میرے نبی کا بڑا پن

صلی اللہ علیہ وسلم

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران : 159)

پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اپنے سے پندرہ سالہ بڑی اور بیوہ عورت سے شادی

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن بے مثال تھا اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے خوبصورت قد آور جسم تھا 25 سال کے انتہائی گبھرو جوان تھے چاہتے تو مکہ کیا پورے عرب کی کسی حسین و جمیل عورت سے شادی کر سکتے تھے

دریں حال یہ کہ قریش مکہ کی طرف سے ایسی پیشکشیں بھی ہوچکی تھیں

مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عین جوانی میں سب سے پہلے جو شادی کی وہ اپنے سے پندرہ سال بڑی اور بیوہ عورت کے ساتھ شادی کی بیوہ بھی ایسی کہ فوت شدہ خاوند سے چند بچوں کی ماں بھی تھی اور شادی کے تقریبا اگلے 25 سال بھی اسی عورت کے ساتھ گزار دیئے

شعب ابی طالب میں معاشی بائیکاٹ کرنے والوں پر جب قحط سالی کا کوڑا برسا تو رحم دل نبی ان کے لیے دعا کرنے لگے

قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا

حَتّٰی أَكَلُوا الْعِظَامَ

حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے ۔

وفی روایۃ

حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ

ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے

آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا

تو ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کہا :

’’یا رسول اللہ! مضر (قبیلے) کے لیے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہو گئے۔‘‘

وفی روایۃ

فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ

ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے

فَاسْتَسْقٰی فَسُقُوْا [ بخاري، التفسیر، سورۃ الدخان : ۴۸۲۱ ]

خیر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا کر دی اور ان پر بارش ہو گئی

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر مارنے والوں پر رحم کیا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

طائف کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا

ایسا مہربان نبی کہ طائف میں دس دن رہ کر مار کھا کر زخمی اور بے ہوش ہو کر نکلا اور ہوش آنے پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا

اس نے عرض کیا

يَا مُحَمَّدُ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟

کہ اگر کہو تو میں (دو پہاڑوں) اخشبین میں ان کفار کو پیس دوں؟

تو فرمایا:

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا [ بخاری، بدء الخلق، باب إذا قال إحدکم آمین… : ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ]

’’مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘

جن لوگوں نے میرے نبی کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کررکھا تھا اسی لمحے اسی گھر میں بیٹھے اس فکر میں مبتلا تھے کہ ان کی امانتیں کیسے واپس کی جائیں

میرے نبی کی سیرت میں اہل مکہ کو دعوتِ توحید (لا الہ الا اللہ) کا سنہری باب موجود ہے اسی دعوت کی بنا پر کفار مکہ آپ کی جان کے درپے ہو چکے تھے

مگر پھر بھی جان کے ان دشمنوں کے ساتھ تعلقات کی کیفیت یہ تھی کہ جس رات آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا اور آپ کی گرفتاری پر 100 اونٹ انعام رکھا گیا تھا

اسی رات آپ اس فکر میں تھے کہ ان کی امانتیں ان تک واپس لوٹانے کا انتظام کیونکر ممکن ہے ؟

بالآخر چاروں طرف منڈلاتے خطرات کے بیچوں بیچ اپنے چچازاد بھائی کو یہ ذمہ داری تفویض کرتے ہوئے عازمِ سفر ہوئے

ستر سے زائد مشرکین کو گرفتار کرنے کے بعد معاف کردیا

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں

ہم نے انھیں ستر (۷۰) سے زائد مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

[ دَعُوْهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُوْرِ وَ ثِنَاهُ ] [ مسلم، الجہاد، باب غزوۃ ذي قرد وغیرھا : ۱۸۰۷ ]

’’انھیں چھوڑ دو، تاکہ عہد شکنی کی ابتدا اور دہرائی انھی کے ذمے رہے۔‘‘ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کر دیا

مشرکین کے 80 افراد پکڑنے کے بعد چھوڑ دیئے

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِ مکہ میں سے اسّی (۸۰) مسلح آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آئے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے،

(اور فجر کی نماز کے قریب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا)

مگر آپ نے انھیں زندہ سلامت گرفتار کر لیا۔ پھر انھیں زندہ ہی رہنے دیا(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قابو پا لیا تو قدرت کے باوجود ان پر احسان فرما دیا۔اور معاف کر دیا) [ مسلم، الجہاد، باب قول اللّٰہ تعالٰی : «وھو الذی کف أیدیہم عنکم» : ۱۸۰۸ ]

فتح مکہ پر بڑے نبی کا بڑا فیصلہ

یہ کسی علاقے کی نہیں بلکہ دِلوں کی فتح تھی لوگ گردنیں جھکائے کھڑے تھے آسمان کی نیلی چھت تلے عجیب منظر بپا تھا

بیٹی زینب کا قاتل ہبار بن اسود بھی تھا

کعبہ کی چابی نہ دینے والے عثمان بن طلحہ بھی تھے

پیارے چچا امیر حمزہ کے قاتل وحشی بن حرب بھی تھے

فرعونِ وقت کا بیٹا عکرمہ بن ابی جہل بھی تھا

حالتِ سجدہ میں آپ کے جسم مبارک پر جانور کی بدبودار جیر پھینکنے والے بھی تھے

گلے میں رسی ڈال کر آپ کی گردن دبانے والے بھی تھے

اور بھی بہت تھے جنھوں نے آپ سے دشمنی کی انتہا کر رکھی تھی آپ چاہتے تو ایک اشارے سے ان کی گردنیں تن سے جدا ہو سکتی تھیں

مگر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ان لوگوں سے فرمایا

[ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ] [ السنن الکبرٰی للنسائي : ۱۱۲۹۸ ]

آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی

نرمی ہی نرمی

عفو درگزر اور اسوہ حسنہ کا عظیم نمونہ دیکھئے یہ عجیب فاتح ہے جو مفتوح اور مغلوب کے سر پر تاجِ سرداری رکھ رہا ہے

آج اس ابو سفیان کو پروٹوکول دیا جارہا ہے جس نے ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکرکشی میں گزار دی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ

جو ابوسفیان کے گھر داخل ہو جائے گا اسے امن دیا جائے گا

وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ

جو اسلحہ پھینک دے گا اسے بھی امن دیا جائے گا

وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ (مسلم 1780)

جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر دے گا اسے بھی امن دیا جائے گا

سنن ابی داؤد میں ہے

مَنْ دَخَلَ دَارًا فَهُوَ آمِنٌ (ابو داؤد 3024)

جو کسی بھی گھر میں داخل ہو جائے گا اسے امن دیا جائے گا

اور ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں ہے

وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ (ابو داؤد 3022)

جو مسجد میں داخل ہوگا اسے بھی امن دیا جائے گا

اسی طرح جو حکیم بن حزام کے گھر داخل ہو گا اسے امن دیا جائےگا

جسے کوئی مسلم پناہ دے اسے بھی امن دیا جائے گا

ایسے لگتا تھا جیسے آپ کسی کو قتل ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ معافی کے راستے کھولے چلے جا رہے ہیں اور بہانے ڈھونڈتے چلے جا رہے ہیں

زہر کھلانے والی یہودی عورت زینب کو معاف فرما دیا

اسی طرح اس یہودی عورت زینب کو معاف فرما دیا جو خیبر کے یہودی مرحب کی بہن تھی، جسے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، جس نے خیبر کے موقع پر بکری کے بازو میں زہر ملا دیا تھا، بکری کے اس بازو نے آپ کو اس کی اطلاع دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا تو اس نے اعتراف کر لیا۔

آپ نے اس سے کہا کہ تمھیں اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟

اس نے کہا، میرا ارادہ یہ تھا کہ اگر آپ نبی ہوئے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے گی اور اگر نبی نہ ہوئے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا، مگر جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قصاص میں اسے قتل کر دیا۔

(دیکھیے بخاری : ۳۱۶۹۔ ابو داود : ۴۵۰۹، ۴۵۱۱)

سر پر کھڑے، تلوار سونتے، قتل کی دھمکیاں دینے والے کو معاف کر دیا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غورث بن حارث کو معاف کر دیا، جس نے آپ کو اچانک قتل کرنے کا ارادہ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے تو اس نے آپ کی تلوار میان سے نکال لی، آپ بیدار ہوئے تو وہ ننگی اس کے ہاتھ میں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھڑکا تو اس نے نیچے رکھ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو بلا کر ساری بات بتائی اور اسے معاف کر دیا۔ (دیکھیے بخاری : ۴۱۳۶)

میرے نبی کے صبر اور حوصلے کی انتہا دیکھئیے بیوی پر تہمت کنندے کا جنازہ پڑھایا، اپنا قمیض پہنایا، قبر میں اترے اور استغفار کرتے رہے

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی فوت ہوا تو اس کا بیٹا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہ مجھے اپنی قمیص دیجیے کہ میں اسے اس میں کفن دوں اور آپ اس پر جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا فرمائیں

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص دی اور فرمایا :

’’مجھے اطلاع دینا، تاکہ میں اس کا جنازہ پڑھوں۔‘‘

اس نے اطلاع دی اور جب آپ نے اس پر جنازے کا ارادہ کیا

تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچ لیا اور کہا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟

آپ نے فرمایا :

’’مجھے دو اختیار ہیں :

«اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ » [ التوبۃ : ۸۰ ]

(ان کے لیے بخشش مانگ یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ)۔‘‘

سو آپ نے اس کا جنازہ پڑھا

[ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من الصلوۃ علی المنافقین… : ۱۳۶۶۔ مسلم : ۲۴۰۰ ]

سرورِ دوعالم یہودی بچے کی تیمارداری کرتے ہیں

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔

فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔

فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ

اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔

فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ

اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔

چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ

(بخاری ،كِتَابُ الجَنَائِزِ ،بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ،1356)

کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔

بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (التوبة : 128)

بلاشبہ یقینا تمھارے پاس تمھی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے، مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔

آپ نے اپنی ایک دعا امت کی سفارش کے لیے محفوظ کی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا ، فَاسْتُجِيبَ فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (بخاری 6305)

کہ ہر نبی نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔

چاہتے تو وہی دعا طائف کے اوباشوں کے خلاف کر لیتے

چاہتے تو وہی دعا احد کے میدان میں زخم لگانے والوں کے خلاف کر سکتے تھے

چاہتے تو وہی دعا شعب ابی طالب میں بند کرنے والوں کے خلاف کر سکتے تھے

چاہتے تو وہی دعا اپنے چچا حمزہ کے قاتل کے خلاف کر سکتے تھے

چاہتے تو وہی دعا مکہ سے نکلنے پر مجبور کرنے والے سرداروں کے خلاف کر سکتے تھے

چاہتے تو وہی دعا ستر قراء صحابہ کے قاتلین کے خلاف کر سکتے تھے

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے بوجھ اتارتے تھے

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صفت یہ بیان کی ہے

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف : 157)

اور وہ ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

آپ کی اسی خوبی کے متعلق خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں

كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری 2908)

اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

مدینہ منورہ پر حملے کی آہٹ محسوس کرتے ہیں تو اکیلے ہی دفاع کے لیے نکل پڑتے ہیں

کسی رات مدینہ میں کچھ آہٹ ہوئی، سمجھا گیا شاید دشمن حملہ آور ہوا چاہتا ہے لوگ ابھی دفاع کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور سے ایک شاہ سوار گھوڑے کی ننگی پشت پر دوڑتا ہواقریب آیا لوگوں نے دیکھا تو حیرانگی کی انتہا ہوگئی کوئی عام شخصیت نہیں تھی بلکہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے گھبراہٹ زدہ امت کو دلاسہ دینے لگے کہ ڈرو نہیں،ڈرو نہیں آرام سے سو جاؤ آرام سے سوجاؤ دشمن کا کوئی خطرہ نہیں ہے میں سرحد کا چکر لگا آیا ہوں

اسے کہتے ہیں نڈر اور بے لوث قیادت

آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اسی میں استراحتِ شب فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے کرتے

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ، ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا ، أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ (بخاری 2908)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر ( ایک آواز سن کر ) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔

اہم قومی و عسکری راز افشا کرنے والے پر رحم

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک مہاجر صحابی تھے اور بدری تھے، مکہ میں ان کی اولاد اور مال اسباب تھا۔ وہ اصلاً قریش میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے حلیف تھے۔ انھوں نے قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ کی طرف لشکر کشی کے ارادے کی اطلاع دینے کے لیے ان کی طرف ایک خط لکھا اور ایک عورت کے ہاتھ بھیج دیا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا :

[ يَا حَاطِبُ! مَا هٰذَا ؟ ]

’’حاطب! یہ کیا ہے؟‘‘

انھوں نے کہا :

’’یا رسول اللہ! مجھ پر جلدی نہ کریں، میں ایسا آدمی تھا جو قریش کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ان کا حلیف تھا، اصلاً ان میں سے نہیں تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی وہاں کئی قرابتیں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے اہل و عیال اور اموال کی حفاظت رکھتے ہیں۔ تو میں نے چاہا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر ایک احسان کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے گھر والوں کی حفاظت رکھیں۔ میں نے یہ کام نہ اپنے دین سے مرتد ہونے کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے کیا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ ]

’’سن لو! اس نے یقینا تم سے سچ کہا ہے۔‘‘

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :

’’اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ اللّٰهَ اطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ] ( بخاري، المغازي، باب غزوۃ الفتح : ۴۲۷۴)

’’یہ تو بدر میں شریک ہوا ہے اور تجھے کیا معلوم شاید اللہ نے بدر میں شریک ہونے والوں کو جھانک کر کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو، کیونکہ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔‘‘

مقروض میت کا قرض اپنے ذمے لیتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کر رکھا تھا

فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ (بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا،2399)

جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو اس کے ورثاءاس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں

اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔

میرے نبی امت کے لئے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (ابو داؤد ٨)

یقیناً میں تمہارے لیے باپ کی جگہ پر ہوں اور تمہیں سکھاتا ہوں

ایک اناڑی لڑکے کو بکری کی کھال اتارنے کا طریقہ سمجھاتے ہیں

حضرت ابو سعید خدریؓ سےروایت ہے ،رسول اللہ ﷺ ایک لڑکے کے پاس سے گزرے جو ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا ۔

رسول اللہ ﷺنے اسےفرمایا:

«تَنَحَّ، حَتَّى أُرِيَكَ»

’’ ایک طرف ہو جا ، میں تجھے بتاتا ہوں کھال کیسے اترتی ہے ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان رکھا اور اسے زور سے داخل فرمایاحتی کہ بغل تک بازو چھپ گیا ۔

فرمایا :«يَا غُلَامُ هَكَذَا فَاسْلُخْ» (ابن ماجہ، كِتَابُ الذَّبَائِحِ، بَابُ السَّلْخِ،3179)

’’لڑکے ! اس طرح کھال اتار ۔‘‘

پھر آپ چل دیے اور (جاکر ) لوگوں کو نماز پڑھائی اور (نماز کے لیے نیا ) وضو نہیں کیا

فراخ دلی اور سخاوت کی انتہا

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیا

حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

«مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6018)

: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے (ناں یا نہیں ) فرمایا ہو۔

دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں ایک ہی شخص کو دے دیں

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

آپ فرماتے ہیں

” مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ” (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6020)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام (لا نے) پر جوبھی چیز طلب کی جا تی آپ وہ عطا فر ما دیتے ،کہا: ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں اسے دے دیں ،وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا : میری قوم !مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے۔

اکیلے صفوان کو تین سو اونٹ دے دیئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین میں خونریز جنگ کی، اللہ نے اپنے دین کو اور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی

وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ مِائَةً مِنَ النَّعَمِ ثُمَّ مِائَةً ثُمَّ مِائَةً

اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے ،پھر سواونٹ پھر سواونٹ۔

صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :

«وَاللهِ لَقَدْ أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَانِي، وَإِنَّهُ لَأَبْغَضُ النَّاسِ إِلَيَّ، فَمَا بَرِحَ يُعْطِينِي حَتَّى إِنَّهُ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6022)

اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو عطا فر ما یا ،مجھے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ بغض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر آپ مجھے مسلسل عطا فرما تے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے تمام انسانوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو گئے

عزم ایسا کہ اگر احد پہاڑ برابر بھی سونا ہوتا تو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ (بخاری ،كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ أَدَاءِ الدَّيْنِ،2389)

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔

ضرورت کے باوجود مانگنے والے کو چادر دے دی

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ” بردہ “ (یعنی وہ لنگی جس میں حاشیہ بنا ہوا ہوتا ہے) لے کر آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لنگی ان سے قبول کر لی ۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے پہن لیا ۔

صحابہ میں سے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پروہ لنگی دیکھی تو عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے ، آپ یہ مجھے عنایت فرما دیجئے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لو ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو اندر جا کروہ لنگی بدل کرتہہ کرکے عبدالرحمن کو بھیج دی

(بخاري، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ حُسْنِ الخُلُقِ وَالسَّخَاءِ، وَمَا يُكْرَهُ مِنَ البُخْلِ،6036)

خریدا ہوا اونٹ لوٹا دیا اور رقم بھی واپس نہ لی

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ( ایک غزوہ کے موقع پر ) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے ، اونٹ تھک گیا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی ، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوق یہ میں مجھے بیچ دو ۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرالیا ۔ پھر جب ہم ( مدینہ ) پہنچ گئے ، تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کردی ، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا ( میں حاضر ہوا تو ) آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا ، اپنا اونٹ لے جاو، یہ تمہارا ہی مال ہے ۔ ( اور قیمت واپس نہیں لی )

(صحيح البخاري كِتَابُ الشُّرُوطِ، بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ،2718)

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا

خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ (مسلم، بَاب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ،715)

اپنا اونٹ بھی لے لے اور اپنے درہم بھی لے لے یہ تیرا مال ہے

میرے نبی کی عاجزی دیکھیں چھوٹے بچے سے اجازت لے رہے ہیں

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ

أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا غُلَامُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ قَالَ مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا لڑکے ! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا

اگر اجازت دو تو اپنی بیٹی کا ہار واپس کردوں

جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور ﷺ کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب کو ان کی والدہ حضرت خدیجہ نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور ﷺ کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت خدیجہ اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دوں

یہ سن کر تمام صحابۂ کرام نے سرتسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت زینب کے پاس مکہ بھیج دیا گیا

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ذکر رؤیا عاتکۃ۔..الخ،ص270 تاریخ طبری ص 1348)

میں بادشاہ نہیں ہوں غریب عورت کا بیٹا ہوں

حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو انصاری)ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:

أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَكَلَّمَهُ، فَجَعَلَ تُرْعَدُ فَرَائِصُهُ

ایک آدمی نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پ سے بات کرنے لگا۔(رسول اللہﷺ کے رعب کی وجہ سے )اس کے کندھے کانپنے لگے(اس پر کپکپی طاری ہو گئی)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«هَوِّنْ عَلَيْكَ، فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيدَ» (ابن ماجة، كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ،بَابُ الْقَدِيدِ،3312صحیح سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم :1876)

’’گھبراؤ مت‘میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تو ایک ایسی(عام سی غریب)عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘

میرے نبی اپنی تعظیم کے لیے کسی کو کھڑا نہ ہونے دیتے

معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا ہے:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ (ترمذی ،أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ،2755صحيح)

جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے باادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے

اپنی باری آتی تو پیدل چلتے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

بدر کے دن ہم میں سے ہر تین افراد کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا حضرت علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو وہ دونوں کہتے

نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ

کہ اے اللہ کے رسول آپ کی باری پر بھی ہم ہی چلیں گے تو آپ انہیں جوابا ارشاد فرماتے

مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنْ الْأَجْرِ مِنْكُمَا ( مسند احمد)

نہ تو تم دونوں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہو اور نہ ہی میں ایسا ہوں کہ مجھے اجر کی ضرورت نہیں ہے

میرے نبی پوری توجہ سے ایک پاگل عورت کی بات سنتے ہیں اور اس کا مسئلہ حل کرتے ہیں

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ نقص تھا(ایک دن) وہ کہنے لگی:

يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے آپ سے کام ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بہت شفقت واحترام سے)فرمایا:

«يَا أُمَّ فُلَانٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ، حَتَّى أَقْضِيَ لَكِ حَاجَتَكِ» (مسلم كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَاب قُرْبِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام مِنْ النَّاسِ وَتَبَرُّكِهِمْ بِهِ وَتَوَاضُعِهِ لَهُم،6044)

"ام فلاں!دیکھو،جس گلی میں تم چاہو(کھڑی ہوجاؤ)میں(وہاں آکر) تمھارا کام کردوں گا۔”آپ ایک راستے میں اس سے الگ ملے،یہاں تک کہ اس نے اپنا کام کرلیا

صحیح بخاری میں موجود ہے ؛

انس بن مالك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "إن كانت الامة من إماء اهل المدينة لتاخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنطلق به حيث شاءت”. (صحیح بخاری 6072 )

سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی

دس سالوں میں اپنے خادم انس کو ایک مرتبہ بھی نہیں ڈانٹا

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

” خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، وَاللهِ مَا قَالَ لِي: أُفًّا قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا؟ وَهَلَّا فَعَلْتَ كَذَا؟ ” (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6011)

میں نے (تقریباً)دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اللہ کی قسم! آپ مجھ سے کبھی اُف تک نہیں کہا اور نہ کبھی کسی چیز لے لیے مجھ سے یہ کہا کہ تم نے فلا ں کا م کیوں کیا؟ یا فلا ں کا م کیوں نہ کیا۔؟

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں اخلاق کے سب سے اچھے تھے،آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا ،میں نے کہا :اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا ۔حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرورجا ؤں گا۔تومیں چلا گیا حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا ،وہ بازار میں کھیل رہے تھے

فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي

پھر اچانک (میں نے دیکھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا

میں نے آپ کی طرف دیکھا تو

وَهُوَ يَضْحَكُ،

آپ ہنس رہے تھے۔

آپ نے فرمایا:

«يَا أُنَيْسُ أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ، بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6015)

"اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں (جانے کو) میں نے کہا تھا ؟”میں نے کہا جی! ہاں ،اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جا رہا ہوں۔

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی لونڈی یا غلام کو نہیں مارا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ :

مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ بِيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا خَادِمًا (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَاب مُبَاعَدَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْآثَامِ وَاخْتِيَارِهِ مِنْ الْمُبَاحِ أَسْهَلَهُ وَانْتِقَامِهِ لِلَّهِ عِنْدَ انْتِهَاكِ حُرُمَاتِهِ،6050)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا،نہ کسی عورت کو،نہ کسی غلام کو

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ :

وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ (بخاری، كِتَابُ المَنَاقِبِ، بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ،3560)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بد لہ نہیں لیا ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ :

وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ، فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَاب مُبَاعَدَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْآثَامِ وَاخْتِيَارِهِ مِنْ الْمُبَاحِ أَسْهَلَهُ وَانْتِقَامِهِ لِلَّهِ عِنْدَ انْتِهَاكِ حُرُمَاتِهِ،6050)

اور جب بھی آپ کو نقصان پہنچایا گیا تو کبھی(ایسا نہیں ہوا کہ) آپ نے اس سے انتقام لیا ہو

ایک بدوی کی بدتمیزی اور میرے نبی کی کشادہ دلی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا ۔ آپ نجران کی بنی ہوئی چوڑے حاشیہ کی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔اتنے میں ایک دیہاتی نے آپ کو گھیر لیا

فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيدَةً، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثَّرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبَتِهِ

اور زور سے آپ کو کھینچا ، میں نے آپ کے شانے کو دیکھا ، اس پر چادر کے کونے کا نشان پڑ گیا ۔ ایسا کھینچا ۔

ثُمَّ قَالَ: مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ،

پھر کہنے لگا ۔ اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلائیے ۔

فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ «أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ» (بخاری ،كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ،بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ،3149)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس دئیے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دینے کا حکم فرمایا ۔

میرے نبی اپنے خلاف احتجاج کا حق دیتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا

فَأَغْلَظَ لَهُ

اور سخت سست کہا۔

فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ

صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو سزا دینی چاہی

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا وَاشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ

کہ اسے کہنے دو۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔

لوگوں نے عرض کیا کہ

لَا نَجِدُ إِلَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ قَالَ اشْتَرُوهُ فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً (بخاری كِتَابُ فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ،بَابُ اسْتِقْرَاضِ الإِبِلِ،2390)

اس کے اونٹ سے ( جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا ) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو۔ کیوں کہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا رکرنے میں سب سے اچھا ہو۔ ( حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے )

مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے آگیا تھا۔ اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کی سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کی سخت کلامی کو روا رکھا

مسجد میں پیشاپ کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ :

ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ایک بدوی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا

تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نےکہا:

کیا کر رہے ہو ؟ کیاکر رہے ہو ؟

فصاح بہ الناس

فثار الیہ الناس

فزجرہ الناس

فاسرع الیہ الناس

فقال أصحاب رسول اللہ مہ مہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اسے (درمیان میں ) مت روکو، اسے چھوڑ دو۔‘‘

صحابہ کرام نےاسے چھوڑ دیا حتی کہ اس نے پیشاب کر لیا

پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایااور فرمایا:

«إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ» (مسلم، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غُسْلِ الْبَوْلِ وَغَيْرِهِ مِنَ النَّجَاسَاتِ إِذَا حَصَلَتْ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَّ الْأَرْضَ تَطْهُرُ بِالْمَاءِ، مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ إِلَى حَفْرِهَا،661)

’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔ ‘‘

پھر آپ نے لوگوں میں سے ایک کو حکم دیا ، وہ پانی کا ڈول لایا اور اسے اس پر بہا دیا

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے

اسی اعرابی صحابی( ؓ) نے دین کی سمجھ آجانے کے بعد ( اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا:

فَقَامَ إِلَيَّ بِأَبِي وَأُمِّي فَلَمْ يُؤَنِّبْ وَلَمْ يَسُبَّ (ابن ماجہ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا،بَابُ الْأَرْضِ يُصِيبُهَا الْبَوْلُ كَيْفَ تُغْسَلُ،529حسن)

میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں! آپ اٹھ کر میرے پاس آئے، مجھے نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا

پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا

وہ اعرابی دعا کرنے لگا

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ وَلَا تَغْفِرْ لِأَحَدٍ مَعَنَا

اے اللہ! مجھے اور محمد(ﷺ) کو بخش دے اور ہمارے ساتھ کسی اور کی بخشش نہ کرنا