مصلحت کی بنا پر صدقے کو اعلان کر کے دینا

عَنْ جَرِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى صَدْرِ النَّهَارِ قَالَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِى النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِى السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلاَلاً فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا۝۱﴾ وَالآيَةَ الَّتِى فِى الْحَشْرِ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ – حَتَّى قَالَ – وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ ». قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ – قَالَ – ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم مَنْ سَنَّ فِى الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَىْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِى الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَىْءٌ . (أخرجه مسلم)
صحيح مسلم: كتاب الزكاة، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة أو كلمة طيبة وأنها …)
جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح کے وقت بیٹھے تھے کہ اتنے میں قبیلہ مضر کے کچھ لوگ ننگے بدن و ننگے پاؤں، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنے ہوئے اور تلواروں کو ٹکائے ہوئے آئے ان کی یہ غربت دیکھ کر رسول اللهﷺ کا چہرہ بدل گیا پھر آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور نکلے اور بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا پھر اقامت ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا۝۱﴾
ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالی تم پر نگہبان ہے۔ (سورۂ نساء آیت)۔
دوسری آیت تلاوت فرمائی: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالی تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔ (سورۂ حشر آیت (۱۸)۔ (یہ سن کر) ایک آدمی نے درہم، دینار کپڑا، ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور دیا، یہاں تک کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر آدھی کھجور ہو تو اسے بھی صدقہ کرو، راوی کا بیان ہے پس انصار کا ایک آدمی ایک تهیلی لے کر آیا جو اس کے ہاتھ میں نہیں آ رہی تھی بلکہ نہیں آئی۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر لوگ پے در پے آئے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کھانے اور کپڑے کے دو ڈھیر جمع ہو گئے اور میں نے آپ ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا تو وہ چمک رہا تھا جیسے کہ سونا ہو، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اسلام میں کوئی بہترین سنت ایجاد کی تو اس کو تو اس کا اجر ملے گا ہی اور اس پر بعد میں عمل کرنے والوں کے برابر بھی اسے اجر ملے گا اور ان کے اجر میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا کام ایجاد کیا تو اس پر اس کا بھی گناہ ہے اور جو شخص اس کے بعد اس پر عمل کرے گا اس کے برابر بھی اسے گناہ ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔
تشریح:
اللہ تعالی نے چھپا کر صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے چونکہ اس میں ریا کاری اور دکھاوا کا امکان کم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی صدقہ زیادہ پسند ہے اور ایسے ہی لوگ قیامت کے دن عرش الہی کے نیچے جگہ پائیں گے چنانچہ پیارے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن عرش الہی کے علاوہ جب کسی چیز کا سایہ نہیں ہو گا سورج بالکل قریب ہو گا لوگ اپنے اپنے اعمال کے حساب سے پسینہ سے شرابور ہوں گے ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جو داہنے ہاتھ سے خرچ کرتے ہیں اور بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا ہے سایہ عطا فرمائے گا یہ وہی لوگ ہوں گے جو صدقات و خیرات چھپا کرتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار کسی مصلحت کے پیش نظر جیسے لوگوں کو صدقہ دینے پر ابھارنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں صدقہ کو اعلان کر کے دینا افضل ہے۔ اللہ تعالی ہمیں صدقات و خیرات دل کھول کر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ صدقات و خیرات پوشیدہ کر کے کرنا زیادہ افضل ہے۔
٭ کسی مصلحت کی بنا پر صدقہ کو اعلان کر کے دینا مشروع ہے۔
٭٭٭٭