مرثیه خوانی

ابتدائے محرم سے مرثیہ خوانی شروع ہوتی ہے جگہ جگہ مجلسیں اور محفلیں قائم ہوتی ہیں ان میں حضرت حسین رضي الله تعالي عنه پر اظہار رنج کیا جاتا ہے حضرت معاویہ رضي الله تعالي عنه اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی ہجو و تحقیر بلکہ سب و شتم وغیر ہ کیا جاتا ہے بعض کچھ ملا اور درویش گھروں میں وعظ و مرثیہ و جنگ نامہ وغیرہ پڑھتے ہیں مرد اور عورتیں ان کے لحاظ قصہ کو سن کر مشتعل ہوتے ہیں ۔ اس فتنہ کے خوف سے رسول اللہ سل تنظیم نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابن ابی اوفی سے مروی ہے کہ:
(نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَرَاثِي).[1]
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اور بعض لوگ ان مرثیوں کو بڑے سرد اور راگ سے گاتے ہیں گانے کی نسبت آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ گانا بجانا انسان کے دل میں نفاق (بے ایمانی) کو اس طرح اگاتا ہے جیسے پانی کھیتی کو۔[2]
اور ایسے شرکیہ و کفریہ مبالغہ اور جھوٹ آمیز اشعار کو یاد کرنے اور پڑھنے کی نسبت رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ اور کج لہو سے بھرے یہ اس کے واسطے ان خلاف شریعت اشعار سے بہترہے۔[3]
اس مرثیہ میں بعض صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو گالیاں دی جاتی ہیں اور گستاخانہ الفاظ سے یاد کرتے ہیں اس کی بابت آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:
(لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي)۔ [4]
’’میرے صحابیوں کو گالی مت دینا‘‘
اسی بناء پر علامہ نووی شارح مسلم تحریر فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو گالی دینا حرام ہے بلکہ بعض بزرگوں کے نزدیک صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو گالی دینے والا کافر واجب القتل ہے۔
علامہ غزالی فرماتے ہیں کہ واعظ ہو یا کوئی اور ہو اس کے لئے حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے واقعات کا بیان کرنا حرام ہے اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن ماجه: كتاب الجنائز، باب ما جاء في البكاء على الميت رقم الحديث: 1592.
[2] شعب الإيمان:279/4، رقم الحديث 5100.
[3] مسلم: 240/2، كتاب الشعر باب في انشاد الشعر رقم الحديث 5793.
[4] بخاری:516/1 كتاب المناقب، باب قول النبيﷺ لو كنت متخذا خليلا …. رقم الحديث: 3673.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو باہمی جھگڑے و اختلافات ہوئے ہیں ان کو بھی بیان نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ باتیں صحابہ محال سے کینہ پیدا کرتی ہیں حالانکہ صحابہ کرام عمار یہ دین کے علماء میں ائمہ دین نے دین ان ہی سے سیکھا ہے اور ہم نے ان ہی ائمہ سے دین حاصل کیا ہے پس صحا بہ تمام پر طعن کرنے والا در اصل اپنے ہی مذہب پر طعن کرنے والا ہے ۔ (احیاء العلوم)
اور علامہ ابن حجر مکی ہے نے بھی الصواعق المحرقہ میں مرثیہ خوانی کی بہت سخت تردید فرمائی ہے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ان محفلوں اور مجلسوں میں زیارت و گریہ وزاری کی نیت سے بھی جانا درست نہیں ہے کیونکہ وہاں کوئی زیارت نہیں ہوتی جس کے لئے آدمی جائے اور لکڑیاں تعزیئے جو خود بنائے ہوئے ہوتے ہیں زیارت کے قابل نہیں بلکہ پھینک دینے کے لائق ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص تم میں سے کوئی بری بات دیکھے تو اس کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں سے اس کو مٹا دے یہ بھی نہ کر سکے تو اپنی زبان سے ان کی برائی بیان کرے یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا جانے یہ سب سے ادنی درجہ ایمان کا ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[1]
اور تعزیہ داروں کی مجلس میں جا کر مرثیہ اور کتاب سننا دو حال سے خالی نہیں اگر اس مرثیہ اور کتاب میں واقعی اور سچے حالات نہ ہوں بلکہ جھوٹ اور افتراء ہو اور بزرگوں کا ذکر تحقیر کے ساتھ کیا جاتا ہو تو ایسے مریے اور کتاب کا سننا بلکہ ایسی مجلسوں میں جانا حرام ہے۔ حدیث میں جو مرثیوں کے سننے اور پڑھنے کی ممانعت آئی ہے وہ اسی قسم کے مرثیوں کے پڑھنے اور سننے سے منع فرمایا ہے اس کو ابن ماجہ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور اگر اس مرثیہ اور کتاب کے سننے میں فی نفسہ کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ ہئیت اجتماعیہ جیسے کہ بدعتی کرتے ہیں ہرگز نہ کرنا چاہئے ورنہ بدعتی لوگوں کے مشابہ ہو جائیں گے اور ان کی مشابہت سے بچنا ضروری ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:
(مَنْ تَشَبَةٌ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ)
’’جو شخص کسی قسم سے بالکل ہی مشابہ ہو جائے تو وہ ان ہی میں سے ہے۔‘‘
اور یہ بھی حدیث میں وارد ہے:
(مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ وَمَنْ رَضِي عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: 50/1، کتاب الإيمان، باب كون النهي عن المنكر الحديث:177.
[2] مسند احمد: 50/2، و ابو داود:78/4، کتاب اللباس باب في لبس الشهرة رقم الحديث 4023.
[3] مسند ابی یعلی: بحواله نصب الرايه:346/4.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو شخص کسی قوم کے مجمع کو بڑھائے وہ اسی میں سے ہوگا اور کسی قوم کے کام کو جو پسند کرے وہ اس کام کرنے والے کا شریک ہوگا (فتاوی عزیز یہ جلد اول ص ۷۱ ۷۲) اور مرثیہ پڑھ کر اجرت لینا
بھی حرام ہے۔‘‘ (دیکھو فتاوی مذکور ص:71)
فاتحہ ونذرو نیا ز لغیر الله
بعض لوگ نذر مانتے ہیں کہ اگر ہم کو اللہ نے بچہ دیا تو عاشوراء کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پر آبخورے اور مٹی کی پیالیاں شربت اور میٹھے چاولوں وغیرہ سے بھر کر تقسیم کریں گے اور تعزیہ کے سامنے لے جا کر فاتحہ دلائیں گے یہ سب کام ناجائز بلکہ حرام میں اللہ تعالی فرماتا ہے:۔
﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيِّتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾ (البقرة: 173)
’’تمہارے لئے حرام کیا گیا مردہ (جانور) اور خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘
یہ ظاہر بات ہے کہ ان کھانوں اور پینے کی چیزوں میں حضرت حسین (غیر اللہ) کا نام لیا جاتا ہے لہٰذا ایسا کھانا کھانا اور شربت وغیرہ پینا سب حرام ہے اور ایسی نذر بھی نہیں ماننی چاہئے اگر کوئی بے وقوفی سے ایسی نذرمان لئے تو وہ اس شرک سے توبہ کرے اور اس نذر کو ہرگز ہرگز پورا نہ کرے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
(لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ)[1]
’’اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں نذر کو پورا مت کرو۔“
جس کھانے و پینے پر غیر اللہ کا نام لیا جائے اس کا کھانا اور سور کا کھانا برابر ہے بلکہ میرے نزدیک تو سور سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس کھانے میں تعزیہ کے سامنے لے جانے سے یا غیر اللہ کا نام لینے سے نجاست معنوی پیدا ہو جاتی ہے یعنی شرک حلول کر آتا ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی یہ فرماتے ہیں: یعنی تعزیہ کے سامنے فاتحہ درود پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ وہاں نجاست معنوی ہوتی ہے اور فاتحہ و درود اس جگہ پڑھا جاتا ہے جو نجاست ظاہری و باطنی سے پاک وصاف ہو اسی وجہ سے جو شخص قرآن مجید کو پاخانہ اور ناپاک جگہ پر پڑھے تو وہ قابل علامت اور مطعون و ملعون ہو جاتا ہے اسی طرح جہاں نجاست معنوی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: 45/2 كتاب النذر باب لا وفاء النذر في معصية الله …. رقم الحديث: 4245.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( جیسے تعزیہ وقبر وغیرہ) اور اس کا دور کرنا ضروری ہو وہاں پڑھنے والا قابل ملامت مطعون و ملعون ہوگا کیونکہ بے محل ہے (فتاوی عزیز یہ جلد اول ص 72)
اس کھانے کو کھانا بھی حرام ہے کیونکہ وہ بنام غیر اللہ ہے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة الله عليہ فرماتے ہیں کہ اس کھانے کو تعزیہ کے پاس لے جانے کی اور اس جگہ بلکہ قبروں کے سامنے رکھنے کی وجہ سے کفار اور بت پرستوں کی مشابہت ہوتی ہے لہٰذا یہ مکروہ تحریمی کر دیتا ہے ۔ (فتاوی عزیزیہ )
معلوم ہوا کہ تعزیہ کے سامنے کا کھانا اور شربت وغیرہ بنام غیراللہ کا پینا حرام ہے۔
شربت و سبیل به نیاز حسین رضی اللہ تعالی عنہ
عشرہ محرم میں لوگ بہت بھی ہو جاتے ہیں کہیں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور ان کو قسم قسم کے سرخ و سبز کپڑوں اور کاغذوں و جھاڑ فانوس سے سجایا جاتا ہے اور ساقی صاحب کے بیٹھنے کے لئے اچھا فرش اور عمدہ قالین بچھایا جاتا ہے اس کے چاروں طرف حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کے آبخورے قطار و قطار رکھے ہوتے ہیں سامنے اور دائیں بائیں جانب ملکوں میں ٹھنڈا شر بت رکھا ہوا ہوتا ہے خوب سریلی صدائیں لگا کر اور امام حسین کا نام لے کر خوب مزے سے پیتے اور پلاتے ہیں ۔
آہ۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ تو کربلا کے سنسان میدان میں تین دن کی بھوک پیاس کی حالت میں شہید ہوئے۔ قیامت کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ فرمائیں گے کیوں تم محرم میری تو ہین کے لئے مناتے تھے یا تعظیم کے لئے؟ میں نے تو دسویں محرم بھوک و پیاس کی شدت میں گزاری اور تم میرا نام لے لے کر اس روز خوب مزے کے منوں کھانے پکاتے اور کھاتے رہے اور خوب ٹھنڈے ٹھنڈے شربت پیتے اور پلاتے رہے تو میں نے تو سارا دن خدا کی یاد میں گزارا اور تم اس روز سارا وقت باجے اور جلوس کے اہتمام میں صرف کرتے رہے نفلی نمازیں تو ایک طرف رہیں فرض نماز تک سے تم غافل رہے اور پھر دعوی ہے کہ ہم حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے محب ہیں ۔ كَلَّا وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لكَاذِبُونَ۔
میرے محب تو تم اس وقت ہوتے کہ میری روش پر چلتے میری طرح تم بھی راہ خدا میں شہید ہوتے کیا میں نے تم کو ان حرکات ناشائستہ اور ان خرافات کے کرنے کا حکم دیا تھا؟ اور تم نے میرے نام کا تعزیہ کیوں بنایا اور میرے نام کی سبیلیں کیوں لگائیں؟ کیا قرآن مجید میں ﴿وَمَا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ بِهِ﴾ (البقرۃ :173) نہیں پڑھا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز کے اوپر غیر اللہ کا نام لیا جائے اس کا کھانا پینا حرام ہے تم نے حرام کھایا کھلایا اور خدا کے ساتھ غیروں کو شریک بھی کیا لہذا تمہارا ٹھکانا وہی ہے جو مشرکوں کا ہے پس میرے بزرگو اور عزیز وا آپ کو اختیار ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے اس فیصلہ کو مانو یا ان تمام خرافات کو چھوڑ کر محب حسین رضی اللہ تعالی عنہ بن جاؤ۔ (بررسولان بلاغ باشد بس )
ڈھول تاشه نقاره
لطف یہ ہے کہ عشرہ محرم و ماتم وگریہ زاری کا دن کہا جاتا ہے مگر یہ ایسا ماتم ہے کہ مسرت و خوشی سے بھرا ہوا ہے کیونکہ اس میں کام وہی ہوتا ہے جو شادی و خوشی کی تقریب میں کیا جاتا ہے جیسے ڈھول و تاشے کا بجانا ناچنا کودنا کشتی اور اکھاڑہ کرنا گیت گانا اور آتش بازی کا چھوڑنا وغیرہ کیوں صاحب اگر یہ تعزیہ بقول آپ کے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہ مقدسہ کی نقل ہے اور فرضی کربلا میں لے جا کر ایسی نیت سے دفن کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا جنازہ ہے تو اس کے پیچھے پیچھے ڈھول تاشہ کیوں بجاتے جاتے ہیں خدانخواستہ اگر آپ کے گھر کوئی میت ہو جائے تو یقینًا آپ یہ ہرگز نہ کریں گے اس پر اگر کوئی اعتراض کرے کہ آپ اپنے جنازہ کے پیچھے باجہ بجاتے ہوئے کیوں نہیں جاتے تو آپ ہی جواب دیں گے کہ یہ ماتم و غم کا وقت ہے باجہ بجانا تو خوشی پر دلالت کرتا ہے یہ دونوں باتیں شادی و غمی کی ایک حالت میں کیونکر جمع ہو سکتی ہیں، پھر عشرہ محرم میں تعزیہ کی تقریب میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی وجہ علامہ ابن حجر کی الصواعق المحمرقه ص 12 میں تحریر فرماتے ہیں کہ
مسلمانوں میں ایک فرقہ ناصبیہ شیعہ ہے جسے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل سے بہت خوشی ہوئی تھی یہ لوگ اہل بیت کو دشمن جانتے تھے ان سے حسد کرتے تھے یہ ہمیشہ اس خیال میں رہتے کہ اہل بیت کو تکلیف پہنچے اس فرقہ کا پیشوا حجاج بن یوسف ثقفی بھی تھا جس کے بارے میں آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ:
(إِنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَابًا وَ مُبِيرًا) ’’قبیلہ ثقیف میں ایک ظالم اور مہلک ہوگا۔‘‘[1]
اہل علم کا اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حجاج بن یوسف ثقفی مراد ہے اس کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جن لوگوں کو اس نے (معرکہ جنگ میں نہیں) باندھ کر قتل کیا تھا ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہو گئی تھی۔ ان میں اکثر صحابہ کرام تھے ۔ شخص پچانوے ہجری میں چون برس عمر گزار کر مرا۔ ان دشمنان اہل بیت کو حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو ان کو بڑی خوشی ہوئی لوگوں کو خوشی منانے کا حکم دیا اور لوگوں سے موضوع حدیثیں بیان کرانی شروع کردیں مثلاً یہ حدیث کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال کو کھانے اور کپڑے کی وسعت کرے تو اس پر اللہ تعالی تمام سال فراخی کرتا ہے اور جو عاشوراء کی رات کو سرمہ لگا لے تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی:227/3 کتاب الفتن باب ما جاء في ثقيف كذاب و مبير رقم الحديث:2220.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام سال اس کی آنکھوں میں درد نہ ہوگا۔[1] اسی طرح یہ حدیث بھی بیان کی گئی کہ جو شخص عاشورا کے دن غسل کرے تو تمام سال بیمار نہیں ہوگا۔[2]
اس قسم کی موضوع حدیثیں بیان کر کے لوگوں کو اظہار خوشی کی ترغیب دینا دشمنان اور قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شیطانی حرکت ہے لیکن ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور نام ماتم وغم اور کام شادی و خوشی کا اور یہ تعزیہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نام کا ہے ہر سال بنا کے اس کی توہین کرتے ہیں جیسے اس زمانے میں کسی کی تو میں کرنی مقصود ہوتی ہے تو فرضی جنازہ بنا کر گشت کراتے ہیں، بہر حال باجہ بجانا وغیرہ یہ قاتلان حسین رضی اللہ تعالی عنہ (شیعہ) اور حجاج مبیر کے گروہ کی سنت ہے سنت نبوی ہرگز نہیں ہے کیونکہ آنحضرتﷺ ان تمام باجوں اور تمام خرافات کے مٹانے کے لئے دنیا میں مبعوث کئے گئے تھے آپ فرماتے ہیں:
(إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْحَقَ الْمَزَامِيرَ يَعْنِي الْبَرَابِطَ وَالْمَعَارِفَ)[3]
’’خدا نے مجھ کو ساری کائنات و مخلوق کے واسطے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمام باجوں ڈھول تاشے، نقارے، سارنگی وغیرہ کو مٹا دوں۔ اور قیامت (دنیا کی تباہی) کی علامتوں میں جو چیزیں آپ نے بیان فرمائی ہیں ان میں یہ بھی فرمایا ہے:
(وَاتَّخَذَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ) [4]
’’گھنٹی شیطان کا ساز ہے ۔‘‘
اور آپ جب باجے کی آواز سنتے تو کان میں انگلیاں ڈال دیتے۔ (مسند احمد، ابو داؤو و حسنہ الالبانی)
نہایت شرم کی بات ہے کہ جس چیز سے ہمارے نبیﷺ کو اتنی نفرت اور کراہت ہو کہ کانوں میں انگلیاں دے لیتے، آج کل اس کو معیار عبادت و طاعت مقرر کر لیا گیا ہے۔
(بریں عقل و دانش بباید گریست)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الضعفاء الكبير للعقيلي:65/4.
[2] شعب الايمان: 367/3 رقم الحديث 3797.
[3] مسند احمد: 257/5 و طبرانی کبیر: 197/8، رقم 7803، 7804.
[4] ترمذی: 224/3 کتاب الفتن، باب ماجاء في علامة حلول المسخ و الخسف رقم الحديث:2210.
————————
شان حسين رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت اور مقام اہل سنت کے ہاں بھی مسلم ہے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تو اسے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جگر گوشہ تھے آپ نجیب الطرفین اور محبوب خلائق ہیں تمام لوگ آپ سے اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے بے حد مانوس تھے رسول اللہ ﷺ ان دونوں صاحبزادوں کے ساتھ غایت درجے کی محبت رکھتے تھے کبھی بھی نماز میں آپ کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتے اور کبھی کبھی رسول اللہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دوش مبارک پر بٹھا لیتے آپ کے بچپن کا زمانہ اس خیر القرون میں نہایت آرام و راحت سے گزرا جب آپ سات آٹھ برس کے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو گیا بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابه کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ کے ساتھ ایسی محبت اور شفقت کی، جس کے یہ مستحق تھے۔ آپ کی ذات گرامی فضائل و اخلاق کا مجموع تھی ارباب سیر لکھتے ہیں:
(كَانَ الْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَثِيرَ الصَّلوةِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَالصَّدَقَةِ وَاَفْعَالِ الْخَيْرِ جَمِيْعَهَا.) (استيعاب و اسد الغابة)
’’یعنی حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ بڑے نمازی بڑے روزہ دار بڑے حج کرنے والے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔‘‘
عمومی اعتبار سے آپ کو خدا نے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی اسی طرح فیاضی سے آپ اس کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ (تہذیب الاسماء اللنووی ص:163)
ابن عسا کر لکھتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ خدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے۔ (ابن عساکر: ص:323، 324)
کوئی سائل کبھی آپ کے دروازے سے ناکام واپس نہ ہوتا تھا ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ کی گلیوں میں پھرتا پھراتا در دولت پر پہنچا اس وقت آپ نماز میں مشغول تھے سائل کی صداسن کر جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے سائل پر فقر وفاقہ کے آثار نظر آئے اسی وقت قنبر خادم کو آواز دی۔ قنبر حاضر ہوا آپ نے پوچھا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے قنبر نے جواب دیا آپ نے دو سو درہم اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لئے دیے تھے اور ابھی تقسیم نہیں کئے گئے۔ آپ نے فرمایا: ان کو لے آؤ اہل بیت سے زیادہ مستحق آ گیا ہے اس وقت دو سو درہم کی تھیلی منگوا کر سائل کے حوالے کر دی اور معذرت کی کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے اس لئے اس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکتے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب آپ کے پاس بصرہ سے آپ کا ذاتی مال آتا تھا تو آپ اس مجلس میں تقسیم کر دیتے تھے (ابن عساکر، ص: 312)
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
(هُمَا رَيْحَانَيَّ مِنَ الدُّنْيَا).[1]
’’یہ میرے دنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘
اور آپ نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا کہ خدایا! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور ان سے بھی محبت رکھ جو ان سے محبت کرے۔[2]
(الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ)[3]
’’حضرت حسن بھی اور اور حسین بھی ہیں جنت کے نوجوان مردوں کے سردار ہیں۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں ۔[4]
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور محبوب ہیں اور جس نے ان سے محبت رکھی اس نے خدا اور رسول سے محبت رکھی اور جس نے ان سے دشمنی رکھی اس نے خداور سول سے دشمنی رکھی ان کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے محبت کا مطلب یہی ہے کہ ان کی اتباع اور تابعداری کی جائے اور ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اہل بیت کی محبت عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر ہو آمین ۔
(رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُو تَسْلِيمًا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجِيدٌ)
(وَاخِرُ دَعْونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاری: 530/1 کتاب فضائل اصحاب النبيﷺ، باب مناقب الحسن و الحسين، رقم الحديث
3753.
[2] ترمذی: 339/4، كتاب المناقب ،باب مناقب ابی محمد حسن بن علی ….. رقم الحديث 3769.
[3]مسند احمد: 3/3 و ترمذی:339/4 كتاب المناقب باب المناقب الحسن حدیث: 3768.
[4] ترمذی: 342/4 كتاب المناقب باب (في نسخة أن الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة) حدیث: 3781.