مردانگی صفات کے حاملین کون؟ اور ان صفات کے مفقود ہونے کے اسباب

﴿مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ۖؗ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ۝۲۳﴾ (الاحزاب:23)
’’مومنوں میں سے کچھ ایسے مرد ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے، اور انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔‘‘
اللہ تعالی نے خصوصی طور پر انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور پھر خلیفہ بنا کر زمین پر بھیج دیا۔ خلیفہ کا مطلب نائب اور جانشین ہے، انسان زمین پر کس کا خلیفہ اور نائب ہے؟ اللہ تعالیٰ کا، یا اپنے سے پہلے کسی اور مخلوق کا، یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، تاہم اگر اللہ تعالی کا خلیفہ مراد ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالی کے دیے ہوئے اختیارات کو اس کی ہدایات کے مطابق اور اس کی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال کر کے دنیا میں زندگی بسر کرے اور اپنا اجتماعی نظام چلائے۔
اور یہ کہہ کر وہ قانون اور ہدایات بھیجنے کا وعدہ بھی فرمایا، جس کے مطابق چل کر انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ فرمایا:
﴿قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸﴾(البقرة:38)
’’ جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے، تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔‘‘
تو اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں خوش اسلوبی سے زندگی گزارنے اور گھر کا اور ملک و سلطنت کا نظام چلانے کے لیے بنیادی اور ضروری خوبیوں اور صلاحیتوں اور اوصاف و خصال سے بھی نوازا کہ انہیں اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا، اور ساتھ ہی بری صفات کی پہچان بھی کرادی، پھر دو ایک خاص معاشرے اور خاص ماحول میں رہ کر یا تو اپنی ان خوبیوں میں مزید نکھار پیدا کر لیتا ہے، یا اس کی ان خوبیوں میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ تا ہم انسان کو کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ان اخلاق وصفات کی ضرورت ہے جو پختگی اور کمال میں اپنی بلند ترین سطح پر ہوں، اور ایسی صفات کو صفات الرجولۃ کہا جاتا ہے۔یعنی مردانگی کی صفات۔
مردانگی کی صفات کا مطلب مردانہ صفات نہیں، بلکہ اس سے مراد وہ اخلاق حسنہ ہیں جو اپنے کمال اور نقطہ عروج کو پہنچے ہوئے ہوں۔ ایسی صفات کے حاملین کو ہی مرد کہا جاتا ہے، مرد کے لیے عربی میں رجل کا لفظ بولا جاتا ہے اس کی جمع ہے رجال۔ اور رجل یعنی مرد جنس کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی۔
اگر صفات کے لحاظ سے مرد مراد ہو تو اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
جنس کے اعتبار سے تو مرد دنیا میں بہت ہیں مگر صفات کے لحاظ سے خال خال ہی نظر آئیں گے اور حقیقی معنوں میں تو شاید اس وقت پوری مسلم دنیا میں ایسے جوانمردانگلیوں پر گئے جاسکتے ہوں۔
آج امت مسلمہ کو رجال کی ضرورت ہے، مگر قحط الرجال ہے، رجال صفات کے اعتبار سے تو کیا نظر آئیں گے، شکل وصورت کے لحاظ سے بھی بہت کم نظر آتے ہیں۔
صفات کے اعتبار سے مردوں اور جنس کے اعتبار سے مردوں میں فرق کا تناسب کچھ ایسے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّمَا النَّاسُ كَاِبِل مِائَةٍ لا يَجِدُ الرَّجُلَ فِيهَا رَاحِلَةٌ)) (مسلم: 2547، ترمذی: 2872)
’’لوگ ایسے ہیں جیسے سو اونٹ، آدمی ان میں ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا۔‘‘
تو جیسے سو اونٹوں میں کوئی ایک بھی سواری کے قابل نہیں ملتا ایسے ہی جنس کے اعتبار سے سومردوں میں کوئی ایک بھی صفات کے اعتبار سے مرد نظر نہیں آتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم امت مسلمہ ایک ایسی امت ہیں کہ جو ایک ایسی صنعت کاری اور ہنر مندی میں یکتا اور منفرد ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے، اس میں کوئی قوم ہماری ہم چشم اور ہم سر نہیں ہے، اور وہ ہے صنعت رجال، حرفت مردم خیزی ۔ انسان کو مرد بناتا، اس میں مردانگی کی صفات پیدا کرنا اس کی ایسی تربیت کرنا کہ جس سے اس پر لفظ رجل کا اطلاق ہو سکتا ہو، یہ
صرف امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی تفصیل میں جائیں کہ اسلام میں مردم خیزی کسی طرح ہوتی ہے اور صنعت رجال کے اصول وضوابط کیا ہیں، یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام میں ہے اور مدد لفظ رجل کا اطلاق کسی پر ہوتا ہے، اور معاشرے میں مرد کس کو سمجھا جاتا ہے۔
قرآن وحدیث میں لفظ رجل جہاں کہیں استعمال ہوا ہے، اس میں سے اکثر و بیشتر ایسی شخصیت کے لیے استعمال ہوا ہے جو صفات حسنہ کی حامل ہو، جو اللہ تعالی کی پسندیدہ اور محبوب ہیں۔
جیسا کہ فرمایا
﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ۝﴾ (التوبة:108)
’’جو مسجد اول روز سے تقوی پر قائم کی گئی تھی، وہ اس کے لیے زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں، اور اللہ تعالی کو پاکیزگی اختیار کرنے والے محبوب ہیں۔‘‘
یعنی طہارت بدنی کا اہتمام کرنے والوں کے لیے رجال کا لفظ استعمال کیا گیا۔
اسی طرح ایک جگہ فرمایا:
﴿ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ۝﴾(النور:36)
’’ان گھروں میں کہ جن کے ادب و احترام کا، اور اللہ تعالی کا نام وہاں لیے جانے کا حکم ہے، وہاں صبح و شام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔‘‘
﴿ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ۝﴾ (النور:37)
’’وہاں ایسے لوگ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے، نماز قائم کرنے سے اور زکاۃ ادا کرنے سے ناقل نہیں کرتی، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘
یہاں اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کو رجال اور مرد کیا گیا ہے جنہیں تجارت اور کاروبار دنیا نماز، زکاۃ اور ذکر واذکار سے نہیں روکتی، اس میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اور ایک جگہ مردوں کی صفات یوں بیان فرمائیں، فرمایا:
﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ۖؗ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ۝۲۳﴾ (الاحزاب:23)
’’مومنوں میں وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے جو عبد اللہ تعالی سے کیسے تھے انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض موقع کے منتظر ہیں، اور انہوں اپنے عزم وارادے اور عہد و میثاق میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق دل سے جہاد میں شریک ہونے کا عہد اور عزم مصمم کر رکھا تھا، پھر وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر اپنا کیا ہوا عہد پورا کر گئے، اور جنہیں شہادت نصیب نہ ہوئی وہ بھی منتظر ہیں اور اپنے اسی عہد پر قائم ہیں۔ ان آیات کا شان نزول وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ہیں جنہیں جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکتے پر بہت افسوس ہوا، اور انہوں نے عہد کیا کہ اگر اب کوئی موقع ملا تو وو اپنی جانیں پیش کریں گے۔ بالخصوص حضرت انس بن نضر بنی اللہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے، تو فرمانے لگے: ((لَئِنْ أَرَانِي اللهُ تَعَالَى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَشْهَدًا فِيمَا بَعْدُ، لَيرِيَنَّ اللهُ مَا أَصْنَعُ))
’’اگر اللہ تعالی نے مجھے آپ سے کام کے ساتھ کسی اور معرکے میں شریک ہونے کا موقع عطا فر ما یا تو اللہ تعالی دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔‘‘
((فَارَاهُ اللهُ يَوْمَ أَحَدٍ، فَأَوْفَى اللهَ مَا وَعَدَهُ))(مسند احمد، ج:3، ص:194 ، رقم:13038)
پھر اللہ تعالی نے احد کے معرکے میں انہیں موقع عطا فرمایا، تو انہوں نے اللہ تعالی سے کیا ہوا وعدہ سچا کر دکھایا اور شہید ہو گئے ، ان کے جسموں پر تیروں تلواروں اور نیزوں کے80 سے زیادہ زخم لگے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پورےسے پہچانا۔
تو یہاں شجاعت اور بہادری اور عہد و میثاق کی پابندی اور وفاداری مردانگی کی صفات بتلائیں۔
اسی طرح احادیث میں بھی جوانمردی اور مردانگی کی صفات کا ذکر ہے، جیسا کہ وہ قصہ مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: کوئی خواہش کرو۔
((فَقَالَ أَحَدُهُمْ أَتَمَنَّى لَوْ أَنَّ هٰذِهِ الدَّارَ مَمْلُوةٌ ذَهَبًا أَنْفِقُهُ فِي سبيل الله))
’’ان میں سے ایک نے کہا: میری تمنا ہے کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہو تو میں وہ سارا سونا اللہ کی راہ میں خرچ کردوں ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ تَمَنَّوْا))
’’پھر فرمایا: اور تمنا کرو۔‘‘
((فَقَالَ رَجُلٌ: أَتَمَنَّى لَوْ أَنَّهَا مَمْلُوءَةً لُؤْلُوا وَزَبرَجَدًا وَجَوْهَرًا أَنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَتَصَدَّقُ))
’’ایک آدمی نے کہا: میری خواہش ہے اگر یہ گھر ہیرے، موتی جواہرات سے بھرا ہو تو میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں اور صدقہ کردوں ۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ تَمَنَّوْا))
’’پھر فرمایا: اور تمنا کرو۔‘‘
((فَقَالُوا: مَا نَدْرِي مَا تَقُولُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ))
’’انھوں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! ہم نہیں جانتے (کہ اب ہم کیا تمنا کریں)‘‘
((فَقَالَ عُمَرُ: أَتَمَنَّى لَوْ أَنَّ هَذِهِ الدَّارَ مَمْلُونَةٌ رِجَالًا مِثْلَ أَبِي عُبَيدَةَ بنِ الجَرَّاح، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَالِمٌ مَولٰى أَبِي حُذَيْفَةَ فَاَسْتَعِينُ بهِمْ عَلَى إِعْلَاءِ كَلِمَةِ اللهِ))(مستدرك حاكم، ج:3، ص:252، رقم:5005)
’’پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میری تمنا ہے کہ یہ گھر ابوعبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل اور سالم مولی ابی حذیفہ جیسے لوگوں سے بھرا ہو تو میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ان کی مددلوں۔‘‘
تو اس واقع میں جہاں ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی فکر کی بلندی، ان کے شوق اور جذبے اور مردانگی کی صفات کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب اس دور میں رجال کی اس قدر ضرورت تھی تو آج اس دور میں کہ جہاں کوئی ایک بھی ایسا مرد نظر نہیں آتا کتنی اشد ضرورت ہو سکتی ہے۔
یہ تو تھیں قرآن و حدیث کی روشنی میں مردانگی کی چند صفات، جبکہ اس کے برعکس مردانگی سے مراد جنس مرد سمجھا جاتا ہے، اور بالخصوص وہ لوگ جنہوں نے جسموں کو خوب بتا ستوار رکھا ہوتا ہے۔ سینہ تنا ہوا اور مسلز پھولے ہوئے ہوتے ہیں، ہر قسم کی دینی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہیں، جو روشن خیال اور وسیع الظرف ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ آج قرآن وحدیث کے بتلائے ہوئے جواں مرد کہیں نظر نہیں آتے۔
سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے مردم خیزی کا کام بند کر دیا ہے، مسلمان مائیں ایماندار، بہادر، باوفا، باکردار غیرت مند، سر فروش، اور جاں نثارہ دین کی محبت سے سرشار اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے والے جوانمرد پیدا کرنے میں پانچ ہو چکی ہیں۔ جی ہاں مردم خیزی کا کام صرف اور صرف عورت کی ذمہ داری ہے اور صرف اور صرف وہی یہ کام کر سکتی ہے، اللہ تعالی نے عورت کو اس کام کے لیے خصوصی خوبیاں اور صلاحیتیں بخشی ہیں۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ کیجیے، بچے کی تربیت کے لیے جس صبر و تحمل اور پرداشت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مرد میں موجود ہی نہیں ہے۔ مثلا: بچوں کی شور شرابہ کرنے، ہلا گلا ، اچھل کود، رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کی جو فطری عادت ہوتی ہے، اسے برداشت کرنے کی صلاحیت صرف عورت میں ہوتی ہے، مرد میں وہ خوبی اور صلاحیت نہیں ہوتی ۔ مرد بچے کی پرورش نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں وہ قوت برداشت نہیں ہے۔ مثلا آدمی گھر میں داخل ہوتا ہے، دیکھتا ہے کہ بچہ رو رہا ہے، تنگ کر رہا ہے، ضد کر رہا اور محض ضد کر رہا ہے، اسے کھانے کو دیں چپ نہیں ہوتا، پینے کو دیں چپ نہیں ہوتا ، اسے گود میں اٹھا ئیں چپ نہیں ہوتا، آدمی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا، بالآخر تنگ آ کر باہر چلا جاتا ہے یا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے، اور الٹا حکم کرتا ہے کہ خبردار جو اس کی آواز میرے کانوں تک آئی۔
مگر عورت یہ ساری تکلیف بڑے تحمل سے برداشت کرتی ہے اور بچہ تو بسا اوقات سارا سارا دن اسی طرح جنگ کرتا رہتا ہے۔ اس لیے عورت کے بغیر کوئی شخص یہ ذمہ داری نبھا ہی نہیں سکتا۔ اور عورت اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکی ہے۔ عورت اپنی اس ذمہ داری کو جو کہ مرد کی ذمہ داریوں سے کہیں بڑی ذمہ داری ہے چھوڑ چھاڑ کر مرد کے شانہ بشانہ چلنے کے شوق میں باہر نکل آئی ہے، کاروبار اور سیاست میں آگئی ہے، سٹیجوں پر ناچنے گانے اور نعرے لگانے میں مصروف ہوگئی ہے، مظاہرے کرنے اور ٹاک شوز کرنے سے اسے فرصت نہیں ہے، تو بتلائیے بچوں کی تربیت کون کرے گا اور قرآن وحدیث کے مطلوب رجال کہاں سے آئیں گے۔
تربیت اولاد اسلام کے سب سے اہم اور مضبوط ترین مورچوں میں سے ایک مورچہ ہے، جب وہ مورچہ خالی ہوگا، تو کیا دشمن وہاں سے حملہ آور نہ ہو گا؟ بلکہ دشمن نے پہلے وہ مورچه خالی کروایا، آزادی نسواں کا جھانسہ دے کر مردوں سے برابری کا نعرہ دے کر، اور ان کے جھوٹے ہمدرد اور خیر خواہ بن کر اسے گھر سے نکالا، سیاسی سٹیجوں، نائٹ کلبوں اور اشتہارات کی زینت بنا دیا۔ نتیجتًا آج ہماری نوجوان نسل ناچنے گانے کی رسیا اور فلموں اور کھیلوں کی دیوانہ بن گئی ہے۔ اور کسی ایک طبقے کی بات نہیں مسلم معاشرے کے تمام طبقات میں تباہی مچا دی ہے اور ستیا ناس کر دیا ہے۔
آپ انداز کریں جو لوگ معاشرے کا پڑھا لکھا، اور ہمدرد اور خیر خواہ طبقہ سمجھا جاتا ہے، اس قدر خود غرض اور بے حس ہو گیا ہے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے وہ ایسے مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے مریض تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اور یہی حال دوسرے طبقات کا بھی ہے، ہمارے سیاسی لیڈران کو ہی دیکھ لیجیے، جو قوم کے رہبر و رہنما کہلاتے ہیں، آج پوری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جسے صلاح الدین ایوبی سے کوئی ادنی سی نسبت بھی ہو، وہ جہاں بہادر اور جرات مند تھے وہ وہاں ولی اللہ بھی تھے۔ مگر آج ہمارے لیڈران کا یہ حال ہے کہ ان پر بیسیوں بدعنوانیوں کے مقدمات قائم ہیں۔ بلکہ بداخلاقیوں اور بدکرداریوں کے نہ صرف مقدمات ہیں بلکہ ان کی بدکاریاں عدالتوں میں ثابت بھی ہو چکی ہیں مگر ہماری قوم اتنی بے حس اور دین بے زار ہو چکی ہے کہ انہیں اصرار ہے کہ ہمیں ایسے ہی لوگ چاہئیں ۔ اندازہ کریں، آج مسلمان قوم کی دینی اخلاقی اور دینی پستی کا یہ عالم ہے۔
بچوں کی تربیت انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، بالخصوص مسلمان قوم کا، کیونکہ اسلام میں اس تربیت پر ہی سارے دین کی بنیاد ہے، اسے سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ پوری کائنات میں، تمام مخلوقات میں ، صرف انسان کا بچپن سب سے لمبا بچپن ہے۔
مرغی کا بچہ45 دن کے بعد کھانے کے قابل ہو جاتا ہے، جبکہ انسان کا بچپن کم و بیش پندرہ سال پر محیط ہے۔ یعنی تقریبا آدمی کی اوسط عمر کا ایک چوتھائی حصہ۔
اور آپ جانتے ہیں کہ عمارت جتنی اونچی بنانی ہو اسی قدر اس کی بنیادیں گہری اور مضبوط بنائی جاتی ہیں۔ اور انسان کو چونکہ دین کی تبلیغ کے لیے تیار کیا جاتا ہوتا ہے، جو کہ سب سے بڑا اور سب سے مشکل کام ہے، اس کی مثالوں کی اس وقت گنجائش نہیں۔
یہ تربیت کس قدر اہم ہے، اس واقعے سے اندازہ لگا ئیں۔ کہتے ہیں کہ فرانسیسی استعماری لشکر جب الجزائر میں داخل ہوئے، تو انہیں وہاں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ بہت حیران ہوئے، سوچنے لگے کہ کسی طرح اس قوم پر قابو پایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک سوشیالوجسٹ، سماجی علوم کے ماہر استاد سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا کریں۔ تو وہ کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گیا، اور اس نے لوگوں میں گھل مل کر جزائری معاشرے کے بارے میں معلومات لیں اور واپس آکر کہا: کہ آپ کے مسئلے کا سبب عورت ہے جزائری عورت۔ انہوں نے کہا، ہم نے آپ سے یہ نہیں پوچھا کہ اس کا سبب عورت ہے یا مرد، بلکہ حل پوچھا ہے۔ تو اس نے کہا: تمہارے مشن کی راہ میں رکاوٹ عورت ہے اس لیے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے کے دور سے اسلام کی محبت اور اس پر جان نچھاور کر دینا سکھاتی ہے۔ لہٰذا اگر تم غالب آنا چاہتے ہو تو عورت کی سوچ بدل دو، اسے گھر سے نکال کر بازاروں اور سٹیجوں پر لے آؤ۔ اسے آزادی نسواں جیسے خوبصورت نعروں سے بیوقوف بناؤ۔ اسے مرد کی برابری کا جھوٹا شعور دلاؤ۔ غرضیکہ عورت کو اس کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دو اور مرد وعورت میں اختلاف پیدا کر دو۔
اور ہم دیکھتے ہیں کہ دشمنان اسلام اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہمیں اگر اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار بحال کرتا ہے، اور ذلت و رسوائی سے نکلتا ہے تو وہی طریقہ اپنانا ہوگا جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو پستی اور ذلت و رسوائی سے نکالنے کے لیےتجویز فرمایا، اور وہ یہ تھا کہ بالکل ابتدا سے اس کے لیے کام شروع کیا جائے ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۝۴
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ۝۵
وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ۝۶
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوْسٰۤی اَنْ اَرْضِعِیْهِ ۚ﴾ (القصص:4۔7)
’’ بے شک فرعون نے زمین میں سرخی کی اور اس نے اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ وہ ان میں سے ایک گروہ کو نہایت کمزور کر رہا تھا ان کے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا بلا شبہ وہ فساد کرنے والوں سے تھا۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں نہایت کمزور کر دیے گئے ہیں اور ہم انھیں پیشوا بنا ئیں اور ہم انھیں وارث بنائیں۔ اور زمین میں انھیں اقتدار دیں اور فرعون اور ہامان کو اور ان دونوں کے لشکروں کو ان میں سے وہ چیز دکھا ئیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے۔‘‘
چنانچہ ہم نے موسی علیہ السلام کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلا ۔ معنی یہ کہ پستی اور ذلت و رسوائی کی حالت سے نکلنے کے لیے ہمیں بالکل ابتدا سے اور پورے منصوبے کے ساتھ کام کرتا ہوگا، اور تربیت اور تیاری کے تمام مراحل سے گزرنا ہوگا۔
……………..