مظلوم مسلمانوں سے یکجہتی

(بسلسلہ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر)

مظلوم مسلمانوں سے یکجہتی کا حکمِ الہی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے
البقرة : 178

اور فرمایا
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مدد گار بنا۔
النساء : 75

جب کوئی مظلوم پکارے تو اس کی پکار پر لبیک کہا جائے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے
الأنفال : 72

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ
مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں
(ان میں سے ایک ایک یہ ہے کہ)
وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ
اور جب وہ تمہیں پکارے تو اس کی پکار پر لبیک کہو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم کی مدد کرنے کا حکم دیا

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ
وَاتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ
وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ
وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ أَوْ الْمُقْسِمِ
وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ
وَإِجَابَةِ الدَّاعِي
وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ
(مسلم ،كِتَابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ،بَابُ تَحْرِيمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِيرِ عَلَى الرَّجُلِ، وَإِبَاحَتِهِ لِلنِّسَاءِ، وَإِبَاحَةِ الْعَلَمِ وَنَحْوِهِ لِلرَّجُلِ مَا لَمْ يَزِدْ عَلَى أَرْبَعِ أَصَابِعَ،5388)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت کرنے
جنازے کے ساتھ شریک ہو نے
چھنیک کا جواب دینے
(اپنی) قسم یا قسم دینے والے (کی قسم پو ری کرنے
مظلوم کی مددکرنے
دعوت قبول کرنے
اور سلام عام کرنے کا حکم دیا

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا قَالَ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ
(بخاري ،كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ،بَابٌ: أَعِنْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا،2444)

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ ( یہی اس کی مدد ہے )

تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
الحجرات : 10

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ
(بخاري ،كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابٌ: لاَ يَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ،2442)

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے

مسلمان، اپنے مظلوم بھائیوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[ اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ، وَلاَ يُسْلِمُهُ ]
[ بخاري، المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولایسلمہ : ۲۴۴۲، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔‘‘

دوسرے مسلمان کی حفاظت حفاظت اپنے جسم کی طرح کریں

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالحُمَّى»
(بخاري ،كِتَابُ الأَدَبِ،بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالبَهَائِمِ،6011)

تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت ومحبت کا معاملہ کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ لطف ونرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤگے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے ، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ۔ ایسی کہ نینداڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

مسلمانوں کی یہی شان ہونی چاہیئے مگر آج یہ چیز بالکل نایاب ہے۔
نہیں دستیاب اب دو ایسے مسلماں
کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں

مومن وہ ہے جو دوسرے مومن کو مضبوط کرے

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا» وَشَبَّكَ أَصَابِعَه
(بخاري ،كِتَابُ الصَّلاَةِ،بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ،481)

ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا

مسلمان بھائی کی تکلیف دور کرنے کا اجرو ثواب

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(بخاري ،كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابٌ: لاَ يَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ،2442)

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے کے عیب چھپائے گا

موسی علیہ السلام کا ایک مظلوم قوم ایک مظلوم شخص اور دو عورتوں سے اظہار یکجہتی

موسی علیہ السلام کی سیرت میں ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا معاشرتی پہلو بخوبی نظر آتا ہے
قبطی اور بنی اسرائیلی کے درمیان لڑائی ہوتے دیکھی تو کمزور اسرائیلی کی مدد کے لیے آگے بڑھے
شائد کسی کے دل میں اعتراض پیدا ہو کہ اسرائیلی چونکہ موسی کی قوم سے تھا اس لیے مدد کرنا ضروری سمجھا
لیکن ہم عرض کرتے ہیں کہ انبیاء کا کردار قومیت کی بجائے انسانیت کے گرد گھومتا ہے ورنہ مدین کی دو کمزور عورتیں نہ تو قوم موسی سے تعلق رکھتی تھیں اور نہ ہی دیگر چرواہوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت تھی مگر کلیم اللہ کو دیکھیں کہ بھوکا، تھکا، پردیسی مسافر، بے لوث ہوکر جانوروں کو پانی پلانے کی خاطر کنویں سے بھاری ڈول کھینچ لاتا ہے

فرعون اور اس کے حواریوں کے سامنے پوری شدومد کے ساتھ اپنی قوم کا مقدمہ بھی لڑ رہے تھے
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں (فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ
تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انھیں عذاب نہ دے
طه : 47)
کہہ کر نہ صرف یہ کہ قوم کی آزادی کی جنگ لڑی بلکہ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ کا جملہ بول کر فرعونیوں کے ظالمانہ چہرے کو بے نقاب بھی کیا

اگر ایک طرف
قوم کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے رہتے تھے

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو
دوسری طرف
فرعونی مظالم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں

خضر علیہ السلام کا دو مسکینوں اور دو یتیموں سے اظہارِ یکجہتی

خضر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے
معاشرے سے ربط، حالات پر نظر، عوام کے خیر خواہ اور ماحول سے ایسے باخبر کہ سمندر کی باتیں ملاحوں سے زیادہ معلوم تھیں
کشتی پر سوار ہوئے تو یہ جانتے ہوئے کہ دوسری جانب کا حاکم غاصب ہے، کشتی میں سوراخ کر دیا تاکہ مساکین کا روزگار متاثر نہ ہو

ایک بستی میں مقیم ہوئے تو باوجود اس کے کہ انہوں نے مانگے سے بھی کھانہ پانی تک نہیں دیا
بھوکے بھی تھے پیاسے بھی تھے
پردیسی بھی تھے اجنبی بھی تھے
تھکے بھی تھے
مگر حالت یہ تھی کہ مانند مزدور تعمیرِ دیوار میں مصروف ہوگئے فقط اس لیے کہ اُس کے نیچے یتیم بچوں کا خزانہ چھپا ہوا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مظلوموں کی مدد

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
بھوکوں کے لیے تگ ودو کرتے تھے کمزوروں کی مدد کرتے تھے یتیموں کا خیال رکھتے تھے مسکینوں پر دست شفقت رکھتے تھے

آپ نے اعلان کر رکھا تھا اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو اس قرضے کی ادائیگی میں خود کروں گا لیکن اگر کوئی فوت ہو جائے اور ورثے میں جائیداد مال و متاع چھوڑ جائے تو میں اس سے کچھ بھی نہیں لوں گا

نہ صرف یہ کہ نبوت کے بعد بلکہ نبوت کی زندگی سے پہلے بھی آپ کی یہی کیفیت تھی مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے معروف معاہدے (حلف الفضول) سے کون ناواقف ہے

میرے نبی مکہ مکرمہ میں چوری، ڈاکے، رہزنی اور بدامنی کے تدارک کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں
نصرالمظلوم کے لیے کوشاں ہیں مکے کے ایک ایک سردار کے پاس جاکر ملاقاتیں کرتے ہیں اور آمادہ کرتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کی جائے اور ظالم کو روکا جائے سب کو ایک حویلی میں اکٹھا کرتے ہیں مختلف معاہدوں پر دستخط لیتے ہیں تاریخ آج بھی اس معاہدے کو حلف الفضول کے نام سے یاد کرتی ہے
قربان جاؤں کیسے بے لوث لیڈر تھے معاہدے کے اصل روحِ رواں خود تھے لیکن معاہدے کے نام کی جو تختی بنی، سجی،اور لکھی گئی وہ (حلف الفضول) یعنی سرداروں کے نام کی تھی تاکہ اور کچھ نہیں تو نام کی خاطر ہی میرے ساتھ وابستہ رہیں اور اسی بہانے یہ معاہدہ قائم و دائم رہے

اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ نے انہی اوصاف کی گواہی میں فرمایا تھا
إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ
وَتَحْمِلُ الكَلَّ
وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ
وَتَقْرِي الضَّيْفَ
وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ
(بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ،3)
آپ اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

مولانا حالی کے بقول
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا غریبوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا

مظلوم کو حوصلہ دینا اور حوصلے والی بات کہنا بھی اس کی مدد ہے

حضرت عمار بن یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین ، جن میں ابوجہل پیش پیش تھا۔ سخت دھوپ کے وقت پتھریلی زمین پرلے جاکر اس کی تپش سے سزا دیتے۔ ایک بار انہیں اسی طرح سزادی جارہی تھی کہ نبیﷺ کا گزر ہوا۔ آپ نے فرمایا : آل یاسر ! صبر کرنا۔ تمہارا ٹھکانہ جنت ہے
(ابن ہشام ۱/۳۱۹ ، ۳۲۰ ، طبقات ابن سعد ۳/۲۴۸ بحوالہ الرحیق المختوم )

مظلوم مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں یکجہتی

مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ”مستضعفين“ کے حق میں نام لے کر دعا فرمایا کرتے تھے جو مکہ مکرمہ میں کفار کی قید میں رہ رہے تھے :
[ اَللّٰهُمَّ اَنْجِ الْوَلِيْدَ بْنَ الْوَلِيْدِ وَ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِيْ رَبِيْعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ]
’’یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور (مکہ میں گھرے ہوئے) دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا۔‘‘
[ بخاری، الأذان، باب یھوی بالتکبیر حین یسجد : ۸۰۴، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]

عثمان رضی اللہ عنہ سے صحابہ کی یکجہتی

سن 6 ہجری ذی قعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو قریش کے پاس سفیر بن کر جانے کا حکم دیا
حضرت عثمانؓ اپنی سفارت کی مہم پوری کر چکے تھے ، لیکن قریش نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ غالباً وہ چاہتے تھے کہ پیش آمدہ صورتِ حال پر باہم مشورہ کر کے کوئی قطعی فیصلہ کرلیں اور حضرت عثمانؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا جواب دے کر واپس کریں، مگر حضرت عثمانؓ کے دیر تک رُکے رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ جب رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا: ہم اس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ لوگوں سے معرکہ آرائی کرلیں۔ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ٹوٹ پڑے۔ اور اس پر بیعت کی کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی۔ یعنی مر جائیں گے مگر میدان ِ جنگ نہ چھوڑیں گے

عثمان رضی اللہ عنہ سے یکجہتی کرنے والے ان سب لوگوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے

فرمایا
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
الفتح : 18

اور ایسی رضا حاصل ہوئی کہ ان سب پر جہنم حرام قرار دے دی گئی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا ]
[ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أصحاب الشجرۃ… : ۲۴۹۶ ]
’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنھوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘

قبیلہ بنو خزاعہ سے مسلمانوں کی یکجہتی

مکہ مکرمہ میں دو قبیلے بنو بکر اور بنو خزاعہ آباد تھے
دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی
چنانچہ شعبان ۸ ھ میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمے پر خیمہ زن تھے۔ ان کے متعدد افراد مارے گئے۔ کچھ جھڑپ اور لڑائی بھی ہوئی۔ ادھر قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی۔ بلکہ ان کے کچھ آدمی بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر لڑائی میں شریک ہوئے۔ بہرحال حملہ آوروں نے بنوخزاعہ کو کھدیڑ کر حرم تک پہنچادیا۔
بنو خزاعہ کے ایک آدمی عَمرو بن سالم خزاعی نے وہاں سے نکل کر فوراً مدینہ کا رُخ کیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ کر سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت آپ مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے۔ عمرو بن سالم نے چند اشعار کہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ :
آپ پُر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریے ، وہ مدد کو آئیں
جن میں اللہ کے رسول ہوں ہتھیار پوش ، اور چڑھے ہوئے چودھویں کے چاند کی طرح گورے اور خوبصورت
آپ ایک ایسے لشکرِ جرار کے اندر تشریف لائیں جو جھاگ بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہو یقینا قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑدیا ہے۔
انہوں نے وتیر پر رات میں حملہ کیا اور ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا :
اے عَمرو بن سالم ! تیری مدد کی گئی۔ اس کے بعد آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی پڑا۔ آپ نے فرمایا: یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دمک رہا ہے
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور آگے چل کر مظلوموں کی یہی حمایت فتح مکہ کا باعث بنی

مسلمان، ایک بھائی کا بدلہ لینے کے لیے دو لاکھ رومیوں سے ٹکرا گئے

یہ غزوہ موتہ ہے
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کرلیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن ماردی
جب رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپﷺ نے اس علاقہ پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا
موتہ کے مقام پر دشمن سے آمنا سامنا ہوا دشمن 2 لاکھ کی تعداد میں تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد فقط 3 ہزار تھی گھمسان کا رن پڑا
مسلم سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے
اس کے بعد حضرت جعفرؓ سپہ سالار بنے
انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کردی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ وسیا ہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک کہ دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دوبازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دوبازوؤں والا)
امام بخاری رحمہ اللہ نے نافع کے واسطے سے ابن عمرؓ کا یہ بیان روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ موتہ کے روز حضرت جعفر کے پاس جبکہ وہ شہید ہوچکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کیے۔ ان میں سے کوئی بھی زخم پیچھے نہیں لگاتھا۔
ایک دوسری روایت میں ابن عمرؓ کا یہ بیان اس طرح مروی ہے کہ میں بھی اس غزوے میں مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔
نافع سے عمرہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے

( صحیح بخاری ، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)

حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے
اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہو ئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے

اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالد بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی

چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا

اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے
رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلوار یں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی

ایک چھوٹی بچی پر ظلم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
أَنَّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ فَقَالَ أَقَتَلَكِ فُلَانٌ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا ثُمَّ قَالَ الثَّانِيَةَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا ثُمَّ سَأَلَهَا الثَّالِثَةَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ فَقَتَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجَرَيْنِ
(بخاري، كِتَابُ الدِّيَاتِ، بابُ مَنْ أَقَادَ بِالحَجَرِ،6879)

کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مارڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دوپتھروں میں کچل کر قتل کردیا۔

یہود کی طرف سے ایک مسلمان عورت کی بے عزتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی مدد کو جانا

ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا ایک طرف باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہوگئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔
اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مارڈالا۔ جوابا یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مارڈالا۔ اس کے بعد بھی مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حک نے بنی قینقاع کے یہودیوں گھیرا کیا اور مظلوموں کا بدلہ لیا گیا
(ابن ہشام 2/ 47 ، 48)
بحوالہ الرحیق المختوم ص327

مظلوم بلال رضی اللہ عنہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یکجہتی

حضرت بلالؓ امیہ بن خلف جحمی کے غلام تھے۔ امیہ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں گھماتے اور کھینچتے پھرتے۔ یہاں تک کہ گردن پر رسی کا نشان پڑ جاتا۔ پھر بھی أحد أحدکہتے رہتے۔ خود بھی انہیں باندھ کر ڈنڈے مارتا ، اور چلچلاتی دھوپ میں جبراً بٹھائے رکھتا۔ کھانا پانی بھی نہ دیتا
بلکہ بھوکا پیاسا رکھتا اور ان سب سے بڑھ کر یہ ظلم کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ پھر کہتا : واللہ! تو اسی طرح پڑارہے گا یہا ں تک کہ مر جائے یا محمد کے ساتھ کفر کرے اور لات وعزیٰ کی پوجا کرے۔ حضرت بلالؓ اس حالت میں بھی کہتے : أحد ،أحد اور فرماتے : اگر مجھے کوئی ایسا کلمہ معلوم ہوتا جو تمہیں اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوتا تو میں اسے کہتا۔ ایک روز یہی کاروائی جاری تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کو ایک کالے غلام کے بدلے اور کہا جاتا ہے کہ دوسو درہم (۷۳۵ گرام چاندی) یا دوسو اسی درہم (ایک کلو سے زائد چاندی ) کے بدلے خرید کر آزاد کر دیا
(ابن ہشام ۱/۳۱۷، ۳۱۸بحوالہ الرحیق المختوم)

ایک مسلمان کے ہاتھ اور پاؤں توڑے گئے تو امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والو ں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہ ودیوں سے ان کی جائداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹو ٹ گئے ۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لئے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں ۔
جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنوابی حقیق ( ایک یہ ودی خاندان ) کاایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمومنین کیا آپ ہمیں جلاوطن کردیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمھارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمھارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے ۔ اس نے کہا یہ ابو قاسم ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مذاق تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کے دشمن ! تم نے جھوٹی بات کہی ۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کردیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت’ کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کردی

محمد بن قاسم اور مظلوم مسلمانوں کی پکار

ولید بن عبدالملک کے زمانے میں راجہ داہر کے ڈاکوؤں نے مسلمانوں کے بحری جہاز لوٹ لیے۔ بچے اور عورتیں قیدی بنالیے۔ ایک مسلم خاتون کی زبان سے نکلا:
”ہائے حجاج! تیری اسلامی غیرت کہاں گئی؟“
بس پھر کیا تھا؟ حجاج نے لشکر پہ لشکر بھیجے۔ تیسرے لشکر کا سالار اپنے نوعمر بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو بنایا۔ اسے تقویٰ اختیار کرنے، نمازوں کی پابندی اور بلاوجہ کسی پر ظلم نہ کرنے کا حکم دے کر داہر اور اس کے رسہ گیروں کو سبق سکھانے بھیج دیا۔ ابن قاسم آیا اور اس نے کراچی سے ملتان تک کے علاقے کو اسلامی ملک بناکر رکھ دیا۔
اور ڈاکوؤں کو پکڑ کر مظلوم لوگوں کی خوب داد رسی کی

معتصم باللہ اور ایک عورت کی مدد

عموریہ کا ایک بڑا قلعہ تھا۔ رومی عیسائی حکومت کے زیر اثر مسلمان بھی رہتے تھے۔ کسی مسلمان عورت کو کسی بات پر ایک عیسائی نے تھپڑ ماردیا اور کہا: ”کرلے جو کرنا ہے۔“ مسلمان عورت کے منہ سے نکلا: ”ہائے معتصم!“ عباسی بادشاہ کا نام معتصم تھا۔ عیسائی نے کہا: ”واہ! کہاں تو اور کہاں تیرا بادشاہ معتصم۔ ہماری حکومت ہے۔ ہم جو چاہیں کریں۔“ یہی بات ہوا کے کندھوں پر سوار بغداد میں عباسی خلیفہ تک پہنچی۔ ہوا ہی کے ہاتھ معتصم نے جواب بھیجا: ”میری بہن! فکر مت کر، میں ابھی پہنچا۔“ چند ہی دنوں میں مسلم افواج اپنے خلیفہ کی ہدایت پر عموریہ فتح کرچکی تھیں۔ مسلمان بہن کی تلاش کی گئی۔ اسے بادشاہ کا پیغام دیا گیا۔ وہ شکر اور فخر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ حاضر ہوئی۔ دوسری طرف اس کے سامنے عیسائی زیادتی کرنے والا پابجولاں سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس مغرور نصرانی نے مسلم سپاہ اور عموریہ کے عام لوگوں کے سامنے معافی مانگی۔ معتصم باللہ نے کہا: ”میری بہن! اپنا بدلے لے۔ تیرا بھائی، تیرا امیر، تیری ہی خاطر، تیری غیرت کا بدلہ لینے آیا ہے۔“ مسلم خاتون نے سربلند ہوکر امیر المومنین کا شکریہ ادا کیا۔ پھر ایک زہرناک نگاہ سے نصرانی کو دیکھا اور کہا: ”میں تجھ سے تھپڑ کا بدلہ تھپڑ مارکر لے سکتی ہوں۔ تو نے دیکھا لیا کہ میرا امیر مسلم غیرت سے خالی نہیں اور لے میں تجھے صرف اللہ کی رضا کے لیے معاف کرتی ہوں۔ آیندہ تمہارا کوئی غیرت سے عاری فرد ایسی جرات نہ کرے۔“

اے امت مسلمہ❗کشمیر اور دیگر علاقوں میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اٹھو

اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے
خدا بھی اہل ہمت کو پر پرواز دیتا ہے

اٹھو کشمیر کے سرو و سمن آواز دیتے ہیں
تمہیں افغان کے کوہ و دمن آواز دیتے ہیں
لہو میں تیرتے گھر و صحن آواز دیتے ہیں
فلسطینوں کے لاشے بے کفن آواز دیتے ہیں
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

وہ دیکھو وادیِ کشمیر میں گلزار جلتے ہیں
تڑپتے ہیں کہیں گُل پیرہن گھر بار جلتے ہیں
ارم آباد کے وہ زعفرانِ زار جلتے ہیں
وہ اپنی جنتِ ارضی کے سب آثار جلتے ہیں
جِدھر اُٹھی نظر خونی الاؤ جلتے دیکھے ہیں
کہاں چشم فلک نے ایسے گھاؤ جلتے دیکھے ہیں
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

بگوشے گوش سے نالے سنو معصوم بچوں کے
ڈرے سہمے ہوئے چہرے کہیں مغموم بچوں کے
جھپٹ کر ماؤں سے چھیدے گئے حلقوم بچوں کے
اٹھا کر ماؤں نے پھر بھی لیے منہ چوم بچوں کے
مرتب ہو رہی ہے جہدِ اسلامی کی تحریریں
لہو دے کر بدلتی ہیں سدا قوموں کی تقدیریں
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

وہاں افغانیوں کے خون سے بہتے ہوئے دھارے
اُبلتا ہے لہو سینوں سے یا چشموں کے فوارے
کسی کے ہیں جگر گوشے کسی کے ہیں جگر پارے
وہاں ماؤں نے وارے کیسے کیسے آنکھ کے تارے
میرے الفاظ کیا ہر شعر کا مضمون جلتا ہے
میں جس دم سوچنے لگتا ہوں میرا خون جلتا ہے
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

کچل ڈالو ہر اک فتنہ ستم کا، سربریت کا
اٹھو اور توڑ ڈالو ہاتھ ہر اہلِ اذیت کا
اگر کچھ حریت کا جوش ہے جذبہ حمیت کا
رہے رب کی زمیں پر کیوں یہ غلبہ آمریت کا
اٹھو تم دین فطرت کی حقیقت کا حوالہ ہو
تمہارے نام سے اسلام کا پھر بول بالا ہو
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے

جہاد فی سبیل اللہ ہے بس تیار ہو جاؤ
اگر پہلے نہ تھے تیار اب تیار ہو جاؤ
جو سچ پوچھو تو ہے یہ حکمِ رب تیار ہو جاؤ
نہ اب پہنچو گے تو پہنچو گے کب؟ تیار ہو جاؤ
اٹھو آگے بڑھو کفار نے پھر تم کو للکارا!
تمہاری ٹھوکروں میں تھا کبھی تاج سرِ دارا
اٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے