مسائل زکوة

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴ یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ﴾ [التوبة:34 – 35]
دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں ایک رکن زکوۃ ادا کرتا ہے یوں تو زکوۃ کی اہمیت سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کریم میں متعدد مقامات پہ مختلف انداز میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۲۷۷﴾ [البقرة:277]
’’بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب تعالی کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گئے۔‘‘
اس میں زکوۃ ادا کرنے والوں کے لیے اجر و ثواب کی خوشخبری و بشارت ہے اور سورۂ آل عمران آیت نمبر 180 میں ہے:
﴿ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ [آل عمران: 180]
’’جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے۔ عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے۔ آسمانوں اور زمین کی وراثت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالی آگاہ ہے۔‘‘
اس میں زکوۃ نہ دینے والوں کے لیے سخت عذاب کی وعید اور دھمکی ہے کہ کسی طرح ان کے جمع کردہ مال کے ذریعے انہیں عذاب دیا جائے گا۔
اور سورۃ التوبہ آیت نمبر (5) میں ہے:
﴿ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [التوبة: 5]
’’ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور آیت نمبر (11) میں ہے:
﴿ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ [التوبة: 11]
’’اب بھی اگر یہ تو بہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ہم تو جاننے والوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص نماز اورزکوٰۃ کے بغیر مسلم معاشرے کی اسلامی اخوت میں شامل نہیں ہو سکتا، اور آیت نمبر 34،35 میں ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴
یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳﴾ [التوبۃ: 34،35]
’’اے ایمان والو! اکثر یہودی علماء اور عیسائی عابد لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اوراللہ کی راہ سے روک دیتےہیں۔ اورجولوگ سونے، چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی بیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
اور سورۃ المومنون آیت نمبر(4) میں ہے:
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ۝۴﴾ [المؤمنون: 4]
’’جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔‘‘
یعنی کامیاب و کامران ہونے والے مؤمنوں کی ایک خصلت اور نشانی یہ ہےکہ وہ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں۔ وہ زکٰوۃ دینے میں کوتاہی نہیں کرتے، بلکہ بڑی پابندی سے زکٰوۃ دیتے ہیں:
﴿ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ۝۴﴾ [لقمان:4]
’’جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی متقیوں کی نمایاں خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ ہے کہ وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں، غرضیکہ مؤمن، مسلم متقی اور جنتی بننے کے لیے زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات گرامی میں اس فریضے کی اہمیت مختلف طریقوں سے واضح فرمائی۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی جانب بھیجا۔ انہیں حکم دیا ’’(چونکہ) آپ ایسے لوگوں کے ہاں جا رہے ہیں جو اہل کتاب ہیں اس لیے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ صرف (ایک) اللہ معبود (برحق) ہے اور محمدﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اگر وہ اس بات کو تسلیم کر لیں تو انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ نے دن رات میں تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اس بات کو تسلیم کر لیں تو انہیں معلوم کرانا کہ اللہ نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو مسلمان مالداروں سے وصول کی جائے گی اور مسلمان فقیروں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کریں تو اپنے آپ کو ان کے نہایت عمدہ مال سے دور رکھنا نیز مظلوم کی آہ سے بچاؤ اختیار کرنا اس لیے کہ اس کی دعا کی قبولیت اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔‘‘[صحيح البخاري، الزكاة، باب أخذ الصدقة من الاغنياء (1496) ومسلم (19)]
اور صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ داد کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور زکوۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ سے بنائے جائیں گئے دوزخ کی آگ میں ان کو گرم کیا جائے گا پھر ان پتروں سے اس کے پہلوؤں اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ پچاس ہزار سال کے دن میں بندوں میں فیصلے ہونے تک جب بھی ان پتروں کو (اس کے بدن سے) دوزخ کی جانب پھیرا جائے گا ان کو اس (کے جسم) کی طرف تسلسل کے ساتھ) لوٹایا جائے گا۔‘‘[صحیح مسلم، الزكاة، باب اثم مانع الزكاة (987) و ابوداؤد (1158)]
آپ سے دریافت کیا گیا اے اللہ کے رسول! اونٹوں کا حکم کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’جو اونٹوں والا اونٹوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتا جب کہ اونٹوں کے بارے میں یہ حق بھی (مستحب) ہے کہ جس دن ان کو پانی پلانے کے لیے لے جایا جائے ان کا دودھ دھوکر (فقراء ومساکین میں) تقسیم کیا جائے تو جب قیامت کا دن ہوگا تو زکوۃ نہ دینے والے اونٹوں کے مالک کو (چہرے کے بل) اونٹوں کے پامال کرنے کے لیے چٹیل کھلے میدان میں گرا دیا جائے گا اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہوگا۔ چنانچہ اونٹ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں کے ساتھ کاٹیں گے۔ جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا تو پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل اس روز تک قائم رہے گا) جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور ہر شخص اپنے مقام کا ملاحظہ کرلے گا کہ وہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔‘‘
دریافت کیا گیا اے اللہ کے رسولﷺ گائے اور بکریوں کا کیا (حکم) ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’گائے، بکریوں کا جو مالک بھی ان کی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کو ان کے لیے چٹیل وسیع میدان میں (منہ کے بل) گرایا جائے گا جانوروں میں سے کوئی جانور غائب نہیں ہو گا ان میں خم دار سینگوں والا بغیر سینگوں والا اور ٹوٹے ہوئے سینگوں والا کوئی جانور نہ ہوگا۔ جانور اس کو سینگ ماریں گے اور کھروں کے ساتھ اسے پامال کریں گے۔ جب اس پر پہلا دستہ گزر جائے گا تو اس پر آخری دستہ (اس روز تک تسلسل کے ساتھ) گزرتا رہے گا۔ جس کی مدت پچاس ہزار سال ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا تو ہر شخص اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الزكاة، باب إثم مانع الزكاة (987) و ابوداؤد (1658) واحمد (162/2)]
اور صحیح البخاری میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کو اللہ نے مال عطا کیا (لیکن) اس نے زکوۃ ادانہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال زہر یلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا جس کی آنکھوں پر روسیاہ نقطے ہوں گے (اور) وہ اس کے گلے کا ہار ہو گا وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔[صحیح بخارى، الزكاة، باب اثم مانع الزكاة (1403) والنسائي (2484)]

پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ…..﴾ [آل عمران:180]
’’ وہ لوگ خیال نہ کریں جو بھل کرتے ہیں اس مال میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے کہ یہ (بخل) ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہ ان کے لیے بہت برا ہے انہیں قیامت کے دن بخل والے مال کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘
متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ وفات پا گئے اور آپ کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ اور جزیرہ العرب کے کچھ لوگ کافر ہو گئے تو عمر مرضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ آپ ان لوگوں سے (جنہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا) کیسے جنگ کر سکتے ہیں؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اقرار کریں کہ صرف اللہ وحدہ معبود برحق ہے پس جو شخص اقرار کرے گا کہ صرف الله وحده معبود برحق ہے تو اس نے مجھ سے اپنی جان اور اپنے مال کو محفوظ کر لیا البتہ اسلام کے حق کی وجہ سے (جان، مال بصورت قصاص وغیرہ محفوظ نہیں ہے) اور اس (کے پوشیدہ کاموں) کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘ (اس کے جواب میں) ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس شخص سے جنگ جاری رکھوں گا جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرے گا۔ اس لیے کہ زکوۃ بیت المال کا حق ہے (یعنی فرض ہے اللہ کی قسم! اگر لوگ مجھے بھیڑ کے سال سے کم عمر کے بچے کو بطور زکٰوۃ دینے سے روک لیں گے جس کو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے تو میں ان کے روکنے پر ان سے لڑائی کروں گا (یہ سن کر) عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اعتراف کیا۔ اللہ کی قسم! بس مجھے اطمینان حاصل ہو گیا کہ اللہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دل کو (ان کے ساتھ) لڑائی کرنے کے لیے (تذبذب سے) پاک کر دیا ہے چنانچہ مجھے بھی اس قتال کے برحق ہونے کی معرفت حاصل ہو گئی۔ [صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب وجوب الزكاة (1399) (1400) و مسلم (20) و ابوداؤد (1556)]
لیکن آج جس طرح مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت بے نماز ہے اسی طرح مسلمانوں کی اکثریت بے زکوة ہے۔ انتہائی تھوڑے لوگ ہیں جو زکوۃ دیتے ہیں جبکہ زکوۃ نہ دینے والا قرآن وسنت کی رو سے مسلمان ہی نہیں رہتا۔
اس لیے جس کے پاس مال و منال ہے اس پر فرض ہے کہ وہ پوری معلومات حاصل کرے کہ کتنے مال پر کتنی زکوۃ فرض ہوتی ہے۔ لہٰذا میں بالاختصار زکوۃ کا نصاب آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
سونے کی زکوة:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’(20) دینار میں نصف دینار زکو ۃ فرض ہے۔‘‘[سنن ابی داؤد، كتاب الزكاة، باب في زكوة السائمة، رقم: 1573]
اور یہ موجودہ حساب سے ساڑے سات تولے سونا بنتا ہے ساڑھے سات مالیت معلوم کر کے چالیسواں حصہ (یعنی سو میں سے اڑھائی روپے کے حساب کی سے) زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ ساڑھے سات تولے سے کم سونے پر زکٰوۃ نہیں۔
چاندی کی زکوة:
200 درہم میں سے پانچ درہم زکوۃ فرض ہے اور یہ تقریباً باون تولے چاندی بنتی ہے۔ جب آدمی کے پاس باون تولے چاندی ہو تو اس کا چالیسواں حصہ زکوۃ دینا فرض ہے۔ روپے پیسے اور ریال ڈالر وغیرہ کی زکوۃ بھی چاندی کے حساب سے ہی ادا کی جائے گی۔
زمینی پیداوار (پھلوں اور غلہ جات) کی زکوۃ:
اگر زمین بارانی ہو اس پر پانی وغیرہ کا خرچہ نہ آتا ہو تو دسواں حصہ زکوۃ فرض ہے اسے عشر کہتے ہیں۔ اور اگر زمین پہ پانی وغیرہ کا خرچہ آتا ہو تو بیسواں حصہ زکوۃ فرض ہے۔ اسے نصف العشر کہتے ہیں۔
سامان تجارت کی زکوة:
جو مال بھی تجارت کے لیے ہو (زمین، برتن، اشیاء خوردو نوش، ملبوسات اور سواریاں وغیرہ) ان کی زکوۃ بھی چاندی کے حساب سے ادا کی جائے گی۔
خصوصی تنبیہ:
یادرکھیے! وہ گھر یلو سامان جو ضرورت سے زائد ہو وہ سواریاں جو ضرورت سے زائد ہوں۔ غرضیکہ ہر وہ چیز جو ضرورت سے زائد پڑی ہو۔ زیر استعمال نہ ہو اس کی بھی زکوة واجب ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا پڑا ہوا مال ہی ہے۔
زکوۃ کسے دیں؟
زکوۃ کے مصارف اللہ رب العزت نے سورۃ التوبہ میں بیان فرمائے ہیں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ﴾ [التوبة:60]
اس آیت مبارکہ میں زکوۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں:
1۔ فقراء:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ذریعہ معاش بالکل نہ ہو اور ضروریات زندگی کے لیے وسائل نہ ہوں۔
2۔ مساكين:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ذریعہ معاش تو ہو لیکن وہ بالکل محدود ہو کہ اس سے بنیادی ضرورت پوری نہ ہو۔ ایک حدیث میں بھی مسکین کا تعارف کروایا گیا ہے کہ مسکین کون ہوتا ہے:
بخاری و مسلم میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’وہ شخص مسکین نہیں ہے جو لوگوں کے ہاں جاتا ہے (ان سے) اس کو ایک لقمہ دو تھے ایک کھجور دو کھجور میں ملتی ہیں البتہ وہ شخص مسکین ہے۔ جو (واقعی) غنی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب قول الله تعالى ولا يسألون الناس الحاقام (1476) و مسلم (1039)]
3۔ زکوۃ اکٹھی کرنے والے:
یعنی جو لوگ حکومت کی طرف سے زکوۃ اکٹھی کرنے پر مامور ہوں ان کی تنخواہیں اور وظائف مال زکوۃ میں سے ادا کرنا درست ہے۔
رسول اللہ ﷺ جن لوگوں کو ز کو اکٹھی کرنے کے لیے روانہ کرتے تھے انہیں معاوضہ دیا کرتے تھے ایک دفعہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زکوۃ جمع کرنے کے لیے بھیجا جب وہ واپس آئے تو انہیں معاوضہ دیا جناب عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: میں غنی ہوں
مجھے ضرورت نہیں ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!
(خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقُ بِهِ) [صحيح مسلم، كتاب الزكوة، باب إباحة الأخذ عن أعطى من غير مسأله ولا إشراف (1045) و ابوداؤد (1647) و بخاری (7163)]
’’اسے لے لو، اسے اپنا مال بناؤ یا (اگر ضرورت نہیں تو خود اپنی طرف سے) صدقہ کر دینا۔
4۔ مؤلفة القلوب:
اس میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں:
1۔ ایک دو کافر جو کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہوں۔
2۔ وہ نو مسلم افراد جن کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔
3۔ وہ افراد جن کو امداد دینے سے یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکیں گے۔ آج اس مصرف پر عمل کرنے والے لوگ بہت تھوڑے ہیں)۔
5۔ گردنیں آزاد کروانے کے لیے:
یعنی غلاموں کی آزادی کے لیے زکوۃ میں سے خرچ کرنا۔
6۔ غارمین:
اس سے مراد ایک تو وہ مقروض ہیں جو بنیادی ضروریات کی خاطر مقروض ہو گئے ہوں اور ادائیگی کے لیے رقم اور مال موجود نہ ہو دوسرے وہ ذمہ دار لوگ جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور وہ پھر اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پائے ۔ اور تیسرے وہ لوگ جو آفت زدہ ہیں، جن کی فصل باغ یا کاروبار کسی حادثے اور آفت کی وجہ سے یکبارگی تباہ ہوگئی۔
7۔ فی سبیل الله:
اس سے مراد جہاد ہے۔ یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہدین پر ز کواۃ خرچ کرنا جائز ہے خواہ مجاہدین مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ احادیث کی رو سے حج وعمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور بعض اہل علم کے نزدیک دعوت و تبلیغ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
8۔ مسافرین:
یعنی اگر کوئی مسافر سفر میں مستحق ہو گیا ہے تو چاہے وہ اپنے وطن اور گھر میں مالدار اور صاحب حیثیت ہو اس پر زکو و خرچ کرنا درست ہے۔
یہ آٹھ مصارف ہیں جہاں زکوۃ کا مال صرف کیا جا سکتا ہے دینی مدارس جہاں غریب اور مسافر طلباء پڑھتے ہیں وہ بھی آٹھویں مصرف میں شامل ہیں بلکہ سورۃ البقرۃ کی آیت 273 کے مطابق عام فقراء مساکین کی نسبت دینی تعلیم کے لیے وقف طلبہ زیادہ حق دار ہیں۔
تنبیہ:
شریعت اسلامیہ میں جہاں اصحاب نصاب لوگوں پر زکوۃ کو فرض قرار دیا گیا ہے وہاں ان لوگوں کی سخت مذمت کی گئی ہے جو ناحق مال زکوۃ مانگتے اور صرف مال بڑھانے کے لیے دست سوال دراز کرتے ہیں۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ میں وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی امام نے فرمایا: جس شخص نے لوگوں سے مال کا سوال اس لیے کیا کہ اس کا مال زیادہ ہو جائے تو ایسا شخص آگ کے انگاروں کا سوال کر رہا ہے۔
(فَيَسْتَقِلَّ أَو لِيَسْتَكْثِرْ) [صحیح البخاري، كتاب الزكاة، باب من سأل الناس تكثرا (1484) ومسلم (1040)]
’’اب اس کی مرضی ہے کہ انگارے تھوڑے اکٹھے کرے یا زیادہ۔‘‘
اور متفق علیہ روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر منی من کہتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا:
’’ایک شخص (باوجود غنی کے) لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔[صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب من سأل الناس تكثراً رقم (1474) و مسلم رقم (2398)]
پھر جو واقعہ سوال کرنے پر مجبور ہیں انہیں بھی یہ آداب سکھلائے کہ وہ سوال میں اصرار نہ کریں اور چھٹ کر نہ مانگیں چمٹ کر مانگنا نا جائز اور حرام ہے خواہ اپنے لیے ہو یا کسی ادارے اور جماعت کے لیے ہو۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’چمٹ کر سوال نہ کرو اللہ کی قسم! مجھ سے جب کوئی شخص چمٹ کر سوال کرتا ہے اور اس کے سوال کی وجہ سے میں اسے بہ کراہت کچھ دیتا ہوں تو میرے اس دینے میں کچھ برکت نہ ہوگی۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الزكاة باب النيهي عن المسألة رقم (2390)]
زکوۃ کے فوائد و منافع:
زکوۃ دینے سے زکوۃ دینے والے کا مال پاک ہو جاتا ہے ورنہ مال پلید رہتا ہے۔ زکوۃ دینے والے کے مال سے دنیا میں اضافہ ہوتا ہے زکوۃ دینے والے کے لیے آخرت میں کئی درجے زیادہ اجر و ثواب اور انعام واکرام ہے زکوۃ دینے سے معاشرے کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔ حتی کہ اگر صحیح طریقے سے نظام زکوۃ قائم کیا جائے تو چند سالوں میں کوئی زکوة لینے والا نہ رہنے بلکہ سب زکوۃ دینے والے بن جائیں۔ زکوۃ دینے سے مال کی ضرورت سے زیادہ محبت، حرص اور طمع ختم ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے کہ زکوۃ دینے والے کے لیے اللہ کی رحمت برکت رضا اور جنت ہے۔
غور کیجئے! انسان اللہ کا دیا ہوا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے لیکن اس کے بدلے میں کتنی برکات حاصل ہو رہی ہیں۔ اللہ بخل سے بچائے اور جذبہ سخاوت سے سرشار فرمائے اور فرض زکوۃ کے ساتھ ساتھ نفلی صدقہ و خیرات کی بھی توفیق بخشے ۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔