَفَلَا يَعْقِلُونَ ؟ ”
مسند أحمد 12856،صحيح
واپسی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تین تحفے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ
مسلم : 173
پھر رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں : پانچ نمازیں عطا کی گئیں ، سورۃ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں اور آپ کی امت کے (ایسے ) لوگوں کے (جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا) جہنم میں پہنچانے والے ( بڑے بڑے ) گناہ معاف کر دیے گئے ۔
سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی مزید فضیلت
ان آیات کی فضیلت میں کئی احادیث آئی ہیں۔
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔‘‘
بخاری : 5009
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی، انھوں نے سر اٹھایا، پھر فرمایا : ’’یہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔‘‘ پھر اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا : ’’یہ ایک فرشتہ ہے جو آج زمین کی طرف نازل ہوا ہے اور آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔‘‘ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کہا : ’’دو نوروں کی خوش خبری سنیے، یہ دونوں صرف آپ کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے۔ ایک نور سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرا نور سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں، آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے توآپ کو مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔‘‘
مسلم : 806
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس میں سے اس نے دو آیتیں نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورۂ بقرہ کا اختتام کیا، جس گھر میں بھی وہ آیات تین راتیں پڑھی جائیں گی تو شیطان اس گھر کے قریب نہیں آ سکے گا۔‘‘
ترمذي : 2882 وصححہ الألباني
پانچ نمازوں کی فرضیت
پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی جو کی ، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں ، میں اتر کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟میں نے کہا: پچاس نمازیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنےرب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت ( کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی : اے میرے رب ! میری امت پر تخفیف فرما۔
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں ۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں ۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس ( اتنی نمازیں پڑھنے کی ) طاقت نہ ہو گی ۔اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد!ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ( اجر میں ) ہر نماز کے لیے دس ہیں ، ( اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا ،اس کےلیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر وہ ( اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی ۔ آپ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں نےکہا:
اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي.
میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس گیا ہوں حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں ۔ ‘‘
صحيح مسلم | 162
صحيح البخاري | 349
بخاری شریف میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ ؛ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ
صحيح البخاري | 349
یہ پانچ ہیں لیکن پچاس کے برابر، میرے یہاں قول بدلا نہیں جاتا
قاضی سلمان منصور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالِ عبودیت اور وفورِ شوقِ عبادت کے سامنے تو پچاس نمازوں کی کثرت بھی کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی
(اس لیے) اگر موسی علیہ السلام (ان امتک لا تطیق) کے فقرے کا استعمال نہ فرماتے اور حضور کو کسی اور دلیل سے التماس تخفیف پر مائل کرنا چاہتے تو وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکتے
رحمۃ للعالمین از قاضی سلمان رحمہ اللہ ج3، ص76
نمازیں پاس بلا کر کیوں فرض کیں بذریعہ وحی ہی کہہ دیتے
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح باقی احکامات بذریعہ وحی بتا دیے گئے ہیں ایسے ہی پانچ نمازوں کا بھی بتا دیا جاتا
اس کے لیے اسپیشل اوپر بلا کر ہی کیوں حکم دیا گیا
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مرضی ہے جو چاہے کرے
دوسرا یہ کہ ایسا کرنے سے نماز کی اہمیت ظاہر کرنا مقصد تھا
اسے ایک مثال سے سمجھیں
ایک ہے کہ ایوان صدر سے آرڈر آ جائے کہ فلاں کام کرنا ہے اور ایک ہے کہ پاس بلا کر حکم دیا جائے کہ یہ کام کریں
اس سے کام کی اہمیت بڑھتی ہے
نمازوں میں کمی کروانے کے لیے کتنی مرتبہ بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوئے؟
اس سلسلے میں بھی روایات میں اختلاف ہے۔ علماء نے ان کے درمیان تطبیق کی دو صورتیں بیان کی ہیں :
1 یا تو دس دس کر کے چار مرتبہ اور آخری چکر میں پانچ نمازیں معاف ہوئیں ۔
2 یا پھر پانچ پانچ کرکے معاف ہوئیں۔
اس طرح پہلی صورت میں پانچویں مرتبہ میں اور دوسری صورت میں نویں مرتبہ میں 45 نمازیں معاف ہو کر صرف پانچ رہ گئیں۔ حافظ ابن حجر جمال نے دوسری صورت کو راجح قرار دے کر دوسری روایات کو اس پر محمول کیا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پریشانی لاحق ہوئی کہ مکہ کے لوگ واقعہ معراج کو جھٹلا دیں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَمَّا كَانَ لَيْلَةُ أُسْرِيَ بِي، وَأَصْبَحْتُ بِمَكَّةَ، فَظِعْتُ بِأَمْرِي، وَعَرَفْتُ أَنَّ النَّاسَ مُكَذِّبِيَّ ". فَقَعَدَ مُعْتَزِلًا حَزِينًا.
مسند احمد : 2819، إسناده صحيح على شرط الشيخين
مکہ میں معراج کی صبح میں غمگین ہوا کہ لوگ جب مجھ سے یہ واقعہ سنیں گے تو مجھے جھٹلائیں گے تو میں غمگین ہو کر الگ ایک جگہ بیٹھ گیا
ابوجہل نے مذاق کرنا شروع کر دیا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی پریشانی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ کے دشمن ابو جہل کا گزر ہوا، یہ آکر رسول اللہ کے پاس بیٹھ گیا، استہزائیہ لہجے میں کہنے لگا : کچھ ہوا ہے ؟
تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں
کہا: کیا ہوا ؟
فرمایا: مجھے رات سیر کروائی گئی۔
کہتا ہے :کہاں کی؟
فرمایا : بیت المقدس کی۔
کہا: اور صبح تک تم ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟
فرمایا : ہاں ۔
تو ابو جہل نے تکذیب نہ کی ، صرف اس ڈر سے کہ اگر وہ لوگوں کو بلائے گا، تو لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے
کہنے گا : کیا خیال ہے، اگر میں تیری قوم کو بلاؤں ، تو تم انہیں بھی وہی بات بیان کرو گے، جو مجھے بیان کی ہے؟
تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا :
ہاں۔
ابو جہل نے آواز لگائی :
اے بنو لعب بن لؤی کی جماعتو! آجاؤ۔ لوگ اپنی مجالس چھوڑ کر آئے اور نبی کریم صلی علیم اور ابو جہل کے پاس آکر بیٹھ گئے ۔
ابو جہل کہنے لگا : اپنی قوم کو وہی بات بیان کرو، جو تم نے مجھے کی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے رات سیر کروائی گئی ،
لوگ کہنے لگی : کہاں کی؟
فرمایا: بیت المقدس کی ۔
کہنے لگے : اور پھر صبح تک آپ ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟
فرمایا: ہاں۔
(یہ سن کر ) کچھ لوگ تالیاں بجانے لگے اور کچھ لوگوں نے بزعم خود اس جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ لیے۔
مسند احمد : 2819، إسناده صحيح على شرط الشيخين
کفار کے جھٹلانے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا
أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى
پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے۔
النجم : 12
کفار مکہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے متعلق سوال کرتے ہیں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَكُرِبْتُ كُرْبَةً مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ»
مسلم : 172
’’میں نے اپنے آپ کو حجر( حطیم) میں دیکھا ، قریش مجھ سے میرے رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے ، انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کےبارے میں پوچھا جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں ،میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا
اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا تھا :
فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ
صحيح البخاري | 3886
اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرناشروع کردیئے ۔
اور صحیح مسلم میں ہے :
فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ
مسلم : 172
اللہ تعالیٰ نے اس (بیت المقدس )کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا، وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے ، میں انہیں بتا دیتا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو ان کے ایک تجارتی قافلے کی خبر بھی دی
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ، وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَبِعِيرِهِمْ
مسند احمد : 3546، إسناده، صحيح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اپنی رات کی سیر کا بتایا، نیز بیت المقدس کی نشانیوں اور قریش کے تجارتی اونٹوں کے بارے میں خبر بھی دی۔
نشانیاں سننے کے بعد لوگوں کا تبصرہ
قریشی لوگ کہنے لگے:
” أَمَّا النَّعْتُ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَصَابَ ”
مسند احمد : 2819، إسناده صحيح على شرط الشيخين
اللہ کی قسم! اس ( نبی صلی ) نے نشانیاں تو ساری صحیح ہی بتائی ہیں ۔“
پھر کہنے لگے :
نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ ؟ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا
مسند احمد : 3546، إسناده صحيح
کیا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات پر اعتبار کر لیں؟ اور جھٹلاتے ہوئے واپس پلٹ گئے
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تصدیق
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگ یہ خبر لے کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : آپ کا اپنے ساتھی کے بارے کیا خیال ہے وہ کہتا ہے کہ اسے رات کے وقت بیت المقدس تک سیر کروائی گئی ہے
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :
کیا انہوں نے واقعی ایسے ہی کہا ہے
انہوں نے کہا : ہاں
تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :
لَئنْ كانَ قالَ ذلك لقد صدَقَ
اگر واقعی انہوں نے کہا ہے تو پھر انہوں نے سچ کہا ہے
انہوں نے مزید حیران ہو کر کہا کیا تو اس بات کی تصدیق کرتا وہ رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے ہی واپس آ گئے؟
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہا :
نَعَمْ إنِّي لأُصدِّقُه فيما هو أبعَدُ من ذلك، أُصدِّقُه بخَبرِ السَّماءِ في غَدْوةٍ أو رَوْحةٍ؛ فلذلك سُمِّيَ أبو بَكرٍ الصِّدِّيقَ
المستدرك على الصحيحين : 4461، صحيح الإسناد.
میں تو اس سے بھی ناممکن باتوں میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں میں تو اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ صبح یا شام کی ایک گھڑی میں آپ کے پاس آسمان سے خبر پہنچ جاتی ہے اسی وجہ سے آپ کا نام ابوبکر صدیق رکھ دیا گیا