محمد ﷺبحیثیت ہنس مکھ

مسکراہٹ اور تبسم کے حوالے سے آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ کی مسکراہٹ گردیدہ کرنے والی اور دلکش تھی اور آپ کا تبسم دلوں کو موہ لینے والا اور روح کو تسکین دینے والا ہے۔ صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات وہ تھے جو انھوں نے اس روشن اور مسکراتے چہرے کے دیدار میں گزارے۔ انھوں نے اس دیدار کی روداد میں نہایت سرخوشی ، شرح صدر اور سادگی سے ہم تک پہنچا ئیں۔ آپﷺ کی مسکرانا کسی بھی دوسرے انسان سے مختلف ہے۔  آپ ﷺ کی مسکراہٹ کو علمائے کرام آپ کی رضا مندی پر محمول کرتے ہیں اور وہ شریعت بن جاتی ہے۔ آپ کسی منظر اور واقعے کو پسند کریں تو وہ دین بن جاتا ہے۔ گویا آپ کی مسکراہٹ عبادت اور شریعت ہے کیونکہ آپ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اور آپ کو اللہ کی تائید اور عصمت حاصل ہے۔

نبی ﷺنے مسکرانے کی ترغیب دلائی اور بتایا کہ یہ نیکی ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے مجھ سے فرمایا: ((لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقٰى أَخَاكَ بِوَجْهِ طَلْقٍ))

’’نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو کھلے ہوئے چہرے سے ملو۔‘‘ (صحيح مسلم، البر والصلة، حديث: 2626)

 آپ ﷺ نے بتایا کہ مسکراہٹ صدقہ ہے جس پر مسلمان کو اجر ملتا ہے، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((تَبْسُمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ))

’’تمھارا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی تمھارے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘(جامع الترمذي، أبواب البر والصلة حدیث:1956)

نبی اکرمﷺ سے ملنے اور آپ کی مسکراہٹ دیکھنے والے ہر شخص نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے اور افترا پرداز کا چہرہ ہرگز نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کو جھوٹی مسکراہٹ سے بھی محفوظ رکھا کیونکہ آپ کی مسکراہٹ انبیاء کی سنت ہے جو ان کے پاکیزہ باطن، شفاف دل، پختہ ایمان، ستھرے عقیدے اور پاک صاف روح کی دلیل ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

مِنْ نُورٍ وَجْهِكَ تَسْتَضِيءُ الْأَنْجُمُ

وَالْفَجْرُ يُشْرِقُ مِنْ نَّدَاكَ وَ يَبْسِمُ

حَتَّى كَأَنَّ الْبَدْرَ أُعْطِيَ لُمْعَةً

مِنْ حُسْنِكَ الْبَاهِي وَحُسْنُكَ أَعْظَمُ

’’آپ ﷺ کے چہرہ انور کے نور سے ستارے روشنی پاتے ہیں اور آپ کے جود و کرم سے فجر روشن ہوتی اور مسکراتی ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ چودھویں کے چاند کو آپ کے پر رونق حسن سے کچھ چمک عطا کی گئی ہے کیونکہ آپ کا حسن گرانقدر اور عظیم ترین ہے۔‘‘

آپ ﷺکی مسکراہٹ کا ایک منظر سید نا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: رسول اکرم ﷺنے مجھے جب بھی دیکھا، آپ ضرور مسکرائے۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3035)

سیدنا جریر ملی نام اس عطا اور نوازش پر فخر کرتے ہیں۔ گرم جوشی اور شیرینی سے بھر پور یہ سچی مسکراہٹ سیدنا جریر رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک ہر یاد سے اعلی اور ہر تمنا سے برتر تھی۔ نبیﷺ سیدنتا جریر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر مسکراتے تو ان کی روح نیکی ، شفقت اور لطف وکرم سے بھر جاتی اور ان کا دل آپ کی عظمت ، رحمت اور محبت سے معمور ہو جاتا۔

جہاں تک آپ کے ہنسنے کا تعلق ہے تو یہ ایسا تاریخی نبوی تحفہ ہے جس سے مردوعورت ہر مومن نے سعادت پائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تو اس سے براہ راست مستفید ہوئے اور اس مسکراہٹ کو آگے ہمارے لیے نقل کیا۔ وہ کہتے ہیں: آپ ﷺ مسکرائے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں۔ آپ ایسا خوبصورت مسکرائے کہ دانت مبارک اولوں کی طرف سفید دکھائی دیے۔ آپ مسکرائے تو موتیوں جیسے دانت نظر آنے لگے۔ پھر وہ آپ کے مسکرانے کی وجہ ذکر کرتے ہیں۔ وہ  آپ ﷺ کے ہنسنے کی وجہ سے ہنستے اور آپ کے انس و محبت سے مانوس ہوتے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی مسکراہٹ نہایت خوبصورت اور انوکھی تھی۔

آپ مزاح کے انداز میں راہنمائی فرما دیتے۔ مسکراہٹ کے ساتھ تربیت کرتے اور اپنے تبسم سے دوسروں کو خوش کرتے۔ آپ کا اشارہ دعوت اور آپ کی مسکراہٹ ایک پیغام ہے۔ آپ کے مزاح کے انداز کا بھی کوئی مقصد ہوتا اور مسکرانے میں کوئی راز ہوتا کیونکہ آپ ﷺ اپنی سنجیدگی ، مزاح ، مسکراہٹ اور رونے میں بھی معصوم تھے۔

رسول اکرم ﷺ کی مسکراہٹ، مزاح اور دل لگی میں اعتدال تھا۔ نہ آپ خشک مزاج اور منہ بسورنے والے تھے اور نہ حد سے زیادہ بننے اور ٹھٹھا مذاق کرنے والے کہ مزاح میں ہلکے پن کا مظاہرہ کریں۔

آپ ﷺ بعض مواقع پر ہنستے تھے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو جاتیں لیکن اس قدر نہ بنتے کہ جسم بھی حرکت کرے اور لوٹ پوٹ ہو جائیں یا اس طرح منہ کھولیں کہ حلق ظاہر ہو جائے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: ((مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتّٰى أَرٰى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ))

’’میں نے کبھی   نبی ﷺ کو اس طرح کھل کر  ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے تالو کا گوشت نظر آتا ہو۔ آپﷺ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6092)

آپﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے بعض صحابہ سے مزاح کیا۔ جب ایک صحابی نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول ! مجھے سوار کر دیں۔ نبی ﷺ  نے فرمایا: ’’ہم تجھے اوٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔“ اس نے کہا: میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ تب بھی ﷺ  نے فرمایا: ”اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث:13817)

نبی ﷺ نے سیدنا انس سے مزاح کرتے ہوئے انھیں فرمایا:

((يَا ذَالْأُذُنَيْنِ)) ’’ اے دوکانوں والے ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 5002)

آپ ﷺمزاح میں بھی ہمیشہ سچی بات کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ شریعت کے احکام سمجھاتے ہوئے دین اسلام کی کشادگی اور ملت کے لیے آسانی پر مسکرائے۔ سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ  کے پاس آیا اور کہا: میں تو تباہ ہو گیا۔ میں نے ماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع کر لیا ہے۔  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک غلام آزاد کر۔‘‘ اس نے کہا: میرے پاس غلام نہیں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ اس نے کہا: ان روزوں کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘  اس نے کہا: یہ کام بھی میری استطاعت سے باہر ہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ  کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لا یا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سائل کہاں ہے؟‘‘ پھر اس سے فرمایا: ’’لو، اسے صدقہ کر دو۔‘‘ اس نے کہا: مجھ سے زیادہ جو ضرورت مند ہو، کیا اسے دوں۔ اللہ کی قسم! مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھرانا ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ یہ بات سن کر نبیﷺ ہنس نہیں پڑے حتی کہ آپ کے آخری دانت ظاہر ہو گئے، پھر فرمایا: ’’اچھا، پھر تم ہی انھیں کھا لو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث : 6087)

نبی کریمﷺ تعجب اور حیرت سے بھی منسے ہیں۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس چند قریشی عورتیں (ازواج مطہرات ) بیٹھی آپ سے محو گفتگو تھیں اور بآواز بلند آپ سے خرچہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ لیکن جونہی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ اٹھیں اور جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے مسکراتے ہوئے انھیں اجازت دی۔ سیدنا عمر ﷺنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ خوش رکھے  (یہ مسکراہٹ کیسی ہے؟) آپﷺ نے فرمایا: ’’میں ان عورتوں پر تعجب کر رہا ہوں جو میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انھوں نے تمھاری آواز سنی تو جلدی سے حجاب میں چلی گئی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق،حديث: 3294)

آپﷺ مسئلے کا اقرار کرتے اور کلام کو درست سمجھتے ہوئے بھی مسکرائے، جیسا کہ سیدنا ابن مسعود ی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی ﷺکے پاس آیا اور کہنے لگا: ابوالقاسم! اللہ تعالی تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھے گا، تمام زمینوں کو ایک انگلی پر ، درخت اور گیلی مٹی ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا : میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبیﷺ کو دیکھا آپ  ہنس دیے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں، پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی:

’’انھوں نے اللہ کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘ (صحيح البخاري، التوحيد، حديث: 7415)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

’’قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی بن جائے گی جسے اللہ تعالٰی اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کرے گا، جیسے کوئی تم میں سے سفر میں اپنی روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے۔ پھر ایک یہودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا : اے ابو القاسم! تم پر رحمن برکت نازل فرمائے، کیا میں تمھیں قیامت کے دن اہل جنت کی سب سے پہلی ضیافت کی خبر نہ دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے کہا: یہ زمین ایک روٹی بن جائے گی، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ جب نبی  ﷺ نے ہماری طرف دیکھا، پھر اتنا ہنسے کہ آپ کے دانت نمایاں نظر آنے لگے۔ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث: 6520)

آپ ﷺ آخرت میں اللہ کی رحمت کا تذکرہ بھی خوشی ، سرور اور مسکراہٹ سے کرتے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میں اسے جانتا ہوں جو دوزخ والوں میں سے سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور جنت والوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ وہ ایسا آدمی ہے جو ہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک و تعالی اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ وہ جنت میں آئے گا تو اُسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ دوبارہ جائے گا تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر پھر کہے گا: اے میرے رب! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا جنت میں داخل ہو جا۔ تیرے لیے وہاں پوری دنیا کے برابر اور اس سے دس گنا زیادہ جگہ ہے (یا تیرے لیے دنیا سے دس گنا زیادہ جگہ ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص کہے گا: کیا تو میرے ساتھ مزاح کرتا ہے (یا میری ہنسی اڑاتا ہے) حالانکہ تو ہی بادشاہ ہے؟‘‘

سید نا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ سیدنا عبداللہ ﷺ نے کہا: چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ وہ شخص سب سے کم مرتبہ جنتی ہو گا۔ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث (180)

نبی اکرمﷺ بعض عجیب و غریب امور پر بھی ہنسے اور اس میں پائے جانے والے شرعی امور کی وضاحت فرمائی۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ  کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول ! میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا سرکاٹ دیا گیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: نبی ﷺ  ہنس پڑے اور فرمایا : ’’جب خواب میں شیطان تم میں سے کسی کے ساتھ چھیڑ خانی کرے تو وہ لوگوں کو نہ بتاتا پھرے‘‘ (صحیح مسلم، الرؤيا، حدیث:2268)

آپﷺ کی بعض دیہاتی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مزاح اور کھیل کود پر بھی مسکراتے تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبیﷺ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا تھا اور آپﷺ بیان فرما رہے تھے: ”اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کاشتکاری کی اجازت طلب کرے گا تو اللہ تعالی اسے سے فرمائے گا: کیا تو موجودہ حالت پر خوش نہیں؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں (خوش ہوں) لیکن مجھے کھیتی باڑی سے محبت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ بیچ کاشت کرے گا تو پل جھپکنے میں وہ اُگ آئے گا، فوراً سیدھا تنا ہو جائے گا اور کاٹنے کے قابل ہو جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ کی طرح انبار لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے!یہ لے لے، تجھے کوئی چیز سیر نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر دیہاتی کہنے لگا: اللہ کی قسم! وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی باڑی والے لوگ نہیں۔ یہ سن کر نبی ہنس پڑے۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حديث: 2348)

آپ ﷺ اس بشری کمزوری پر بھی ہنسے جو لوگوں کو لاحق ہو جاتی ہے، خواہ وہ کتنے ہی اچھے اور تندرست و توانا ہوں۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن سے کچھ نہ پاسکے۔ آخر آپ ﷺنے فرمایا: ’’ہم ان شاء اللہ کل یہاں سے لوٹ جائیں گے۔‘‘ یہ بات مسلمانوں پر بہت گراں گزری اور وہ کہنے لگے: کیا ہم فتح کے بغیر واپس جائیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اچھا صبح جنگ کا آغاز کرو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے صبح جنگ چھیڑ دی تو انھیں بہت زخم آئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’کل ان شاء اللہ ہم واپس چلیں گے۔‘‘ یہ سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے تو نبی ﷺکام کو ہنسی آگئی۔ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4325)

 نبیٔ کریمﷺ  لوگوں کے جلدی اُکتا جانے اور ان کی قلت صبر پر بھی مسکرائے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی جمعہ کے دن نبی ﷺ  کے پاس آیا جبکہ آپ مدینہ طیبہ میں خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے عرض کی : بارش کا قحط پڑ گیا ہے، لہٰذا آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کریں۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہمیں کہیں بھی بادل نظر نہیں آ رہے تھے۔ آپﷺ نے بارش کی دعا کی تو بادل اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف جانے لگے، پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعے تک اسی طرح بارش ہوتی رہی اور وہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ آئندہ جمعہ وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا جبکہ نبی ﷺخطبہ دے رہے تھے۔ اس نے کہا: ہم ڈوب گئے، اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اب بارش بند کر دے۔ آپﷺ ہنس پڑے، پھر دعا کی: ’’اے اللہ ! ہمارے ارد گرد بارش ہو، ہم پر نہ برسے۔‘‘  دو یا تین مرتبہ آپ نے اس طرح فرمایا، چنانچہ مدینہ طیبہ سے دائیں بائیں بادل چھٹنے لگے۔ ہمارے ارد گرد دوسرے مقامات پر بارش ہوتی رہی اور ہمارے ہاں بارش یک دم بند ہو گئی۔ اللہ تعالی نے لوگوں کو اپنے نبی ﷺ  کا معجزہ اور دعا کی قبولیت کا منظر دکھایا۔

(صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6093)

 آپ ﷺ نے اپنے ایک صحابی کے بہترین جواب اور سورہ فاتحہ کو بطور دم اختیار کرنے میں حق کی موافقت پر بھی تبسم فرمایا۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ سفر میں تھے۔ عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے سامنے سے ان کا گزر ہوا۔ انھوں نے قبیلے والوں سے چاہا کہ وہ انھیں اپنا مہمان بنا ئیں۔ انھوں نے مہمان بتانے سے انکار کر دیا، پھر انھوں نے کہا: کیا تم لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے کیونکہ قوم کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے یا اسے کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے کہا: ہاں، پھر وہ اس کے قریب آئے اور اسے فاتحہ الکتاب سے دم کر دیا۔ وہ آدمی ٹھیک ہو گیا تو دم کرنے والے کو بکریوں کا ایک ریوڑ (تیس بکریاں) پیش کیا گیا۔ اس نے انھیں (فوری طور پر ) قبول کرنے (کام میں لانے) سے انکار کر دیا اور کہا: یہاں تک کہ میں نبیﷺ کو ماجرا سنا دوں۔ وہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا آپ کو سنایا اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے فاتحہ الکتاب کے علاوہ اور کوئی دم نہیں کیا۔  آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: ’’تمھیں کیسے پتہ چلا کہ وہ دم بھی ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’انھیں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھو۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث : 2201)

آپ ﷺ کا مزاح دلوں کو سر ور  بخشنے کے لیے ہوتا تھا۔ آپ کے مسکرانے سے ارواح کو تسکین ملتی تھی۔ آپ کا ہر مزاح کتب حدیث میں بطور سنت محفوظ ہے اور آپ کی ہر مسکراہٹ راویان حدیث نے بطور حسن اخلاق نقل کی ہے۔ آپ ﷺ سورج سے زیادہ روشن چہرے، چودھویں کے چاند سے زیادہ پرنور پیشانی اور صبح صادق سے زیادہ خوبصورت شکل وصورت کے ساتھ مسکراتے تھے۔ آپ کا دہن مبارک بہتے چشمے سے زیادہ شفاف، بشاشت بارش سے زیادہ تر و تازہ اور اخلاق باد نسیم سے زیادہ نفیس و لطیف تھا۔

نبی کریمﷺ مزاح کرتے تو حق بات کے سوا کچھ نہ کہتے۔ آپﷺ کا مزاح آپ کے صحابہ تھا نام کے دلوں پر پانی کے ان قطروں سے بھی زیادہ شیریں اثر چھوڑتا جو پیاسے جگر پر پڑتے ہیں اور شفیق باپ کے اس ہاتھ سے زیادہ لطف و کرم رکھتا تھا جو وہ الوداع ہونے والے بیٹے کے سر پر رکھتا ہے۔ آپ ﷺ ان سے جنسی مزاح کرتے تو وہ پھولے نہ سماتے۔ انھیں دلی سرور ملتا اور ان کے چہروں پر رونق آجاتی۔ اللہ کی قسم! وہ آپ کے اس مزاح اور چند لمحے آپ کے ساتھ گزارنے کے مقابلے میں دنیا کو بھی بے حیثیت سمجھتے۔ آپ ﷺ کے چند مشفقانہ بول ان کے نزدیک سونے چاندی کے خزانوں سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے آپﷺ کی ہر ہنسی کو بھی اوراق میں محفوظ کر دیا، جیسے وہ بہت نصیحت آموز قصہ ہو۔ با برکت ہے وہ ذات جس نے آپ کو اتنی عزت و شرف سے نوازا کہ آپ کے مزاح کو بھی ثقہ راویوں نے فريضہ سمجھ کر آگے منتقل کیا۔

اے اللہ! تو درود و سلام نازل فرما اس ہستی پر جس کے تبسم اور مسکراہٹ کو بھی تو نے امور شریعت اور دین و عبادت بنا دیا۔

………………..