معجزاتِ رسولﷺ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَّقَّ الْقَمَرُ﴾ (سورة قمر آيت:1)
ترجمہ: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: انْشَقَّ القَمَرُ عَلَى عهدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ بِشِقَّتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : اشْهَدُوا : (متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب المناقب، باب سؤال المشركين أن يريهم النبيﷺ، صحیح مسلم: کتاب صفات المنافقين وأحكامهم، باب انشقاق القمر)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹا پس آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ گواه رہو۔
عَن أنس رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةٌ فَأَرَاهُم اِنْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب صفات المنافقين وأحكامهم، باب انشقاق القمر)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں تو آپﷺ نے انہیں چاند کو دو مرتبہ ٹکڑوں میں کر کے دکھایا۔
عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: عَطَشَ النَّاسُ يَومَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِىُّ ﷺ بَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ جَهَشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ: مَالَكُمْ؟ قَالُوا : لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءً نَتَوضأ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْكَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ فَجَعَلَ المَاءُ يَدُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ العُيُونِ، فَشَرِبْنَا وتَوَفَّانا، قلت: كم كُنتُمْ قَالَ : كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً، وَلَوْ كَنَامِانَةَ الفِ لَكَفَانَا. (أخرجه البخاري)
(صحیح بخاری کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام.)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک چھاگل رکھا ہوا تھا، آپ نے اس سے وضو کیا ۔ اتنے میں لوگ آپ کے پاس آگئے۔ آپﷺ نے فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا جو پانی آپ کے سامنے ہے، اس پانی کے سوا نہ تو ہمارے پاس وضو کے لئے کوئی دوسرا پانی ہے اور نہ پینے کے لئے ۔ آپ نے اپنا ہاتھ چھاگل میں رکھ دیا اور پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان میں سے چشمے کی طرح پھوٹنے لگا ، ہم سب لوگوں نے اس پانی کو پیا اور اس سے وضو بھی کیا۔ میں نے جاہر سے کہا آپ لوگ کتنے تھے جواب دیا کہ اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔ اور اگر ہماری تعداد ایک لاکھ بھی ہوتی تب بھی وہ ہمارے لئے کافی ہوتا۔
وَعَنْ جَابِرِ بْن عَبدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ المَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلٰى جُذُوْعٍ مِنْ نَّخْلٍ، فَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ يَقُوْمُ إِلٰى جِذْعٍ مِنْهَا. فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ فَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذٰلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتّٰى جَاءَ النَّبِيُّ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ. (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم ہے جب خطبہ کے لئے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ کے لئے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے۔ پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کے رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اوٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب آپ ﷺ نے اس کے قریب آکر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہو گئی۔
تشریح:
رسول اللہ ﷺ کے بیشمار معجزات ہیں جو اس بات کی علامت اور دلیل ہیں کہ آپ اللہ کی جانب سے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں ان میں سے چند معجزات یہ ہیں۔ چاند کے ٹکڑے ہوتا، انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنا، تنے کے سہارے خطبہ نہ دینے کی وجہ سے اس سے رونے جیسی آواز نکلنا، بکری کے سوکھے ہوئے تھن سے دودھ کا نکلنا وغیرہ۔ ان معجزات کو دیکھنے اور سننے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ان معجزات پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ چاند کے دو ٹکڑے ہونا معجزات نبوی میں سے ہے۔
٭ اللہ تعالٰی کی جانب سے معجزات عطا کئے جاتے ہیں۔
٭ معجزات پر ایمان لانا بیحد ضروری ہے۔
٭٭٭٭