مزاج، سماج اور رب کائنات کا دین

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (النور : 48)

اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو اچانک ان میں سے کچھ لوگ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔

وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ (النور : 49)

اور اگر ان کے لیے حق ہو تو مطیع ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ شریعت کی اس طرح کی پیروی اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وزن نہیں رکھتی، کیونکہ یہ شریعت کی پیروی نہیں بلکہ نفس کی پیروی ہے۔

(ابن کثیر)

اس وقت ہمارے معاشرے میں تین طرح کے دین پائے جاتے ہیں:

01. مزاج کا دین

02. سماج کا دین

03. رب کائنات کا دین

مثال کے طور پر

دودھ والے نے دُودھ میں پانی ملایا

اور پھر بچا ہوا پانی زمین پر بیٹھ کر پی لیا !

پوچھا گیا ، یہ کیا ہے ؟

تو بولا : ” بیٹھ کر پانی پینا سنت ہے۔”

سوچنے کی بات ہے کہ جو سنت کا اتنا پابند ہے کہ کھڑے ہو کر پانی نہیں پی رہا وہ دودھ میں کیسے پانی ملا لیتا ہے

وجہ یہ ہے کہ ہم بہت سارے دین پر صرف اس لیے عمل کررہے ہوتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس پر عمل کی کوئی شکل پائی جاتی ہے

اور بہت سے دین پر صرف اس لیے عمل نہیں کرتے کہ یا تو معاشرے میں اس کا رواج نہیں ہوتا یا اپنے کسی ظاہری مفاد سے ٹکرا رہا ہوتا ہے

پانی کا قطرہ اور بہن کی وراثت

کتنے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ دوران وضو پانی کا ادنی سا قطرہ غیر ارادی طور پر حلق سے نیچے اتر جائے تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

جبکہ باپ کی وراثت میں سے بہن کے حصے کے کئی ایکڑ انہی لوگوں کے حلق سے نیچے اتر چکے ہوتے ہیں

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو اتنا متقی ہے کہ قطرہ پانی سے پریشان ہے وہ ایکڑوں کے ایکڑ کیسے کھا جاتا ہے؟

جواب وہی ہے کہ ہم بہت سا دین رب کائنات کی بجائے معاشرے سے سیکھتے ہیں معاشرے نے قطرہ پانی کے متعلق حساسیت سکھا دی تو ہم نے سیکھ لی اور بہن کے حصہ وراثت کو رواج نہیں دیا تو ہم بھی ویسے ہی ہوگئے

ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو بہنوں کے حق مار کر ویلفیئر کی تنظیمیں چلا رہے ہیں اور لوگوں کے اموال غصب کر کے حاتم طائی بنے ہوئے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے دین کو بطور فیشن اختیار کیا ہے، اگر اللہ کا قرب مقصد ہوتا تو پہلے فرائض بجا لاتے

مسواک اور داڑھی کا سائز

ہمارے ہاں کی اکثریت مسواک کے سائز کے متعلق بہت پریشان ہے کہ وہ کم از کم ایک بالشت کے برابر ہو

جبکہ ان کی داڑھی کے سائز ایک، آدھی انچ سے آگے نہیں بڑھتے

حالانکہ شریعت نے مسواک کے سائز کو ڈسکس ہی نہیں کیا اور داڑھی کو آزاد چھوڑنے، بڑھانے اور لٹکانے کا حکم دیا ہے

اللہ تعالیٰ کا حکم کیا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (البقرة : 208)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقینا وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

ہمارے استاذ گرامی حضرت حافظ صاحب لکھتے ہیں :

"مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی پورے اسلام اور ساری شریعت پر چلو، یہ نہیں کہ اسلام کے کچھ احکام پر عمل کر لیا، باقی چھوڑ دیے۔ نماز روزہ کی پابندی کر لی اور عقیدے میں شرک، تجارت میں سود، عدالتوں میں غیر اللہ کا قانون، معاشرت میں ہندو، نصرانی، یہودی تہذیب اختیار کیے رکھی اور اسے زمانے کا تقاضا اور ترقی پسندی قرار دے لیا۔”

تفسیر القرآن الكريم

یہود کا غلط طریقہ

یہ طریقہ یہودیوں کا تھا کہ تورات کی میٹھی میٹھی باتیں قبول کر لیتے اور کڑوی باتیں چھوڑ دیتے

ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

یہود سے چار عہد لیے گئے تھے :

01. ایک دوسرے کا خون نہ بہانا۔

02. ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالنا۔

03. ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا۔

04. قیدی کو فدیہ دے کر چھڑا لینا

مگر وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بلا جھجک ان کا ارتکاب کرتے۔

یہود کی اس روش پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرۃ : 85)

پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جوتم کرتے ہو۔

کفار مکہ کا مزاجی اور سماجی دین

یہود کی طرح مشرکین مکہ کی بھی یہی حالت تھی دعویٰ ان کا یہ تھا کہ ہم ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے پیروکار ہیں اور دین حنیف پر چلنے والے ہیں

مگر

ان کی پیروکاری کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں

ایک طرف یہ تسلیم کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدم سے وجود بخشا

جیسا کہ فرمایا :

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ (زمر (38)

اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔

تو دوسری طرف

اللہ تعالیٰ کو اتنا بے بس قرار دیتے ہیں کہ وہ ایک انسان کو دوبارہ نہیں بنا سکتا جسے اس نے پہلے بنایا تھا۔

فرمایا :

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (يس : 78)

اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟

یہ مشرکین مکہ کے اپنے مزاج اور سماج کی باتیں تھیں رب کائنات کے دین سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا

کعبہ کے لیے وقف جانور کی بھی عزت کرتے تھے جبکہ کعبہ میں پناہ گزیں بنو خزاعہ کو قتل کر دیا

اللہ تعالیٰ نے مکے کے مشرکین کی کعبہ اور اس کے اندر رکھے ہوئے بتوں کے لیے وقف جانوروں کی تعظیم کے متعلق فرمایا :

وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (الأنعام : 138)

اور انھوں نے کہا یہ چوپائے اور کھیتی ممنوع ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں کھائے گا جسے ہم چاہیں گے، ان کے خیال کے مطابق اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام کی گئی ہیں اور کچھ چوپائے ہیں جن پر وہ اللہ کا نام نہیں لیتے، اس پر جھوٹ باندھتے ہوئے۔ عنقریب وہ انھیں اس کی جزا دے گا جو وہ جھوٹ باندھتے تھے۔

اور دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ بنوخزاعہ قبیلے کے لوگوں نے جان بچانے کے لیے کعبہ میں پناہ لے لی تو ان لوگوں نے کعبہ کے اندر بھی انہیں معاف نہ کیا اور بے دریغ قتل کرتے رہے

(الرحیق المختوم)

ایک طرف اتنی غیرت

کہ بیٹی کو زندہ درگور کردیتے صرف اس وجہ سے کہ لوگ کہیں گے اس کے گھر میں بیٹی ہے یا کل کوئی میرا داماد بنے گا یا جنگوں میں بیٹی کو دشمن گرفتار کر لے گا

جبکہ دوسری طرف

انہی کی عورتیں ننگے ہو کر کعبہ کا طواف کرتیں تھیں اور بے حیائی پر مبنی غیر شرعی نکاح عام تھے حتی کہ ایک عورت دس دس آدمیوں سے نکاح کر لیتی تھی

مگر غیرت تو دور کی بات کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی

پتھر کو رب مان لیا مگر بشر کو رسول نہ مانا

مشرکین مکہ پر کس قدر تعجب ہے کہ

خواہشِ نفس اور مزاج پرستی نے انہیں اندھا کر دیا تھا ، انھوں نے پتھر سے تراشے گئے بت کو رب بنا لیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو اس لیے ٹھکرا دیا کہ آپ بشر ہیں

کفار عرب اور مشرکین مکہ کے یہ سب کردار فقط اپنے من، مزاج، سمجھ اور سماج کے مرہونِ منت تھے دین الٰہی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا

حالانکہ دینِ ربِ کائنات تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے جو حکم آئے خواہ مزاج و سماج اسے قبول کرے یا نہ کرے آپ اسے ہرصورت قبول کریں

مسلمانوں کے اپنے اپنے مزاج و سماج کے مطابق فیصلے

اسلام بصیرت کا نام ہے جذبات کا نہیں کیونکہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو گویا وہ پوری بصیرت سے اقرار کرتا ہے کہ میں اس کے ہر حکم پر عمل کروں گا

مگر افسوس کہ اس وقت اکثر مسلمانوں کی حالت یہود اور مشرکین جیسی بن چکی ہے اپنی مرضی، مفاد اور مصلحت کا اسلام اپنایا ہوا ہے اور اسی پر خوش ہیں

ہمارے استاذ گرامی لکھتے ہیں

افسوس! مسلمانوں نے بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا

وہ حج پر نہیں جاتے مگر قبروں پر عرسوں میں ہزاروں لٹا دیتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے مگر مر شدوں کے وظائف پر گھنٹے لگادیتے ہیں۔ زکوۃ و عشر نہیں دیتے مگر میت کے موقع پر دیگوں، ختموں اور مولوی صاحبان پر لاکھوں اڑا دیتے ہیں، نکاح کی رسوم پوری کرنے ، جہیز بنانے کے لیے ساری عمر کے لیے مقروض ہو جاتے ہیں مگر لڑکیوں کو ورثہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اس کی شکایت اللہ کے سوا کس کے سامنے کی جائے۔

خنزير نہیں کھاتے مگر سود کھا لیتے ہیں

مسلمان، خنزیر اور مردار نہیں کھاتے اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے

جبکہ

سود و شراب کھا پی لیتے ہیں حالانکہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ نے ہی منع کیے ہیں

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاشروں میں خنزير و مردار کھانے کا رواج نہیں ہے اور سود و شراب کھانا عام ہے

اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بات مان رہے ہیں یا اپنے معاشرے کی

ایسے ہی نماز، روزہ کرلیتے ہیں

جبکہ

جہاد و قتال نہیں کرتے

حالانکہ کہ دونوں کے حکم ایک ہی ہیں

حی علی الصلاۃ

اور

حی علی الجہاد

نیز

کتب علیکم الصيام

اور

کتب علیکم القتال

سوچیے کہ حکمِ ربانی ہونے میں دونوں میں کیا فرق ہے؟

اپنے اپنے دائرے اپنی اپنی سنتیں

اگر کوئی شخص نماز میں رفع الیدین تو ضرور کرتا ہے (اچھی بات ہے)

لیکن نہ داڑھی رکھتا ہیں اور نہ شلوار ٹخنوں سے اوپر کرتا ہے

تو سمجھ لیں کہ وہ اپنے خاص دائرے اور ماحول پر عمل کررہا ہے دین پر نہیں

اور کوئی ایسا ہے کہ ٹوپی کے بغیر نماز نہیں پڑھتا

جبکہ داڑھی کے بغیر نماز پڑھ لیتا ہے

اور کوئی سارا زور ہری، پیلی، زرد رنگ کی پگڑی پر لگاتا ہے

جبکہ اس کی شلوار مستقل ٹخنوں سے نیچے رہتی ہے

اور کوئی ایسا ہے کہ ہرروز فضائل اعمال تو پڑھتا ہے

مگر یہ فکر نہیں رکھتا کہ قرآن چھوٹتا ہے تو چھوٹ جائے

جو بارہ ربیع الاول کو جشن منا لے اسے محبتِ رسول کی سند مل جائے گی چاہے پورا سال ایک نماز بھی نہ پڑھے

اور جو پورا سال صوم و صلاۃ کا پابند ہو، وضع قطع سنت کے مطابق ہو مگر بارہ ربیع کو جشن میں شرکت نہ کرے تو وہ پکا گستاخ ہے

بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ خود کیک پر نامِ "محمد”(صلی اللہ علیہ وسلم) لکھ کر کاٹیں تو کوئی گستاخی نہیں

جوتے کی شبیہ بنا کر جشن و استقبال کریں تو کوئی گستاخی نہیں

میلاد کے جشن میں حور لا کر بٹھا لیں تو کوئی گستاخی نہیں

جبکہ کوئی دوسرا

صرف "بشر” کہہ دے تو گستاخ ہے

الغرض کہ

ہر ایک کے اپنے اپنے دائرے ہیں جن میں گھوم رہے ہیں

(وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ)

اور مقام حیرت یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے شارٹ کٹ کورس پر خوش بھی ہے

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (المؤمنون : 53)

پھر وہ اپنے معاملے میں آپس میں کئی گروہ ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ ہر گروہ کے لوگ اسی پربہت خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔

اپنی اپنی دلیلیں

بعض لوگوں کی یہ حالت ہے کہ دلیل لینے پہ آئیں تو کافر ابو لہب کے خواب سے لے لیں

اور نہ ماننے پہ آئیں تو قرآن کی واضح آیت(الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا انکار کردیں

میں نے ایک بوڑھے سمجھدار آدمی سے داڑھی رکھنے کی بات کی تو کہنے لگے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی بھی تو داڑھی نہیں تھی مگر اس نے یہ نہ سوچا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی تو تھی ناں

ایسے ہی عموماً عورت اپنی جوانی میں بیوی بن کر علیحدہ ہونے پر زور دیتی ہے اور بڑھاپے میں ساس بن کر اکٹھے رہنے پر دلیلیں دیتی ہے

بعض لوگ دوسروں کی بیٹیوں کو طلاق ثلاثہ کے بعد حلالہ کا فتویٰ دیتے ہیں

جبکہ یہی مسئلہ اپنی بہن، بیٹی، بیوی سے پیش آ جائے تو کسی ایسے مفتی کے فتوے کا سہارا لے لیتے ہیں جو حلالہ کو جائز نہیں سمجھتا

اور کوئی ایسے ہیں کہ یوں تو اپنے دائرے کے بہت پکے ہیں

مگر جب بینک سے گاڑی لینی ہو تو دوسرے گروہ کے کسی مفتی صاحب کا فتویٰ اپنانے سے ذرا نہیں چونکتے

اور بعض ایسے ہیں کہ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے اہل تشیع کا لیبل لگانے سے نہیں کتراتے

پسند کی روایات

کسی نے کہا یہ روایات مجھے بہت پسند ہیں

سرکار کو حلوہ بہت پسند تھا

جب کھانا حاضر ہو تو نماز نہیں

خوشبو کا تحفہ رد نہیں کرتے

(کھانے کی) دعوت ملے تو قبول کرو

خواتین کو دوسری شادی کی بات پسند نہیں مگر یہ بہت یاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پہ نکلتے تو اکیلے جانے کے بجائے اپنی کسی بیوی کو ساتھ لے جاتے

اور

مردوں کو دوسری شادی والی سنت بہت یاد ہے مگر بیویوں کے حقوق کا کوئی خیال نہیں

الغرض ہمیں دین بھی وہی پسند ہے جو اپنے مفاد میں جاتا نظر آتا ہے

خشک تقوی

ایسا ہی ایک مدینہ میں مَن پسند دلیل پرست منافق تھا جس کا نام جد بن قیس تھا اس نے تبوک کے موقع پر یہ بہانہ بنایا کہ یا رسول اللہ! رومی عورتیں بہت خوبصورت ہیں، اگر میں وہاں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا، اس لیے آپ مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ (ہاں، میں مال خرچ کرکے مدد کروں گا)۔

[ المعجم الکبیر : 275/2، ح : ۲۱۵۴۔ أبونعیم فی المعرفۃ ]

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے :

اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا

یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑ جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں کہ جہاد پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔

کیمرے والا دین

اسی طرح ہمارے تقوی، نیکی کے جذبہ، اور دین داری کے اتار چڑھاؤ میں کیمرے اور خودنمائی کا بھی بڑا عمل دخل ہے ہم کیمرے کے سامنے جتنا نیک ہوتے ہیں آؤٹ آف کیمرا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتے

کوئی شخص ہزار، دو ہزار افراد کو افطاری تو کروا دیتا ہے مگر ہمسائے کو مانگنے کے باوجود پانچ ہزار روپے ادھار نہیں دیتا تو اس کا کیا مطلب ہے، خود ہی سوچیں

گوجرانوالہ میں ایک عظیم الشان جلسہ عام رکھا گیا، چار بڑے خطباء کو بلایا گیا، چاول کی آٹھ دس دیگیں،اس کے علاوہ اشتہارات، پبلسٹی وغیرہ کا ٹوٹل خرچ دو اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ تھا سارا خرچ ایک ہی چوہدری صاحب کررہے تھے

جب خصوصی خطاب کی باری آئی تو دوران تقریر ایک غریب آدمی کھڑا ہوا خطیب صاحب سے کہنے لگا کہ جس چوہدری صاحب نے آج کے پروگرام کا سارا خرچ اپنے ذمے لے رکھا ہے اس نے دو سال سے میرا دس ہزار روپیہ دینا ہے اور بار بار مطالبہ کے باوجود نہیں دے رہا

لوگ بڑا ثواب سمجھ کر مسجد پہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں

جبکہ مسجد کے خطیب امام پر خرچ کرتے وقت جان نکلتی

پانچ پانچ کروڑ کی مسجد، مسجد کے اکاؤنٹ میں پڑے لاکھوں روپے جبکہ امام کی تنخواہ فقط بیس ہزار، پچیس ہزار

فرائض چھوڑ کر نوافل کے پیچھے

یاد رکھیں کہ فرائض ہمیشہ نوافل پر مقدم ہوتے ہیں۔ تو جس شخص کے ذمہ واجب الادا قرض ہو یا زکوٰۃ ہو یا ہمسائیوں کے حقوق ہوں اور وہ ان حقوق کو چھوڑ کر رمضان میں افطاریاں کرواتا پھرے، بڑے بڑے جلسے سجھائے تو وہ درست روش پر قائم نہیں ہے۔ اس پر لازم ہے کہ پہلے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو۔

عبادت اور معاملات دونوں کی اصلاح ضروری ہے

بعض لوگ عبادات میں اتنے پیچھے ہوتے ہیں کہ فرائض بھی نہیں ادا کرتے جبکہ مارکیٹ میں ان کی امانت داری مشہور ہوتی ہے

اور بعض دیگر عبادات میں بہت آگے ہوتے ہیں جبکہ مارکیٹ میں ان کی شہرت اچھی نہیں ہوتی

یہ دونوں ہی ایک انتہا پر ہیں

اصل یہ ہے کہ عبادت اور معاملات دونوں کی اصلاح کرے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا :

إِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ كَثْرَةِ صَلَاتِهَا، وَصِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، غَيْرَ أَنَّهَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا،

کہ وہ عورت نماز، روزے اور صدقات کا بہت اہتمام کرتی ہے مگر اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” هِيَ فِي النَّارِ ".

وہ جہنم میں جائے گی

پھر اس نے ایک اور عورت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّ فُلَانَةَ يُذْكَرُ مِنْ قِلَّةِ صِيَامِهَا، وَصَدَقَتِهَا، وَصَلَاتِهَا، وَإِنَّهَا تَصَدَّقُ بِالْأَثْوَارِ مِنَ الْأَقِطِ، وَلَا تُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا،

اے اللہ کے رسول! فلاں عورت کی نماز، روزے اور صدقہ تو گزارے لائق ہی ہے لیکن وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں دیتی

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” هِيَ فِي الْجَنَّةِ ".مسند أحمد |9675: إسناده حسن

وہ جنت میں جائے گی

جیسا دیس ویسا بھیس

سماج کے پجاریوں کی ایک بڑی منافقت یہ بھی ہوتی ہے کہ جگہ اور ماحول کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان کا دینی لیول بھی تبدیل ہوتا رہتا

یہی طریقہ منافقین کا تھا

فرمایا :

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (البقرة : 14)

اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں۔

مچھر کے لیے فکر مند مگر نواسہ رسول کی کوئی فکر نہیں

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے مچھر کے خون کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا تو کہاں کا باشندہ ہے؟

اس نے کہا کہ عراق کا رہنے والا ہوں

ابن عمر نے فرمایا کہ اس آدمی کو دیکھو یہ مچھر کے خون کے متعلق پوچھتا ہے حالانکہ ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند (یعنی حسین) کو قتل کیا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں –

کھجور کے لیے فکر مند مگر صحابی رسول کو قتل کر دیا

ایک طرف نھروان والے خوارج کے تقوے کا یہ معیار تھا کہ ایک باغ کے پاس سے گزرے تو کسی خارجی نے گری ہوئی کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو دوسرے خارجی نے کہا :

کیا تم اس کھجور کو حلال کئے بغیر نہیں کھا رہے کہ اس کی قیمت نہیں دی ہے؟ یہ سُن کر اس خارجی نے اپنے منہ سے وہ کھجور نکال کر پھینک دی

پھر یہ لوگ کسی ذمی کے خنزیر کے پاس سے گزرے تو ایک خارجی نے اس خنزیر کو مار دیا ، یہ دیکھ کر دوسرے خارجی کہنے لگے :

یہ زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ پھر اسی خارجی نے خنزیر کے مالک کو بلوایا اور اسے راضی کی

اور دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ صحابی رسول عبدُاللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا اور محض اس وجہ سے شہید کردیا کہ انہوں نے عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کی تعریف کردی تھی