مسائل نکاح (حصہ دوم)

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰی مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ ؕ﴾ (النور: 32]
گزشتہ خطبہ جمعہ میں چند اہم مسائل نکاح قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیے گئے تھے۔ اور آج کے خطبہ میں چند مزید مسائل نکاح پر بات چیت ہوگی:
پہلا مسئلہ:
شریعت اسلامیہ میں منگنی کی کیا حیثیت ہے اور منگنی کا طریقہ کیا ہے؟ منگنی کے لیے عربی زبان میں خطبہ کا لفظ بولا جاتا ہے اور قرآن وسنت میں بھی منگنی کے لیے یہی لفظ ’’خطبہ‘‘ بولا گیا ہے۔ جس کا معنی صرف پیغام نکاح ہے۔ یعنی رشتہ لینے کے پیغام کو خطبہ کہتے ہیں۔ اور جب عورت کا ولی رشتہ دینے پر آمادہ ہو جائے تو اس عورت کو مخطوبہ کہتے ہیں اور ہمارے عرف میں اسے منگیتر کہتے ہیں۔ منگنی کے حوالے سے رسم ورواج کے علاوہ ہمارے معاشرے میں تین قسم کی غلطیاں پائی جاتی ہیں:
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو میل ملاقات کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں جس کے نتائج اکثر خطرناک نکلتے ہیں، کھلی آمد و رفت، گپ شپ، خلوت اور لمبی چوڑی ٹیلی فون پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس کے نتیجے میں بسا اوقات نکاح سے پہلے ہی سب کچھ ہو جاتا ہے جو کہ خطرناک جرم ہے اور کھلی بے حیائی ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ وہ لڑکے کو منگیتر کے گھر جانے سے ہی روک دیتے ہیں خواہ منگیتر کا گھر اس کی خالہ، پھوپھی یا ماموں کا ہی گھر کیوں نہ ہو۔ یہ بھی مبالغہ ہے۔
تیسری غلطی یہ ہے کہ ہمارے ہاں منگنی ٹوٹنا بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے حالانکہ منگنی ٹوٹنا شرعاً کوئی عیب نہیں۔ لیکن آج کل جس کی ایک دو جگہ منگنی ٹوٹ جائے اسے کوئی رشتہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ جبکہ یہ درست نہیں۔
ہاں منگنی کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسی کی منگنی کے اوپر منگنی کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث میں ہے:
(لا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلٰى خِطْبَةِ أَخِيهِ) [صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب لا يخطب على خطبة أخيہ حتى ينكح أو يدع (5144) و احمد (462/2) والحميدي (1027)]
’’کوئی شخص اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے۔‘‘
لیکن آج کل اکثر جھوٹ سچ بول کر منگنیاں تڑوائی جاتی ہیں اور منگنی پر منگنی کر لی جاتی ہے جو کہ خطرناک گناہ ہے۔
دوسرا مسئلہ:
نکاح کی دعاؤں کا مسئلہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں دعاؤں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ دو مسلمان آپس میں ملیں تو دعا، ایک دوسرے کو الوداع کریں تو دعا، مریض کی عیادت کریں تو دعا، بھائی کو نئے کپڑوں میں ملبوس دیکھیں تو دعا اور کہیں آئینہ دیکھنے کی دعا، کہیں نیا چاند دیکھنے کی دعا، کہیں گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی دعا، کہیں سونے اور جاگنے کی دعا، کہیں صبح و شام کی دعا، کہیں مختلف پریشانیوں دکھوں، صدموں اور تکلیفوں کی دعا، دعائیں ہی دعائیں۔ دراصل دعا مؤمن کے لیے محفوظ قلعہ ہے۔ جہاں تمام ظاہری اسباب و وسائل اور ادویہ و معالجات ناکام ہو جائیں۔ وہاں دعا کام آتی ہے۔ اس لیے قرآن وحدیث میں شادی بیاہ کے حوالے سے بھی انتہائی جامع اور مفید دعائیں سکھلائی گئی ہیں۔
ایک انتہائی جامع قرآنی دعا:
سورۃ الفرقان میں ’’عباد الرحمن‘‘ کے حوالے سے یہ دعا ذ کر کی گئی ہے۔ جو نکاح کے تمام امور کے حوالے سے انتہائی جامع ہے:
﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۝۷۴﴾ (سورة الفرقان: 74)
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطاء فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔‘‘
کس قدر جامع دعا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ! ہمیں بیوی ایسی عطاء فرما جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، ہمیں اولاد ایسی عطاء فرما جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور دل کا سکون قرار اور نجات کا ذریعہ بنے اور ہمیں ایسی عمدہ سیرت اور کردار عطاء فرما کہ ہمیں دیکھ کر ہماری بیویاں اور ہماری اولادیں متقی و پرہیز گار بن جائیں۔ کتنی زبردست دعا ہے۔
لیکن آج لوگوں کو یہ دعائیں نصیب نہیں آج تو ہر وقت عشقیہ غزلیں گنگنائی جاتی ہیں اور آوارہ محبت پر چنی اشعار گائے جاتے ہیں۔ دعائیں کون پڑھتا ہے۔ اسی طرح کتب حدیث میں شادی کے سلسلے میں مختلف موقع پر مختلف دعائیں سکھلائی گئی ہیں۔
زوجین کی پہلی ملاقات:
جب شوہر بیوی کے پاس پہلی بار جائے تو سب سے پہلے اسے کوئی تحفہ پیش کرنے اسے ’’نِحْلَةُ الْخَلوة‘‘ ” کہتے ہیں۔ یہ اپنی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ پھر بیوی کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ إِلَى أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شرھا و شرما جبلتها عليه) [سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب في جامع النكاح (2160) و ابن ماجه (1918) و مسند ابی یعنی (308/2)]
’’یا اللہ! میں تجھ سے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور ہر اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس پر تو نے اسے پیدا کیا ہے اور میں اس کے شرسے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور ہر اس شرے جس پر تو نے اسے پیدا کیا ہے۔‘‘
غور کیجئے اس قدر جامع دعا ہے لیکن آج یہ دعا کس کو یاد ہے آج تو اوٹ پٹانگ حرکتیں عجیب و غریب شرارتیں اور شرمناک سلسلے لوگوں کو یاد ہیں دعائیں کہاں؟
مخصوص ازدواجی عمل کی دعا:
پھر جب مخصوص ازدواجی معاملہ کرنا چاہے تو اس سے پہلے یہ دعا پڑھے:
(بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ جَںِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا)
’’اللہ کے نام سے ابتداء کرتا ہوں۔ یا اللہ ہمیں بھی شیطان سے بچا اور تو جو (اولاد) ہمیں عطاء فرمائے اسے بھی شیطان سے بچا۔‘‘
اس دعا کی برکت یہ ہے کہ اگر اس عمل کے نتیجے میں کوئی اولاد (لڑکا یا لڑکی) میسر آئے تو اس پر شیطان مسلط نہیں ہو سکے گا۔[صحیح البخاري، كتاب الوضوء، باب التسمية على كل حال وعند الوقاع (141) ومسلم (1434)]
لیکن آج یہ دعائیں کہاں؟ آج ایک طرف فلم لگائی، ڈیک بجایا اور دوسری طرف (فلم کے شرمناک مناظر دیکھتے ہوئے گانے سنتے ہوئے) مجامعت شروع کردی…
پھر جو لوگ کسی نکاح کرنے والے سے ملاقات کریں تو اسے اس طرح دعا دیں:
(بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا وَعَلَيْكُمَا وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ)[سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب ما يقال للمتزوج (2130) و ابن ماجه (1905) والحاكم (183/2)]
’’اللہ تم دونوں کے لیے برکت پیدا فرمائے اور تم دونوں پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر اور بھلائی پر جمع فرمائے۔‘‘
یا ان الفاظ میں دعا دے:
(بَارَكَ اللهُ لَكَ) [الأذكار للنووى (ص / 349)]
’’اللہ آپ کو برکت عطاء فرمائے۔‘‘
اسی طرح جب کسی کے ہاں اس کی دعوت ولیمہ میں شرکت کرے تو کھانے کے بعد اس طرح دعا دے:
(اللَّهُمَّ بَارَكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ) [مسلم، كتاب الأشريد، باب استحباب وضع النوى خارج …. (2042).]
’’یا اللہ! تو نے انہیں جو کچھ عطاء فرمایا ہے اس میں ان کے لیے برکت پیدا فرما اور انہیں بخش دے اور ان پر رحم فرما۔‘‘
تیسرا مسئلہ:
نکاح کے حوالے سے ایک انتہائی اہم اور حساس مسئلہ بیان کرنے لگا ہوں آج اکثر زوجین میں یہ وبا عام ہو چکی ہے کہ اپنی خفیہ خلوت میں ہونے والے معاملات دوست احباب کے سامنے بیان کرتے ہیں جبکہ یہ انتہائی شرمناک فعل ہے۔
صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین مقام اس شخص کا ہے جو اپنی بیوی سے مباشرت کرتا ہے اور وہ اس کے ساتھ اس میں شریک ہوتی ہے پھر وہ اس کی پوشیدہ باتوں کو پھیلاتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب النكاح، باب تحريم إفشاء سر المرأة (1437) و ابوداود (4870) و الحمد (69/3)]
غور کیجئے! دین اسلام میں کسی قدر شرم و حیاء کی تربیت دی گئی ہے کہ میاں بیوی کا علی الاعلان باہمی ملاپ کرنا تو کجا باہمی ملاپ کی مخصوص باتیں بھی لوگوں کو بتلانا ممنوع اور حرام ہے۔
لیکن آج (کافر تو کافر ہیں) کئی مسلمان بھی شادی کے بعد سیر و سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں اور سیر گاہوں میں پارکوں میں اور دیگر تفریحی مقامات میں علی الاعلان بوس و کنار کرتے، بغل گیر ہوتے اور چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں جو کہ انتہائی بدترین گناہ ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جب شادی شدہ جوڑے کے لیے یہ انداز اختیار کرنا جائز نہیں کہ وہ برسر عام ملاعبت دل گئی اور بوس و کنار کریں تو دو آوارہ مرد و زن (جن کے ناجائز تعلقات ہیں) ان کے لیے یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے لیکن آج نام نہاد کلمہ کو حکمرانوں نے روشن خیالی کے نام پر بر سر عام ایسی حرکتیں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اللہ تعالٰی عوام و خواص اور حکام و رعایا کو ہدایت دے اور ہمارے معاشرے کو صحیح معنوں میں باحیاء باپردہ اور غیرتمند اسلامی معاشرہ بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔