مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرو

غزہ اور فلسطین سے آنے والی خبریں ایسی دلخراش ہیں کہ دیکھی اور سنی نہیں جارہیں، اللہ کی پناہ، ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، لوگوں کے واٹس ایپ سٹیٹس دیکھنے کی سکت نہیں ہے، ہمت جواب د گئی ہے کہ اخبار کا ایک صفحہ نہیں پڑھا جا رہا، کوئی وڈیو آن کرتے ہیں تو فوراً روکنا پڑتی ہے کہ یار کیسے دیکھیں، مسجدوں، سکولوں، ہسپتالوں، مارکیٹوں، اور رہائشی مکانوں کو بری طرح تہس نہس کردیا گیا ہے فلسطین ہے کہ ہر طرف آہوں اور سسکیوں میں ڈوبا ہوا ہے

بگوشے گوش سے نالے سنو معصوم بچوں کے
ڈرے سہمے ہوئے چہرے کہیں مغموم بچوں کے
جھپٹ کر ماؤں سے چھیدے گئے حلقوم بچوں کے
اٹھا کر ماؤں نے پھر بھی لیے منہ چوم بچوں کے

ایسے حالات میں ایک عام پاکستانی شہری اور ایک حکمران ہونے کے ناطے سے ہمیں اپنی اپنی بساط کے مطابق مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ضرور کھڑے ہونا چاہیے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مدد گار بنا۔
النساء : 75

جہاد فی سبیل اللہ ہے بس تیار ہو جاؤ
اگر پہلے نہ تھے تیار اب تیار ہو جاؤ
جو سچ پوچھو تو ہے یہ حکمِ رب تیار ہو جاؤ
نہ اب پہنچو گے تو پہنچو گے کب؟ تیار ہو جاؤ
اٹھو آگے بڑھو کفار نے پھر تم کو للکارا!
تمہاری ٹھوکروں میں تھا کبھی تاج سرِ دارا
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے
الأنفال : 72

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ
مسلم
اور جب تمہارے بھائی تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر لبیک کہو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم کی مدد کرنے کا حکم دیا

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
أَمَرَنَا….. وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ
(مسلم : 5388)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مظلوم کی مددکرنے کا حکم دیا

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
انْصُرْ أَخَاكَ
(بخاري : 2444)
اپنے بھائی کی مدد کرو

تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
الحجرات : 10

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ
(بخاري : 2442)
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے

اپنے مظلوم بھائیوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[ اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلاَ يُسْلِمُهُ ]
[ بخاري : ۲۴۴۲ ]
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔‘‘

مسلمان بھائیوں کی حفاظت اپنے جسم کی طرح کریں

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا :
«كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى»
(بخاري : 6011)

تم مومنوں کو آپس میں….. ایک جسم جیسا پاؤگے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے ، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ۔ ایسی کہ نینداڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

إقبال کہتا ہے :
اخوت اس کو کہتے ہیں
چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر
پیرو جواں بیتاب ہو جائے

 یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اُخُوّت کی جہاں‌گیری، محبّت کی فراوانی

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا» وَشَبَّكَ أَصَابِعَه
(بخاري : 481)

ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا

مسلمان بھائی کی تکلیف دور کرنے کا اجرو ثواب

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(بخاري : 2442)

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے کے عیب چھپائے گا

مظلوموں کی مدد کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے

موسی علیہ السلام کی سیرت میں ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا معاشرتی پہلو بخوبی نظر آتا ہے
قبطی اور بنی اسرائیلی کے درمیان لڑائی ہوتے دیکھی تو کمزور اسرائیلی کی مدد کے لیے آگے بڑھے
شائد کسی کے دل میں اعتراض پیدا ہو کہ اسرائیلی چونکہ موسی کی قوم سے تھا اس لیے مدد کرنا ضروری سمجھا
لیکن ہم عرض کرتے ہیں کہ انبیاء کا کردار قومیت کی بجائے انسانیت کے گرد گھومتا ہے ورنہ مدین کی دو کمزور عورتیں نہ تو قوم موسی سے تعلق رکھتی تھیں اور نہ ہی دیگر چرواہوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت تھی مگر کلیم اللہ کو دیکھیں کہ بھوکے،تھکے، پردیسی مسافر، ہونے کے باوجود بے لوث ہوکر جانوروں کو پانی پلانے کی خاطر کنویں سے بھاری ڈول کھینچ لاتے ہے

فرعون اور اس کے حواریوں کے سامنے پوری شدومد کے ساتھ اپنی قوم کا مقدمہ بھی لڑ رہے تھے
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں (فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ
تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے
طه : 47)
کہہ کر نہ صرف یہ کہ قوم کی آزادی کی جنگ لڑی بلکہ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ کا جملہ بول کر فرعونیوں کے ظالمانہ چہرے کو بے نقاب بھی کیا

ایک طرف
قوم کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے رہتے تھے
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا :
اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌
اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو
دوسری طرف
فرعونی مظالم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں

خضر علیہ السلام آپ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے
معاشرے سے ربط، حالات پر نظر، عوام کے خیر خواہ اور ماحول سے ایسے باخبر کہ سمندر کی باتیں ملاحوں سے زیادہ معلوم تھیں
کشتی پر سوار ہوئے تو یہ جانتے ہوئے کہ دوسری جانب کا حاکم غاصب ہے، کشتی میں سوراخ کر دیا تاکہ مساکین کا روزگار متاثر نہ ہو

ایک بستی میں مقیم ہوئے تو باوجود اس کے کہ انہوں نے مانگے سے بھی کھانہ پانی تک نہیں دیا
بھوکے بھی تھے پیاسے بھی تھے
پردیسی بھی تھے اجنبی بھی تھے
تھکے بھی تھے
مگر حالت یہ تھی کہ مانند مزدور تعمیرِ دیوار میں مصروف ہوگئے فقط اس لیے کہ اُس کے نیچے یتیم بچوں کا خزانہ چھپا ہوا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مظلوموں کی مدد

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
بھوکوں کے لیے تگ ودو کرتے تھے کمزوروں کی مدد کرتے تھے یتیموں کا خیال رکھتے تھے مسکینوں پر دست شفقت رکھتے تھے

آپ نے اعلان کر رکھا تھا اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو اس قرضے کی ادائیگی میں خود کروں گا لیکن اگر کوئی فوت ہو جائے اور ورثے میں جائیداد مال و متاع چھوڑ جائے تو میں اس سے کچھ بھی نہیں لوں گا

نہ صرف یہ کہ نبوت کے بعد بلکہ نبوت کی زندگی سے پہلے بھی آپ کی یہی کیفیت تھی مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے معروف معاہدے (حلف الفضول) سے کون ناواقف ہے

میرے نبی مکہ مکرمہ میں چوری، ڈاکے، رہزنی اور بدامنی کے تدارک کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں
نصرالمظلوم کے لیے کوشاں ہیں مکے کے ایک ایک سردار کے پاس جاکر ملاقاتیں کرتے ہیں اور آمادہ کرتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کی جائے اور ظالم کو روکا جائے سب کو ایک حویلی میں اکٹھا کرتے ہیں مختلف معاہدوں پر دستخط لیتے ہیں تاریخ آج بھی اس معاہدے کو حلف الفضول کے نام سے یاد کرتی ہے
قربان جاؤں کیسے بے لوث لیڈر تھے معاہدے کے اصل روحِ رواں خود تھے لیکن معاہدے کے نام کی جو تختی بنی، سجی،اور لکھی گئی وہ (حلف الفضول) یعنی سرداروں کے نام کی تھی تاکہ اور کچھ نہیں تو نام کی خاطر ہی میرے ساتھ وابستہ رہیں اور اسی بہانے یہ معاہدہ قائم و دائم رہے

اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ نے انہی اوصاف کی گواہی میں فرمایا تھا
إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ
وَتَحْمِلُ الكَلَّ
وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ
وَتَقْرِي الضَّيْفَ
وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ
(بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ،3)
آپ اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

مولانا حالی کے بقول
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا غریبوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا

مظلوم کو حوصلہ دینا اور حوصلے والی بات کہنا بھی اس کی مدد ہے

حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین ، جن میں ابوجہل پیش پیش تھا۔ سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پرلے جاکر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جارہی تھی کہ نبیﷺ کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا : آل یاسر ! صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے
(ابن ہشام ۱/۳۱۹ ، ۳۲۰ ، طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸ بحوالہ الرحیق المختوم )

مظلوم مسلمانوں کے لیے دعائیں کریں

مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ”مستضعفين“ کے حق میں نام لے کر دعا فرمایا کرتے تھے جو مکہ مکرمہ میں کفار کی قید میں رہ رہے تھے :
[ اَللّٰهُمَّ اَنْجِ الْوَلِيْدَ بْنَ الْوَلِيْدِ وَ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِيْ رَبِيْعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ]
’’یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور (مکہ میں گھرے ہوئے) دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا۔‘‘
[ بخاری : ۸۰۴ ]

عثمان رضی اللہ عنہ کی خبرِ شہادت اور میرے نبی کی تڑپ

سن 6 ہجری ذی قعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو قریش کے پاس سفیر بن کر جانے کا حکم دیا
حضرت عثمانؓ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے ، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کر کے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمانؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر حضرت عثمانؓ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے

ان سب لوگوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے

فرمایا
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
الفتح : 18

اور ایسی رضا حاصل ہوئی کہ ان سب پر جہنم حرام قرار دے دی گئی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا ]
[ مسلم : ۲۴۹۶ ]
’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنھوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘

غیر مسلم قبیلے پر ظلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد

مکہ مکرمہ میں دو قبیلے بنو بکر اور بنو خزاعہ آباد تھے
دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی
چنانچہ شعبان ۸ ھ میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمے پر خیمہ زن تھے۔ ان کے متعدد افراد مارے گئے۔ کچھ جھڑپ اور لڑائی بھی ہوئی۔ ادھر قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی۔ بلکہ ان کے کچھ آدمی بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر لڑائی میں شریک ہوئے۔ بہرحال حملہ آوروں نے بنوخزاعہ کو کھدیڑ کر حرم تک پہنچادیا۔
بنو خزاعہ کے ایک آدمی عَمرو بن سالم خزاعی نے وہاں سے نکل کر فوراً مدینہ کا رُخ کیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ کر مدد کی درخواست کی
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا :
اے عَمرو بن سالم ! تیری مدد کی گئی۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور آگے چل کر مظلوموں کی یہی حمایت فتح مکہ کا باعث بنی

ایک چھوٹی بچی پر ظلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
أَنَّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ أَقَتَلَكِ فُلَانٌ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا ثُمَّ قَالَ الثَّانِيَةَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا ثُمَّ سَأَلَهَا الثَّالِثَةَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ فَقَتَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجَرَيْنِ
(بخاري : 6879)

کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مارڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دوپتھروں میں کچل کر قتل کردیا۔

یہود کی طرف سے ایک مسلمان عورت کی بے عزتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی مدد کو جانا

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا ایک طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔
اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد بھی مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حک نے بنی قینقاع کے یہودیوں گھیرا کیا اور مظلوموں کا بدلہ لیا گیا
(ابن ہشام 2/ 47 ، 48)
بحوالہ الرحیق المختوم ص327

مظلوم بلال رضی اللہ عنہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یکجہتی

حضرت بلالؓ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے۔ یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا۔ پھر بھی أحد أحدکہتے رہتے۔ خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا ، اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا۔ کھانا پانی بھی نہ دیتا
بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا : واللہ! تو اسی طرح پڑارہے گا یہاں تک کہ مر جائے یا محمد کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے۔ حضرت بلالؓ اس حالت میں بھی کہتے : أحد ،أحد اور فرماتے : اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔ ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا
(ابن ہشام ۱/۳۱۷، ۳۱۸بحوالہ الرحیق المختوم)

محمد بن قاسم اور مظلوم مسلمانوں کی پکار

ولید بن عبدالملک کے زمانے میں راجہ داہر کے ڈاکوؤں نے مسلمانوں کے بحری جہاز لوٹ لیے۔ بچے اور عورتیں قیدی بنالیے۔ ایک مسلم خاتون کی زبان سے نکلا:
”ہائے حجاج! تیری اسلامی غیرت کہاں گئی؟“
بس پھر کیا تھا؟ حجاج نے لشکر پہ لشکر بھیجے۔ تیسرے لشکر کا سالار اپنے نوعمر بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو بنایا۔ اسے تقویٰ اختیار کرنے، نمازوں کی پابندی اور بلاوجہ کسی پر ظلم نہ کرنے کا حکم دے کر داہر اور اس کے رسہ گیروں کو سبق سکھانے بھیج دیا۔ ابن قاسم آیا اور اس نے کراچی سے ملتان تک کے علاقے کو اسلامی ملک بناکر رکھ دیا۔
اور ڈاکوؤں کو پکڑ کر مظلوم لوگوں کی خوب داد رسی کی

اے امت مسلمہ❗فلسطین، کشمیر اور دیگر علاقوں میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اٹھو

اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
کچل ڈالو ہر اک فتنہ ستم کا، سربریت کا
اٹھو اور توڑ ڈالو ہاتھ ہر اہلِ اذیت کا
اگر کچھ حریت کا جوش ہے جذبہ حمیت کا
رہے رب کی زمیں پر کیوں یہ غلبہ غاصبیت کا
اٹھو تم دین فطرت کی حقیقت کا حوالہ ہو
تمہارے نام سے اسلام کا پھر بول بالا ہو
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے