محمدﷺ بحیثیت داعی

محمد رسول اللہ  ﷺ پہلے داعی تھے۔ آپ دعوت کا کام کرنے والے تمام لوگوں کے شیخ، امام اور ان کے لیے اسوہ و نمونہ ہیں۔ جو داعی آپ کے حکم کی تعمیل نہ کرے، آپ کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز نہ آئے اور آپ کے طریقہ دعوت کو اختیار نہ کرے، اس کی دعوت باطل ہے۔ جو دعوت  آپ ﷺ کے منہج سے ہٹ کر ہو، وہ ناکام زوال پذیر اور ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دعوت کے تمام طریقے بروئے کار لائے بلکہ آپﷺ کی ساری زندگی اللہ تعالی کی طرف دعوت ہے۔ آپ کا ہنسنا، رونا، رضا و غصہ، کلام و افعال، اخلاق و مواعظ ، خطوط و فتاوی، امن و جنگ، رات دن، ضرب الامثال، واقعات کا بیان، لوگوں سے ملنا اور وفود کا استقبال کرنا ہر معاملہ اللہ کی طرف دعوت ہے۔

آپ ﷺ کی سب سے بڑی ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف بلانا اور سب سے افضل عمل اللہ تعالیٰ کے بندوں پر حجت قائم کرنا اور انھیں اللہ تعالی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس منصب دعوت کو بہت شان بخشی ہے اور اس کی خوب تعریف کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾

’’اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور کہا: بے شک میں تو فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ (حم السجدة 33:41)

دعوت آپﷺ کی بنیادی ذمہ داری اور ہر وقت کا فريضہ تھا۔ آپ نے اپنے پاکیزہ اقوال سے بھی دعوت دی، با برکت احوال سے بھی دعوت کا کام کیا اور وحی سے تائید یافتہ پاکیزہ افعال کے ساتھ بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِىْ إِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾

’’اور بلاشبہ آپ  یقینًا سیدھے راستے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (الشوری 52:42)

آپ ﷺ جن و انس کو دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے اور آپ کے رب نے آپ سے فرمایا:

﴿ قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ ؔ۫ عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۰۸﴾

’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: یہی میری راہ ہے۔ میں تمھیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں اور وہ لوگ جنھوں نے میری پیروی کی، بصیرت پر ہیں۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (یوسف 108:12)

 اللہ تعالی کا فرمان: ﴿قُل﴾ اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ کی طرف وحی آتی تھی اور آپ حکیم و حمید رب سے قرآن مجید سیکھتے، خود بخود شریعت نہیں بناتے تھے۔

ارشاد باری تعالی : ﴿ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ﴾ سے معلوم ہوا کہ آپ کا منہج واضح اور راستہ معروف ہے۔

اور ارشاد باری تعالی: ﴿اَدْعُوْا﴾ سے پتہ چلتا ہے کہ دعوت ہی آپ کا ہمیشہ کا عمل اور مبارک منصب تھا جو آپﷺ کو سونپا گیا۔

ارشاد باری تعالی : ﴿اِلَی اللہ﴾ سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی دعوت اللہ جل شانہ کی طرف تھی۔ اپنی ذات، امارت، بادشاہت، گروه بندی تنظیم سازی یا کسی دنیاوی مقصد کے لیے ہرگز نہ تھی بلکہ خالص اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے تھی۔

اور ارشاد باری تعالٰی: ﴿ عَلٰی بَصِیْرَةٍ ﴾ کا مطلب ہے کہ یہ دعوت حکمت، علم، توحید، وحی مقدس اور اتباع و ہدایت پر مبنی ہے نہ کہ بدعت و گمراہی اس کی بنیاد ہے۔

ارشاد باری تعالی : ﴿اَنَا﴾ سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اس منہج کے کے پہلے راہی اور معلم ہیں اور قیامت تک کے لیے اس راستے میں آپ ہی امام و پیشو اور نمونہ ہیں۔

ارشاد باری تعالی : ﴿ وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾

کا مطلب ہے کہ آپ کا جو پیر و کار دعوت کی نشر و اشاعت میں حصہ ڈالے گا، وہ اس شرف کو پالے گا اور اسے اس کی محنت کے مطابق وافر اجر ملے گا۔

ارشاد باری تعالی : ﴿ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ﴾ میں بھیجنے والے، بھیجے ہوئے اور رسالت کی تنزیہ ہے کہ اللہ تعالٰی، اس کے رسولﷺ اور رسالت میں کوئی خرابی ، خواہش پرستی اور گمراہی نہیں ہے۔ ہر ایک حق اور ہدایت پر ہے۔

ارشاد باری تعالی : ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ﴾ میں آپ ﷺاور آپ کے اہل توحید پیروکاروں کے لیے شرک سے اظہار براءت کا ذکر ہے جو دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اسی لیے آپ ﷺنے جو سب سے عظیم کام سر انجام دیا، وہ اپنے رب کی توحید اور اپنے خالق کی عبودیت کی دعوت ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ  کے لیے دعوت کا طریقہ کار بیان کیا، چنانچہ فرمایا:

﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾

’’اے نبی !) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجیے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔‘‘ (النحل 125:16)

﴿اُدْعُ﴾ یعنی آپ کی ذمہ داری لوگوں کو سیدھی راہ دکھانا اور درست منهج کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ ﴿ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ ﴾ سے مراد رب تعالی کی سیدھی راہ ہے جو اللہ کی اطاعت ، خوشنودی اور جنت کی طرف لے جاتی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا دنیاوی مقصد آپ کے پیش نظر نہ ہو۔

﴿ بِالْحِكْمَةِ﴾کسی چیز کو اس کی جگہ رکھنا حکمت ہے، یعنی مناسب کلام، مناسب فعل اور مناسب وقت میں دعوت دیں۔ اور ہر قوم کو مخاطب کرنے کا ایک طریقہ اور ہر بات کا موقع محل ہوتا ہے۔

﴿والمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ آسان اور نرم الفاظ کے ساتھ دعوت دیں۔ کسی کا دل ٹوٹے نہ جذبات مجروح ہوں۔ ﴿ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ حقائق کو جاننے اور دلیل و برہان کے اظہار کے لیے مباحثہ کریں جو تعمیری گفتگو پر مبنی ہو اور سامنے والے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں۔

آپﷺ نے ہر موقع کی مناسبت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیا۔ آپ ﷺ کی بات براہ راست دلوں پر اثر کرتی کیونکہ موقع محل کی مناسبت سے کی ہوئی بات زیادہ اچھے طریقے سے ذہن نشین ہوتی ہے اور اس کا اثر بھی گہرا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت بڑی بے تابی سے اپنے بچے کو تلاش کر رہی تھی۔ جب اس کا بچہ اسے ملا تو اس نے اسے محبت میں زور سے اپنے سینے سے لگا لیا۔ یہ دیکھ کر   آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے ؟‘‘  انھوں نے کہا:  جب تک اس کو قدرت ہوگی، یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینکے گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((اللَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هٰذِهِ بِوَلَدِهَا))

’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، حديث: 5999)

اسی طرح آپ ﷺ نے قبر کے پاس نصیحت فرمائی۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی تک وہ تیار نہ تھی۔ رسول اللہ ﷺبیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد خاموشی سے بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے اپنا سرمبارک لٹایا اور فرمایا: ((اِستَعِيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ)) ’’قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘ یہ جملہ دو یا تین بار دہرایا۔ (سنن أبي داود، السنة.حديث (4753)

پھر آپﷺ نے عذاب قبر اور اس کے فتنے کے بارے میں لمبی حدیث بیان کی۔

سید تا مستورد بن شداد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا جو رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اپنے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہو گیا تو انھوں نے اسے پھینک دیا۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اس کے بے قیمت ہونے کی وجہ ہی سے لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :

((الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ هٰذِهِ عَلَى أَهْلِهَا))

’’دنیا اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بے وقعت ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزهد، حديث: 2321)

جب آپ ﷺ کسی کو اس کی غلطی پر تنبیہ کرنا چاہتے تو اس کا نام لیے بغیر اصلاح کرتے اور فرماتے:

((مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَّشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَّيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ: مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَّيْسَ فِي كِتَابٍ اللهِ، فَلَيْسَ لَهُ وَ إِنِ اشْتَرَطَ مِئَةَ مَرَّةٍ))

’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرائط ملے کرتے ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ سے نہیں ہے۔ جو شخص بھی ایسی کوئی شرط طے کرے جو کتاب اللہ میں نہ ہو، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی ، خواہ وہ سو مرتبہ کر لے۔‘‘ (صحيح البخاري، الصلاة، حديث (456)

کبھی آپ ﷺ غلطی والے کو متوجہ کیے بغیر مجلس میں اشار تًا تنبیہ کر دیتے تا کہ غلطی کرنے والا سمجھ جائے، جیسا کہ آپ کی موجودگی میں دولوگوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور ان میں سے ایک کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تو آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا :

((إنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً، لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ، أَوْ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرجيم))

’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے۔ اگر یہ أَعُوذُ بالله مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجیم کہہ لے (تو غصہ جاتا رہے )۔ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6115)

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہک کی آپ ﷺسے شدید محبت کے باوجود آپ ان کو ان کی فرصت کے وقت وعظ فرماتے تھے تا کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ سیدنا ابو وائل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے ابوعبد الرحمن میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز و عظ و نصیحت فرمایا کریں۔ انھوں نے فرمایا: سن لو! مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمھیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں وعظ ونصیحت میں تمھارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی ﷺوعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 70)

دعوت میں  آپ ﷺ کا اسلوب یہ تھا کہ نصیحت، عبرت اور فائدے کے لیے واقعات بھی ذکر کرتے۔ اس سے سننے والے میں شوق پیدا ہوتا ہے۔ وہ پوری توجہ اور انہماک سے بات سنتا اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ اس کے طرز عمل میں بہتری آتی ہے۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ واقعات کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے، اس لیے آپﷺ قصوں اور واقعات کے ذریعے سے دل و دماغ میں ایمان اور صیح عقائد راسخ کرتے۔

ان واقعات میں سے ایک واقعہ غار والوں کا ہے جو بخاری و مسلم میں آیا ہے۔ پھر سو آدمیوں کے قاتل کی تو بہ اور فرشتوں کے اختلاف کا واقعہ اور پھلبہری والے، گنجے اور نابینے کا واقعہ ہے جو صحیحین بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ اسی طرح آپ نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی پر خطر جگہ پڑاؤ کیا ہو۔ اس کے ساتھ اس کی سواری بھی ہو اور اس پر کھانے پینے کی چیزیں موجود ہوں۔ وہ سر رکھ کر سو گیا ہو اور جب بیدار ہوا ہو تو اس کی سواری غائب ہو۔ آخر بھوک اور پیاس یا جو کچھ اللہ چاہے، اسے سخت لگ جائے۔ وہ اپنے دل میں سوچے کہ مجھے اب اپنی جگہ واپس چلے جانا چاہیے اور جب وہ واپس اُس جگہ آئے تو پھر سو جائے لیکن اس نیند سے جو سر اٹھائے تو اس کی سواری وہاں کھانا پینا لیے ہوئے سامنے کھڑی ہو تو خیال کرو، اُسے کسی قدر خوشی ہوگی۔‘‘ (صحيح البخاري، الدعوات، حديث: 6308)

اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺپر فرض کیا کہ دعوت میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور کوئی چیز نہ چھپائیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ؕ﴾

’’اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دیجیے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔‘‘ (المائدہ67:5)

کیا اس سے بڑا ڈراوا کوئی ہو سکتا ہے؟ اللہ کی قسم!  یقینًا ہمارے رسول  ﷺ نے پوری طرح رسالت کا پیغام پہنچایا اور امانت کو بدرجہ اتم ادا کر دیا۔

 آپ ﷺ  لوگوں کو دعوت دینے اور پیغام رسالت پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی بہت زیادہ رغبت اور شوق رکھتے تھے حتی کہ آپﷺ نے فرمایا:

((قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيعُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِكٌ))

’’ یقینًا میں نے تمھیں ایک ایسے صاف اور روشن راستے پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ اس راستے سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجه، المقدمة حديث:43)

ہر وہ کام جس میں امت کی خیر، بھلائی اور نجات ہے،   آپ ﷺ نے وہ ضرور بتا دیا ہے اور ہر اس شر اور برائی سے خبردار کیا اور ڈرایا ہے جو امت کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہے۔

آپ ﷺپوری قوت سے میدان دعوت میں اترے۔ عام مجمعوں اور خاص مجالس میں آپ نے دعوت اسلام پیش کی۔ ہر محفل و مجلس میں آپ کی ایک ہی بات ہوتی اور ایک ہی کلمہ بار بار دہراتے نہ تھکتے : ’’لوگو لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لو، کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث (16023)

اس کلمے کی راہ میں آپ ﷺ نے ہر وہ قربانی دی جو کوئی انسان دنیا میں دے سکتا ہے۔ اس کے لیے محنت کوشش اور مال و جان کی ہر قربانی پورے اخلاص، جذبے اور صداقت سے دی۔ آپ نے اس کلمے کی سربلندی کے لیے خطبے دیے اور احادیث بیان کیں۔ اپنے فتاوی، فکر و نظر اور مال و جان سے اس کی آبیاری کی حتی کہ میدان جہاد اور جنگ و جدال میں بھی اسے مقدم رکھا۔ کبھی بیان و برہان اور قرآن کے ساتھ لوگوں کو اس کا مفہوم بتایا اور کبھی اس کو اونچا کرنے کے لیے تلخ و تیر اور نیزوں کو استعمال کیا۔

آپﷺ باہر سے آنے والے وفود کا استقبال کرتے۔ مجالس مناظرہ قائم کرتے۔ شعراء کو اپنا کردار ادا کرنے کا حکم دیتے ، جیسے سیدنا حسان بن ثابت، عبد اللہ بن رواحہ اور کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہم وغیرہ کبھی ثابت بن قیس بن شماس جیسے خطیب کو دعوت پیش کرنے کا حکم صادر فرماتے۔ آپﷺ نے اس دعوت کو عام کرنے کے لیے خطابت مختصر وعظ ونصیحت، انفرادی ملاقاتوں اور بازاروں میں تبلیغ کرنے کے علاوہ ہر وہ طریقہ اختیار کیا جو کارگر ہو سکتا تھا۔  آپ ﷺ نے دعوت و تبلیغ کا کوئی طریقہ چھوڑا نہ اسے عام کرنے میں کوئی کسر باقی رہنے دی۔ آپ کی ایک ہی خواہش تھی کہ یہ مبارک دعوت ہر طرف پھیل جائے۔

انسانی تاریخ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے محمدﷺ کی طرح دعوت کے مختلف طریقے اختیار کیے ہوں۔ آپ ﷺ نے مشرکین، اہل کتاب، منافقین، شہریوں، دیہاتیوں، مردوں عورتوں، چھوٹوں بڑوں اور امیروں فقیروں سب کو دعوت دی اور پھر دعوت کا ہر اسلوب اور طریقہ اختیار کیا۔ خفیہ علانیہ اور اجتماعی و انفرادی دعوت کا اہتمام کیا۔ مال داروں کو وہ بات بتائی جو انھیں دین کی طرف لائے۔ دیہاتیوں کو ان کے مناسب حال امور بتائے۔ عورت کو اس سے مناسبت رکھنے والی باتوں کی تبلیغ کی اور بچے کو اس کی ذہنی صلح کے مطابق بات بتائی۔ دعوت کے میدانوں میں کبھی آپ صلح و بن کر کھڑے ہوئے، کبھی جنگجو بن کر سامنے آئے کبھی معاہدے کیے،

کبھی خطوط بھیجے، کبھی مذاکرات کی دعوت دی، کبھی سفیر روانہ کیے ،کبھی مباحثہ کیا، کبھی وعظ کیا ،کبھی خطبہ دیا، کبھی فتوٰی دیا، کبھی کسی کے سوال کا جواب دیا اور کبھی مثالیں بیان کیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور امت کی خیر خواہی کے لیے کیا۔

آپ ﷺ امیہ بن خلف کے ایک مسکین حبشی خادم سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ سید تا بلال رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لے آئے تو انہیں اللہ کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں مگر وہ سچے وفادار بن کر آئے رہے۔ بالآخر اللہ تعالی نے انھیں مشرکوں سے نجات دے دی۔ سید المرسلینﷺ کی برکت سے ان کا شمار قیامت تک آنے والے نامور اہل ایمان میں ہوتا ہے۔

آپ ﷺنے شیوخ و بزرگوں کو بھی دعوت دی۔ سب سے پہلے سرتاج شیوخ، عزت مآب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو دعوت دی تو وہ فورًا اسلام اور ایمان لائے۔ ان کے ساتھ دوسرے عظیم بزرگ ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بعد میں آکر ملے تو وہ دونوں رسول اکرمﷺ کے وزیر بن گئے اور شیخین اسلام کا لقب پایا۔

آپﷺ نے یہ دعوت نوجوان کے سامنے پیش کی تو سب سے پہلے نو جوانوں اور بہادروں کے سردار اور امت کے بہترین نوجوان ابو الحسن سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ میدان جنگ کے شہوار، ہم عمر پہلوانوں کو پچھاڑنے والے اور دلیروں کو چت گرانے والے تھے۔ آپ نے نبیﷺ کے ہاں وہی مقام پایا جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کے ہاں حاصل تھا۔

آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے بھی دعوت پیش کی۔ جب آپﷺ سیدنا جبریل علیہ السلام سے غار میں پہلی ملاقات کے بعد واپس گھر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعے سے عزت بخشی اور جبریل نے آپ کو پڑھنے کے لیے کہا تھا، جب آپ ایک یہ خوف سے کانپ رہے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا: ’’مجھے اپنی جان کا خدشہ ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، جبکہ وہ اسلام قبل کر چکی تھیں، کہا اللہ کی تم اللہ تعالی آپ کو بھی رسوا نہیں کرے گا۔ (صحيح البخاري، بدء الوحي، حديث: 3)

پھر سیدہ خدیجہ نے اپنا سارا مال آپ ﷺ کی نصرت و مدد میں خرچ کر دیا اور آپ کی بھر پور تائید اور اعانت کی اور آپ کو تقویت دی۔

آپ ﷺ نے یہود کو اسلام کی طرف بلایا۔ ان کی مجالس میں گئے۔ ان پر حجت قائم کی۔ انھیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ ان سے مباحثے کیے۔ ان کے سامنے دلائل رکھے۔ معجزات کا ذکر کیا تو ان میں سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھ دو تین افراد اسلام لے آئے جبکہ باقیوں نے تکبر، سرکشی اور حسد کی وجہ سے انکار کر دیا۔ آپﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے بھی مناظرہ و مباہلہ کیا۔ انھیں دین اسلام کی دعوت دی۔ ان کے سامنے دلائل رکھے اور حجت قائم کی یہاں تک کہ وہ ڈر گئے اور آپ سے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

آپ ﷺ بچوں کو بھی دعوت دیتے اور ان کے سامنے اپنی تعلیمات رکھتے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بچپن ہی میں اسلام لائے۔ انھی سے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا: ((اِحفَظِ الله يَحْفَظْكَ، إِحْفَظِ اللهَ تَجِدُهُ تُجَاهَكَ)) ’’ اللہ کی حفاظت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ اللہ کی حفاظت کرو، اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔‘‘ (مسند أحمد، حديث (2803)

نبی ﷺ نے ایک لونڈی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمانوں پر۔ آپ نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ((أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ))

’’اسے آزاد کر دو، بلاشبہ یہ مومنہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حدیث: 537)

سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بچے تھے اور آپﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو ان کا ہاتھ ساری پلیٹ میں گھوم رہا تھا۔  آپ ﷺ نے فرمایا: ((يَا غُلَامُ ! سَمِّ الله، وَ كُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ))

’’اے لڑکے !اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة حدیث: 5376)

  آپ ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ یہ دعوت پوری دنیا میں پھیلے۔ اسی بنا پر آپ نے مختلف بادشاہوں کو سفیروں اور خطوط کے ذریعے سے اسلام کی دعوت دی۔ ان خطوط میں نہایت لطیف عبارت اور نرم الفاظ کا چناؤ کیا جیسا کہ  آپ ﷺ نے رومی حکمران ہرقل کو یوں خط لکھا:

’’اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبرمحمدﷺ کی طرف سے یہ خط شاہ روم کے لیے ہے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ  اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہوگی۔ اللہ آپ کو دہرا ثواب دے گا۔ اور اگر آپ ( میری دعوت سے ) منہ پھیریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہوگا۔ اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات پر آجاؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرا ہیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے ) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري بدء الوحي، حديث:7)

دیکھیں، کسی طرح آپﷺ نے اسے دعوت دی، اس کی عزت اور مقام و مرتبہ کوملحوظ رکھا اور کس نرم اور لطیف اسلوب میں بات کی تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو۔

دعوت کا معاملہ ہر وقت آپ ﷺ کے دل و ماغ پر حاوی رہتا تھا۔ جب آپ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو اہل یمن کی طرف روانہ کیا تو ان سے فرمایا:

((إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ))

’’تم ان لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں ، لہٰذا انھیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیں اور اس بات کا اقرار کریں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ (صحيح مسلم، الإيمان، حديث :19)

 اور جب آپ ﷺ نے خیبر کے روز سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ کو لشکر کا قائد بنایا تو ان سے فرمایا:

((أدْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِّنْ حَقَّ اللَهِ فِيهِ، فَوَاللهِ! لَأَنْ يَّهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَيْرٌ لَّكَ مِنْ أَنْ يَّكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ))

’’انھیں اسلام کی دعوت دو اور اللہ تعالی کے جو حقوق ان کے ذمے فرض ہیں، انھیں ان سے آگاہ کردو۔ اللہ کی قسم ! اگر تمھارے ذریعے سے اللہ تعالی کسی ایک شخص کو بھی ہدایت عطا کر دے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حديث: 4210)

آپ ﷺاللہ تعالی کے بتائے ہوئے منہج اور طریقے کی طرف دعوت دینے کی ترغیب دیتے اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب کا بھی ذکر کرتے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ دَلَّ عَلٰى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرٍ فَاعِلِهِ)) ’’جس نے کسی خیر اور بھلائی کے کام کی راہنمائی کی، اسے بھلائی کرنے والے کے برابر اجر ملے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حديث (1893)

آپ ﷺنے ہماری راہنمائی فرمائی کہ ہم ہر زمان و مکان میں نظام اور اقدار کا احترام کرتے ہوئے اور عمدہ اخلاق و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلائیں تو بلا شبہ ہمیں رب العالمین کی طرف سے اجر و ثواب ملے گا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:

((مَنْ دَعَا إِلٰى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا))

’’جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی، اسے اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس ہدایت کی پیروی کرنے والے کو ملے گا اور اس سے ان کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعا، حدیث: 2674)

آپﷺ نے اپنی امت اور قیامت تک آنے والے پیروکاروں کو دعوت دی ہے کہ وہ آپ کا پیغام رسالت آگے پہنچائیں اور نہایت لطف و کرم اور نرمی سے لوگوں تک آپ کا نفع بخش علم پھیلا ئیں۔ نافرمان کی پردہ پوشی کریں اور مخالف کو لطف و کرم اور شفقت و نرمی سے اپنی طرف مائل کریں۔ دعوت بتدریج ہو۔ وعظ میں حکمت اور مباحثے میں اچھے طرز عمل کو ملحوظ رکھیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ((بَلْغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً))

’’میری طرف سے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3461)

 اور آپ ﷺ نے فرمایا :

((نَضّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ))

’’اللہ تعالی اس آدمی کو خوش و خرم رکھے جس نے ہماری کوئی بات سنی اور اسے ہو بہو آگے پہنچا دیا۔ کئی دفعہ جسے بات پہنچائی جاتی ہے، وہ سنے والے سے زیادہ یاد رکھتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، العلم، حدیث: 2657)

 آپ ﷺنے خود اللہ کا پیغام پہنچانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس عمل اور مبارک دعوت میں دوسروں کو بھی شریک کیا۔ آپﷺ نے اپنی پوری امت کو بعثت کی اس ذمہ داری میں شریک کیا کیونکہ آپ کی رسالت کی برکت سے وہ آپ کے منہج اور طریقے میں آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُّيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ))

’’تم تو صرف آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو۔ تم تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حديث (6128)

لفظ (إِنَّمَا بُعِثْتُمْ) پر غور کریں۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ نے اپنی بعثت میں امت کو شریک کیا ہے کیونکہ وہ آپ کی رسالت کی برکت اور دعوت کی خیر اور بھلائی میں داخل ہو گئے تو ان کے لیے یہ عظیم شرف اور وافر اجر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا اپنا بھی اجر ہے اور ان کے جیسا اجر بھی جنھوں نے اس کے بعد اس طریقے پر عمل کیا، اس کے بغیر کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی ، اس کا بوجھ ہی پر ہے اور ان کا بوجھ بھی جنھوں نے اس کے بعداس پر عمل کیا، اس کے بغیر کہ ان کے بوجھ میں کوئی کی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، العلم، حدیث (1017)

اللہ کے لیے مجھے بتاؤ، کیا آدم  علیہ السلام سے لے کر قیامت تک ہمارے رسولﷺ کے علاوہ کوئی ایسا  داعی ہے جسے ایسا بلند مقام و مرتبہ اور عزت و شرف ملا ہو اور وہ ایسی اعلی صفات کا مالک ہو ؟!

ذرا تصور کریں کہ آپ ﷺ کا اجر کتنا عظیم ہے۔ آپ ﷺ کے بعد جس نے بھی دعوت دی، خطبہ دیا، کسی استاد نے پڑھایا کسی مفتی نے فتوی دیا کسی صحیح نے کلام کیا، کسی کا تب نے لکھا، کسی مؤلف نے اسلام یا دعوت الی اللہ پر کوئی کتاب لکھی تو ان سب کے برابر رسول اکرم ﷺکو اجر ملے گا کیونکہ آپ ہی سب سے پہلے داعی اور معلم ہیں جنھوں نے لوگوں کو دعوت اور تعلیم دی۔ اللہ تعالی  آپ ﷺ کو ہماری طرف سے بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔

بلا شبہ بڑے بڑے عظیم لوگ، اعلی و با کمال اور نہایت ذہین و فطین شخصیات، سکالرز اور سائنسدان یونیورسٹیوں، کالجوں اور اکیڈمیوں کے ترتیب یافتہ ہوتے ہیں، محمدﷺ براہ راست اللہ تعالی کے ترتیب یافتہ ہیں۔ آپﷺ کی تعلیم و تربیت، ہدایت ، عصمت، راست بازی اور توفیق کی ذمہ داری اللہ تعالی نے کی۔ اور جب اللہ تعالی آپ کی امت کے بارے میں یہ فرماتا ہے:

﴿ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ تم ایک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔‘‘ (آل عمران 110:3)

تو اس امت کے نبی اور امامﷺ کا کیا مقام ہوگا جو خیر البشر اور تمام مخلوق سے افضل ہیں ؟ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں آپ ﷺ کی پیروی کی توفیق دے۔ آپ کی سنت پر چلائے اور آپ کے منہج پر قائم رکھے یہاں تک کہ ہم حوض کوثر پر آپ سے جاملیں۔

دعوت کے میدان میں آپﷺ کی محنت اور شوق کا جائزہ لیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ نبوت کے وصف کے بعد کوئی دوسرا وصف آپﷺ  کا بیان کرنا چاہیں تو وہ داعی الی اللہ کا وصف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے رب نے آپ سے فرمایا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝۴۵ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۝۴﴾

’’اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔ اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشنی کرنے والا چراغ (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘ (الأحزاب 33: 45،46)

آپ ﷺنے ایک عظیم مقام اور عرفہ کے غظیم دن کے تاریخی خطبے میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘ سامعین نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے دین پہنچاد یا حق ادا کر دیا اور خیر خواہی فرمائی۔ یہ سن کر آپ ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ آپ اسے آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے : ’’اے اللہ! تو گواہ ہو جا، اے اللہ! تو گواہ ہو جا۔‘‘ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218)

ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے رب کی رسالت پہنچا دی۔ اپنے مولا کی امانت ادا کر دی۔ امت کی خیر خواہی کر دی۔ اور آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اندھیرے ختم کر دیے۔ اللہ تعالی آپ کو ہماری طرف سے بہترین جزا دے جو وہ کسی نبی کو امت کی طرف سے دیتا ہے۔

آپ سب اللہ کے رسول ﷺکے منہج پر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے بن جائیں۔ جو آیت یا حدیث آپ کو معلوم ہو، اسے سچی خیر خواہی کے ساتھ کسی بھی ذریعے سے دوسروں تک پہنچا دیں۔ اچھے برتاؤ کے ذریعے ہے۔ پڑوسی سے حسن سلوک کے ذریعے سے۔ صلہ رحمی کے ذریعے سے۔ ضرورت مند کی مدد کر کے۔ خندہ پیشانی سے پیش آکر کسی مایوں کی مدد کر کے راستے سے تکلیف دو چیز ہٹا کر۔ نیک عمل کے ساتھ اور قول و فعل کے ذریعے سے بھی دعوت کا کام کریں تا کہ آپ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

﴿ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾

’’اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جس نے (لوگوں کو ) اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور کہا: بے شک میں تو فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ (حم السجدة 33:41)

…………………..