محمدﷺ بحیثیت عظیم انسان

دنیا کے تمام عظیم رہنما، قائدین، دانشور اور ادیب مدرسوں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں سوائے رسول اکرمﷺ کے۔ آپ ﷺعنایت ربانی کا شاہکار اور رحمت الہی کا مظہر ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کیا اور تمام جہانوں کو آپ کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَلَمِيْنَ﴾

’’اور (اے نبی!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے ہی بھیجا ہے۔‘‘ (الأنبياء 107:21)

اور آپ ﷺعظیم صفات کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝۴۵

وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۝۴۶﴾

’’اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اللہ کےحکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشنی کرنے والا چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الأحزاب 45:33، 40 )

نبیﷺ کے منہح، طرز زندگی اور پاکیزہ اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خَلْقٍ عَظِيْمٍ﴾

’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم 4:68)

اور آپ ﷺ کے راستے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِيْ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍْ﴾

’’اور بلاشبہ آپ سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)

آپ ﷺکی عزت و شہرت پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰیۙ۝۱

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰیۚ۝۲

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ۝۳

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ۝۴‘‘

’’ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرتا ہے تمھارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ بھٹکا ہے۔ اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ (النجم (153-4)

آپﷺ اللہ سے مدد و نصرت، رفاقت اور حفاظت کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠۝۶۴﴾

’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان لوگوں کو بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ (الأنفال 64:8)

اور یہ بھی فرمایا: ﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِ ءِيْنَ﴾

’’بلا شبہ ہم ٹھٹھا کرنے والوں کے مقابلے میں آپ کو کافی ہیں۔‘‘ (الحجر 95:15)

اللہ تعالی نے آپﷺ سے کیے ہوئے مدد و نصرت کے وعدے کو عملی جامہ پہنایا اور جس فتح کی خبر دی، اسے پورا کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ۝۱

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ۝۲

وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا۝۳﴾

’’(اے نبی !) بلاشبہ ہم نے آپ کو فتح دی، ایک واضح فتح، تاکہ اللہ آپ کے لیے آپ کی اگلی پچھلی ہر غلطی معاف کر دے، اور آپ پر اپنی نعمت پوری کرے، اور آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ اور تاکہ اللہ آپ کی بڑی زبر دست مدد کرے۔ ‘‘(الفتح 1:40- 3)

آپﷺ کی بعثت سے بشریت کوئی زندگی ملی۔ یہ انسانیت کے لیے ایک قابل فخر اور شاندار صبح تھی جب آپ کی بعثت ہوئی۔

آپﷺ کی عظمت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ تاریخ انسانی میں آپ م کے بعد ایسی کوئی شخصیت نہیں آئی جو لوگوں کے ذہنوں سے آپ کی عظمت کے نقوش مٹا سکے۔ ایک عظیم لیڈر جاتا ہے تو اس کی عظمت، انفرادیت اور پیشوائی کی جگہ کوئی دوسرا لے لیتا ہے، مثلاً: طارق بن زیاد کے بعد کئی راہنما آئے اور ان جیسے قائد بھی آئے۔صلاح الدین ایوبی کے بعد ان جیسے یا ان سے ملتے جلتے یا ان سے فائق لیڈر اور راہنما آئے۔ یہی صورت ِحال علمی میدان کی ہے۔ کوئی عالم آتا ہے جو مجتہد بھی ہوتا ہے، پھر اس کے جانے کے بعد کوئی دوسرا آتا ہے جو اس سے بھی فائق و برتر ہوتا ہے۔ تمام علوم وفنون اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں یہی صورت حال چلتی ہے مگر رسول اکرم ﷺ کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آپ کی شخصیت ہر دور کے تمام قائدین، علماء، مجددین اور عظماء سے نمایاں ہے۔ مختصر یہ کہ آپﷺ معصوم ہیں۔ پھر تمام عظیم لوگ کسی ایک پہلو سے نمایاں اور عظیم ہوتے ہیں، مثلا: کوئی سیاست میں بڑا ہے تو کوئی علم میں نمایاں ہے، کوئی میدان جنگ کا ظہوار ہے تو کوئی اقتصادیات میں فائق ہے اور کوئی فلسفے کا ماہر ہے، لیکن ہمارے رسول ﷺہر پہلو سے عظیم اور ہر شعبہ زندگی میں نمایاں ہیں۔ عزت و شرف کے ہر باب میں سر فہرست اور بزرگی و عظمت کے ہر میدان میں اول آپ ہی ہیں۔ آپﷺ کی عظمت نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بڑے بڑے نامی گرامی آپ کے سامنے بے حیثیت ہو گئے اور آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے مثال ہو گئے۔ آپﷺ وہ پہلی شخصیت ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اتر گئے اور آپ کی محبت ان کے دل و دماغ پر چھا گئی۔ یوں آپ ان کے معلم و پیشوا اور امام و مقتدا بن گئے۔ اللہ نے آپ کے دل کو محفوظ رکھا۔ آپ کے منہج کا تزکیہ کیا۔ آپ کے راستے کی تعریف کی، آپ کے اخلاق کی مدح سرائی کی اور آپ کی روح کو پاکیزہ کیا، چنانچہ آپﷺ ہر اعلیٰ اخلاق، عمدہ وصف اور نمایاں خوبی میں اول ہیں۔ ہر فضیلت آپ ﷺکام پر ختم ہوتی ہے۔ ہر فضیلت اور عزت و تکریم کی آخری حد آپ ہی ہیں اور ہر منتقبت میں آپ ہی سب سے اوپر اور بلند ہیں۔ آپ کی زندگی میں نہ تو کوئی لغزش ہے  نہ آپ کے اخلاق میں کوئی دھوکا فریب۔ آپ کی کتابِ حیات میں کوئی کوتاہی ہے نہ آپ کی تاریخ میں کوئی حرف ِگناہ۔

آپﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے دلوں میں اللہ کے نام کی عظمت پیدا کی۔ زبانوں سے لا الہ الا اللہ کی صدائیں بلند کروائیں۔ روحوں میں معرفت الٰہی کا بیج بویا۔ وجدان میں اللہ کا نور اجاگر کیا۔ لوگوں کے لیے اللہ کا دروازہ کھولا اور کائنات میں اللہ کی توحید کا اعلان کیا۔

آپ ﷺہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے لوگوں کے حقوق کا علم بلند کیا۔ نوع انسانی کی حفاظت کا پھر یرا لہرایا۔ عدل و انصاف کی آواز بلند کی۔ ماحولیات کے تحفظ کا پیغام دیا اور عوامی ذوق کے احترام کا درس دیا۔

آپﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے دنیا کے عقل مندوں اور دانشوروں کو حیرت زدہ کر دیا۔ اپنی رسالت سے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ مختلف براعظموں، زبانوں، بیجوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے گوروں، کالوں اور سرخ قام لوگوں کو اپنی محبت اور اتباع پر جمع کیا۔

آپﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اللہ کی توحید، اس کی عبادت اور اس کے ذکر میں روح کو اس کا حق دیا۔ غور و فکر، تدبر اور درست رائے میں عقل کو اس کا حق دیا۔ قوت، کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں جسم کو اس کا حق دیا۔ حلال کھانے پینے، روزی کمانے اور نفع بخش مفید چیزیں استعمال کرنے میں پیٹ کو اس کا حق دیا، گویا آپ روح و عقل اور بدن کے رہبر و راہنما ہیں۔

آپﷺ کام ہی وہ پہلے شخص ہیں کہ لوگوں کی عمر کتنی ہی دراز ہو جائے اور وہ عقل و فہم کی انتہا کو بھی پہنچ جائیں تو بھی نبیﷺ کے ارشادات سے بے نیاز نہیں ہو سکتے اور نہ آپ کی حکمت کے موتیوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کوئی اور انسان کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو، آپ بآسانی اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر سکتے ہیں اور اس کی عمر کی تفصیلات جان سکتے ہیں۔ نبیﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں کہ لوگ آپ کے اور آپ کی سنت کے جتنا قریب ہوں گے، اتناہی اللہ کے قریب ہوتے جائیں گے اور جس قدر نبی ﷺاور آپ کی سنت سے دور ہوں گے، اسی قدر اللہ تعالی سے بھی دور ہوتے جائیں گے۔ اور یہ شرف صرف رسول اکرم ﷺکو حاصل ہے کیونکہ آپ اللہ تعالی کے ہاں عظیم مقام و مرتبہ اور عزت و شرف رکھتے ہیں۔

جھگڑے اور لڑائی کے وقت کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ نبیﷺ کی جو بات چاہے مان لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ آپ ﷺکی ہر بات سننا اور ماننا ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺمعصوم ہیں۔ اور یہ شرف صرف آپ ﷺ کو حاصل ہے۔ آپ کے علاوہ دوسرا کوئی بھی شخص اس حیثیت کا حامل نہیں، خواہ وہ علم و نیکی میں کتنا ہی کامل ہو۔ دو اس کی بات غور و فکر کر کے قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے۔

نبیﷺ ہی وہ پہلے امی ہیں جن کی شریعت کے اسرار و رموز سے علماء حیرت زدہ ہیں۔ آپ کے کلمات کی عظمت سے بڑے بڑے نابغہ روزگار بنگا لگا ہیں اور بڑے بڑے دانشور اور ذہین وفطین لوگ آپ کے علم کے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ آپ ﷺنے کبھی کوئی کتاب پکڑی نہ سیاہی و دوات کو دیکھا لیکن آپ کا علم منبروں پر گونج رہا ہے اور آپ کی میراث میناروں تک پھیل چکی ہے۔ آپ ﷺنے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن کوئی علمی کتاب آپ کے ذکر سے خالی نہیں۔ آپ﷜ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی جواب تحریر نہیں کیا لیکن آپ کے سوال سب سے عظیم اور آپ کے جواب سب سے اعلیٰ ہیں۔ آپ ﷺ نے معرفت کے دروازے کھولے، علم کے اسباب کو وسعت دی اور اللہ کے نور سے وادیوں اور آبادیوں کو بھر دیا۔

آپﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جن کا جمال، نیکی اور احسان قیامت تک آنے والے ہر چھوٹے بڑے، مرد عورت اور امیر غریب امتی تک پہنچا۔ جس نے اس نبی ﷺسے جتنا استفادہ کیا، اتنا ہی اس کے پاس علم و احسان کا خزانہ ہے۔ آپﷺ نے بچوں کی تربیت کی۔ مردوں کی ہمتیں بڑھائیں۔ ہیروز کی حوصلہ افزائی کی۔ عورت کا احترام کیا۔ عوام کے پیسے کی حفاظت کی۔ اہل فضیلت کو عزت بخشی۔ اعلی روایات و نظریات کو رواج دیا اور بلند اہداف و مقاصد کی دعوت دی۔

آپ ﷺہی پہلے عظیم و خوش نصیب ہیں جن کے دشمن شدید عداوت، مکر و فریب اور بغض و کینہ کے باوجود آپ کی کسی لغزش کی نشاندہی کر سکے نہ انھیں آپ کی کوئی غلطی ہی ملی، بلکہ آپ کی شرافت و عظمت اور سیرت و کردار کی وہ نظافت و طہارت ان کے سامنے آئی جس سے ان کی جلن اور حسد میں مزید اضافہ ہوا۔ انھیں صداقت اور ایمانداری کی ایسی چمک ملی جس کے آگے سورج کی روشنی ماند تھی۔ کردار کی ایسی پاکیزگی ملی کہ بارش کا پانی بھی اس سے طہارت حاصل کرے۔ آپ ﷺعمدہ اخلاق اور پاکیزہ نظریات کا ہر اول دستہ تھے۔ امانتیں ہر طرف سے آپ کے پاس آئیں۔ آپ کی رائے آتی تو تمام آراء دم توڑ دیتیں۔ آپﷺ کا ہر فیصلہ حرف آخر ہے اور آپ ﷺ کی نیکی و  عظمت، رشد و ہدایت اور فصاحت و بلاغت میں ضرب المثل ہیں۔ ہم پورے اعتماد و یقین کے ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ہزار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جائے اور ہر جلد میں فقہ، تفسیر، حدیث، تاریخ وسیرت وغیرہ کے سو مسلمان ماہرین اور جلیل القدر دانشوروں کی سیرت جمع کی جائے تو یہ سب عظیم لوگ مل کر نبی اکرمﷺ کی عظمت کا ایک ذرہ بھی نہیں بن سکتے۔

محمدﷺ کے سوا کائنات میں ایسا کوئی شخص موجود نہیں جس پر خود باری تعالی نے صلاۃ وسلام کی ابتدا کی ہو اور قیامت تک اللہ کے فرشتے اور اہل ایمان اس پر درود و سلام بھیجتے ہوں۔ مقام محمود، حمد کا جھنڈا، حوض کوثر اور شفاعت کبری کا شرف بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ نبی اکرم﷜ﷺ کی بعثت کے بعد کسی دوسرے انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز کو حلال و حرام قرار دے سکے۔ کائنات میں حق کا معیار صرف آپ ﷺہی ہیں۔ آپ کا ہر قول و فعل حقیقت و صداقت پر مبنی ہے، چنانچہ اوروں کے اقوال و افعال اور احوال بھی آپ کے قول و فعل اور حال کے تابع ہیں اور یہ اعزاز صرف آپ کو حاصل ہے۔

ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ ہی کو اپنا معلم بنائے، رہبر و رہنما قرار دے اور فیصل تسلیم کرے۔ آپﷺ کی نمازیں، روزے، لباس، کھانا، پینا، سونا جاگنا، کلام، جنسی مزاح اور رونا سب امور شریعت و عبادت ہیں، جن کی پیروی بھی عبادت ہے۔

دنیا کے ہر عظیم اور مثالی انسان میں کئی خوبیاں ہوں گی، مثلاً: علم و بردباری، متفاوت، زہد اور شجاعت وغیرہ لیکن محمدﷺ کے سوا کسی انسان میں ہر خوبی کا بدرجہ اتم و اکمل پایا جانا محال اور ناممکن ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کا اخلاق بھی عظیم اور صفات بھی اعلیٰ ہیں۔ آپ نہایت شائستہ طبیعت، پاک طینت، پاکیزہ خوبیوں اور تقسیم عادات کے مالک تھے۔ آپﷺ سراپا شرم و حیاء زندہ دل، عمدہ سیرت اور پاکیزہ ظاہر و باطن رکھنے والے تھے۔ آپ کا دامن پاک اور سینہ صاف تھا۔ اللہ کی قسم! آپﷺ اعلی فضائل و مناقب کے حامل، جود وسخا کا منبع، خیر اور بھلائی کا سرچشمہ اور احسان کے اس عظیم مرتبے پر فائز تھے جہاں جانے کے لیے لوگ ترستے اور روحیں خواہش کرتی ہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

مَنْ كَانَ فَوْقَ مَحَلِّ الشَّمْسِ مَوْضِعُهُ

فلَيْسَ يَرْفَعُهُ شَيْءٌ وَّلَا يَضَعُ

’’جس ہستی کا ٹھکانا سورج سے بھی برتر ہو، اسے نہ تو کوئی اوپر اٹھا سکتا ہے اور نہ نیچے گر سکتا ہے۔‘‘

آپ ﷺاس لیے بھی عظیم ہیں کہ آپ کی میراث قیامت تک باقی رہنے والی اور آپ کی ہر بات شریعت ہے اور قیامت تک رہے گی۔ مختلف رنگموں، نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی محبت اور اطاعت پر متفق ہیں۔ بادشاہ و غلام، چھوٹے بڑے، مرد و عورت، امیر و غریب اور قریب و بعید سبھی نے آپ ﷺ سے محبت کی اور آپ اپنی شفقت و محبت سے ان کے دلوں کے بادشاہ بن گئے۔ اپنے اخلاق عالیہ سے ان کی روحوں کو اسیر بنا لیا۔ اپنے جو دو کرم سے انھیں اپنا دیوانہ و غلام بنا لیا اور اپنے لطف و کرم سے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ وحی الہی نے آپ کی راہنمائی کی، جبریل علیہ السلام نے آپ کو علم سکھایا اور رب العالمین نے آپ کو ہدایت دی۔

نبیﷺ کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی اور پیشانی سے نور کی کرنیں پھوٹتیں۔ آپ کا دل محبت سے لبریز، ہاتھ برکت و سخاوت سے بھر پور تھے۔ آپ طہارت کا سرچشمہ اور اول و آخر صداقت کا پیکر تھے۔ آپ نے ہمیشہ حق کی طرف بلایا اور عدل سے فیصلہ کیا۔ آپﷺ نیکی، حسن سلوک اور شرف و فضل کی مجسم تصویر تھے۔ سچے ایسے کہ موت کے سامنے بھی صداقت کا دامن نہ چھوڑتے۔ دلیر ایسے کہ شیر کا سامنا کرنے سے بھی نہ کتراتے۔ سخی ایسے کہ مانگنے والے کو سب کچھ دے دیتے۔ آپ ﷺنے امانت و دیانت اور عزت و وقار کی ایسی اعلیٰ مثال قائم کی کہ سارے جہان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ علم وحلم، کرم و شرافت اور شجاعت و قربانی میں آپ سب پر فائق اور صبر و ثبات علم و عمل، نیکی و استقامت اور قربانی دینے میں سب سے برتر و اعلی تھے۔

آپ ﷺکی ہر صفت و ادا آپ کو حیران کر دے۔ ہر وصف جمیل اور ہر خلق عظیم اپنی کامل شکل میں صرف اور صرف آپ میں لمے۔ آپ ﷺمکارم اخلاق کے اعلیٰ مرتبے اور انسانی کمال کے سب سے اونچے درجے پر فائز تھے۔ دوسرا کوئی شخص اخلاق و عادات میں آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

آپ ﷺحق کی راہ میں آنے والے مصائب اور تکلیفوں کو صبر و استقامت اور خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی بنا پر بھی عظیم ہیں۔ آپﷺ یتیم پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں والدہ اور دادا فوت ہو گئے۔ وفادار بیوی نہ رہی۔ غم خوار چچا دنیا سے چلے گئے۔ تمام بیٹے فوت ہو گئے۔ آپ کی عزت کو اچھالا گیا۔ بھوک اور فقر و فاقہ کی آزمائیں آئیں۔ حالت سجدہ میں آپ پر آلائش ڈالی گئی۔ پتھروں سے آپ کی ایڑیاں تک زخمی کی گئیں۔ جادوگر اور دیوانہ کہا گیا۔ غلیظ گالیاں دی گئیں۔ گھاٹی میں محصور وقید کیے گئے۔ اپنے گھر اور شہر سے نکالے گئے مگر بس اتنا کہا:

((اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ))

’’اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔‘‘ (صحیح ابن حبان، حدیث (973)

کفارِ مکہ نے آپﷺ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ آپ کے چہرہ انور کو بھی کیا، رباعی دانت توڑا اور آپ کے چچا کا مثلہ تک کیا مگر آپﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا:

((إِذْهَبُوْا فَأَنتُمُ الطُّلَقَاءُ))

’’جاؤ تم سب آزاد ہوں۔‘‘ (السيرة لابن هشام55/4)

مخالفین نے آپﷺ کو اذ بیت دی تو آپ نے صبر کیا، گالیاں دیں تو حلم سے کام لیا ظلم کیا تو معاف کر دیا۔ بے رخی کی تو درگزر کیا، انھوں نے ہاتھ روکا تو آپﷺ نے عطا کر دیا، عزیزوں نے قطع رحمی کی تو آپ نے رشتوں کو جوڑا۔ آپ کو بخار ہوتا تو شدید ہوتا اور بھوک میں کبھی کھجور تک میسر نہ ہوتی۔

آپﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی امت کے لیے دنیا جہان کے خزانے کھول دیے گئے اور آپ کے پیروکار قیصر و کسری کی مسندوں اور فارس و روم کے تختوں پر جا بیٹے مگر آپﷺ پھٹی پرانی چٹائی پر بیٹھ جاتے، ریت پر سو جاتے اور پیوند گلی چادر زیب تن کرتے۔ آپ نے ہر قسم کی بت پرستی، جاہلیت، شرک اور اصنام پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حق کے پر چار میں مضبوط پہاڑوں کی طرح استقامت کا مظاہرہ کیا۔

اللہ تعالی نے ہر دشمن کے خلاف آپﷺ کی مدد فرمائی۔ ہر مخالف پر آپ کو غالب کیا اور ہر امر میں آپ کی تائید کی۔ خاندان کی مدد کے بغیر آپ کو عزت دی۔ مال کے بغیر آپ کو غنی کیا اور محافظوں کے بغیر آپ کی حفاظت کی۔ اپنی توفیق خاص سے آپ کو ہر میدان میں کامیاب و کامران کیا۔

باطل کا چر چا، مخالفین کا شور، مشرکوں کا پروپیگنڈہ، یہود کی دھمکیاں، منافقوں کی سازشیں اور حاسدوں کی حسرتیں سن کر آپ نہ صرف ثابت قدم رہتے بلکہ آپ کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا کیونکہ اللہ آپ کو کافی تھا۔

جب ساری دنیا نے منہ موڑ لیا، عزیز واقارب نے ساتھ چھوڑ دیا، دشمن، اعصاب شکن حملے کر رہا تھا اور اللہ کی مدد آنے میں ذرا دیر ہوئی تو بھی آپﷺ ڈٹ کر کھڑے رہے کیونکہ اللہ آپ کو کافی تھا۔

جب ہر طرف سے مصائب ٹوٹ پڑے، مشکلات دامن گیر ہوئیں، آزمائشوں نے گھیر لیا اور پریشانیاں امڈ آمد کر آئیں تو بھی آپﷺ نے لوگوں کا سہارا لیا نہ کسی بشر کو پکارا اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ اللہ آپ کو کافی تھا۔

آپﷺ بیمار ہوئے، قرض لیا، فقر سے دوچار ہوئے اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی، فتح میں تاخیر ہوئی، حالات نے شدت اختیار کی، شدید دباؤ ڈالا گیا اور ہر طرف خطرات منڈلانے لگے مگر آپﷺ نہیں گھبرائے کیونکہ آپ کو اللہ کافی تھا جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿يٰاَیُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ﴾

’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے۔‘‘ (الأنفال64:8)

آپ اس لیے بھی عظیم ہیں کہ آپ کا مشن نہایت اعلیٰ اور آپ کا کام عظیم تھا۔ آپ نے لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالا۔ جہالت کی تاریکیاں ختم کر کے علم کا نور عام کیا۔ شبہات کا ازالہ کیا۔ فتنوں کا قلع قمع کیا۔ باطل کو مٹایا اور حق کو مضبوط کیا۔

جو سعادت کا طلب گار ہوا، اس نے آپﷺ کی پیروی کی۔ جس نے فلاح و کامیابی کو پسند کیا، اس نے آپ کی اقتدا کی۔ جس نے نجات کا شوق رکھا، وہ آپ کی راہ پر چلا۔ آپ ﷺکی نماز سب سے خوبصورت، آپ کا روزہ سب سے برتر و افضل، آپ کا حج سب سے کامل، آپ کا صدقہ سب سے بڑھ کر پاک صاف اور آپ کا ذکر انہی کرنا سب سے عظیم ذکر ہے۔

جو شخص آپ ﷺ کے سفینہ ہدایت میں سوار ہوا، وہ نجات پا گیا۔ جو آپ کے دار دعوت میں داخل ہوا، اسے امن و امان مل گیا۔ جس نے آپ کی رسالت کی رسی کو تھام لیا، وہ سلامت رہا۔ جس نے آپ کی پیروی کی، وہ ہدایت پا گیا اور گمراہی سے بچ گیا۔ جو آپ کی سنت کے رنگ میں رنگا گیا، اس نے عزت پائی اور کبھی رسوا نہ ہوا۔ جو آپ کی رہنمائی میں چلا، وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوا اور کبھی نہ بھٹکا۔

آپ ﷺکیسے نا کام ہو سکتے تھے جبکہ اللہ کی مدد آپ کے ساتھ تھی؟ آپﷺ کیسے بے راہ ہو سکتے تھے جبکہ آپ کو رہنمائی کرنے والا بنایا گیا ؟ آپ کیسے بھٹک سکتے تھے جبکہ آپ کو منبع رشد و ہدایت بنا کر مبعوث کیا گیا؟ آپ ﷺکا کلام ہدایت، آپ کا حال ہدایت، آپ کا فعل ہدایت اور آپ کا منہج و دستور بھی ہدایت ہے۔ آپ اللہ کی طرف راہنمائی کرنے والے، خیر اور بھلائی کی راہ دکھانے والے اور جنت کی طرف بلانے والے ہیں۔ آپﷺ فطرت کے موافق اور یکسوئی والا آسان دین، روشن شریعت اور مکمل نظام حیات لے کر تشریف لائے۔ آپ ﷺنے اللہ کے حکم سے انسانی عقل کو گمراہی سے بچایا اور دلوں کو شکوک و شبہات سے پاک کیا۔ خیانت کا خاتمہ کیا۔

امت کو اندھیروں سے نکالا اور اللہ کے حکم سے انسانیت کو طاغوت کی غلامی سے نجات دلائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِيْ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾

’’اور بلا شبہ آپ سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)

آپ ﷺاس لیے بھی عظیم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھولا تو آپ نہایت وسیع الظرف اور کشادہ دل ہو گئے۔ اس میں کوئی ملال، جنگی اور رنج وغم نہ رہا بلکہ اسے نور و سرور، حکمت و رحمت اور ایمان و احسان سے بھر دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿أَلَمْ نَشرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾

’’(اے نبی !) کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا ؟‘‘ (الم نشرح1:94)

اللہ تعالی نے آپﷺ کا سینہ کھول دیا تو آپ نے لوگوں کے رویوں کو کشادہ دلی سے برداشت کیا۔ ان کی کو تا بیاں معاف کیں۔ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا۔ ان کے عیبوں پر پردہ ڈالا۔ ان کی حماقتوں پر حلم و بردباری کا مظاہرہ کیا۔ جاہلوں سے اعراض کیا اور کمزوروں پر رحم کیا۔

آپ ﷺسخاوت میں بارش کی طرح، فضل وکرم میں سمندر کی طرح اور لطف و عنایت میں بارنسیم کی طرح تھے۔ آپ نے سوالی کو دیا، قاصد اور سفیر کی عزت و تکریم کی اور جس نے آپ سے امید رکھی، اس کے ساتھ جود وسخا کا معاملہ کیا۔

اللہ تعالی نے آپﷺ کا سینہ مبارک کھولا تو وہ سلامتی والا بن گیا جو مخالفین کی تلخ و ترش گفتگو آسانی سے برداشت کر لیتا اور جذبات مجروح کرنے والی باتیں بھی سہہ لیتا۔ آپ نے بدوؤں کی جفاء، بے وقوفوں کی حماقت، سرکشوں کا جبر، گھٹیا لوگوں کی زبان درازی، قرابت داروں کی بے رخی، متکبرین کا اعراض، حاسدوں کی جلن اور مصیبت پر خوش ہونے والوں کے تیر صبر سے برداشت کیے۔

اللہ تعالی نے آپﷺ کا سینہ کھولا تو آپ مصائب و تکالیف میں بھی خوش و خرم رہے۔ طوفانوں میں بھی مسکراتے رہے۔ نم آنکھوں کے ساتھ بھی مطمئن رہے۔ آفات نے گھیر لیا مگر آپ پر سکون رہے۔ مصائب و مشکلات نازل ہوئیں مگر آپ ثابت قدم رہے کیونکہ آپ کو شرح صدر حاصل تھا۔ آپ زندہ دل اور مطمئن طبیعت والے تھے۔ سخت دل اور اکھڑ مزاج ہرگز نہ تھے۔ رحم دل، سلامتی و نیکی اور شفقت سے معمور تھے۔ حلم و بردباری اور عفو و درگزر کا سبق کوئی آپ سے لے اور سخاوت آپ کی سیرت سے سیکھے۔ اللہ تعالی نے بھی فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾

’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم4:68)

آپ ﷺ عظیم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا بوجھ اتار دیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي اَنْقَضَ ظَهْرَكَ﴾

’’اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا، وہ جس نے آپ کی کمر توڑ دی تھی۔‘‘ (الم نشرح 2:94، 3)

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی خطائیں مٹا دیں۔ آپ کی ساری غلطیوں کو دھو دیا۔ آپ کو تمام عیوب سے پاک کر دیا اور آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف کر دیے، چنانچہ آپ ﷺہر خطا سے پاک اور ہر گناہ سے بری ہیں۔ آپ کی کوششیں قابل قدر اور اعمال قابل ستائش ہیں اور آپ کے ہر کام کا آپ کو اجر ملتا آ رہا ہے۔

آپﷺ کو جامع کلمات عطا ہوئے۔ آپ نہایت مختصر کلام فرماتے۔ شیطان آپ کی شکل و صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ آپ کی زندگی کی عظمت اور اللہ کے ہاں اس کی قدر و منزلت کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی، چنانچہ فرمایا:

﴿لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ﴾

’’(اے نبی!) آپ کی عمر کی قسم! بے شک وہ (قوم لوط ) اپنی مستی، یعنی گمراہی میں بھٹک رہے تھے۔‘‘ (الحجر 72:15) آپﷺ اس لیے بھی عظیم ہیں کہ آپ کا ئنات میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے ﴿وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ﴾ کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ آپ اندازہ لگا ئیں کہ سارے براعظموں میں ہر روز آپ پر کتنے درود و سلام بھیجے جاتے ہیں؟ کتنے منبروں اور محرابوں سے آپ کا تذکرہ خیر ہوتا ہے؟ جہاں اللہ تعالی کا نام بلند ہوتا ہے، وہاں آپ کا بھی ذکر خیر ہوتا ہے۔ اذان، نماز اور خطبات و دروس میں ہر جگہ آپ کا نام اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ ہر نمازی، تسبیح کرنے والا، حاجی، روزہ دار اور خطیب و داعی آپ کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس سے بڑا شرف و اعزاز اور عزت و بزرگی کیا ہوگی؟

اللہ تعالی نے تورات و انجیل میں آپﷺ کا تذکرہ کیا اور اگلے پچھلے تمام صحیفوں میں آپ کا نام بلند کیا۔ آپ کا نام محفلوں کی زینت ہے۔ ہر قریہ وبستی میں آپ کے چرچے ہیں اور جگہ جگہ آپ کی مدح سرائی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا تو وہ زمین پر سورج کی کرنوں کی طرح پھیل گیا، ہوا کی طرح تمام بر اعظموں کو عبور کر گیا اور روشنی کی طرح دنیا میں جگمگا اٹھا۔ ہر شہر آپ کو جانتا ہے اور ہر ملک میں آپ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اللہ تعالی نے آپ میں کا ذکر بلند کیا تو آپ قافلوں کی گفتگو کا محور بن گئے۔ قصہ گو آپﷺ کے تذکرے کرنے لگے، آپ کا ذکر محفلوں کی زینت بن گیا۔ قاضیوں کی زبان سے آپ کے فیصلوں کی باتیں نکلیں اور آپ زندگی کی سب سے عظیم خبر بن گئے۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺکا ذکر بلند کیا تو دن رات کی گردش آپ کا نام بھلا سکی نہ ماہ و سال آپ کا تذکرہ ختم کر سکے۔ آپ تاریخ کا وہ روشن باب ہیں جس کے بغیر تاریخ ادھوری ہے اور آپ کا ذکر خیر کرنا اس کی سعادت اور مجبوری ہے۔

بڑے بڑے لوگوں کو بھلا دیا گیا مگر آپﷺ کوئی نہ بھلا سکا۔ بڑے بڑے نام تاریخ کے صفحات سے مٹ گئے مگر آپ ﷺکا نام کوئی نہ مٹا سکا۔ بڑے بڑے عظیم لوگ فضات کے پردوں کے پیچھے چلے گئے مگر آپ کی ذات سے کوئی غافل نہ ہو سکا۔ اگر کسی دوسرے فرد کا ذکر بلند ہوا یا اس کا نام یاد رکھا گیا تو وہ آپ کی اتباع و اقتدا کی برکت تھی۔ بڑی بڑی سلطنتوں کے آثار مٹ گئے مگر آپ کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بڑے بڑے بادشاہوں کے کارنا ہے نا پید ہو گئے اور ان کی شان و شوکت ختم ہوگئی مگر آپ کے کارنامے آج بھی زندہ و تابندہ ہیں اور شان و شوکت آج بھی قائم ہے۔ انسانوں میں نہ تو کسی کو آپ سے بڑھ کر شرح صدر حاصل ہوا، نہ کسی کا ذکر آپ سے بلند ہوا۔ نہ کسی کی قدر و منزلت آپ سے بڑھ کر ہے نہ کسی کے اثرات آپ سے خوبصورت ہیں۔ جمال و کمال کی ہر خوبی آپ میں ہے۔

نبیﷺ اس لیے بھی عظیم ہیں کہ جو چند لمحے آپ کے ساتھ بیٹھا، وہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، اسے آپ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کے علاوہ اپنی زندگی کی ساری باتیں اور یادیں بھول گئیں۔ صرف آپ کی مجلس اور باتیں یادر ہیں۔ بعض تو زندگی بھر ابھی لمحات کا تذکرہ کرتے رہے جو انھوں نے رسول اکرمﷺ کے ساتھ گزارے تھے۔ بعض زندگی بھر آپ کی زبان سے نکلنے والے کلمات دہراتے رہے۔ رسول اکرم ﷺ نے کسی کی تعریف کی تو وہ اس کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ بن گئی۔ کوئی آپ سے ملنے والی دعوت کا زندگی بھر تذکرہ کرتا رہا۔ یہ لمحات و واقعات ان کی بقیہ ساری زندگی پر حاوی ہو گئے۔ ان کی ساری یادیں زندگی بھر ابھی لمحات کے گرد گھومتی رہیں۔ آپ ﷺ کی شخصیت کی برکت اور اثر تھا کہ ان کی فکر و نظر میں آپ کے سوا کسی کے لیے جگہ نہ رہی۔ کسی شاعر کے جذبات کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

’’واللہ! میرے دل میں جب بھی کسی خیال کا گزر ہوتا ہے تو آپ کا ذکر میری سانسوں کی طرح مجھ میں جاری و ساری ہو جاتا ہے۔ میں جب بھی کچھ لوگوں کے پاس بات چیت کرنے کے لیے بیٹا ہوں تو ان کے درمیان میرا موضوع سخن آپ ہی ہوتے ہیں۔“

بلا شبہ دنیا کے عظیم لوگ فوت ہوتے ہیں تو قبروں میں جانے ہیں مگر محمدﷺ فوت ہو کر دلوں میں بس گئے۔ اگر عظیم لوگوں کی سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو وہ آپ کو بڑے لگیں گے مگر اس کے بعد جب محمدﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو دوسرے لوگ آپ کو بہت چھوٹے اور زیرو (صفر) لگیں گے۔ یقیناً میں نے ائمہ اہل سنت اور دیگر نامور اہل اسلام کی زندگیوں کے بارے میں پڑھا تو ہر شخص نبی اکرمﷺ کی اتباع و پیروی میں بڑا نظر آیا۔ مثلا: احناف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور ان کی آراء کو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر ان کا قول سنت مطہرہ کے موافق ہونے پر قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور سنت کے موافق نہ ہونے کی بنا پر رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مالکیوں کے نزدیک امام مالک بڑھنے، شافعیوں کے نزدیک امام شافعی اللہ اور حنابلہ کے نزدیک امام احمد اللہ ہیں یا ان کے علاوہ دیگر احمد و محدثین ہیں جن کی فقہ وآراء کے لوگ پیروکار ہیں لیکن یہ سب گروہ اللہ کے حکم سے اپنا قائدِ اول محمد رسول اللہﷺ کو مانتے ہیں۔ ہر ایک کا یہی دعوئی ہے کہ وہ آپ ﷺکے زیادہ قریب ہے اور ہر ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کی محبت کے سب سے زیادہ حق دار محمدﷺ ہیں۔ تمام گروہ اور مذاہب نبی اکرمﷺ کی محبت پر متحد ہیں۔ آپ کی محبت کے جذبات و اثرات قیامت تک آپ کے پیروکاروں کے دلوں میں رہیں گے۔ جس نے آپ کی جتنی زیادہ اتباع کی اور آپ سے راہنمائی لی، اس پر آپ کا اتنا ہی زیادہ رنگ نظر آئے گا۔

یہ بات بھی آپﷺ کی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ کی سیرت سب لوگوں کے لیے کھلی کتاب ہے اور آپ کی امت کا ہر فرد آپ کی سیرت کی تفصیلات اور زندگی کے اوراق پڑھ رہا ہے۔ آپ ﷺ کی نیند، بیداری، نماز، روزہ، ذکر، حج، کھانا، پینا، معیشت اور زندگی کے تمام طور طریقے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ آپ کی تعلیمات اور احادیث قدم قدم پر ان کی راہنمائی کرتی ہیں۔ فقر و مالداری، صحت و بیماری، فتح و شکست اور سفر و حضر کی ہر کیفیت کی اتنی تفصیل بیان کر دی گئی ہے کہ کسی ابہام کا تصور بھی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امر میں آپ کے بیان کردہ احکام، فیصلے، ارشادات و توجیهات موجود ہیں۔ کیا اس پوری کا ئنات میں یہ عظمت آپ ﷺ کے سوا کسی اور شخص کو حاصل ہے؟!

ہر عاقل، عادل اور منصف مزاج جانتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے اور تعریف کا اعزاز پانے والے عظیم انسان محمد بن عبد اللہ ﷺ ہیں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان! دشمنان اسلام کے شکوک و شبہات کی بوچھاڑ اور کردار کشی کی کوششوں کے باوجود دنیا کی اکثریت کی آراء اور عظیم شہادتیں آج بھی آپ کے حق میں ہیں۔ تمام قوموں کا یہ اعتراف آپ کی صداقت، داعی رسالت کی حقانیت اور تمام انسانیت پر آپ کی برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انسانی گواہیوں سے پہلے اللہ تعالی نے خود سید المرسلین اور امام المتقین کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دی ہے اور اس کی گواہی کافی ہے کیونکہ وہ سب سے بہترین گواہ ہے۔

صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین بھی آپ کی عظمت و رفعت کے گواہ ہیں۔ یہاں میں ان گواہیوں کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ وہ ہر مومن مرد و عورت کا شرعی فریضہ ہے لیکن میں شرق و غرب کے نامور دانشوروں، مفکروں، لکھاریوں اور فلسفیوں کی گواہیاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اُن میں سے اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ وہ سب حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور کائنات کے سردار محمدﷺ کی عظمت کے بارے میں دو ٹوک اور واضح گواہی دیتے ہیں۔ ان کی گواہی کی وجہ عدل و انصاف کے ساتھ نبی اکرم ﷺکی سیرت کا مطالعہ اور اس سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ میں آپ کے سامنے چند ایسی مصدقہ گواہیاں حوالہ جات کے ساتھ ذکر کرتا ہوں تاکہ آپ جان لیں کہ اللہ تعالی نے مشرق و مغرب میں آپ کا ذکر کیسے بلند کیا اور مختلف ادیان، علاقوں، تہذ یوں، نسلوں اورگروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلم و کافر بھی آپ ﷺکی عظمت کی کیسے گواہی دیتے ہیں!

مشہور انگریز مصنف ’’برنارڈ شا‘‘  اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھتا ہے:

’’بلا شبہ اس وقت دنیا کو محمدﷺ کی سوچ اور فکر کی سخت ضرورت ہے۔ یہی وہ نبی ہیں جنھوں نے ہمیشہ اپنا دین عزت و احترام کی جگہ پر رکھا۔ بلاشبہ وہ دنیا کے سارے ادیان کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میری رائے کے مطابق اگر اس وقت کا ئنات پر آپ س کا اختیار ہوتا تو وہ سلامتی و سعادت پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہماری تمام مشکلات حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے جبکہ انسانیت اس وقت شدت سے امن و سلامتی چاہتی ہے۔‘‘

مائیکل ہارٹ اپنی کتاب  ’’100 عظیم شخصیات‘‘ میں اعتراف کرتا ہے:

’’تاریخ کے سب سے اہم اور عظیم آدمیوں میں میرے نزدیک محمدﷺ اول نمبر پر ہیں۔ تاریخ میں بڑی حیران کن شخصیات ہیں لیکن دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے انتہائی کامیابی حاصل کرنے والی شخصیت پوری تاریخ میں محمدﷺ ہی کی ہے۔‘‘

مائیکل ہارٹ کہتا ہے کہ دنیا میں کئی عظیم رسول، انبیاء اور دانشور آئے جنھوں نے اپنے عظیم مشن شروع کیے لیکن وہ انھیں مکمل کیے بغیر ہی فوت ہو گئے، جیسے سیدنا مسیح علیہ السلام مسیحیت کو مکمل کیے بغیر آسمانوں پر اٹھا لیے گئے یا ان کے مشن میں دوسرے لوگ شریک ہوئے یا ان کے علاوہ کوئی اور شخص پہلے یہ کام انجام دے رہا تھا، جیسے یہودیت میں سیدنا موسی  علیہ  السلام، لیکن سیدنا محمدﷺ نے اپنا دینی پیغام پورا کیا، اس کے احکام کی تعیین کی اور آپ کی زندگی میں پورے پورے قبائل آپ پر ایمان لائے۔ نبی اکرم ﷺاس لیے بھی کامیاب ہیں کہ آپ نے دین کے ساتھ ساتھ ایک جدید ریاست بھی قائم کی۔ آپﷺ نے اس دنیا میں مختلف قبائل کو ایک معاشرہ اور مختلف معاشروں کو ایک امت بنا دیا اور پھر اس امت کے لیے ضابطہ حیات مقرر کیا اور اسے دنیا کے امور میں راہ دکھائی، نیز اپنے دین کو عالمگیر دین بنانے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دیا۔ آپ نے دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے اپنے پیغام اور مشن کو اپنی زندگی ہی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

مہاتما گاندھی نے  ’’ینگ انڈیا‘‘ اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے پیارے نبی محمد ﷺ کی صفات کے بارے میں کہا: میں نے ایسے شخص کی خوبیوں کو جانا چاہا جو بلا اختلاف کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں تو میں بڑے وثوق و اعتماد سے اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام نے یہ مقام صرف تلوار کے زور سے حاصل نہیں کیا بلکہ یہ رسول اکرمﷺ کی وسعت ظرفی معاہدوں میں دقت نظری اور صداقت، اپنے دوستوں اور پیرو کاروں کے لیے اخلاص و فدا کاری، اپنے رب اور اپنی رسالت پر بے پناہ اعتماد کے ساتھ ساتھ شجاعت و بہادری کا نتیجہ ہے۔ ابھی خوبیوں نے آپ کی کامیابی کی راہ ہموار کی اور مشکلات کا خاتمہ کیا نہ کہ صرف تلوار نے۔ رسول اکرمﷺ کی حیات مبارکہ سے متعلق کتاب کا دوسرا جز پڑھنے کے بعد مجھے آپﷺ کی عظیم الشان زندگی کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق ہوا ،مگر اور لٹریچر نہ ملنے پر افسوس ہے۔“

انگریز فلسفی ’’تھامس کارلائل‘‘ اپنی کتاب ’’ہیروز اینڈ ہیرو ور شپ‘‘ (Heroes & Hero Worship) میں لکھتا ہے: ’’عصر حاضر کے کسی بھی مہذب انسان کے لیے شرم کی بات ہے کہ وہ ان جاہل اور کینہ پرور لوگوں کی بات ہے جو کہتے ہیں کہ دین اسلام جھوٹ ہے اور محمدﷺ اللہ کے نبی نہیں ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایسے گھٹیا اور شرمناک اقوال کے خلاف آواز بلند کریں۔‘‘

بوڈاپسٹ یونیورسٹی (ہنگری) کے شعبہ سائنس کا پروفیسر گولڈ زیہر اپنی کتاب ’’العقيدة والشريعة في الاسلام‘‘(dogme et la loi de l’islam) میں لکھتا ہے:

’’بلا شک و شبہ حق بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر عرب معاشرے میں پہلے حقیقی مصلح ﷺہی ہیں۔‘‘

 مسلم مشہور فرانسیسی شاعر ’’لامارٹن‘‘ اپنی کتاب ’’تاریخ ترکیہ‘‘ میں لکھتا ہے:

’’اگر کسی انسان کی عبقریت اور عظمت کو جانچنے کے ضابطے یہ ہوں کہ وسائل کی قلت کے باوجود کسی انسان نے اعلیٰ مقاصد اور حیرت انگیز نتائج حاصل کیے تو جدید تاریخ انسانی کی کوئی عظیم اور عبقری شخصیت اللہ کے نبی محمد علی نظام کی عظمت و عبقریت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ان مشاہیر نے اسلحے بنائے، قوانین وضع کیے اور سلطنتیں قائم کیں مگر وہ ان کی ایک دو نسلوں میں نیست و نابود ہو گئیں اور ان کی کوئی حیثیت نہ رہی لیکن اس مرد کار محمدﷺ نے نہ صرف لشکروں کی قیادت، شریعت سازی اور سلطنت قائم کی اور عوام اورحُکّام پر حکم چلایا بلکہ لاکھوں لوگوں کی قیادت بھی کی جو اس وقت کی عالمی آبادی کا ایک تہائی تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ صنم پرستی، تو ہم پرستی اور باطل نظریات و عقائد کا قلع قمع بھی کیا۔ یقیناً آپ﷜ﷺ نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ اللہ کی مدد و نصرت آ پہنچی۔

نبی اکرم ﷺکی تمام تر توجہ ایک ہی ہدف پر مرکوز تھی۔ آپ کا مقصد کوئی سلطنت یا حکومت بنانا ہرگز نہ تھا۔ آپ کی نماز، اپنے رب سے مناجات، فتوحات، وفات اور اس کے بعد آپ کے دین کو حاصل ہونے والا غلبہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو دھو کے اور فریب پر دلالت کرتی ہو بلکہ آپ کا ہر اقدام یقین صادق پر دلالت کرتا ہے جس نے نبی اکرم ﷺکو ایسا عقیدہ منوانے کی طاقت وقوت دی جس کے دو پہلو تھے: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان، اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالی حادث نہیں، یعنی ازل سے ہے۔ پہلی شق اللہ تعالی کی صفت وحدانیت کو واضح کرتی ہے جبکہ دوسری شق اس وصف کی نفی کرتی ہے جس سے اللہ تعالی منصف نہیں، جو اس کے شایان شان نہیں اور وہ ہے مادہ اور حوادث سے مماثلت۔ پہلی شق کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ معبودان باطلہ کا تلوار سے قلع قمع کیا جاتا اور دوسری حق کی تکمیل کے لیے زبانی دعوت کے ساتھ عقیدے کی اصلاح کی ضرورت تھی جو حکمت اور اچھی نصیحت پر مبنی ہو اور یہ کام محمد ﷺنے انجام دیا۔ منٹگمری واٹ اپنی کتاب ’’محمد مکہ میں‘‘ میں رقمطراز ہے:

’’بلا شبہ اس شخص نے اپنے عقائد و نظریات کی خاطر مصائب برداشت کرنے کی جو استعداد و صلاحیت اپنے اندر پیدا کی اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے اور آپ کو اپنا قائد اور لیڈر سمجھا ان کی جو اعلی اخلاقی تربیت کی، نیز آپﷺ کی مطلق کا میابیوں کی عظمت، یہ سب چیزیں آپ کے کردار میں انصاف اور دیانت داری پر دلالت کرتی ہیں۔ رہا یہ مفروضہ کہ محمدﷺ اس نے بس دعوی کیا ہے تو اس مفروضے سے کئی نا قابل حل مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل مغرب کے عظیم لوگوں کی تاریخ میں ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جسے محمد ﷺ جیسی پذیرائی ملی ہو۔‘‘

بہت بڑا فرانسیسی مستشرق گستاؤلی بان اپنی کتاب ’’تمدّن عرب‘‘ میں لکھتا ہے:

’’محمدﷺ ہر طرح کی ایذا رسانیوں اور مصائب کا سامنا صبر و تحمل اور کھلے دل سے کرتے تھے۔ آپﷺ نے قریش کے ساتھ بھی، جو بیس سال تک آپ کے دشمن رہے، لطف و کرم والا معاملہ فرمایا اور بڑی مشکل سے انھیں اپنے صحابہ کے انتقام سے بچایا۔ آپﷺ نے نہ صرف یہ کیا کہ کعبہ میں رکھی ہوئی تصویروں کو مٹا دیا بلکہ اس میں موجود 360 بتوں کو چہروں اور پیٹھوں کے بل گرانے کا حکم دے کر کعبہ کو پاک صاف کر دیا اور اسے اسلامی عبادت گاہ بنایا، اور یہ معبد آج تک بیت الاسلام ہے۔‘‘

نیز وہ کہتا ہے:

’’اگر لوگوں کو ان کے عظیم کارناموں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو تاریخ جتنے لوگوں سے واقف ہے، ان میں محمد ﷺسب سے عظیم ہیں۔‘‘

فرانسیسی فلسفی ایڈورڈ مونتہ اپنی کتاب ’’العرب‘‘  (The Arabs) کے آخر میں کہتا ہے:

حمدﷺ کی پہچان خلوصِ، نیت، لطف و کرم، فیصلوں میں انصاف، اظہار خیال اور فکر تحقیق کی آزادی ہے۔ مختصر یہ کہ محمدﷺ اپنے ہم عصر عربوں میں سب سے زیادہ پاکیزو، دین دار، رحم دل اور حالات کو کنٹرول کرنے میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے۔ آپ نے لوگوں کو ایسی زندگی کی طرف لگایا جس کا انھوں نے اس سے پہلے خواب بھی نہیں دیکھا تھا اور ان کے لیے ایک ایسی دنیاوی اور دینی ریاست (خلافت) کی بنیاد رکھی جو آج تک قائم ہے۔ ‘‘(یہ اختتام خلافت عثمانیہ 1924ء سے پہلے کی تحریر ہے۔)

مشہور جرمن شاعر گوئٹے کہتا ہے:

’’میں نے تاریخ میں انسان کی اعلیٰ مثال تلاش کی تو وہ مجھے اللہ کے رسول محمدﷺ کی صورت میں ملی۔‘‘

انگریز فلسفی ہر برٹ سپنسر اپنی کتاب ’’اصول الاجتماع‘‘ (Principles of Society) میں رقمطراز ہے: تم محمد ﷤ﷺکا دامن تھام لو۔ بلا شبہ آپ ﷺدینی سیاست کی علامت اور پوری انسانیت میں سے مقدس منہج پر چلنے والے سب سے سچے انسان ہیں۔ محمدﷺ تو امانت و صداقت کی مجسم مثال ہیں اور آج بھی آپ کے شب و روز آپ کی امت کے لیے مشعل راہ ہیں۔‘‘

روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کہتا ہے:

محمدﷺ کے لیے یہ فخر و اعزاز ہی کافی ہے کہ آپ نے ایک خونخوار اور ذلیل و خوار قوم کو شیاطین کے پنجوں سے نکالا جو نہایت مذموم عادات کی حامل تھی اور ان کے لیے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے راستے کھولے۔ محمد ﷺکی شریعت عنقریب عقل و حکمت سے پورے عالم کی قیادت کرے گی۔‘‘

آپ ﷺکی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ لوگوں کی مدح سرائی سے پہلے خود اللہ تعالی نے آپ کی مدح سرائی اور تعریف کی ہے۔ آپﷺ اہل مشرق و مغرب کی تعریف کے محتاج نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے تمام جہانوں میں آپ کا ذکر بلند کیا ہے۔ دور اور قریب والے، مومن و کافر، دوست و دشمن اور محبت و بغض رکھنے والے ہر اس شخص پر اللہ تعالی کی رحمت کا نزول ہو جس نے آپ ﷺ کی عظمت کی گواہی دی۔ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کے اطراف و اکناف میں آپ کے نام کا چر چا کیا اور اسے وہاں تک پھیلا یا جہاں تک رات دن کا نظام جاتا ہے۔