محمدﷺ بحیثیت خوشخبری دینے والے
نبیﷺ پوری کائنات کے لیے خوشخبری دینے والے بن کر آئے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَايُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا﴾
’’اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الأحزاب 45:33)
غور کریں کہ یہاں بشارت کا ذکر ڈراوے سے پہلے ہے اور یہ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت کا مظہر ہے۔ آپ ﷺ کے الفاظ اور کلمات سے بشارت کی کرنیں پھوٹتی ہیں، امید کے چشمے بہتے ہیں اور ایسا سرور و نور پھیلتا ہے جو کانوں میں رس گھولتا ہے اور روح کو اس سے تسکین ملتی ہے۔ وہ ایسے کلمات ہیں جو دلوں میں اترتے ہیں تو ان سے مایوسی اور ناامیدی کے بادل چھٹ جاتے ہیں، وہ اطمینان وسکون سے بھر جاتے ہیں اور ان میں نئے سرے سے ہمت و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بشارتیں سناتے۔ انتہائی کٹھن اور پریشان کن حالات میں بھی ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے اور ان کے سینوں میں الفت کے بیج ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں خوشخبری دینا امر ِالٰہی اور منہج نبوی ہے جو زندگی کی مشکلات برداشت کرنے میں معاون اور اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن کا باعث ہے۔
میں نے رسول اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا۔ آپ کی احادیث کی ورق گردانی کی اور آپ کی سنت کی جانچ پڑتال کی تو مجھے اس سے سراسر خوشخبری، امید، نیک فال، اللہ کے بارے میں اچھا گمان اور اس کی رحمت و مغفرت کی امید ہی ملی ہے۔ ناامیدی، مایوسی اور ناکامی کا نام و نشان تک نہیں ملا۔ آپ کے مقرر کردہ فرائض و مستحبات میں بھی بشارت ملی۔ تنگی و آسانی اور خوشی اور غمی میں بشارت ہی بشارت نظر آئی۔
آپ ﷺ ہمیشہ اچھے انجام اور لازوال اجر کی بشارت دیتے۔ سخت مشکل حالات میں بھی آسانی کی نوید سناتے۔ طوفانوں میں گھرے ہونے کے باوجود فتح و نصرت کی خوشخبری دیتے۔ نہایت تنگی میں بھی خوشحالی کی بشارت دیتے اور انتہائی سختی کے عالم میں بھی نرمی کی خوشخبری سے نوازتے۔ جوفقر کی شکایت کرتا، اسے تو نگری کا مژدہ سناتے۔ جو بیماری و مصیبت کا رونا روتا، اسے عافیت اور اجر وثواب کی بشارت دیتے اور جو حزن و ملال کا شکوہ کرتا، اسے خوشی کی نوید سناتے۔ آپﷺ کے باوقار چہرے کی رونق اور خوبصورت جھلک ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے لیے سب سے بڑی بشارت اور سب سے قیمتی تحفہ تھی۔ الغرض آپ کی مسکراہٹ، گفتگو، امر و نہی اور آپ کی ساری زندگی بشارت ہی بشارت تھی۔
اللہ تعالی نے آپ کو خوشخبری دینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿فَبَشِّرْ عِبَادِ﴾ ’’سو میرے بندوں کو خوشخبری دے دیں۔‘‘ (الزمر 17:39)
اللہ تعالی نے آپ کو سب سے بڑی خوشخبری اور سب سے عظیم مقصد کے ساتھ مبعوث کیا اور وہ ہے اللہ کی توحید اور اس پر ایمان۔ آپ ایسی جنت کی بشارت لے کر آئے جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے۔ آپ نے اللہ کے عفو و درگزر، بخشش، رحمت اور رضامندی کی بشارت دی۔ اس امرِ الٰہی اور ربانی ذمہ داری کے بعد آپﷺ اللہ کے حکم سے بندگان الہی کو خوشخبریاں دینے والے بن گئے۔ آپ ﷺنے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے کی تو یہ قبول کرتا ہے۔ جو اس کی طرف رجوع کرے، اسے معاف کرتا ہے۔ آپﷺ نے گناہ گاروں کو بشارت دی کہ تو بہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ نافرمانوں کو بشارت دی کہ اللہ کی رحمت نہایت وسیع ہے جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا:
﴿نَبِّيءْ عِبَادِيْ إِنِّي أَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ﴾
’’(اے نبی!) میرے بندوں کو خبر سنا دیجیے کہ یقیناً میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہوں‘‘ (الحجر49:15)
اور فرمایا:
﴿ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۵۳﴾
’’آپ کہہ دیجیے: (اللہ فرماتا ہے:‘ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے !تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔ یقیناً وہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر 53:39)
آپ ﷺنے بشارت دی کہ وضو خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ نماز، رمضان اور حج و عمرہ صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ جس نے سو مرتبہ سبحان اللہ و بحمدہ کہا، اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔ جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا اور اس نے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کی اور پھر اللہ سے استغفار کیا، اللہ تعالی اسے معاف کر دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((وإِذَا أَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ، يُكْفِّرُ اللهُ عَنْهُ كُلَّ سَيِّئَةٍ كَانَ زَلَفَهَا))
’’جب کوئی بندہ اسلام قبول کرے اور اس کا اسلام اچھا ہو تو اللہ تعالی اس کی گزشتہ ہر برائی مٹا دیتا ہے۔‘‘
(صحيح البخاري، الإيمان، حديث:41)
اس طرح کی سیکڑوں احادیث ہیں جو اللہ کی رحمت و مغفرت اور توبہ کرنے والے کی تو بہ قبول ہونے کی خوشخبری سناتی ہیں۔
نبی ﷺ سب سے عظیم بشارت اور سب سے عالی شان معجزہ، اللہ کی واضح آیات، یعنی قرآن عظیم کی شکل میں لے کر آئے۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿فَإِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ﴾
’’یقینا ہم نے تو اس (قرآن) کو آپ کی زبان (عربی) میں خوب آسان کر دیا ہے، تاکہ آپ اس کے ساتھ متقین کو خوشخبری دیں۔‘‘ (مریم 97:19)
اور فرمایا: ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًی وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۠۸۹﴾
’’اور ہم نے آپ پر ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی یہ کتاب نازل کی ہے جو مسلمانوں کے لیے ہدایت،رحمت اور خوشخبری ہے۔‘‘ (النحل 89:16)
آپﷺ قرآن پڑھنے والے کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:
’’جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حديث: 2910)
بلکہ آپﷺ نے خوشخبری دی: ﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۱﴾ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) المساجد ومواضع الصلاة، حديث (2910)
سیدنا ابو شریح عدوی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ۔ کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بلاشبہ یہ قرآن ایک رسی ہے جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمھارے ہاتھوں میں ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھام لو تو اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہو گے اور نہ کبھی بلاک ہو گے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، حدیث (122)
آپ ﷺنے بشارت دی کہ قرآن مجید قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث ہیں جو کتاب اللہ کی فضیلت کے حوالے سے بشارت سے بھری پڑی ہیں۔ یہ کتاب بشارت عام کرتی ہے اور امید کا پیغام دیتی ہے۔ یہ اول تا آخر ایمان لانے والوں کے لیے سعادت، نجات کامیابی اور امن کا سرچشمہ ہے۔ جب نبی ﷺ نے مومنوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور رب العالمین کی رضا کی خوشخبری سنائی تو کافروں کو بھی یہ بشارت دی کہ اگر وہ ایمان لائیں تو ان کی مغفرت و بخشش ہو گی اور نافرمانوں کو نوید سنائی کہ اگر وہ توبہ کر لیں گے تو انھیں بھی معاف کر دیا جائے گا۔ جو شخص بھی قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے غور و فکر سے اس کی تلاوت کرتا ہے، اس کے غموں اور پریشانیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں، اس کا دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے اور اس کی روح کو سعادت و شادمانی نصیب ہوتی ہے۔
آپﷺ نے صبر کرنے والے مصیبت زدہ، بیمار اور آزمائش میں مبتلا افراد کو بھی حکم ربانی کے مطابق بشارت دی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙالَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ﴾
’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، وہ کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ (البقرة2: 155،156)
آپﷺ مصیبت، آزمائش اور غم میں مبتلا افراد کو اس طرح خوشخبری دیتے کہ ان کے سینے ٹھنڈ سے ہو جاتے، ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہو جاتی اور ان کی تکلیف کافی حد تک کم ہو جاتی۔ آپ نے بینائی سے محروم ہونے والے کو جنت کی بشارت دی، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالی نے فرمایا: ’’جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں سے آزماؤں اور وہ صبر کرے تو میں ان کے بدلے میں اسے جنت دیتا ہوں۔ دو محبوب چیزوں سے مراد دو آنکھیں ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري المرضى، حدیث 5653)
جس کا بیٹا فوت ہو جائے، اسے جنت میں محل ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے، فرمایا:
’’جب مومن بندے کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی ؟ وہ کہتے ہیں: ہاں اللہ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کے ٹکڑے کی روح قبض کی ؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ اللہ فرماتا ہے: پھر اس نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں: اس نے تیری تعریف کی اور ﴿اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ پڑھا۔ اللہ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔‘‘ (جامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1021)
جو بیمار ہوا، آپﷺ نے اسے خطاؤں کی معافی کی نوید سنائی اور یہ بتایا کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے ایک مریض کی عیادت کی تو اسے فرمایا:
’’خوش ہو جاؤ! اللہ تعالی فرماتا ہے: یہ (بخار ) میری آگ ہے جسے میں اپنے مومن بندے پر دنیا میں مسلط کرتا ہوں تا کہ آخرت میں جو آگ کا حصہ اس کے لیے ہے، وہ دنیا ہی میں اسے مل جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجه، الطب، حدیث: 3470)
رسول اکرمﷺ سیدہ ام علاء رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے جبکہ وہ بیمار تھیں تو آپ نے فرمایا:
’’اے ام علاء! خوش ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ مسلمان کی بیماری کے ذریعے سے اس کی خطائیں معاف کرتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کا میل (کھوٹ ) ختم کر دیتی ہے۔‘‘ (سنن ابی داود، الجنائز، حديث: 3092)
بلکہ آپﷺ نے مریضوں کو ایک نہایت خوبصورت بشارت دی، فرمایا:
’’جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے وہ اعمال لکھے جاتے ہیں جو دو قیام اور صحت و تندرستی کی حالت میں کرتا تھا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 2996)
آپﷺ کی بشارت پریشان دلوں کے لیے مرہم، بیمار جسموں کے لیے دوا اور بے قرار روحوں کے لیے تسکین کا سامان تھی۔ آپ ﷺ نے خوشخبری دی کہ جس مسلمان کو کوئی بیماری، تکلیف، تھکاوٹ، حزن و ملال یا غم پہنچا حتی کہ اگر کانٹا بھی چبھا تو اللہ تعالی اس پریشانی کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’کوئی بھی مصیبت جو مسلمان پر آتی ہے، اللہ ضرور اس کے ساتھ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتی کہ وہ کانٹا جو اسے چہتا ہے وہ بھی کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المرضى، حدیث: 5640)
موت کی بے ہوشیوں میں بھی آپﷺ کی بشارتیں بیمار کے لیے دلا سا بن جاتیں۔ ابن شماسہ مہری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے کہ ہم سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے جبکہ وہ موت وحیات کی کشمکش میں تھے۔ وہ خاصی دیر روتے رہے اور اپنا چیرہ دیوار کی طرف کر لیا۔ ان کا بیٹا کہنے لگا: ابا جان! کیا اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو فلاں خوشخبری نہیں دی؟ کیا اللہ کے رسولﷺ نے آپ کو فلاں بشارت نہیں سنائی ؟ وہ کہتے ہیں کہ پھر انھوں نے اپنا چہرہ ہماری طرف کیا اور کہا: ہماری تیاری میں جو سب سے افضل چیز ہے وہ لا إلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کی گواہی ہے۔ (صحیح مسلم، الإيمان، حديث (121)
آپﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی تعلیم دیتے تھے کہ وہ لوگوں کو بشارت دیں۔ آپ ﷺ ان سے کہتے: ((بَشِّرُوْا وَلَا تَنّفِّرُوْا،)) ’’خوشخبری دو اور دور نہ بھگاؤ‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد والسير، حديث: 1732)
جب حالات کٹھن ہوئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
((أَبْشِرُوْا وَأَمِّلُوْا مَا يَسُرُّكُمْ))
’’خوش ہو جاؤ اور اس کی امید رکھو جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔‘‘ (صحيح البخاري، الجزية، حديث: 3158)
آپ نے انھیں بشارت دی کہ اسلام بہت جلد پھیل جائے گا اور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ پہنچتا ہے۔ یوم فرقان (بدر ) کے دن اللہ کے اس فرمان کے ساتھ مومنوں کو بشارت دی:
﴿ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ۹وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰی وَ لِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠﴾
’’(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمھاری فریاد قبول کر لی (اور کہا) کہ بے شک میں ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا۔ اور اس (مدد) کو اللہ نے خوش خبری بنا دیا، تاکہ اس سے تمھارے دلوں کو تسلی ہو جائے اور مدد تو اللہ ہی کے پاس سے (آئی) ہے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (الأنفال 8: 9،10)
آپﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بشارت دے کر ان کے حوصلے بلند کرتے اور انھیں خیر، بھلائی اور اطاعت کے کاموں میں خوب محنت اور لگن کی ترغیب دلاتے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’عثمان آج کے بعد جو عمل کرے، اسے کوئی نقصان نہیں۔‘‘ یہ سن کر ان کا جود وسخا بڑھ گیا اور انھوں نے پہلے سے زیادہ خرچ کیا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی توبہ قبول ہونے کی خوشخبری دی اور سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کو جنتی ہونے کی نوید سنائی۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خوشخبری سنائی کہ زید، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ م کو جنت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو بشارت دی کہ میں نے جنت میں تمھارے قدموں کی آہٹ کی ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جنت میں موتیوں کے ایک گھر کی بشارت دی جس میں کوئی شور شرابا اور تھکاوٹ نہ ہو گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بشارت دی کہ اللہ تعالی نے انھیں بے گناہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو بشارت دی کہ اللہ تعالی نے معزز فرشتوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ایک ساتھ جنت کی بشارت دی اور اہل بدر کو حدیث قدسی کے ذریعے سے یہ خوشخبری دی: ((اِعْمَلُوا مَا شِئْتُم فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ))
’’تم جو چاہو عمل کرو، میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد والسير، حديث: 3007)
آپ ﷺنے درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں کو اللہ کی رضا کی خوشخبری دی اور ﴿قُلْ هُوَ الله احد﴾ کا التزام کرنے والے صحابی کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرتا ہے۔ اپنے ساتھ نماز پڑھنے والے ایک شخص کو جس نے بہت بڑا گناہ کیا تھا، یہ خوشخبری دی کہ اللہ تعالی نے اسے معاف کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے ساتھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو غار میں اس وقت خوش خبری دی جب دشمنوں نے ان کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔ آپﷺ نے ان سے فرمايا: ((لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا)) ’’غم نہ کرو، بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
((أَلَا أَدُلُّكَ عَلٰى كَلِمَةٍ هِيَ كَنْرٌ مِّنْ كُنُوْزِ الْجَنَّةِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ))
’’کیا میں تیری راہنمائی ایک کلمے کی طرف نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ وہ ہے:لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ (صحيح البخاري، الدعوات، حديث: 6384)
یہ خوشخبری سننے کے بعد سید نا ابوموسی رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان بھی اس کلمے کے ذکر سے غافل نہیں رہتی تھی۔
آپﷺ نے نیک عمل کرنے والوں کو بہت بڑے بدلے اور اللہ کے ہاں ذخیرہ اجر اور ثواب عظیم کی خوشخبری سنائی جیسا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا:
﴿ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۲۵﴾
’’اور ان لوگوں کو خوشخبری دے دیجیے جو ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے، یقیناً ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ جب بھی انھیں اس میں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے دیا گیا تھا اور انھیں اس سے ملتا جلتا (پھل بھی ) دیا جائے گا۔ اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغوں) میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (البقرة 25:2)
نبی ﷺ نے نماز کا انتظار کرنے والے کو خوشخبری سنائی کہ جب تک وہ بے وضو نہ ہو، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری سنائی کہ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ آپﷺ نے بشارت دی کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کے نیک عمل اللہ کو باقی تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔
آپ ﷺنے ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے والے کو جنت میں کھجور کا ایک درخت لگنے کی خوشخبری سنائی۔ آپﷺ نے بشارت دی کہ رمضان میں عمرہ کرنا، میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ رات کے اندھیروں میں بکثرت چل کر مسجدوں میں جانے والوں کے لیے قیامت کے دن مکمل نور کی نوید سنائی۔
آپﷺ نے ثابت قدم رہنے والوں کو جنت کی خوشخبری سنائی جیسا کہ فرمان ربانی ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۳۰﴾
’’بلا شبہ جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر خوب قائم (جمے) رہے، ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اترتے ہیں: نہ تم ڈرو نہ غم کھاؤ اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘ (جم السجدہ 41: 30)
آپ ﷺ نے صلہ رحمی کرنے والے کو خوشخبری سناتے ہوئے فرمایا:
((مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُّبْسَطَ لَهُ فِيْ رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَلَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ))
’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ کر دیا جائے یا اس کی عمر دراز کر دی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، البيوع، حديث: 2067)
آپﷺ نے نماز با جماعت کی پابندی کرنے والے کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
((صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ الْفَذْ بِسَبْعٍ وَّ عِشْرِيْنَ دَرَجَةً))
’’با جماعت نماز ادا کرنا، اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد و مواضع الصلاة، حديث: (650)
نمازِ چاشت کی حفاظت کرنے والے کو خوشخبری دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’صبح کے وقت تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا بھی صدقہ ہے۔ ایک دفعہ الحمد للہ کہنا بھی صدقہ ہے۔ ایک دفعہ لا الہ الا اللہ کہنا بھی صدقہ ہے۔ ایک دفعہ اللہ اکبر کہنا بھی صدقہ ہے۔ کسی کو نیکی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے اور کسی کو برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ اور ان تمام امور کی جگہ چاشت کے وقت کی دو ر کعتیں کافی ہو جاتی ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة، حديث: (720)
جو لوگ آپﷺ پر درود پڑھتے ہیں، انھیں خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
((مَنْ صَلّٰى عَلَىَّ صَلَاةً وَّاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ وَ رُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ))
’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھاہ اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا، اس کے دس گناہ معاف کرے گا اور دس درجے بلند کرے گا۔‘‘ (سنن النسائي السهو، حدیث: 1297)
آپﷺ بشارت اور خوشخبری دینے میں طلبہ کو بھی نہیں بھولے، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:
((وإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ))
’’بلاشبہ فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اس چیز سے خوش ہو کر جو وہ طلب کرتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الدعوات، حديث: 3535)
طلبہ کی اللہ کے ہاں بلند قدر و منزلت کے باعث فرشتے ایسا کرتے ہیں۔
آپ ﷺنے ذکر کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’جو قوم بھی اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھتی ہے، ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں۔ رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر اطمینان قلب نازل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذكر والدعاء، حديث: 2700)
نبیٔ اکرمﷺ نے خوشخبریوں اور عظیم اجر کی نوید کے بعد ایسی مجالس کے لیے دل کیوں بے تاب نہ ہوں اور ان میں شامل ہونے کا شوق کیوں پیدا نہ ہو ؟! اعمال و اذکار کے اجر میں رسول اکرم ﷺ کی بے شمار خوشخبریاں ہیں جو کئی جلدوں اور ہزاروں صفحات میں مرتب کی جاسکتی ہیں۔
رسول اکرم ﷺنے بشارتوں اور خوشخبریوں کے ذریعے سے امت پر خوشیاں نچھاور کیں۔ ان میں سے ایک بشارت یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری دی اور فرمایا:
((بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَّاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ))
’’اپنی امت کو خوشخبری دے دیں کہ جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حديث: 6443)
دعوت محمدیہ کی تاریخ میں مطلق طور پر یہ سب سے عظیم خوشخبری ہے کہ جو توحید اور اخلاص پر فوت ہوا، اس کا ٹھکانا ہمیشہ کی جنتیں ہیں۔ یہ کیسی عظیم خوشخبری ہے جس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے، دل کو سرور ملتا ہے اور روح کو تسکین نصیب ہوتی ہے! آپﷺ نے فرمایا:
’’بلاشبہ میری امت کو قیامت کے دن اس طرح بلایا جائے گا کہ ان کے ہاتھ پاؤں وضو کے باعث چمک رہے ہوں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، الوضوء، حديث:136)
اور آپ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے:
((نَحْنُ الْآخِرُونَ، وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
’’ہم آخر میں آنے والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجمعة، حديث:855)
یعنی زمانے کے اعتبار سے آخر میں ہیں اور قدر و منزلت میں سب سے آگے ہوں گے۔ امت محمد یہ زمانی ترتیب سے آخر میں ہے لیکن اللہ کے ہاں اجر و ثواب، قدر و منزلت اور شان و شوکت میں سب امتوں سے بڑھ کر ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالی اسے قحط سالی سے ہلاک نہیں کرے گا۔ اس پر کسی دشمن کو اس طرح مسلط نہیں کرے گا جو اسے نیست و نابود کر دے۔
جب ایک روز آپﷺ نے نماز عشاء تاخیر سے پڑھائی تو فرمایا:
’’خوش ہو جاؤ، یہ اللہ تعالی کا تم پر انعام ہے کہ اس وقت تمھارے سوا کوئی دوسرا شخص نماز نہیں پڑھتا۔‘‘ (صحيح البخاري، مواقيت الصلاة، حديث:567)
آپ ﷺنے اپنی امت کو بلندی، رفعت، دین، نصرت اور زمین میں اقتدار کی خوشخبری سنائی۔ (مسند احمد، حدیث: 21220)
قیامت کے دن ان کو شفاعت کرنے کی خوشخبری دی تو فرمایا:
’’ہر نبی کی ایک دعا تھی جو اس نے اپنی امت کے لیے کی اور بلاشبہ میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کے لیے چھپارکھی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 200)
یقیناً آپﷺ کی ساری زندگی بشارت، لوگوں کے لیے سعادت اور ان کے دلوں کو فرحت و شادمانی سے مالا مال کرنے سے عبارت ہے۔ نبوت یقیناً ختم ہو چکی لیکن مبشرات باقی ہیں، جیسے آپ ﷺنے خبر دیتے ہوئے فرمایا: ’’نبوت میں سے سوائے مبشرات کے کوئی چیز نہیں بچی۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اچھے خواب۔‘‘ (صحیح البخاري، التعبير، حديث، 6990)
اسی طرح مومن کے لیے دنیا کی زندگی میں جلد آنے والی بشارتوں میں سے لوگوں کا اس کی تعریف کرنا اور اس کے نفع بخش نیک عمل کی شہادت دینا بھی ہے۔ اور مومن اس گواہی اور تعریف پر ریا کاری کرتا ہے نہ شہرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلہ ہے جو اس کے اخلاص اور اطاعت پر اسے دیا جاتا ہے۔ رسول اکرمﷺ سے عرض کیا گیا: اگر کوئی آدمی غیر اور بھلائی کا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں تو اس کے ے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا:
((تِلْكَ عَاجِلَ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ)) ’’یہ مومن کو جلد ملنے والی خوشخبری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة حديث: 2542)
آپ ﷺنے امت کو توحید کے ساتھ خوشخبری دی جو بندوں پر اللہ کا حق ہے، اور وہ ہے بندوں کو شرک سے نجات دیتا، انھیں بت پرستی سے پاک کرنا اور ان سے جاہلیت کا میل کچیل دور کرنا، اور توحید جنت کی چابی، ہمیشہ جنت میں رہنے کی نشانی اور اللہ مالک الملک کے ہاں قبولیت کا تاج ہے۔
آپ ﷺنے خوشخبری دی کہ وضو گناہوں کا کفارہ اور باعث طہارت ہے اور وضو کرنے والوں کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
آپﷺ نے نماز کے متعلق خوشخبری دی کہ یہ تمام بحرانوں کا حل اور زندگی کی تمام مشکلات سے نجات دلانے والی ہے۔ اس سے دلی سکون و اطمینان اور نور ربانی حاصل ہوتا ہے۔ یہ گناہوں کا کفارہ ہے اور پریشانیاں ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔
آپﷺ نے روزے کے متعلق بشارت دی کہ یہ بندے اور اس کے رب کے درمیان راز ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: افطار کے وقت اور رب العالمین سے ملاقات کے وقت۔ اس کے علاوہ روزہ روح کی پاکیزگی اور بدن کی صحت کا باعث ہے۔ یہ بھوکوں سے ہمدردی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس سے مساکین کے لیے رحمت و شفقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، صبر کی مشتق ہوتی ہے اور خواہشات نفس کو دبانے اور نفس امارہ کو کچلنے میں مدوملتی ہے۔
آپ ﷺنے صدقے کے متعلق خوشخبری دی کہ یہ مال کی زکاۃ ہے اور نفس کو بخیلی اور کنجوسی سے نکالنے میں معاون ہے۔ یہ خطاؤں کو مٹانے، محتاج کی مدد کرنے، نعمت کا شکر بجالانے، مال کی آفات سے حفاظت کرنے اور روح کو مشکلات سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔
آپ ﷺنے حج کے متعلق خوشخبری دی کہ یہ ہر خطا کا سب سے بڑا کفارہ ہے۔ اس طرح کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا سچا حاجی گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوتا ہے جیسے ابھی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو۔ اس کا نفس گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ وہ عظیم اجر پاتا ہے۔ اس کی کوشش قبول ہوتی ہے اور وہ رحمن کی بخشش اور خوشنودی پاکر کامیاب ہو جاتا ہے۔
آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے خوشخبری کا یہ تصور نہیں تھا، مثلا: صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس کی خوشخبری۔ عام نیک اہل ایمان کے لیے جنت کی خوشخبری۔ تو بہ تائب ہونے والے گناہ گاروں کے لیے مغفرت کی خوشخبری۔ نمازیوں، صدقہ کرنے والوں اور روزہ داروں کے لیے عظیم نیکیوں اور نہ ختم ہونے والے اجر و ثواب کی خوشخبری۔ موحدین کے لیے جہنم سے آزادی اور اللہ جل شانہ کی خوشنودی کی خوشخبری۔ آزمائشوں میں صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی رحمت اور ہدایت کی خوشخبری نیکوکار اولیاء اللہ کے چہرے چمکدار ہوتے اور حساب کی آسانی کی خوشخبری۔ علاوہ ازیں دشمنوں پر غلبے، دین ونعمت کی تشکیل، ملکوں کی فتوحات اور لوگوں کے فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے کی خوشخبریاں اور بشارتیں۔ یہ سب اور ان کے علاوہ دیگر خوشخبریاں صرف ہمارے رسول محمدﷺ نے دی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپﷺ کی گفتگو، مسکراہٹ، خطبہ مصافحہ اور طرز زندگی سب میں خوشخبری اور بشارت ہے۔ آپﷺ کی نصیحتیں، اقوال، افعال اور احوال سب است کے لیے بشارت ہیں حتی کہ آپ کے امر و نہی اور رضا و ناراضی میں بھی بشارت کا پہلو نفی ہے کیونکہ یہ سب کچھ ہماری بہتری اور اصلاح کی خاطر ہے۔
میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے زندگی میں سب سے بڑی خوشی کیا ملی؟ کیا وہ گھر میرے لیے بڑی خوشی تھی جس کا میں مالک بنا یا گاڑی جو میرے زیر استعمال آئی؟ یا مال جو میں نے کمایا ؟ یا کپڑا جو میں نے پینا؟ یا علمی اسناد جو میں نے حاصل کیں؟ یا میرے زندگی کے دوست؟ یا میری کتا ہیں جو میں نے تالیف کیں؟ یا میرے درس جو میں نے لوگوں کو دیے؟ یا میری جسمانی صحت جس سے مجھے نوازا گیا ؟ یا کھانے پینے کی بے شمار نعتیں جو مجھے میسر ہیں؟ یا آرام دہ پر تکلف سفر ؟
تو میرا جواب یہ ہے کہ یہ سب نعمتیں ہیں۔ الحمد للہ، لیکن اللہ کی قسم! ان سب بشارتوں اور خوشیوں سے بڑی خوشی، نوازش اور خوبصورت تحفہ و علیہ آپ ﷺکی رسالت پر ایمان، آپ کی اقتدا اور پیروی کی توفیق ہے۔ آپ کی شریعت کے سائے میں زندگی گزارنا، آپ کی نبوت کے کوثر سے فیضیاب ہونا اور آپ کی ملت کے انوار سے روشنی پانا سب سے بڑی خوشی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۵۸﴾
’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: (یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے، لہذا (لوگوں کو) چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ خوش ہوں۔ یہ ان چیزوں سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘ (یونس 58:10)
انسانیت کی طویل ترین تاریخ میں جتنی خوشخبریاں اور بشارتیں ہیں، ان سب سے عظیم خوشخبری اور بشارت آپ ﷺکی بعثت ہے۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ہر رنگ اور پہلو غیر، بھلائی، فوز و فلاح اور مغفرت و بخشش کی نوید سناتا ہے۔ آپ کی احادیث، خطبات اور مواعظ و دروس سے بشارتیں عیاں ہوتی ہیں۔ آپ ہی نے امت کو فتح مغفرت، نصرت اور رزق کی خوشخبری دی۔ گناہ گاروں کو تو بہ اور نافرمانوں کو نافرمانی سے باز آنے کی صورت میں رحمت الہی کی خوشخبری دی۔ عمل کرنے والوں کو دائمی اجر اور صبر کرنے والوں کو عظیم ثواب کی خوشخبری سنائی۔ فقراء و مساکین کو رب العالمین کے ہاں ذخیر کا اجر کی بشارت دی۔ مصیبت کے ماروں کو ثواب کی خوشخبری سنائی۔
شکستہ اور ٹوٹے دلوں کو اللہ کے لطف وکرم کی نوید سنائی اور موحدین کو اس جنت کی خوشخبری سنائی جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔
اللہ رب العزت آپ س کو ہماری طرف سے نہایت اعلی جزارے جو وہ کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیتا ہے۔ اور آپﷺ پر اس وقت تک درود وسلام نازل ہوتے رہیں جب تک قُمری گاتی رہے، بادل برستے رہیں، اندھیرے چھٹتے رہیں اور تلواریں میانوں سے نکلتی رہیں۔