محمدﷺ بحیثیت عادل

عدل انبیاء ﷺ کی شریعت، اولیاء کا منہج اور اصفیاء کا اخلاق و دستور ہے۔ اس سے دنیا کی بقا اور کائنات کا نظام قائم ہے اور اس میں انسانیت کی سعادت ہے۔

عدل و انصاف سے تہذیب و تمدن پروان چڑھتا ہے۔ بھائی چارے اور اتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ فتنے دب جاتے ہیں۔ عزت و حرمت محفوظ ہوتی ہے اور حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ خوشگوار انسانی زندگی کا استحکام صرف عدل ہی سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِذا حكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ﴾

’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ (النساء 58:4)

اور اللہ تعالی نے خود کو ظلم سے پاک قرار دیا ہے، فرمایا: ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ﴾

’’اور آپ کا رب بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ (حم السجدة 46:41)

اور حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

((يَا عِبَادِيْ إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُّحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا))

’’اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم (نا انصافی) کو حرام قرار دیا ہے اور اسے تمھارے درمیان بھی حرام ٹھہرایا، لہذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلاة، حدیث: 2577)

ہمارے رسولﷺ تمام انسانیت سے زیادہ عادل اور سب سے بڑھ کر انصاف کرنے والے تھے، چنانچہ عدل و انصاف آپ کی پہچان اور نمایاں وصف ہے۔

آپ ﷺاپنے لہجے، الفاظ اور احوال و اقوال میں سب لوگوں سے زیادہ عدل کرنے والے تھے۔ آپ کا بیان نے اپنی ذات، دشمن، دوست، اپنے پرائے، مال دار، فقیر، چھوٹے بڑے اور مرد وعورت ہر ایک کے ساتھ عدل کیا کیونکہ جس مقدس وحی کے آپ ﷺ کا حامل تھے، اس میں اللہ تعالی نے عدل کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ اللہ تعالی فرمان ہے:

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيْتِ وَانْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُوْمُ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﷢﴾

’’یقینًا ہم نے اپنے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘ (الحدید 25:57)

عدل تو گویا آپ ﷺ کے ساتھ پیدا ہوا اور آپ کی عادت، فطرت اور منتج حیات تھا۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے قریش مکہ کی ایک جماعت نے عبداللہ بن جد مان کے گھر مظلوم کی مدد و نصرت کا جو معاہدہ کیا تھا، آپ اس میں بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہتے ہیں۔

خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے وقت جب قریش کے درمیان حجر اسود کو نصب کرنے کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا تو انھوں نے آپ ﷺ کو اپنا فیصل بنایا، حالانکہ بنو ہاشم بھی قریش میں سے تھے اور اس جھگڑے کے فریق تھے۔ ان سب کو نبی اکرم ﷺکے عدل و امانت اور غیر جانبداری پر کامل یقین تھا، اس لیے انھوں نے فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا۔ اور یہ بعثت سے پہلے کی بات ہے۔ اللہ کے لیے مجھے بتائیں کہ نبوت و رسالت کا تاج پہنے اور اللہ تعالی کی وحی سے شرف یاب ہونے کے بعد یہ عدل و انصاف کیسا ہو گا ؟!

اللہ تعالی کے جلیل القدر اور عظیم احسانات میں سے ہے کہ اس نے لوگوں کی طرف اس عظیم امام اور کریم نبیﷺ کو بھیجا جبکہ دنیا ظلم وستم سے بھر چکی تھی۔ معاشرہ جہالت و انتشار کی آماجگاہ بن چکا تھا اور ظلم و جبر کی وجہ سے سانس لینا مشکل تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝۲﴾

’’وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ابھی میں سے ایک رسول بھیجا، وہ اس کی آیات ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور بلاشبہ اس سے پہلے تو وہ  یقینًا کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (الجمعة 2:62)

آپ کی عدل، آزادی، انصاف اور مساوات لے کر تشریف لائے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عدل عام کیا اور اسے دل و دماغ میں رائخ اور پختہ کر دیا۔ انسانیت کو عدل کی تعلیم دی، انسانی آزادی یقینی بنائی اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب العباد کی غلامی کی طرف لگایا۔ انھیں بتوں اور مورتیوں کے سجدوں سے آزاد کرا کے ایک اللہ کے حضور سجدہ کرنے کی تعلیم دی۔ جاہلیت کے طوق ان کی گردنوں سے اتارے اور باطل شرکیہ عادات سے جان چھڑا کر ایمان، روشنی اور توحید کی کھلی فضا میں جینے کا سبق دیا۔ اور اسی بات کا آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا:

﴿وَأُمِرْتُ لِاعْدِلَ بَيْنَكُمْ﴾

’’اور (کہ دیجیے ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل کروں۔‘‘ (الشوری 15:42)

آپﷺ نے ہر اعتبار سے مساوات کا درس دیا۔ مردوں اور عورتوں کے لیے فرائض و واجبات اور اجر و ثواب میں برابری کا اعلان کیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ﴾

’’تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول کر لی کہ بے شک میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع ا نہیں کروں گا، خواہ کوئی مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘ (آل عمران 195:3)

 آپ ﷺ نے بیویوں کے ازدواجی حقوق میں برابری کا حکم دیا۔ اولاد کو تحائف دینے اور ان کے ساتھ پیار اور محبت میں برابری کی تعلیم دی۔ اسی طرح حقوق لینے، حدود کے نفاذ ، خون، مال اور عزت میں بھی مساوات و برابری کا درس دیا۔

آپ ﷺ نے قاضی کے سامنے ہر ایک کو اپنا موقف پیش کرنے اور دلائل دینے کا برابر موقع دیا۔ قصاص میں برابری کا حکم دیا اور رنگ ونسل اور مذہب کی تمیز کے بغیر حدود کا نفاذ سب کے لیے یکساں قرار دیا۔

رسول اکرمﷺ نے لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ عادلانہ فیصلے کیے اور ایسی شریعت لائے جو خون، مال اور عزتوں کے حوالے سے حقوق کا مکمل تحفظ کرنے والی ہے۔ آپ کی شریعت میں کمال حکمت اور انصاف سے تعزیر، حدود اور قصاص کا نظام پایا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کی شریعت عدل و مساوات ہی پر قائم ہے۔

بلاشبہ یہ دین اسلام ہی ہے جس نے سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں کا سردار اور دین کا امام بنا دیا اور سید نا عمار بن یاسر، صہیب رومی اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہم تمام کو بلند مقام عطا کیا۔ یہ ایسا عظیم دین ہے جو عدل و انصاف، حقوق انسانی کے احترام اور بلا امتیاز رنگ و نسل آدمی کے مقام و مرتبہ کے تحفظ کی بنیاد پر قائم ہے۔

اسلام میں سبقت اسے حاصل ہے جو زیادہ متقی و پرہیز گار ہے اور خیر اور بھلائی کے کاموں میں پیش پیش ہے۔ محض حسب نسب، خاندان، جاہلی تعصب یا خاندانی شرف کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

فَلَا تَحْسَبِ الْأَنْسَابَ تُنْجِيْكَ مِنْ لَّظٰى

وَلَوْ كُنْتَ مِنْ قَيْسٍ وَ عَبْدِمَدَانِ

أبو لَهَبٍ فِي النَّارِ وَهُوَ ابْنُ هَاشِمٍ

 وَسَلْمَانُ فِي الْفِرْدَوْسِ مِنْ خَرَسَانِ

’’ اگر چہ تو قیس عیلان اور عبد مدان جیسے عظیم قبائل ہی سے کیوں نہ ہو، کبھی نہ سوچنا کہ خاندانی نسب تجھے آگ سے نجات دلائے گا۔ ابولہب اگر چہ ہاشم کا بیٹا (پوتا) ہے مگر وہ آگ کا ایندھن بنے گا جبکہ خراسان سے تعلق رکھنے والا سلمان فارسی جنت الفردوس کے مزے لے گا۔‘‘

آپﷺ کا ہر فیصلہ میزان عدل ہے۔ آپ دو جھگڑنے والوں میں فیصلہ کرتے تو وہ تلوار کی دھار سے زیادہ موثر ہوتا۔ آپ ایک کلمہ ارشاد فرماتے تو وہ دیوان عدل میں قاعدہ اور ضابطہ بن جاتا۔ آپ رات کو کسی امر کا فیصلہ کرتے تو وہ صبح انصاف کے باب میں ضرب المثل بن جاتا۔ آپﷺ فیصلہ کرنے میں عادل اور انصاف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے آپ کسی ملامت سے نہ ڈرتے۔ جس پر حد لاگو ہو جاتی، اس پر نافذ کرنے میں ذرا بھی ترس نہ کھاتے۔ آپ کے عدل میں کوئی سرکش کافر یا زندیق منافق ہی شک کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو حاکم بنایا اور آپ کے فیصلوں پر راضی ہوا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝۶۵﴾

’’تو (اے نبی!) آپ کے رب کی قسم ! وہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی تنگی نہ آنے پائے اور وہ اسے دل و جان سے مان لیں۔‘‘ (النساء 65:4)

عدل اور حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی ذات، عبادت، آداب، اخلاق، لباس، طعام، بیداری، نیند اور زندگی کے ہر معاملے میں رسول اکرم ﷺ کو فیصل بنا ئیں۔ آپ ہی امت کے سب سے بڑے خیر خواہ مخلوق میں سب سے زیادہ متقی ، اللہ تعالی کی رضا کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اس کی نافرمانی سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہیں۔ آپﷺ لوگوں پر ان کے ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے عدل میں شک کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ عدل جہانوں سے اٹھ گیا۔ انصاف دنیا سے ختم ہو گیا اور انسانوں میں انتشار اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہو گیا۔ آپﷺ کا فرمان ہے: ((وَمَنْ يَّعْدِلْ إِذَا لَّمْ أَعْدِلْ))

’’اگر میں نے عدل نہیں کیا تو پھر کون عدل کرے گا ؟‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6163)

میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں! آپ نے سچ فرمایا ہے۔ اگر آپﷺ کی عدالت ہی معتبر نہیں تو پھر آپ کے بعد کون حاکم ، قاضی یا عادل ہو گا ؟

اور  آپ ﷺ ظلم و نا انصافی سے ڈراتے تھے: ((اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’ظلم قیامت کے روز کئی تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔‘‘ (صحيح البخاري، المظالم، حديث (2447)

اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں بھی بتاتے : ﴿  اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَۙ۝﴾

’’سن لو!  ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘ (ھود 18:11)

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ۝۴۰﴾

’’بلا شبہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الشوری 40:42)

آپ ﷺ سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن بھیجتے ہیں تو انھیں عدل کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ((وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ))

’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزكاة، حديث: 1496)

آپﷺ کو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے حوالے سے خشیت الہی اور اپنے رب کی نگرانی کا اس قدر احساس تھا کہ لوگوں کو بھی اس بارے میں خبردار اور متنبہ کرتے ہوئے فرماتے:

((إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضُكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِّنَ النَّارِ فَلَا يَأْخُذَهَا))

’’تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں اس صورت میں اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دوں گا، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔‘‘ (صحیح البخاري الشهادات، حديث: 2680)

  آپ ﷺ مساکین کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ ان کی حمایت کرتے۔ ان کے حقوق سلب کرنے یا انھیں ان کی چیزیں کم دینے سے منع کرتے اور فرماتے:

((إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسَهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَّا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِيْنُوْهُمْ))

’’تمھارے غلام تمھارے بھائی ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے تمھارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنائے جو و و خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انھیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث (30)

آپ ﷺ نے اپنی شریعتِ مقدسہ کے ذریعے سے انسانیت کو ایک ایسا عالی شان، پاکیزہ، صاف ستھرا اور مدون و مرتب نظام دیا جو ہر خاص و عام، ظالم و مظلوم، مالدار و فقیر اور سردار و رعایا پر بلا امتیاز، غیر جانبداری سےاور رو رعایت کے بغیر نافذ ہوتا ہے۔ اور ہم نبی کریمﷺ سے عدل کے علاوہ کیا توقع کر سکتے ہیں ؟! آپ ﷺ ہی نے تو ہمیں بڑی پیشی (قیامت) کے دن اللہ تعالی کے عدل کی خبر دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((لتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقُ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ))

’’حق والوں کو ان کے حقوق قیامت کے دن ضرور ادا کیے جائیں گے یہاں تک سینگوں والی بکری سے بغیر سینگوں والی بکری کا بدلہ بھی لیا جائے گا۔‘‘ (صحيح مسلم، البرو الصلة، حدیث: 2582)

جب اللہ تعالی چوپایوں میں اس قدر عدل کرے گا تو اولاد آدم کے درمیان اس کے عدل کا کیا عالم ہوگا ؟! اور جب نبی اکرم ﷺقیامت کے دن کے اس عدل کے بارے میں بتا رہے ہیں تو لازم بات ہے کہ آپ خود سب لوگوں سے بڑھ کر عدل و انصاف کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے ہوں اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ نا انصافی سے کوسوں دور ہوں۔

 یقینًا آپ ﷺنے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی تربیت عدل پر کی اور انھیں اس کی قدر و قیمت اور اجر عظیم سے آگاہ کیا۔ اپنی معیشت کے تمام امور میں عملی طور پر عدل کے نفاذ کا حکم دیا۔ انھیں تعلیم دی کہ عدل و انصاف کرنے اور ہر حق والے کو اس کا حق دینے ہی سے زندگی صحیح اور درست رہتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:

((يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِوا بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا ، وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا ، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا))

’’اے عبداللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم روزانہ دن کا روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو۔ ایسا مت کرو کیونکہ تم پر تمھارے جسم کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ تم پر تمھاری آنکھ کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ اور تم پر تمھاری بیوی کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث (1159)

اور ترمذی کی روایت میں ہے:

(( إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَ إِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٌّ حَقَّهُ))

’’تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے۔ تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کو اس کا حق دیجیے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حدیث : (2413)

آپ ﷺ نے عدل و انصاف کرنے والو کو عظیم کامیابی اورقیامت کے دن فوز وفلاح کی خوشخبری دی ہے۔

چنانچہ فرمایا:

’’عدل کرنے والے اللہ تعالی کے ہاں رحمن عز وجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل وعیال میں اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں، ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 1827)

ان وصیتوں اور احکام کو نافذ کرنے میں   آپ ﷺ اعلیٰ مثال اور عظیم نمونہ ہیں۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنی ذات مبارکہ پر عدل کا نفاذ کیا۔ اپنے صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم سے امتیاز میں برتا اور نہ خود کوکسی ایسی چیز سے مستثنی سمجھا جس سے عدل و انصاف کے تقاضوں کو زد پہنچے بلکہ بعض اوقات دوسرے لوگوں سے زیادہ مشکلات اور بوجھ برداشت کیا۔  غیمتوں کے مال کے حوالے سے بھی دوسروں کو خود پر ترجیح دی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ بدر کے روز ہم میں سے ہر تین آدمیوں کے پاس ایک اونٹ تھا۔ سیدنا ابولبابہ اور سید نا علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم ﷺکے ساتھ تھے۔ رسول اکرمﷺ اپنی باری پر سوار ہوتے تو ان دونوں نے کہا کہ ہم اپنی باری پر بھی آپ کو سوار کرتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: «مَا أَنْتُمَا بِأَقوٰى مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنٰى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا))

’’نہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو اور نہ میں تم دونوں سے زیادہ ثواب سے بے نیاز ہوں۔‘‘ (مسند أحمد، حدیث:3901)

دیکھیں اس عظیم عادل ﷺنے سواری پر سوار ہونے میں بھی اپنے صحابہ اور ساتھیوں کے ساتھ عدل و مساوات والا معاملہ کیا۔

عدل و انصاف کے اصولوں کو نظر انداز کر کے آپﷺ شدید غصے میں بھی اپنی ذات کے لیے انتظام نہیں لیتے تھے۔ نبوت کی برکت سے آپ ان امور سے بالاتر تھے۔

سیدنا ابوسعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ جب یمن میں تھے تو انھوں نے کچھ سونا رسول اللہﷺ کے پاس بھیجا جو اپنی مٹی کے اندر ہی تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ( بن حصن بن حذیفہ ) بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری جو اس کے بعد (آگے بڑے قبیلے ) بنو کلاب (بن ربیعہ بن عامر ) کا ایک فرد تھا اور زید الخیر طائی جو اس کے بعد (آگے بنوطے کی ذیلی شاخ) بنو نیہان کا ایک فرد تھا، میں تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: کیا آپ نجدی سرداروں کو عطا کریں گے اور ہمیں چھوڑ دیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ کام میں نے ان کی تالیف قلب کی خاطر کیا ہے۔‘‘ اتنے میں گھنی داڑھی، ابھرے ہوئے رخساروں، دھنسی ہوئی آنکھوں ،نکلی ہوئی پیشانی، منڈے ہوئے سر والا ایک شخص آیا اور کہا اے محمد اللہ سے ڈریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فَمَنْ يُّطِعِ اللهَ إِنْ عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي عَلٰى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُوْنِي؟))

’’اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو اس کی فرماں برداری اور کون کرے گا! وہ تو مجھے تمام روئے زمین کے لوگوں پر امین سمجھتا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے ؟‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1064)

آپﷺ غصے اور رضا ہر حال میں عدل کرنے والے تھے اور یہی ہمیشہ آپ کی دعا تھی:

((اَللّٰهُمّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ وَالْحَقِّ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا))

’’اے اللہ! میں غیب و حاضر میں تجھ سے ڈرنے کا سوال کرتا ہوں اور تھے اور رضا ہر دو صورتوں میں عدل و انصاف اور حق کی بات کہنے کی توفیق مانگتا ہوں۔‘‘ (سنن النسائي السهو، حدیث 1305)

بلکہ آپ ﷺ نے خود کو اپنے صحابہ کے سامنے قصاص کے لیے پیش کر دیا۔ یہ آپ کے عظیم عدل و انصاف کی دلیل ہے۔ بدر کے روز جب آپ ﷺ صفیں سیدھی کرا رہے تھے تو آپ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس کے ساتھ لوگوں کو برابر کر رہے تھے۔ اس دوران میں سواد بن غزیہ  رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے جو صف سے تھوڑا سا باہر نکلے ہوئے تھے تو اس تیر کے ساتھ ان کے پیٹ میں کچوکا لگایا اور فرمایا: ’’اے سواد!سیدھے ہو جاؤ۔‘‘ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے تکلیف دی ہے جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو حق اور عدل دے کر بھیجا ہے، لہٰذا مجھے بدلہ دیں۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا اور فرمایا: ’’قصاص لے لو۔‘‘ وہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ چٹ گئے اور آپ کے پیٹ کو بوسہ دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے سواد! تم نے ایسا کیوں کیا ؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالی دیکھ رہا ہے کہ صورت حال کیا ہے۔ میں نے چاہا کہ جاتے جاتے میرا جسم آپ کے جسم کو چھولے۔ رسول اکرم ﷺنے ان کے لیے خیر اور بھلائی کی دعا کی اور فرمایا: ’’اے سواد! برابر ہو جاؤ۔‘‘ (السلسلة الصحيحة: 808/6)

آپ ﷺ کا عدل ملاحظہ کریں کہ آپ نے اپنے دل کے ٹکڑے، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ بھی عدل کیا۔ یہ وہی سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہا ہیں جن کے بارے میں  آپ ﷺ نے فرمایا:

((هِيَ بَضْعَةٌ مِّنِّيْ، يُرِيْبُنِيْ مَا أَرَابَهَا، وَ يُؤْذِيْنِي مَا آذَاهَا))

’’وہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جو اسے برا لگے، وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس سے اسے تکلیف پہنچے، اس سے مجھے بھی تکلف پہنچتی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5230)

مگر اتنے پیار کے باوجود ایک موقع پر آپ ﷺ نے عدل کی بات کرتے ہوئے ایک عظیم بات فرمائی۔ سیدہ عائشہﷺ فرماتی ہیں کہ قریش کو اس عورت کے معاملے نے فکر مند کیا جس نے رسول اللہﷺ کے عہد میں، غزوہ فتح مکہ (کے دنوں) میں چوری کی تھی۔ انھوں نے کہا: اس کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کون بات کرے گا؟ کچھ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید  رضی اللہ تعالی عنہ  ہی اس کی جرات کر سکتے ہیں۔ وہ عورت رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کی گئی تو سید نا اسامہ بن زید  رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں بات کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اللہ تعالی کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟‘‘ سیدنا اسامہﷺ نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! میرے لیے مغفرت طلب کیجیے۔ جب شام کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺاٹھے، خطبہ دیا، اللہ تعالی کے شایان شان اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا:

((أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ، أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الشَّرِيْفُ، تَرَكُوْهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيْهِمُ الضَّعِيْفُ، أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَإِنِّيِ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا))

’’اما بعد !تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کر ڈالا کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ میں، اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الحدود، حديث: 1688)

اس دو ٹوک موقف اور قطعی بات نے آپ ﷺ کی عدالت کے بارے میں اٹھنے والے ہر شک و شبہ کو دور کر دیا بلکہ آپ نے زور دار انداز میں کہا: ’’اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘ حالانکہ سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہ کے چوری کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

اب ہم رسول اکرم ﷺکی خانگی (گھریلو ) زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تا کہ خاندان اور ازواج کے ساتھ آپ کے عدل و انصاف کے روشن اور خوبصورت مظاہر دیکھ سکیں۔ عام طور پر سوکنوں میں باہم غیرت اور ایک دوسرے سے مقابلہ بازی پائی جاتی ہے لیکن   آپ ﷺ نے ہر موقع پر عدل اور ہر مسئلے میں انصاف کیا۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی ایک بیوی کے ہاں تشریف رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت ایک دوسری بیوئی نے آپ کے لیے ایک پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی۔ جس بیوی کے گھر میں آپﷺ تشریف فرما تھے اس نے خادم کے ہاتھ کو مارا تو پیالہ گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ نبی ﷺ نے پیالے کے ٹکڑے جمع کیے، پھر جو کھانا اس پیالے میں تھا اسے بھی جمع کرنے لگے پھر فرمایا: تمھاری ماں کو غیرت آگئی ہے۔ پھر خادم کو روک رکھا حتی کہ اس بیوی کے گھر سے پیالہ لیا گیا جس کے پاس آپ قیام پذیر تھے۔ اس کے بعد صحیح پیالہ  اس بیوی کو بھیجا جس کا پیالہ توڑ دیا گیا تھا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر رہنے دیا جس نے اسے توڑا تھا۔ (صحيح البخاري، النکاح، حدیث 5225)

ترندی کی روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((طَعَامٌ بِطَعَامٍ وَّ إِنَاءٌ بِإِنَاءٍ)) ’’کھانے کے بدلے کھانا اور برتن کے بدلے برتن۔‘‘ (جامع الترمذي، أبواب الأحكام، حديث: 1359)

آپﷺ سفر پر جاتے تو بھی بیویوں کو ساتھ لے جانے میں عدل و انصاف ملحوظ رکھتے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس کا قرعہ نکل آتا، اس کو رسول اکرم ﷺ ساتھ لے جاتے۔ (صحیح البخاري، الهبة وفضلها، حديث (2593)

قرعہ ڈالنے کا مقصد عدل و انصاف ملحوظ رکھنا تھا تا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔

آپ ﷺ کے عدل کی انتہا تھی کہ آپ نے ان امور کے حوالے سے بھی اللہ تعالی سے معافی مانگی جن میں بیویوں کے درمیان عدل کرنا آپ کے بس میں نہیں تھا، چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:

((اللَّهُمَّ هٰذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيْمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ))

’’اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور مجھے ان معاملات میں ملامت نہ کرنا جن کا تو اختیار رکھتا ہے، میں اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حديث (2134)

آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس دلی میلان پر بھی مؤاخذہ نہ فرما جو کسی بیوی کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور کسی کی طرف کم۔ نان و نفقہ، باری کی تقسیم اور رات گزارنے کے معاملات جو اختیاری ہیں، ان میں بھی آپ ﷺ نے مکمل عدل و انصاف کیا۔ دلی میلان جو انسان کی طاقت سے باہر ہے، اس میں بھی آپ کا تقویٰ اور ورع ملاحظہ کریں کہ آپﷺ کسی قدر اپنے رب سے ڈرتے تھے۔ یہ آپ کے کمال عدل کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ بیویوں کے درمیان کسی قدر عدل کی ترغیب دینے والے اور ان کے معاملے میں نا انصافی سے کس قدر ڈرانے والے تھے، اس کا اندازہ آپ ﷺ کے اس فرمان سے ہوتا ہے:

((إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِط))

’’جب کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل و انصاف کا برتاؤ نہ کرے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہوگا۔‘‘ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث (1141)

آپ ﷺ نے بیماری کی حالت میں بھی اپنی بیویوں کے درمیان عدل کی کوشش کی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں:

’’جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے دیگر ازواج مطہرات سے تیمارداری کے لیے میرے گھر میں قیام کی اجازت چاہی، چنانچہ سب نے بخوشی اجازت دے دی۔‘‘ (صحيح البخاري، الوضوء، حديث (198)

نبی اکرمﷺ نے اولاد کے درمیان بھی عدل ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی، چنانچہ آپ نے ان کے درمیان عدل و انصاف کی۔ وصیت کی اور دلی میلان یا محبت کی وجہ سے کسی ایک کو عطیہ دینے میں دوسرے پر ترجیح سے منع فرمایا۔

سیدنا نعمان بن بشیر  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

’’میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ سیدہ عمرہ بنت رواحہ  رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ، لہٰذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے عمرو بنت رواحہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو کچھ عطیہ دیا ہے۔ اللہ کے رسول ! عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا اتنا دیا ہے؟‘‘  اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے در میان عدل و انصاف کیا کرو۔‘‘ سیدنا نعمان  رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ یہ سن کر میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الهبة وفضلها، حديث (2587)

آپ ﷺ کے عدل و انصاف کے خوبصورت واقعات میں سے آپ ﷺ کا وہ عدل بھی ہے جو آپ نے سیدنا زید بن حارث  رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کیا۔ وہ سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے غلام تھے۔ سیدہ نے انھیں نبی اکرم﷤ﷺ کو ہبہ کر دیا تو آپﷺ نے انھیں اپنا بیٹا بنا لیا۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ کوئی شخص کسی کو بیٹا بنا لیتا تو اس کو اسی بیٹا بنانے والے کی ولدیت سے پکارا جاتا اور وہ اس کی وراثت کا بھی حق دار ہوتا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمدﷺ کے سوا اور کسی نام سے نہیں پکارتے تھے، یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی : ’’ان (لے پالکوں) کو ان کے اپنے باپوں کی نسبت سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی زیادہ انصاف کی بات ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث (2425)

ارشاد باری تعالی ہے: ﴿اُدْعُوهُمْ لِأَ بَابِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللهِ﴾

’’ان (لے پالکوں) کو ان کے (حقیقی) باپوں کی نسبت سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہ بہت انصاف کی بات ہے۔‘‘ (الأحزاب 5:33)

اس میں قرآن کی روشن فصاحت و بلاغت اور عمدہ دلالت دیکھیں کہ آپ ﷺ نے جو کچھ کیا، وہ بلا شبہ عدل ہے مگر اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر جامع مانع اور دستی مدل چاہتا ہے تا کہ وہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی شریعت اور اہلی ایمان کا منہج اور دستور بن جائے۔ اور حقیقی باپ کے سواکسی دوسرے کی طرف نسبت نہ کی جائے تا کہ نسب اور میراث میں اختلاف نہ ہو۔

ہر دوست، دشمن، مسلمان، کافر، قریب اور دور والے نے آپ ﷺ کے عدل کی توثیق کی۔ آپ کے صحابہ اور جاں نثاروں کے علاوہ آپ کے دشمن اور مخالفین بھی عدل کی تلاش کے لیے اپنے فیصلے آپ سے کراتے تھے۔ اہلی کتاب یہود و نصاری عدل و انصاف کی امید سے اپنے فیصلوں کے لیے آپﷺ سے رجوع کرتے کیونکہ آپﷺ سراپا عدل و انصاف اور انسانیت کے درمیان مساوات کا سب سے بڑا مرجع تھے۔

 یقینًا آپ ﷺ نے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کافر اور مشرک دشمنوں کے ساتھ بھی عدل کا معاملہ کیا اور منحرف اہل کتاب، منافقین اور مرتدین کے ساتھ بھی عدل و انصاف کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ؗ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوْا ؕ اِعْدِلُوْا ۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ؗ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸﴾

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم اللہ کے لیے (حق پر) قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی قوم کی دشمنی تھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو۔ یہی بات تقوٰی کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک تم جو عمل کرتے ہو، اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔‘‘ (المائدة 8:5)

حتی کہ جو لوگ آپ سے شدید بغض اور کینہ رکھتے تھے، آپ نے ان کے ساتھ بھی عدل کیا۔ آپ ﷺ نے ہر ایک کے ساتھ ہر فیصلے اور ہر زمان و مکان میں عدل کیا۔ آپ ﷺ ہمیشہ یہ وضاحت فرماتے کہ عدل کوئی کافر کرے تو بھی قابل تعریف ہے اور ظلم بذات خود نا پسندیدہ ہے، خواہ مومن ہی کرے۔  آپ ﷺ نے کافروں اور اہل کتاب تک کے ساتھ عدل و انصاف کرنا واجب قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۹۰﴾

’’بے شک اللہ تعالی عدل و احسان اور قرابت داروں کو (اعداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے، تا کہ تم نصیحت پکڑوں‘‘ (النحل 90:16)

آپ ﷺ نے امانت دار اور خیانت کرنے والے اہل کتاب کے درمیان بھی فرق کیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىِٕمًا ؕ﴾

’’اور اہل کتاب میں سے بعض وہ ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس خزانے کا ڈھیر امانت رکھیں تو وہ بھی آپ کو ادا کر دیں گے۔ اور ان میں سے بعض وہ ہیں کہ اگر آپ ان کے پاس ایک دینار امانت رکھیں تو وہ بھی آپ کو ادا نہیں کریں گے الا یہ کہ آپ ہمیشہ ان (کے سر) پر کھڑے رہیں۔‘‘ (آل عمران 75:3)

غور کریں، کس طرح آپ ﷺ نے اپنے فیصلوں میں کافروں اور دشمنوں کے ساتھ عدل و انصاف کیا اور ان سب کو ایک ہی چھڑی سے نہیں ہانکا بلکہ اپنے رب تعالی کے اس حکم کی تعمیل کی:

﴿وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ﴾

’’اور تم اہل کتاب سے احسن انداز ہی سے بحث و تکرار کرو، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہیں۔‘‘ (العنكبوت 46:29)

اللہ پاک نے ظالم اور عام کافر کے درمیان فرق ملحوظ رکھنے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے کا طریقہ بتایا۔ کچھ لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے بحث کرنے کا حکم دیا اور کچھ کے ساتھ، جو ظالم ہیں، سخت رویہ اپنانے کا حکم دیا۔

اللہ تعالی نے جو عدل اپنے نبیﷺ پر نازل کیا، اس میں مسلمانوں کو اذیت دینے والے اور اذیت نہ دینے والے کافروں کے درمیان بھی فرق ملحوظ رکھنے کا حکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۝۸﴾

’’اللہ تمھیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور انھوں نے تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان سے انصاف کرو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الممتحنة 8:60)

کیا وجہ ہے کہ نبی ﷺ  نے اللہ تعالی اور اس کے رسول سے جنگ کرنے اور اہل ایمان کو اذیت دینے والے کافروں، جیسے عقبہ بن ابی معیط کے ساتھ جیسا برتاؤ کیا مطعم بن عدی اور ابو البختری وغیرہ کے ساتھ ویسا برتاؤ ہرگز نہیں کیا۔

آپ ﷺ کے عدل و انصاف کی ایک روشن مثال ملاحظہ فرمائیں ! صفوان بن امیہ فتح مکہ کے بعد بھی اپنے شرک پر قائم رہے اور اس وقت یہ اسلحہ کا کاروبار کرتے تھے۔ آپ ﷺ کو حنین کی لڑائی کے لیے زرہوں کی ضرورت تھی تو آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور فرمایا :

’’اے صفوان ! کیا تیرے پاس اسلحہ ہے؟ اس نے کہا: عاریتًا چاہیے یا زبردستی لینا چاہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، عاریتًا۔ چنانچہ اس نے تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں عار بتًا دیں اور رسول اللہﷺ غزوہ حنین میں گئے۔ پھر جب مشرکین پسپا ہو گئے اور صفوان کی زرہیں اکٹھی کی گئیں تو ان میں سے چند ز رہیں گم تھیں۔ نبی ﷺ نے صفوان سے فرمایا: ’’ہم تیری زرہوں میں سے کچھ کم پاتے ہیں، تو کیا ان کا تاوان ادا کریں؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! آج میرے دل میں وہ نہیں جو اس دن تھا۔

امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس نے یہ زرہیں عاریتًا اسلام لانے سے پہلے دی تھیں مگر بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ (سنن أبي داود، البيوع، حديث: 3563)

غور کریں کہ آپ ﷺ فاتح اور غالب تھے مگر اس کے باوجود صفوان سے زرہیں زبردستی نہیں لیں بلکہ اس کی رضا مندی سے عاریتا لیں۔ کچھ زر ہیں گم ہونے پر اس سے پوچھا کہ ان کے بدلے میں کیا چاہیے؟ یوں آپ ﷺنے عدل کے ساتھ ہر چیز لی اور انصاف کے ساتھ ادائیگی کی۔

سید نا عبد الرحمن بن ابی بکر  رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کے عدل کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں جس کو سن کر دل میں بے ساختہ آپ کی عزت و تکریم مزید بڑھ جاتی ہے اور خراج عقیدت پیش کرنے کو دل کرتا ہے۔ سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سوتیس آدمی نبی ﷺ  کے ہمراہ تھے، آپ ﷺنے پوچھا: تم میں سے کسی کے پاس کھاتا ہے؟“ اچانک ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا جسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے، اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آنکلا۔ نبیﷺ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تو فروخت کرتا ہے یا عطیہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: عطیہ نہیں بلکہ فروخت کرتا ہوں، چنانچہ آپ﷤ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ اسے ذبح کیا گیا تو آپﷺ نے اس کی کلیجی بھونے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم ایک سوتیس لوگوں کی جماعت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے آپ ﷺ نے اس کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو۔ جو وہاں موجود تھا، اسے تو وہیں دے دیا گیا اور اگر وہ موجود نہ تھا تو اس کا حصہ محفوظ کر لیا گیا، پھر اس بکری کا گوشت پکا کر دو بڑے کونڈوں میں رکھا گیا اور ہم سب نے اس میں سے پیٹ بھر کر کھایا۔ اس کے باوجود کونڈوں میں گوشت بچ گیا تو میں نے اسے اونٹ پر لاد لیا۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حديث: 5382)

یہ ہمارے رسول اور عظیم قائدﷺ ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے جاں نثاروں کا ایک جم غفیر موجود ہے جن کی تعداد تقریبا ایک سو تیس ہے۔ بھوک کی شدت ہے اور آپﷺ اس مشرک سے عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بکری خریدتے ہیں۔ اس سے زبردستی نہیں چھینتے بلکہ فراخدلی سے اس کی قیمت ادا کر کے مالک کی رضامندی سے حاصل کرتے ہیں۔ آپ نے اس کے عقیدے اور دین کو نہیں دیکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عدل و انصاف کرنے والا بتایا تھا۔

دشمنوں کے ساتھ آپ کے عدل و انصاف کی ایک مثال وہ ہے جسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: مسیلمہ کذَّاب نبی ﷺ کے عہد مبارک میں مدینہ طیبہ آیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگرمحمدﷺ مجھے اپنا خلیفہ نامزد کر دیں تو میں آپ کا فرماں بردار ہو جاؤں گا۔ وہ اپنی قوم کے بیشتر لوگوں کو بھی ساتھ لایا تھا۔ رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اگر تو مجھے سے یہ چھڑی مانگے تو میں تجھے یہ بھی نہیں دوں گا۔ اور اللہ تعالی نے جو کچھ تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے، تو اس سے نہیں بچ سکتا۔ اور اگر تو روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے تباہ کر دے گا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالٰی خواب میں دکھا چکا ہے۔ اب میری طرف سے یہ ثابت بن قیس یا تجھ سے گفتگو کرے گا۔‘‘ پھر آپﷺ واپس تشریف لے آئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4373)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺکے اس فرمان: ’’میں سمجھتا ہوں کہ تو وہی ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالی خواب میں دکھا چکا ہے‘‘ کا مطلب پوچھا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے خبر دی کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

’’میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں تو مجھے ان کی فکر لاحق ہوئی۔ میری طرف خواب میں وحی کی گئی کہ ان کو پھونک مارو۔ میں نے انھیں پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ میرے بعد دو جھوٹے (نبوت کا دعوی کرنے والے) آئیں گے۔ ان میں سے ایک اسود عنسی تھا اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ کذاب ‘‘(صحيح البخاري المغازي، حديث: 4374)

غور کریں کہ آپﷺ ایک ایسے انسان کا سامنا کرتے ہیں جو آپ کے دین میں داخل ہونے سے انکار کرتا ہے آپ کی رسالت کو مانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ آپ اس کے بارے میں خواب بھی دیکھ چکے ہیں کہ یہ آدمی عنقریب نبوت کا دعوی کرے گا۔آپﷺ اس جرم کی شدت کو بھی جانتے ہیں جو وہ کرنے والا ہے۔ اس فتنے کی شاعت اور قباحت بھی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جو اس کی جھوٹی عوت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان پہلے گا۔ دوسری طرف آپ پوری قوت و طاقت میں ہیں۔ سلطنت اور فوج بھی ہے اور یہ شخص چند افراد کے ساتھ آیا ہے جو نہایت کمزور ہیں مگر اس سب کے باوجودآپ ﷺ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ اس کی آزادی رائے سلب کرتے ہیں نہ اس کے جرم کرنے سے پہلے اسے سزا دیتے ہیں، حالانکہ آپ کا خواب برحق تھا۔ یہ  آپ ﷺ کے کامل عدل کی دلیل ہے۔ سزا دینے کے لیے ضروری تھا کہ جرم کا واضح ثبت اور عملی مظاہرہ موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسے امن و امان کے ساتھ گھر واپس جانے دیا تا کہ وہ یمامہ چلا جائے۔ یہ نبوت و رسالت ہی کے اعلی اور خوبصورت نمونے کا اظہار ہے۔

آپ ﷺ کافروں اور گناہ گار مومنوں کے ساتھ بھی عادلانہ برتاؤ کرتے تھے۔ بلا شبہ اللہ تعالی نے ہم سے کفر اور کفار سے مکمل براءت اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؗ﴾

’’یقینًا تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اس کے ساتھ تھے، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: بے شک ہم تم سے اور ان سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔‘‘ (الممتحنة 4:60)

لیکن گناہ گار مومنوں سے وقتی طور پر براءت اختیار کرنے اور ان کی نافرمانی کے مطابق ان سے بغض رکھنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ۝۲۱۵ فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ۝۲۱۶﴾

’’اور جو مومنوں میں سے آپ کی اتباع کریں، ان کے لیے اپنے (مشتقانہ) باز و جھکائے رکھیں۔ پھر اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجیے: بلاشبہ تم جو کچھ کر رہے ہو، میں اس سے بری ہوں۔‘‘ (الشعراء 215:26 216 )

 کافروں اور گناہ گار مومنوں سے براءت اور بیزاری کا فرق ملاحظہ کریں اور یہ عین عدل و انصاف ہے۔ آپ ﷺ نے نافرمانوں حتی کہ کبیرہ گناہ کرنے والوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا۔ صرف ان کی خطاؤں، گنا ہوں اور نافرمانیوں سے اظہار لاتعلقی کیا۔ ان کی ذات اور ایمان سے اظہار براءت نہیں کیا۔

آپ ﷺ کے عدل کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کریں کہ آپ نے کسی طرح حد بھی قائم کی اور رحمت و عدل کا دامن ی بھی نہیں چھوڑا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺکے زمانے میں ایک شخص کا نام عبد اللہ اور اس کا لقب عمار تھا۔ وہ رسول اللہ کام کو ہنسایا کرتا تھا۔ نبی ﷺ نے اسے شراب پینے پر مارا تھا۔ ایک دن اس کو لایا گیا تو آپ ﷺکے حکم سے اسے مارا گیا۔ حاضرین میں سے سے ایک آدمی نے کہا: اللہ اس پر لعنت کرے اسے بکثرت اس سلسلے میں لایا جاتا ہے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا: ((لَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ، أَنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ))

’’اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میں تو اس کے متعلق یہی جانتا ہوں کہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺسے محبت کرتا ہے۔“ (صحيح البخاري، الحدود، حديث: 6780)

  آپ ﷺ نے اس پر حد قائم کرنے کے لیے شرعی حکم کے ساتھ اسے ادب سکھایا اور اللہ تعالی اور اس کےرسول ﷺ سے اس کی محبت کا اعتراف کیا۔ آپ نے اللہ تعالی کی حد معطل کی نہ اسے دائرہ ایمان سے نکالا اور نہ اس کی رسول ﷺسے محبت کا انکار کیا۔

آپﷺ نے معاہدین اور ذمیوں کے ساتھ بھی عدل کیا ، جیسا کہ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَو انتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’جس کسی نے کسی عہد والے (ذمی) پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی، یعنی اس کے حق میں کمی کی، یا اس کی ہمت سے بڑھ کر اسے کسی بات کا مکلف کیا، یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے روز میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حديث: 3052)

کیا اس سے بڑھ کر عدل ہو سکتا ہے کہ ذمی یا معاہد پر ظلم کرنے والے کے خلاف خود رسول اکرم ﷺ دعوی دائر کریں گے، حالانکہ آپ کو علم ہے کہ وہ آپ کے مخالف ہیں اور آپ کی نبوت کو نہیں مانتے ؟!

ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے عہد والوں اور ذمیوں سے ظلم و زیادتی نہ کرنے کی تاکید کی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَّمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَ إِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا))

’’جس کسی نے ایسے شخص کو قتل کیا جس سے عہد کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت اور دوری سے پائی جاتی ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الديات، حديث: 6194)

اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی  قسم  کھائی تو وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس بر غضبناک ہو گا۔‘‘ سیدنا اشعث رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا : اللہ کی قسم! یہ حدیث میرے بارے میں ہے۔ ہو یوں کہ میرے اور ایک یہوی کے درمیان زمین کا جھگڑا تہا۔ وہ مجھے زمین دینے سے انکار کرتا تھا تو میں اسے نبی  ﷺ کے پاس لے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ’’تیرے پاس کوئی دلیل (گواہ) ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے کہا: ’’تم قسم اٹھاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ توقسم اٹھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عہد اور اپنی قسم کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاری، الخصومات، حدیث 2417)

یہ اختلاف اور جھگڑا نبیٔ اکرم ﷺ پر ایمان رکھنے والے آپ کے صحابی اور آپ کی نبوت کے منکر اور رسالت کے انکاری یہودی کے درمیان ہے مگر اس کے باوجود صحابی کی محبت یا یہودی کا بغض آپ کے انصاف کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں کرتا بلکہ آپ عدل پر قائم رہتے ہوئے مدعی سے دلیل اور دلیل نہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ سے قسم طلب کرتے ہیں۔ عدل کی کیا خوبصورت اور اعلیٰ مثال ہے جس میں محبت بعض ایمان و کفر سے قطع نظرصرف عدل و انصاف کے اصولوں کو سامنے رکھا گیا ہے!

ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ کریں جس سے آپ ﷺ کا عدل و انصاف، رحمت اور جودکرم ظاہر ہوتا ہے۔ سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کو قوم کے چند لوگ خیبر گئے اور وہاں جا کر اپنے اپنے کام کے لیے جدا ہو گئے۔ پھر وہاں انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جہاں مقتول ملا تھا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے کہا: تم نے ہمارا ساتھی قتل کیا ہے انہوں نے کہا: ہم نے قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نےاپنےمیں سے ایک کو مقتول پایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو بڑا ہے وہ بات کرے۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا: ’’تم اس پر گواہ پیش کرو جسے نے قتل کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس کے متعلق کوئی گواہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس گواہ نہیں تووہ (یہودی) قسم کھائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا: یہود کی قسم پر ہمیں اعتماد نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے، لہٰذا آپﷺ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت میں دیے۔ (صحیح البخاری، الدیات، حدیث:6898)

جب یہ حادثہ پیش آیا، اس وقت مسلمانوں کی یہود کے ساتھ صلح تھی جیسا کہ بخاری و مسلم میں اس کی صراحت ہے۔ مقتول صحابی اور مسلمان تھے اور قتل بھی یہود کے علاقے میں ہوئے تھے، پھر ان دنوں مسلمان غالب اور یہود مغلوب تھے۔ تہمت اورشک بھی یہودی پر تھا لیکن رسول اکرم ﷺ نے صحابی کی محبت یا یہود کے بغض کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کیا بلکہ معاملہ مقتول کے ورثاء کے سامنے رکھا کہ وہ واضح دلیل پیش کریں۔ انھیں دلیل نہ ملی تو آپﷺ نے ان کے یہود کی قسم رکھی۔ انھوں نے یہودیوں کی قسم پر اعتبار کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں علم تھا کہ یہور جھوٹ بولتے ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے پاس ایک راستہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ بیت المال سے دیت ادا کریں، حالانکہ قاتل یہودی اور مقتول مسلمان تھا۔ میں قسم دے کر قارئین سے پوچھتا ہوں کیا تم نے زمانے بھر میں کبھی عدل و انصاف اور رحمت کا ایسا منظر دیکھا اور سنا ہے؟!

اگر عدل کی کوئی شکل و صورت ہوتی تو وہ آپ ﷺ کی خوبصورت شکل میں آپ کے بلند مقام پر ہوتا۔ آپﷺ ہی نے ہمیں بتایا کہ عدل دنیا و آخرت میں انسان کے لیے محفوظ قلعہ ہے۔ جو شخص اس کا التزام کرے، وہ مخلوق کے راضی ہونے سے پہلے خالق کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔

آپ ﷺ نے ہماری راہنمائی فرمائی کہ عدل ان لوگوں کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے جو اپنے آپ کو اونچی مخلوق سمجھتے ہیں۔ ہم عدل ہی سے امن و امان ، سلامتی اور استحکام و سکون کو یقینی بنا سکتے ہیں، فتنوں، کینے ، گروہ بندی اور تعصب کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور نعمتوں والی جنتوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ عدل ہی سے ہر انسان عزت و احترام کا حقدار بن سکتا ہے۔

عدل معاشروں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ کسی بھی ریاست کی ناکامی اور تباہی کا واحد سبب ظلم ہے کیونکہ ظلم آبادیوں کو ویران کر دیتا ہے۔ اس کی نحوست بہت بری اور اس کا انجام نہایت خطرناک ہے۔ درود و سلام ہو اس ہستی پر جسے رسالت دے کر بھیجا گیا اور انھوں نے عدل کا نظام قائم کیا، جہالت کو ختم کر کے علم کا نور پھیلا یا اور گمراہی سے ہدایت کا سامان کیا۔

جب میں کی صراحت جب یہ حادثہ پیش آیا، اس وقت مسلمانوں کی یہود کے ساتھ صلح تھی جیسا کہ بخاری ومسلم میں اس کی صراحت ہے۔ مقتول صحابی اور مسلمان تھے اور قتل بھی یہود کے علاقے میں ہوئے تھے، پھر ان دنوں مسلمان غالب اور یہود مغلوب تھے۔ تہت اور شرک بھی یہود ہی پر تھا لیکن رسول اکرم سلام نے صحابی کی محبت یا یہود کے بعض کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کیا بلکہ معاملہ مقتول کے ورثاء کے سامنے رکھا کہ وہ واضح دلیل پیش کر یں۔ انھیں دلیل نہ ملی تو آپ نے ان کے سامنے یہود کی قسم رکھی۔ انھوں نے یہودیوں کی قسم پر اعتبار کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں علم تھا یا کہ یہور جھوٹ بولتے ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے پاس ایک راستہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ بیت المال سے دیت ادا کریں، حالانکہ قاتل یہودی اور مقتول مسلمان تھا۔ میں قسم دے کر قارئین سے پوچھتا ہوں کیا تم نے

زمانے بھر میں کبھی عدل و انصاف اور رحمت کا ایسا منظر دیکھا اور سنا ہے؟!

اگر عدل کی کوئی شکل و صورت ہوتی تو وہ آپ ﷺ کی خوبصورت شکل میں آپ کے بلند مقام پر ہوتا۔ آپ ہی نے ہمیں بتایا کہ عدل دنیا و آخرت میں انسان کے لیے محفوظ قلعہ ہے۔ جو شخص اس کا التزام کرے، وہ مخلوق کے راضی ہونے سے پہلے خالق کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔

آپ ﷺ نے ہماری راہنمائی فرمائی کہ عدل ان لوگوں کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے جو اپنے آپ کو اونچی تخلوق مجھتے ہیں۔ ہم عدل ہی سے امن و امان ، سلامتی اور استحکام و سکون کو یقینی بنا سکتے ہیں، فتنوں، کیلے، گروہ بندی اور تعصب کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور نعمتوں والی جنتوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ عدل ہی سے ہر انسان عزت و احترام کا حقدار بن سکتا ہے۔

عدل معاشروں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ کسی بھی ریاست کی ناکامی اور تباہی کا واحد سبب ظلم ہے کیونکہ ظلم آبادیوں کو ویران کر دیتا ہے۔ اس کی نحوست بہت بری اور اس کا انجام نہایت خطرناک ہے۔ درود و سلام ہو اس ہستی پر جسے رسالت دے کر بھیجا گیا اور انھوں نے عدل کا نظام قائم کیا، جہالت کو ختم کر کے علم کا نور پھیلا یا اور گمراہی سے ہدایت کا سامان کیا۔

……………