محمدﷺ اور خشیت الہی کے آنسو

غلطی و کوتاہی پر یا بُرے انجام کے خوف سے آنسو بہانا باعث فضیلت ہے۔ بندہ اپنے رب کو یاد کر کے اور گناہوں کے خوف سے روئے تو یہ قابل تعریف اور دل کے تقوے ضمیر کی پاکیزگی، روح کی بلندی اور جذبات کی نرمی کی دلیل ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے معزز رسولوں کے اوصاف میں آنسو بہانے کا ذکر بھی کیا ہے، چنانچہ فرمایا :

﴿ وَ اجْتَبَیْنَا ؕ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩۝۵﴾

’’اور ہم نے (انھیں ) چن لیا۔ جب ان پر رحمن کی آیات تلاوت کی جاتیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔‘‘ (مریم 58:19)

اور اپنے نیکو کار اولیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَ ذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خَشُوْعًا﴾

 ’’اور وہ روتے ہوئے اپنی ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں اور وہ (قرآن) انھیں عاجزی میں زیادہ کرتاہے۔‘‘ (بني إسراءيل 109:17)

اور اپنے دشمنوں کی سنگ دلی اور سخت مزاجی پر ان کی مذمت کی ہے، چنانچہ فرمایا:

﴿اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ۝وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ۝۶۰﴾

’’کیا پھر اس بات (قرآن) پر تم تعجب کرتے ہو؟ اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں۔‘‘ (النجم53: 59،60)

اور لوگوں کے ایک گروہ کی یوں تعریف فرمائی:

﴿وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰۤی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ﴾

’’اور جب وہ رسول پر نازل کیا گیا کلام سنتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔‘‘ (المائدة 83:5)

رب العالمین سے ڈرنے والوں کے سردار اور قیامت کے دن مخلوق کے امام خاتم المرسلین ﷺہیں۔ آپﷺ کی پلکیں بھیگی رہتیں۔ اللہ کے ڈر سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ آپ نہایت نرم دل اور خوبصورت ظاہر و باطن کے مالک تھے۔ آپ کے آنسو نہایت سچے اور پاکیزہ تھے۔ آپ عجز و انکسار اور تواضع سے آنسو بہاتے۔ آپ کے آنسوؤں نے آپ کے صحابہ کی وہ تربیت کی اور ان کے دلوں پر ایسے اثرات مرتب کیے جو بڑے بڑے موثر خطابات اور وعظ نہیں کر سکتے کیونکہ آنسو بہانا ، دل کی خشیت اور روح کی صفائی کی دلیل ہے۔ یہ رحمت و شفقت اور جذبات کا سب سے عظیم مظہر ہے۔ اور ہمارے رسول میں ہم سب لوگوں سے زیادہ نرم دل، پاکیزہ روح اور شفاف نفس والے تھے۔ متاثر کن مواقع پر آپ ﷺ کی آنکھوں سے سچے آنسو جاری ہوتے تھے۔ اور ان مواقع میں سے چند ایک یہ ہیں:

نماز میں  آپ ﷺ کا آنسو بہانا

آپﷺ  نماز میں اپنے خالق و مولا سے سرگوشی کرتے ہوئے آنسو بہاتے تھے۔ اس دوران میں خشوع و خضوع ، دعا اور عاجزی کا یہ انداز ہوتا کہ گویا آپ کی روح رحمن کے عرش کے ارد گرد طواف کر رہی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله ﷺکو نماز پڑھتے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ہنڈیا کے ابلنے جیسی آواز آرہی تھی۔ (مسند أحمد، حدیث : 16312)

نبیﷺ نے نماز کسوف میں اس ڈر سے آنسو بہائے کہ کہیں امت پر عذاب نازل نہ ہو جائے، جیسا کہ سید نا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے نماز پڑھائی اور اس میں لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور خاصی دیر کھڑے رہے اور …….. میرا خیال ہے۔ راوی نے کہا: …… سجدوں میں بھی اس طرح کیا اور آپ ﷺ اپنے سجدوں میں روتے اور گڑگڑاتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے: میرے رب ! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا جبکہ میں تجھ سے استغفار کرتا ہوں۔ میرے رب ! تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا جبکہ میں ان لوگوں میں موجود ہوں۔ (مسند أحمد، حدیث: 6762)

آپ ﷺنے غزوہ بدر کی رات بھی اپنی نماز میں آنسو بہائے، جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن سیدنا مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا ہم میں کوئی گھڑ سوار نہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ علی ایم کے سوا سب سو رہے ہیں اور آپ ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے ہیں اور رو رہے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ (مسند احمد، حدیث:1023)

قرآن سن کر اور اس کی تلاوت کرتے ہوئے آپ ﷺکا آنسو بہانا

قرآن مجید سنتے اور تلاوت کرتے وقت آپ ﷺ کے آنسو بہت زیادہ بہتے تھے۔ آپ قرآن سے متاثر ہوتے اور اس کے ہر کلمے پر غور و فکر کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا:

’’میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو۔‘‘ میں نے عرض کی: کیا میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے قرآن سنوں۔‘‘ انھوں نے کہا: پھر میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب میں درج ذیل آیت پر پہنچا: ’’پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔‘‘ تو آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’رک جاؤ‘‘ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5055)

آپ ﷺتلاوت قرآن کے وقت بھی آنسو بہاتے ، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ابراہیم  علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کے فرمان: ’’اے میرے رب ! بے شک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، پھر جس نے میری پیروی کی، وہ  یقینًا میرا ہے (اور جس نے میری نافرمانی کی تو بے شک تو بہت بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے )‘‘ اور عیسیٰ علیہ السلام کے قول : ’’اگر تو انھیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں معاف فرما دے تو بلاشبہ تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘ کی تلاوت فرمائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ’’اے اللہ ! میری امت، میری امت اور بے اختیار رو پڑے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 202)

قبر کے پاس آپ ﷺ کا آنسو بہانا

 آپ ﷺ اپنے احباب کو الوداع کرتے ہوئے، ان پر مٹی ڈالتے ہوئے اور اس گڑھے میں دفن کرتے ہوئے بھی روئے جہاں فانی دنیا کی تمام رونقیں ختم ہو جاتی ہیں اور جو دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی منزل ہے اور جسے قبر کہا جاتا ہے۔ محبت، وفاء اخلاق اور شفافیت سے بھر پور زندگی کے بعد رشتے داروں اور پیاروں کی جدائی پر آپ کی روح کانپ جاتی، جسم بے چین ہو جاتا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ سیدنا ابو ہریرہ رسے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ رو پڑے اور اردگرد والوں کو بھی رلا دیا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حديث: (976)

آپﷺ اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے جنازے پر حاضر ہوئے، قبر پر بیٹھ گئے اور اس منظر کی ہولنا کی، عاقبت کی یاد اور اس انجام پر غور وفکر سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ ﷺکے صحابہ نے آپ کی اس حالت کا مشاہدہ کیا تو وہ بھی رونے لگے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کی صاحبزادی کے جنازے میں حاضر تھے، جبکہ رسول اللہ ﷺقبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1285)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے جو سید نا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کو اٹھا کر بوسہ دیا اور اس کے اوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابوسیف رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے تو سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ سیدنا عبداللہ بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ بھی روتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن عوف ! یہ تو ایک رحمت ہے۔‘‘ پھر آپ  ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضٰى رَبُّنَا وَ إِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ))

’’آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی بدائی پر  یقینًاغمگين ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث: 1303 )

آپﷺ کا رونا اللہ کی تقدیر پر ناراضی یا اعتراض کی بنا پر نہیں تھا۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی شہادت پر آپ ﷺکا آنسو بہانا

 آپ ﷺ نے شہدائے مؤتہ رضی اللہ تعالی عنہم پر آنسو بہائے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے سیدنا جعفر اور سیدنا زید رضی اللہ تعالی عنہماکے شہید ہونے سے پہلے ہی ان کے شہید ہونے کی خبر دی۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (صحيح البخاري، المناقب، حديث: 3630)

آپ ﷺ نے جب شہداء کے سردار اور زمین پر اللہ کے شیر اپنے چچا سیدنا حمزہ بن عبد المطلب کو شہید ہوئے دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سیر أعلام النبلاء میں ہے کہ جب آپ ﷺ نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ وہ شہید ہوئے پڑے ہیں اور ان کا مثلہ کیا گیا ہے تو آپ سسکیاں لے لے کر روئے۔ اس کی منتظر کشی شاعر اسلام سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے یوں کی ہے:

بَكَتْ عَيْنِي وَحَقَّ لَهَا بُكَاهَا

وَمَا يُغْنِي الْبُكَاءُ وَلَا الْعَوِيلُ

عَلٰى أَسَدِ الْإِلٰهِ غَدَاةَ قَالُوا

أَحَمْزَةُ ذٰلِكَ الرَّجُلُ الْقَتِيلُ

أصيب الْمُسْلِمُونَ بِهِ جَمِيعًا

هُنَاكَ وَقَدْ أُصِيْبَ بِهِ الرَّسُولُ

 أَبَا يَعْلٰى لَكَ الْأَرْكَانُ هُدَّتْ

وَأَنْتَ الْمَاجِدُ الْبَرُّ الْوَصُولُ

 عَلَيْكَ سَلامُ رَبِّكَ فِي جِنَانٍ

مُخَالِطُهَا نَعِيْمٌ لَّا يَزُوْلُ

’’میری آنکھ رو دی اور رونا اس کا حق بنتا ہے مگر نہ تو رونے سے کچھ ہو گا اور نہ گریہ وزاری ہی سے۔ میری آنکھ اللہ کے شیر پر رو دی اور یہ اس صبح کی بات ہے جب لوگوں نے پوچھا کہ کیا وہ مقتول شخص حمزہ (جوان) ہیں؟ آپ کے شہید ہونے پر وہاں سب مسلمانوں پر آفت ٹوٹ پڑی اور خود رسول ﷺپر بھی۔ ابو یعلی ! آپ کے لیے تو ارکان کعبہ لرز اٹھے۔ آپ پیکر عز و مجد ہیں۔ نیکو کار اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ آپ پر جنتوں میں آپ کے رب کا سلام ہو اور اس میں سدا بہار نعمتوں کی آمیزش ہوتی رہے۔‘‘

آپﷺ کا دل مبارک انتہائی نرم تھا۔ آپ اپنے صحابہ کے بیمار ہونے یا ان کو کوئی تکلیف پہنچنے پر محبت و الفت اور حزن و غمگینی کی وجہ سے بھی رو پڑتے تھے، چنانچہ جب آپ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تیمارداری کے لیے گئے جبکہ وہ سخت بیمار تھے تو آپ ان کی یہ حالت دیکھ کر خود پر ضبط نہ رکھ سکے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے ، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:

سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے تو نبیﷺ سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیے آئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو انھیں اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا۔آپﷺ رو پڑے۔ جب لوگوں نے نبیﷺ کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حديث: 1304)

جب آپ ﷺنے اپنے نو اسے، یعنی سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے بیٹے کو مرض الموت میں دیکھا تو آپ رو پڑے۔

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: نبیﷺ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا سعد بن عبادہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہما بھی کھڑے ہوئے۔ آپ اپنی صاحبزادی کے گھر پہنچے۔ پھر بچہ آپ کو دیا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا گویا وہ پرانے مشکیزے میں سے نکل رہا ہو۔ یہ دیکھ کر نبیﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ اس پر سیدنا سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((هٰذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرَّحْمَاءَ))

’’یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالا ہے اور اللہ بھی اپنے انھی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحيد، حديث 7377)

جب آپ ﷺ نے سیدنا عثمان بن مظلمون رضی اللہ تعالی عنہ کوان کی وفات کے بعد دیکھا تو آپ آنسوؤں پر کنٹرول نہ رکھ سکے۔ آپ نے انھیں بوسہ دیا جبکہ آپ کی آنکھوں سے رحمت و شفقت کی وجہ سے آنسو رواں تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی ﷺکو دیکھا کہ آپ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کا بوسہ لے رہے تھے جبکہ وہ وفات پا چکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (سنن ابی داود، الجنائز، حدیث: 3163)

 نبی کریمﷺ نے اللہ کی خشیت سے رونے کی فضیلت بتائی اور اللہ کے ڈر سے رونے والے کا ذکر ان سات خوش نصیبوں میں کیا جنھیں اللہ اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا۔  آپ ﷺ نے فرمایا : اور (ساتواں) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ پڑے (صحيح البخاري، الأذان، حديث (660)

 اور آپﷺ کا فرمان ہے:

((عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ، وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللهِ))

’’دو آنکھیں ایسی ہیں کہ انھیں آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ جس سے اللہ کے خوف وخشیت کے باعث آنسو نکلے اور دوسری وہ جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات جاگ کر گزاری۔‘‘ (جامع الترمذي أبواب فضائل الجهاد، حديث: (1639)

مستحب اور قابل تعریف آنسو وہ ہیں جو اللہ کے خوف، اس کی طرف لوٹنے اور اس کے سامنے کھڑے ہونے کے ڈر سے نکلیں، نیز جو اللہ کی شرعی اور کائناتی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کی وجہ سے آئے۔

آنسو بہانا وفا کی دلیل ہے اور یہ اولیاء اللہ کے افضل اعمال میں سے ہے، بالخصوص اگر معصیت پر ندامت کا وجہ سے ہوں یا اطاعت کے چھوٹ جانے پر ہوں یا اللہ کے عذاب کے ڈر سے ہوں۔ مصیبت زدہ کے لیے یہ رحمت ہیں۔ نصیحت کے وقت یہ رقت کا باعث ہیں اور غور و فکر کے وقت باعث خشیت ہیں۔ دنیا پر رونا قابلِ تعریف نہیں۔ دنیا اس قابل نہیں کہ اس پر رویا جائے کیونکہ یہ نہایت حقیر اور بے قدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمﷺ دنیا کے کھو جانے پر تُھڑ دلے اور جزع فزع کرنے والے نہیں تھے۔ دنیا پر اس قدر خوش اور اترانے والے بھی نہیں تھے کہ واقعات و حادثات اور بحران بھی آپ پر اثر انداز نہ ہوں۔ آپ کا رونا، ندامت اور افسوس کرنا اللہ کی اطاعت، عبادت، خوف اور اس کی خوشنودی کے لیے تھا۔ آپ ﷺ دنیا والوں کی طرح نہیں روتے تھے جو اپنے دنیاوی نقصان پر روتے ہیں اور خواہشات و شہوات کی تکمیل نہ ہونے پر آہ و بکا کرتے ہیں۔  آپ ﷺ کا دل صرف اپنے رب کے ساتھ اٹکا ہوا تھا، اس لیے آپ کا رونا اپنے مولا کی معرفت، اپنے خالق کے قرب اور سچے خشوع کی وجہ سے تھا۔

آپ ﷺکے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کو منبر پر دیکھتے جبکہ آپ کے آنسو بہ رہے ہوتے اور آپ کی ہچکیاں بلند ہو جاتیں۔ آپ کے سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی طرح آواز آتی اور آپ کی آواز میں ایسی تاثیر اور درد ہوتا کہ مسجد آہ و بکا، آنسوؤں ، خوف و خشیت اور خشوع و خضوع سے بھر جاتی۔ ہر ایک اپنا سر جھکا لیتا اور آنکھوں کے سامنے وہ منظر لاتا جسے دن مٹا سکتے ہیں نہ راتیں بھلا سکتی ہیں۔

یا الله محمدﷺ اس طرح لوگوں کے سامنے رو رہے ہیں، اس طرح آنسو نکل کر آپ کے رخساروں پر بہہ رہے ہیں، حالانکہ آپ سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھتے ہیں۔ وحی کو سب سے زیادہ سمجھتے اور انجام کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ اللہ کے خوف سے لبریز دل سے روتے اور ایسی روح کے ساتھ گریہ و زاری کرتے جسے اللہ کی محبت نے آباد کر رکھا تھا۔ یوں جیسے آپ کے آنسو لوگوں کو بول کر بتا رہے ہوں۔ اور آپ کا رونا ہر وعظ و نصیحت سے زیادہ پر اثر اور ہر کلمے سے زیادہ فصاحت و بلاغت رکھتا ہو۔ درود و سلام ہوں اُس ہستی پر جن کے آنسو پوری امت سے زیادہ سچے اور وہ سب سے بڑھ کر خشوع و خضوع والے ہیں۔ درود و سلام ہوں اُس ہستی پر جو اُن سب سے نیک ہے جنھوں نے آج تک آنسو بہائے۔ اللہ تعالٰی ہمیں آپ ﷺ کی ہدایت کی پیروی کی توفیق دے اور آپ کے نقش قدم پر چلائے۔

……………….