محمدﷺ بحیثیت محبوب
محبت کی کئی صورتیں:
1۔کسی چیز کے ادر اک اور تصور سے لطف اندوز ہونا جیسے حسین و جمیل اور جاذب نظر صورتوں اور حیرت انگیز پلکش مناظر کی محبت۔ یہ فطری محبت ہے جس پر اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔
2۔ وہ محبت جس کا ادراک و احساس عقل و دانش والوں کو ہوتا ہے اور نیک فطرت اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ یہ جلیل القدر خوبیوں، عمدہ صفات، اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کی محبت ہے۔
3۔ جو شخص ہمارے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرے، اس کی محبت ہم پر لازم ہے کہ اس کے فضل و احسان کا اعتراف کریں اور اس کے احسان مند اور شکر گزار ہوں کیونکہ اس نے ہمارے ساتھ نیکی اور اچھائی کی ہوتی ہے۔ ہم اس کے بدلے میں اس سے محبت، تعریف اور شکر و وفا کرتے ہیں۔
محبت کے یہ تمام معانی اور اسباب نبی کریم ﷺمیں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ بلاشبہ آپﷺ کا اول و آخر اور ظاہر و باطن تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ آپ ﷺمحبوب ہیں کیونکہ آپ سب سے بڑھ کر نیک اوصاف کے مالک اور پاکیزہ فطرت والے ہیں۔ آپ کے محاسن چودھویں کے چاند سے زیادہ روشن اور آپ کے محامد لہلہاتے پھولوں سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔ آپ ﷺ کا ظاہر و باطن، شکل وصورت اور اخلاق نہایت خوبصورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد ہم پر سب سے زیادہ احسانات آپ ہی کے ہیں۔ آپ نے ہمارے دلوں کو ایمان سے منور کیا۔
ہمارے سینوں کو قرآن کے ساتھ روشن کیا۔ رحمن کی اطاعت کا درس دیا۔ ہم دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺکی صراط مستقیم کے آثار نظر آتے ہیں۔ دنیا میں آپ سے بڑھ کر ہم پر کسی کا احسان نہیں۔ آپ کا یہ احسان ہی کیا کم ہے کہ آپ نے ہمیں دین اسلام کی راہ بتائی اور اپنی سنت کی طرف ہماری راہنمائی کی۔ آپ دنیا میں ہماری سعادت اور آخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ ہیں۔
اللہ تعالی نے آپ ﷺمحبوب بنایا اور آپ کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ آپ مخلوق میں اللہ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں اور اگلے پچھلے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہیں۔ آپ ﷺمحبوبِ خدا ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ قرآن میں آپ کا تذکرہ اللہ کے ذکر کے ساتھ ہے۔ اذان میں اللہ کے نام کے بعد آپ کا نام گونجتا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنی نبوت و رسالت کے لیے منتخب کر کے شرف و عزت بخشی۔ دن رات آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول کیا۔ پاکباز فرشتے آپ پر درود و سلام پیش کرتے ہیں اور نیکو کار بندے آپ پر صلاۃ وسلام بھیجتے ہیں۔ آپ ﷺکو سب سے بڑا شرف یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا اور خیر اور بھلائی کی علامت قرار دیا جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا: ((وَلٰكِنْ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللهِ))
’’لیکن تمھارے ساتھی تو خلیل اللہ ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2383)
خُلَّت محبت کا سب سے اونچا مرتبہ اور قربت کا سب سے عظیم درجہ ہے۔
اللہ تعالی نے اپنی محبت اور اطاعت کو اپنے نبی ﷺ کی محبت و اطاعت سے مشروط کیا ہے۔ اللہ تعالی کی اطاعت رسول کریم ﷺ کے طریق ہی سے ممکن ہے اور رب تعالی کی عبادت کا واحد دروازہ بھی نبی کریمﷺ ہی ہیں، لہٰذا جو اپنے مولا کا قرب حاصل کر کے اس کا محبوب بننا چاہے، اسے چاہیے کہ اس کے نبی محمد مصطفیﷺ کی اتباع کرے اور آپ کی راہ تلاش کرے۔ آپ کے دروازے کے سوا محبت و قربت کے تمام دروازے بند ہیں اور سلامتی و نجات کی تمام راہیں مسدود ہیں۔ جس دن آدمی اپنے بہن بھائیوں، ماں باپ، بیوئی اور اولاد سے دور بھاگ رہا ہو گا، اس دن آپﷺ کی محبت باعث نجات ہوگی۔
اگر تمام انسان اور جن رات دن مسلسل نبی مختارﷺ کی مدح کرتے رہیں تو وہ اللہ مالک الملک کے اس قول: ﴿فَإِنَّكَ بِاَعْيَنِنَا …﴾ ’’آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں‘‘ (الطور 48:52) … کے برابر بھی نہیں ہو سکتی۔ اگر زمین سے لے کر آسمان تک آپ کی ثنا کے دیوان اکٹھے کر دیے جائیں تو وہ ﴿فَإِنَّكَ بِاَعْيَنِنَا …﴾ کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں بن سکتے۔ اگر تمام سمندر سیاہی بن جائیں، تمام آسمان رجسٹر بن جائیں اور تمام انسان فصاحت و بلاغت سے آپ کی مدح لکھیں تو وہ﴿فَإِنَّكَ بِاَعْيَنِنَا …﴾ ہے کے جمال و جلال کے ایک حرف کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔
بلا شبہ آپﷺ کی محبت ایمان کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ دلوں میں آپ ﷺ کی محبت جس قدر زیادہ ہوگی، ایمان بھی اس قدر زیادہ ہوگا۔ جب آپ کی محبت میں نقص ہوگا تو ایمان بھی کمزور ہو گا۔ یہ فرض ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی محبت آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کا سرور اور شرح صدر کا باعث ہو اور آپ کی محبت آباء و اجداد، اولاد، ماؤں، پوتوں، نواسوں کی محبت پر مقدم ہو۔ مال و متاع، تجارت، گھر اور بادشاہت کی محبت بھی اس کے سامنے کوئی معنی نہ رکھتی ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ))
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 15)
بلکہ اللہ تعالی اس وقت تک کسی مومن کا ایمان قبول ہی نہیں کرتا جب تک وہ نبی ﷺ کی محبت کو اپنی جان کی محبت پر مقدم نہ کرے، دنیا کی ہر چیز پر اسے ترجیح نہ دے اور یہ محبت اس کا نصب العین نہ بنے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اسے اپنے برے اعمال کی وجہ سے خطرناک انجام کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ جس نے اولاد، بیویوں اور دوست احباب کی محبت کو زمین و آسمان کے رب اور اس کے رسولﷺ کی محبت پر مقدم رکھا، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ضمیر میں ضرور کوئی خلش ہے۔ وہ سمیع و بصیر رب کے ساتھ بدگمان اور بشیر و نذیر نبیﷺ کے منہج سے انحراف کرنے والا ہے جیسا کہ حکیم و خبیر مالک کا فرمان ہے:
﴿قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠﴾
’’(اے نبی !) کہہ دیں: اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ، قبیلہ اور جو مال تم نے کمائے اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، (یہ سب) تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز اور پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (التوبة 24:8)
جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے، وہ ان میں رسول اکرمﷺ کی ذات سے سچی اور وافر محبت پاتا ہے۔ ایسی محبت جو دل و جان پر حاوی اور جذبات پر قابو پانے والی ہے۔ ایسی محبت جس کے سامنے اولاد، والدین اور بیوی کی محبت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ایسی محبت جو دل و دماغ کی گہرائیوں تک اتر چکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے نبی ﷺسے ایسی والہانہ محبت کیوں کی؟ پوری انسانی تاریخ میں ایسی کوئی قوم نہیں ملتی ہے جس نے اپنے امام، قائد، بزرگ یا استاد سے ایسی محبت کی ہو جیسی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے محمدﷺ سے کی۔ انھوں نے آپ سے دیوانہ وار محبت کی۔ تلواروں کے وار اپنے جسم پر برداشت کیے مگر آپ کے جسم پر آنچ نہ آنے دی۔ اپنا خون پیش کیا مگر آپ کے خون کا ایک قطرہ گرنا بھی گوارا نہ کیا۔ آپ ﷺکی عزت کی خاطر اپنی عزتوں کو داؤ پر لگا دیا مگر آپ کی عزت پر حرف نہ آنے دیا۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تو رسول اکرم ﷺ کی عزت و تکریم کی وجہ سے آنکھ بھر کر آپ کو دیکھتے بھی نہ تھے۔ انہوں نے آپ کی خاطر موت کو بھی خوشی سے گلے لگا یا لیا۔ جام شہادت کو ایسے ہی خوشی نوش کیا گویا کہ وہ میٹھا پانی ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھی محمد ﷺاور آپ کی دعوت سے پیار تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نبی ﷺ کی چاہت کو اپنی چاہت پر مقدم رکھتے۔ آپ کی راحت کی خاطر تھکنا اور آپ کے سیر ہو کر کھانے کی خاطر انہیں بھوکا رہنا اچھا لگتا تھا۔ وہ آپ کے سامنے نہ تو اونچا بولتے، نہ آپ کے حکم سے سرتابی کرتے اور نہ آپ کے حکم کے بغیر کچھ کرتے۔ آپ ہی ان کے محبوب و پیشوا، اسوۂ حسنہ اور مبارک رول ماڈل تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم رسول اللہ ﷺسے اس لیے بھی محبت کرتے تھے کہ آپ نے انھیں اللہ سے جوڑا۔ اس کی رضاد خوشنودی کی طرف بلایا اور انھیں اللہ کی سیدھی راہ دکھائی۔ آپ ﷺکی عظیم ہستی کے سامنے ان کی ایسی والہانہ محبت بھی کم تھی۔ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے سے انھیں آگ سے بچایا، ان کا شعور اُجاگر کیا اور انھیں بصیرت دی۔ جہالت سے نکال کر علم سے بہرہ ور کرایا، بگاڑ کے بعد ان کی اصلاح کی اور گمراہی کے بعد انھیں ہدایت دی۔
آپ ﷺکی دعوت سے پہلے ان کے دل پتھروں سے زیادہ سخت تھے۔ ان کی زندگی میں ہر طرف تاریکی تھی۔ حالات اس قدر سنگین تھے کہ عقل محفوظ تھی نہ خون کی کوئی قیمت تھی۔ حلال مال کمانے کا اہتمام تھا نہ کسی کی عزت کی حفاظت کا انتظام تھا۔ دلوں کو قرار تھا نہ اخلاق درست تھے۔ معاشرے میں نہ تو کسی صاحب شرف کا احترام تھا نہ لوگ اصولوں کا تحفظ کرتے تھے۔ جب اللہ تعالی نے انسانیت کو اس دلدل سے نکالنے، سعادت بخشنے اور اس کی اصلاح و فلاح کا ارادہ فرمایا تو محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ کی بعثت سے لوگوں کوئی زندگی ملی۔ دنیا کے حالات بدل گئے، گو یا زمین نے عالم حیات میں ایک خوبصورت لباس پہن لیا۔
صحا بہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ ﷺ سے محبت کی کیونکہ آپ رحمن کے رسول اور جن و انس کے برگزیدہ و پسندیدہ ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اور اس جنت کی راہ دکھائی جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔
آپﷺ کی صورت میں انھیں ایسا امام ملا جس کے فضائل و محاسن نہایت اعلی و ارفع ہیں۔ آپ نے اپنے تعظیم اخلاق اور شاندار مذہب کے ساتھ سب کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ انھیں آپ کے قرب و اتباع میں ایمان سے بھری جنت مل گئی، حالانکہ اس سے پہلے وہ کفر و جاہلیت کی وجہ سے بھڑکتی آگ میں تپ رہے تھے۔ آپ ﷺنے اللہ کے حکم سے ان کی روحوں کو مشرکانہ برائیوں سے پاک کیا۔ شرکیہ گناہوں سے ان کا تزکیہ کیا۔ ان کے دل و دماغ سے بت پرستی کی آلائشوں کو کھرچ کھرچا کر نکال دیا اور انھیں باعزت زندگی کا گر سکھایا۔ جن کے سینے عرصہ دراز سے بے چینی، بے قراری، اضطراب، غموں اور پریشانیوں سے بھرے ہوئے تھے، انھیں سعادت سے بھر دیا۔ شکوک و شبہات اور انحراف ختم کر کے ان کے دلوں میں یقین کے محلات کھڑے کر دیے۔
یقینًا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے آپﷺ کی محبت میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے۔ آپ کی عزت و توقیر کی خاطر انتہائی خوبصورت اقدام کیے۔ آپ ﷺ کی محبت ان کے دل و دماغ پر عادی اور ان کے رگ و ریشہ میں پیوست تھی۔ اس والہانہ محبت کے مظاہر اور خوبصورت واقعات بہت ہیں۔ ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:
ہجرت کی رات سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جب رسول اکرمﷺ کے ساتھ غار کی طرف جا رہے تھے تو بھی نبی اکرمﷺ کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے۔ رسول اکرم ﷺنے اس بات کو بھانپ کر پوچھا: ’’ابوبکرا کیا بات ہے، کبھی تم میرے آگے چلتے ہو اور کبھی میرے پیچھے؟ ‘‘عرض کیا: اللہ کے رسول! دشمن کے پیچھے سے آنے کے بارے میں سوچتا ہوں تو پیچھے ہو لیتا ہوں اور پھر سوچتا ہوں کہ کہیں دشمن آگے گھات لگا کر نہ بیٹھا ہو تو آگے ہو جاتا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’ابوبکر کیا کوئی چیز ہے جو تم میرے بجائے اپنے لیے پسند کرتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کوئی بھی مصیبت آپ پر آنے کے بجائے مجھ پر آجائے۔ جب غار کے پاس پہنچے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ یہاں رکیں تاکہ میں غار کا جائزہ لے لوں کہ اس کے اندر کوئی موذی چیز نہ ہو، چنانچہ وہ غار میں داخل ہوئے اور اس کے تمام سوراخ بند کر دیے۔ او پر آئے تو یاد آیا کہ ایک سوراخ رہ گیا ہے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! تھوڑی دیر اور رکیں تاکہ میں وہ سوراخ بھی بند کر دوں، چنانچہ وہ دوبارہ اندر گئے اور اس سوراخ کو بھی بند کر دیا۔ (دلائل النبوة للبيهقي: 476/2)
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبیﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
اللہ کے رسول! آپ میری جان کے سوا مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں۔ نبیﷺ نے اُن سے فرمایا:
’’نہیں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میری ذات تھیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو۔‘‘ سیدنا رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’عمر! اب تیرا ایمان مکمل ہوا ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأيمان والنذور، حديث: 6632)
جب نبی اکرمﷺ نے تبوک کے لشکر کی تیاری کی ترغیب دلائی تو سیدنا عثمان ﷺآپ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے فوراً آگے بڑھے اور اپنے ذاتی مال سے لشکر تیار کیا۔ آپ نے بئر رومہ کا کنواں خریدنے کی ترغیب دلائی تو سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم ﷺکی محبت اور قرب کے حصول کے لیے اکیلے ہی وہ کنواں خرید کر وقف کر دیا۔
سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبیٔﷺ پر فدا ہونے کے لیے ہجرت کی رات آپ کے بستر پر لیٹ جاتے ہیں۔ وہ ہر معر کے میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سب سے آگے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ وہ آپ کی ذات عالی اور رسالت کا ہر موقع پر دفاع کرتے ہوئے اپنی جان اور خون کی پروا کیے بغیر اپنا سینہ رسول اکرمﷺ کے سینے کے سامنے کر دیتے ہیں۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت دیکھیے کہ وہ نبی اکرمﷺ کی محبت سے کس طرح سرشار ہیں اور ان کے دل و دماغ پر آپ کی محبت کسی طرح حاوی ہے۔ وہ نبی امین ﷺسے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺسے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، آپ کی عظمت کی بنا پر میں آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ نہ سکتا تھا۔ اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث (121)
سید نا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں کہ اُحد میں رسول اکرمﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے سینے اور ہاتھوں پر روکتے ہیں اور کہتے ہیں: اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپﷺ سر اونچا نہ کریں کہیں کوئی تیر آکر آپ کو لگ نہ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کی ڈھال بنا ہوا ہے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حديث (3811)
صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ نے عروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر بنا کر نبی اکرم ﷺکی طرف بھیجا۔ جب اس نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی اطاعت و محبت، آپ ﷺ کے ساتھ تعلق اور بڑھ چڑھ کر آپ کی خدمت کا جذبہ دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گیا۔ حیرت میں ڈوبا قریش کے پاس لوٹا تو ان سے کہا:
’’اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں اور قیصر و کسری، نیز نجاشی کے دربار بھی دیکھ آیا ہوں مگر میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جس طرح محمدﷺ کے اصحاب محمد ﷺکی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر پڑتا ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے پر مل لیتا ہے۔ اور جب وہ کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ فوراً ان کے حکم کی تکمیل کرتے ہیں۔ اور وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے لیے لڑنے جھگڑنے تک آجاتے ہیں۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو ان کے سامنے اپنی آواز میں پست رکھتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔‘‘ (صحيح البخاري، الشروط، حديث (2731)
یہ قصہ ایک مشرک بیان کرتا ہے جو ابھی اسلام نہیں لایا۔ وہ اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ نہایت سمجھدار اور ہوشیار سفیر ہے جس نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں۔ وہ اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ دنیا میں جتنی محبت محمدﷺ کے صحابہ اور پیروکاروں کو اپنے نبی سے ہے، اتنی کسی بھی قائد سے اس کے ساتھی نہیں کرتے۔
رسول اکرم ﷺ کے جلیل القدر صحابی سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں کہ انھیں یہ خدشات پریشان کیے جاتے ہیں کہ دنیا سے جانے کے بعد جنت میں رسول اکرمﷺ کا دیدار نہیں ہوگا تو کیا کروں گا۔ انھی کی زبانی سینے، وہ کہتے ہیں:
’’میں خدمت کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صفہ میں آپ کے قریب رات گزارا کرتا تھا۔ جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’کچھ مانگو۔‘‘ میں نے عرض کی: میں جنت میں بھی آپﷺ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کے سوا کچھ اور ؟‘‘ میں نے عرض کیا: بس یہی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 489)
بڑے تو بڑے رہے، بچے بھی رسول اکرم ﷺکی محبت سے سرشار تھے اور آپﷺ کے قرب سے خوش ہوتے تھے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
’’میں بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں، میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے دل میں خواہش کی کہ کاش میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کر کے آہستہ آواز سے پوچھا: اسے چچا تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے تجھے اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مر نہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا جو پہلے نے کہا تھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابو جہل دکھائی دیا جو اپنے لوگوں میں اٹھلا رہا تھا۔ میں نے ان دونوں سے کہا: سنو! وہ ہے جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے تلوار میں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے۔ پھر زبردست حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔‘‘ (صحيح البخاري، فرض الخمس، حدیث:3141)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی نبی اکرمﷺ سے محبت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم نے کسی ایسی قوم کے بارے میں سنا ہے نہ پڑھا ہے جو اپنے امام و قائد اور نبی سے اس قدر محبت کرتی ہو جیسی محبت صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اپنے امام اور نبیﷺ سے کی ہے۔ آپﷺ کی محبت ان کی زندگی تھی۔ وہ دن رات آپ ﷺ کی محبت میں زندہ رہتے، گو یا وہ کھانے کے ساتھ آپ کی محبت کا ذائقہ پاتے۔ آپ کی محبت کا سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالتے اور آپ کی محبت کے جام پیتے تھے۔ آپ کی محبت ان کے دل و جان میں خون کی طرح گردش کرتی تھی اور آنکھیں محبت کے آنسوؤں میں نم رہتی تھیں۔ اللہ تعالی نھیں اس محبت، اس قربانی اور اس وفا کی بہترین جزا دے اور ان سے راضی ہو جائے۔
ہم پر ان کا حق ہے کہ ہم ان کے لیے دعا کریں اور ان کی اچھی تعریف کریں۔
وہ آپ ﷺسے کیسے محبت نہ کرتے جبکہ اطاعت کے ہر کام میں وہ آپ کو سامنے رکھتے۔ طہارت، روزوں، زکاۃ، حج، ذکر، عقیدے، آداب اور اخلاق و کردار میں آپ کو اسوہ بناتے۔ ہر مسلمان آپﷺ سے کیوں محبت نہ کرے اور آپ کا قرب کیوں حاصل نہ کرے جبکہ خیر کے ہر کام میں اس کے امام و پیشوا محمدﷺ ہیں اور بھلائی کے ہر کام میں وہ آپ ہی کو نمونہ بناتا ہے۔
انسان آپ ﷺسے محبت کیوں نہ کرے! آپ کی باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں اور بڑی شان سے دل میں اتر جاتی ہیں۔ آپ سچائی، عدل، سلامتی و رحمت، باہمی بھائی چارے اور ہر اچھے اخلاق کی طرف بلانے والے ہیں۔ فسق و فجور، نافرمانی ظلم و زیادتی اور بہتان بازی سے روکنے والے ہیں۔ گو یا رسول کریم ﷺکی اقتدا و پیروی سے انسان کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔
میرے ماں باپ آپ پر قربان! ہم آپ ﷺسے کیسے محبت نہ کریں! آپ کو ہر وقت ہماری سعادت و خوشی کی فکر رہتی اور ہماری مشکل آپ پر گراں گزرتی تھی۔
ہمارے ساتھ آپ میر کی شفقت و رحمت کی گواہی خود اللہ تعالی نے دی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۱۲۸﴾
’’(لوگو!) بلاشبہ یقیناً تمھارے پاس تھی میں سے ایک رسول آگیا ہے۔ اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہوتا گراں (گزرتا) ہے۔ وہ تمھارے لیے (بھلائی کا) حریص ہے۔ مومنوں پر نہایت شفیق، بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (التوبة 128:8)
ہم آپ سے کیسے محبت نہ کریں! آپ نے اپنی ساری زندگی ہماری ہدایت و راہنمائی کے لیے وقف کر کام دی۔ ہمیں خیر اور بھلائی کی طرف بلانے اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے کے لیے اپنی قیمتی زندگی لگا دی۔
ہمیں زندگی میں ہر چیز سکھائی حتی کہ سب سے بڑا اور اعلی مسئلہ لا الہ الا اللہ اور سب سے چھوٹا مسئلہ تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانا بھی سکھایا۔ آپ ﷺنے ایک ایک کر کے علم کے سارے دروازے ہمارے لیے کھولے۔
ہم آپ ﷺ سے کیسے محبت نہ کریں! آپ نے پاکیزہ چیزیں ہمارے لیے حلال اور خبیث چیز میں حرام کیں۔
شریعت کو ہمارے لیے آسان کیا۔ رحمت کا دروازہ ہمارے لیے کھولا اور ہمیں تو بہ کے طریقے بتائے۔ رب تعالی کی خوشنودی کے اسباب کے متعلق آگاہی دی۔ ہرموزی چیز سے آگاہ کیا۔ گمراہی کے سارے راستے واضح کیے اور ہدایت کی تمام راہوں کی پہچان کرائی۔
ہم آپ ﷺسے کیسے محبت نہ کریں! آپ سے محبت کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالی کی محبت ملی۔ اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کے بارے میں فرمایا:
﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ ﴾
’’آپ کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ (ال عمران 31:3)
اللہ تعالی نے اپنے اولیاء سے محبت کی کیونکہ وہ اس کے نبی پر ایمان لائے، اس کی تصدیق کی، اس کی پیروی کی، اس کی اقتدا کی اور اس سے محبت کی۔
ہم آپ ﷺ سے کیسے محبت نہ کریں جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وإِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾
’’بے شک اللہ بہت تو بہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور خوب پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرة 222:2)
سب سے پہلے تو بہ کرنے والے اور پاک صاف رہنے والے رب العالمین کے رسول اور متقین کے امامﷺ ہیں۔ آپﷺ ہی نے پاک صاف رہنے والوں کو اللہ تعالی کے تقوی کی تعلیم دی اور توبہ کرنے والوں کو رحمن و رحیم کی خوشنودی کا درس دیا۔
ہم آپ ﷺسے کیسے محبت نہ کریں!خیر کی تمام خوبیاں آپ میں پائی جاتی ہیں اور نیکی کی ہر صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ رب العالمین نے آپ ﷺکا تزکیہ کیا اور فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾
’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔‘‘ (القلم4:68)
آپﷺ سب سے اعلیٰ، روشن اور بہترین فضائل کے مالک تھے۔ ہر دل آپ کی محبت کا دیوانہ ہے اور ہر روح آپ کی مودت کے ترانے گاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر عیب سے پاک رکھا۔ ہر گناہ کی آپ سے نفی کی۔ خطاؤں سے آپ کو پاک قرار دیا اور رذائل سے آپ کا تزکیہ فرمایا۔ آپ روحانی اور جسمانی ہر اعتبار سے پاک صاف اور طیب و طاہر ہیں۔
’’جو شخص رسول مجتبی اور نبی مصطفی ﷺکی محبت کا دعوی کرے، اسے چاہیے کہ اپنے دعوے کی دلیل پیش کرے اور آزمائش پر پورا اترے۔ اگر وہ اپنے دعوے کو دلیل سے ثابت نہ کر سکے تو وہ سیدھی راہ سے بھٹکا ہوا ہے۔ اس کی محبت محض کھیل تماشا ہے اور وہ
﴿ وَ جَآءُوْ عَلٰی قَمِیْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ﴾
’’اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا لائے۔‘‘ کا مظہر ہے۔
سید الاولین والآخرینﷺ کی محبت اور آپ کی شریعت کی تصدیق کی دلیل یہ ہے کہ تمھیں عین الیقین حاصل ہو۔ نبیﷺ کی بتائی ہوئی ہر بات میں تسلیم و رضا اور اطاعت و ایمان کا درجہ یہ ہو کہ کسی قسم کا شک و شبہ اور اضطراب نہ ہو۔ جسم کا ہر عضو زبان حال سے کہہ رہا ہو کہ آپﷺ نے سچ کہا اور حق بولا اور آپ اگلے پچھلے تمام لوگوں سے زیادہ نیک اور زیادہ عزت والے ہیں۔ اور اس کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی شریعت سے آگے بڑھیں نہ آپ کا فرمان آجانے کے بعد اپنی رائے دیں۔ آپ کی سنت کے مقابلے میں اقوال پیش کریں نہ اس کا کسی اور سے موازنہ کریں۔ آپ ﷺ کی سنت سامنے آجانے کے بعد زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں۔ آپ کا ہر حکم خوشی سے قبول کر میں کیونکہ آپ نبی معصوم اور رب العالمین کے رسول ہیں۔
نبی کریم اور رسول عظیمﷺ کے ساتھ تمھارا رویہ ایک تابع فرمان اور مطیع کا سا ہو جیسے ایک جاں نثار سپاری، فرمانبردار بیٹا اور شاگرد رشید ہوتا ہے۔ اصرار و استفسار کی جرات ہو نہ انکار کا تصور۔ تسلیم و رضا کا عالم یہ ہو کہ آپ ﷺ کی سنت و شریعت کے لیے دل شوق سے چل رہا ہو۔
جو شخص اللہ کی محبت کا دعوی کرے، اسے چاہیے کہ اپنے دعوے کی صداقت کی دلیل پیش کرے۔ اور وہ ہے اس کے نبی و رسول محمد مصطفی ﷺکی اتباع اور پیروی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وقُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ﴾
’’آپ کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ (آل عمران 31:3)
نبی ﷺ کی محبت و اتباع تمھاری خوشی کا راز اور تمھارے راستے کا نور ہو۔ ہدایت نبوی کے زیور سے خود کو آراستہ کر لو۔ تمھاری ہر چاہت آپ ﷺکی چاہت پر قربان ہو۔ آپ کی سنت تمھارا اوڑھنا بچھونا اور دستور حیات ہوں۔ آپﷺ کی عظیم شخصیت ہر وقت تمھاری آنکھوں کے سامنے ہو۔ آپ کی شفقت تمھاری آنکھوں کا نور اور آپ کا بلند مقام و مرتبہ تمھاری نگاہوں کا مرکز ہو۔
آپ ﷺکے اقوال و احکام پر شکوک و شبہات اور بحث مباحثہ کے بغیر عمل کرو۔ اللہ سمیع و بصیر کی محبت کے بعد آپ کی محبت کو سب سے مقدم جانو۔ آپ کے فکر و نظر کو سب سے زیادہ معتبر سمجھو۔ آپ کی محبت تمھارے دل کا سرور اور تمھاری آنکھوں کا نور ہو۔ سخت گرمی میں ٹھنڈے میٹھے پانی سے تمھیں وہ سکون نہ ملے جو آپ کی سنت پر عمل کر کے حاصل ہوتا ہو۔
آپ ﷺسے محبت کی ایک دلیل آپ کی سیرت کا مطالعہ، آپ کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے آگاہی اور آپ کی سنت کی تفصیلات سے واقفیت بھی ہے۔ جو آدمی کسی سے محبت کرتا ہو، وہ اپنے محبوب کے نقش قدم کو تلاش کرتا اور اس کی باتیں سننا پسند کرتا ہے۔ اور اگر تمھارا محبوب راہ سعادت کی طرف تمھاری راہنمائی کرنے والا اور راہ نجات کا امام بھی ہو تو پھر تڑپ کی کیا صورت ہونی چاہیے؟ یہ بات یقینی ہے کہ معرفت سے محبت بڑھتی ہے اور کسی چیز کا علم اس کے ساتھ تعلق کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے۔ جس شخص نے آپﷺ کے شاندار اوصاف پڑھے، وہ عقل سلیم اور صیح فطرت سے بقیہ عظیم امامﷺ کی محبت پالے گا۔
آپ ﷺسے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھا جائے۔ آپ کی عزت و توقیر اور احترام کیا جائے۔ نبی اکرم ﷺکے کلام اور سنت کو خشوع و خضوع کے ساتھ تسلیم و رضا اور اتباع و اقتدا کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے مانا جائے اور آپ کی راہنمائی کو اپنے لیے حرف آخر سمجھا جائے۔ آپ ﷺکی بات پر کوئی اعتراض، ناگواری یا کراہت کا تصور بھی ذہن میں نہ آئے۔ آپﷺ کی ذات عالی شان اور بزرگی کا مذاق اڑایا جائے نہ تنقیص و گستاخی کا کوئی بول زبان پر آئے کیونکہ اس سے بندہ دین اسلام سے نکل جاتا ہے اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ تم جب بھی امر و نہی پر مبنی آپ ﷺکا کوئی حکم سنو تو اپنے دل و وجود کو حاضر کر کے کہو: میں نے صاحب شفاعت مسلم کی بات سنی اور مان لی۔
آپ ﷺسے محبت کی ایک علامت آپ کے دین وملت کا دفاع اور آپ کی شریعت کے نفاذ کے لیے جد و جہد کرنا بھی ہے، لہٰذا دین محمدی کی خدمت کے لیے سپاہی بن کر تیار رہو۔ ملت اسلامیہ کی سرحدوں اور شریعت کے دروازوں پر پہرے دار بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے دل و جان سے اپنے اوقات و مال کو کریم نبی اور عظیم امامﷺ کی نصرت کے لیے وقف کر دو۔ تمھارا کام مجالس میں سنت کی نشر و اشاعت اور قریہ قریہ بستی بستی اپنے قول و فعل اور کردار سے آپﷺ کی سیرت کا پر چار ہو۔ تمھاری اتباع و اطاعت کا دعوئی صداقت پر مبنی ہوتا کہ تمھیں نبی ﷺ کی شفاعت، قرب، رفاقت اور آپ کے جھنڈے تلے حشر کی سعادت نصیب ہو۔ تمھارا مشن حسب استطاعت لوگوں کو زبان و بیان قلم و قرطاس، درس و تدریس، وعظ ونصیحت اور خطبات و دروس کے ذریعے سے شریعت مطہرہ کی تعلیم دینا ہو۔
آپﷺ سے محبت کی ایک اور علامت آپ پر بکثرت درود و سلام بھیجنا ہے۔ آپ کا ذکر آنے پر زبان سے صلاة وسلام کا نذرانہ پیش کرنا اور آپ کا نام لکھتے وقت نوک قلم سے ”صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ تحریر کرنا بھی آپ سے محبت کی نشانی ہے، لہٰذا اس سے اپنا دل آباد اور اعضاء معطر رکھو۔ روئے زمین پر رہنے والے کسی بھی انسان سے تھیں اسی قدر محبت ہو جتنی وہ امام المتقین محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کی پیروی کرتا ہے اور تمھاری روستی و دشمنی اور محبت و بغض کا معیار آپ ﷺ ہی کی ذات ہو۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کی بنا پر کسی سے محبت کرو۔اور اس کی بنیاد پر کسی کی نصرت کرو۔ تمھاری دوستیاں اور قربتیں آپﷺ ہی کی ذات کی خاطر ہوں۔ کتاب و سنت کی دلیل آجانے کے بعد کسی کے حسب ونسب، ناموں اور القاب کی پروا نہ کرو۔
آپ ﷺمحبت کی علامت یہ بھی ہے کہ تم ساری زندگی رسول اکرم ﷺ کو اپنا حاکم تسلیم کرو، یعنی نماز روزے کے علاوہ اٹھنے بیٹھنے، سونے اور اوڑھنے پہنے میں آپﷺ ہی کو امام و پیشوا سمجھو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ۲۱﴾
’’بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ (کی ذات) میں ہمیشہ سے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (الأحزاب 21:33)
اختلاف کے وقت نبی ﷺ کے حکم کو اپنے آباء و اجداد اور اسلاف کے اقوال پر مقدم رکھیں۔ آپ ﷺ کا حکم آجانے کے بعد ہر قسم کے وسوسوں اور دلی رجحانات کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ آپ کے قول و فعل اور حال کو معیار قرار دیں کیونکہ اس کی موجودگی میں کسی دوسرے کے قول و فعل کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
نبیﷺ سے محبت کی ایک نشانی آپ کے دیدار کی تمنا کرنا، آپ کی ملاقات کا شوق رکھنا، آپ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے کی خواہش رکھنا اور رب رحمن کے جوار میں عزت و خوشنودی والے گھر میں آپ سے مصافحہ کرنے کی تڑپ رکھنا بھی ہے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’میری امت کے مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہوگا کہ کاش اپنے اہل وعیال اور مال کی قربانی دے کر مجھے دیکھ لے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعيمها وأهلها، حديث (2832)
آپ ﷺسے محبت کی علامت آپ کی ذات کے بارے میں غلو نہ کرنا، یعنی حد سے نہ بڑھنا بھی ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((لا تُطْرُوْنِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُوْلُوْا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ))
’’مجھے ایسے نہ بڑھاؤ جیسے عیسائیوں نے عیسی ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو بس اللہ کا بندہ ہوں، لہذا تم کہو: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه .. اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔‘‘ (صحیح البخاري، أحاديث الأنبياء، حديث: 3445)
اس طرح آپ ﷺ کے حکموں کو ماننا اور آپ کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز آنا بھی آپ سے محبت کی علامت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ﴾
’’اور رسول تھیں جو کچھ دے، وہ لے لو، اور جس سے تمھیں روک دے، اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ (الحشر 7:59)
بدعات کو چھوڑنا بھی نبی ﷺ سے محبت کی نشانی ہے کیونکہ بدعات آپﷺ کی سنت کی مخالف اور آپﷺ کی شریعت کی متعارض ہیں، اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي))
’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ‘‘(صحیح البخاري، النكاح، حديث: 5063)
نبی اکرمﷺ اور آپ کے پیاروں کو ایک ساتھ جمع کرنے والی چیز سنت مطہرہ ہے۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے تو یہ آپ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے درمیان جدائی کا باعث ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
’’رسول الله ﷺقبرستان میں آئے اور فرمایا: ’’ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمھارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو (بھی) دیکھا ہوتا۔‘‘ صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے جواب دیا: ’’تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے۔‘‘ اس پر انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو، جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، کیسے پہچانیں گے؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ”بتاؤ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے (اور ) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا ؟‘‘ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول ؟! آپ ﷺنے فرمایا: ’’وہ وضو کی بنا پر روشن چہروں، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشرو ہوں گا۔ آگاہ رہوا کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے پرے دھکیل دیے جائیں گے جیسے کہیں اور کا بھٹکا ہوا اونٹ (جو گلے کا حصہ نہیں ہوتا) پرے ہٹا دیا جاتا ہے۔ میں ان کو آواز دوں گا دیکھو! ادھر آجاؤ۔ تو کہا جائے گا: انھوں نے آپ کے بعد (اپنے قول و عمل کو ) بدل لیا تھا۔ تب میں کہوں گا: دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 249)
آپﷺ سے محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس شخص، جگہ اور زمانے سے محبت کی جائے جس سے نبی اکرمﷺ نے محبت کی ہے۔ ہے۔ یہ سچی محبت کی دلیل ہے، لہٰذا ہم آپ ﷺکے اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے فرمایا:
((أُذَكِّرُ كُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيتِي)) ’’ میں تمھیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث: 2408)
ہم آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی محبت کرتے ہیں جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان سے متصل بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، الشهادات، حديث: 2652)
اور فرمایا:
((ولا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ))
’’تم میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر ڈالے تو وہ ان کے ایک یا آدھے م کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، حديث: 3673)
(ایک مد تقریبا نصف کلو کے برابر ہوتا ہے۔)
ہم انصار رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی محبت کرتے ہیں کیونکہ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے:
((حُبَّ الْأَنْصَارِ آيةُ الْإِيمَانِ، وَبُغْضُهُمْ آيَةُ النَّفَاقِ))
’’انصار سے محبت ایمان کی نشانی اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:74)
میں رسول اکرمﷺ سے محبت اور آپ کی اتباع کرنے والوں کو اجر و ثواب اور عظیم انعام و اکرام کی بشارت دیتا ہوں کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ انھیں پھلوں اور رزق سے نوازے گا۔ چند انعامات یہ ہیں:
٭ اللہ کی محبت نصیب ہوگی کیونکہ اللہ تعالی کو سب سے زیاد و محبوب رسول مصطفی ﷺ ہیں، لہٰذا جس نے اللہ کے حبیب سے محبت کی اللہ نے اس سے محبت کی اور اللہ کی محبت نصیب ہو جانا دنیا جہان اور تمام قیمتی خزانوں سے افضل ہے۔
٭ جب اللہ آپ سے محبت کرے گا تو وہ آپ کو عذاب نہیں دے گا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ ؕ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ ؕ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ؕ﴾
’’اور یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ (اے نبی!) کہہ دیجیے: پھر وہ تمھیں تمھارے گناہوں کی وجہ سے سزا کیوں دیتا ہے؟ (نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے انسان ہو۔‘‘ (المائدة 18:5)
حبیب اپنے محبوب کو عذاب نہیں دیتا، اور اللہ جس سے محبت کرے، اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اس کی دلیل رسول اکرمﷺ کا وہ فرمان ہے جو آپ نے سید نا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا:
((وَ مَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ اللهَ اطَّلَعَ عَلٰى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتَ لَكُمْ))
’’تمھیں معلوم نہیں، اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود ان سے فرما چکا ہے۔ تم جو چاہو کرو، میں تمھیں معاف کر چکا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4274)
محبوب کی ہر کادش قابل قدر ہوتی ہے، اس کا عمل مقبول ہوتا ہے اور اس کا گناہ قابل معافی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۳۱﴾
’’ آپ کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (آل عمران3: 31)
اور حدیث قدسی میں اللہ کا فرمان ہے:
’’جب میں اپنے بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘ (صحيح البخاري، الرقاق، حديث (6502)
جو شخص خاتم الانبیاء ﷺ کا محبوب ہے، وہ زمین و آسمان کے رب کا بھی محبوب ہے اور وہ دنیا و آخرت میں محفوظ ہے۔ اس کی دعا مقبول ہے۔ اس کا عمل قبول ہے اور انجام خیر اور بھلائی ہے۔
اگر تم نبی اکرم ﷺسے محبت کرتے ہو تو اس محبت کے بدلے میں تمہیں نبیﷺ کی محبت نصیب ہوگی جیسا کہ اللہ تعالى نے فرمایا:
﴿ هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ۶۰﴾
’’ احسان کی جزا تو احسان ہی ہے۔‘‘ ( الرحمن 55: 60)
سب سے زیادہ وفادار ہمارے رسول ﷺہیں، اس لیے جب آپ نبی اکرم ﷺ سے محبت کریں گے تو جواب میں آپ کو بھی نبی کی محبت نصیب ہوگی۔ رسول اکرم ﷺنے تو ان پتھروں سے بھی پیار کیا ہے جو آپ سے محبت رکھتے تھے جیسا کہ رسول اکرم ﷺنے اُحد پہاڑ کے متعلق فرمایا: ((هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهُ))
’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1365)
نبی اکرمﷺ کے ساتھ محبت رکھتے ہوئے آپ پر کثرت سے درود وسلام پڑھنے سے مشکلات دور ہوتی ہیں۔ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ شرح صدر نصیب ہوتا ہے اور غم اور پریشانیاں ختم ہوتی ہیں۔ سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا: میں اپنی تمام دعا میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں گا۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا: (إِذَا تُكْفٰى هَمَّكَ، وَ يُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ)) ’’تب تمھاری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی اور تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القيامة، حديث: 2457)
آپ ﷺ سے محبت کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی محبت کے بعد یہ حجت تمھاری ساری زندگی پر حاوی ہو جائے گی۔ تمھارے دل و دماغ پر اس طرح چھا جائے گی کہ تمھیں دنیا کی ہر محبت سے بے نیاز کر دے گی۔ ہر چیز سے کافی ہوگی اور ہر نقصان کا ازالہ کر دے گی۔ اس کے بعد تمھیں کسی کی کمی محسوس ہو گی نہ خلوت سے تمھیں وحشت ہو گی۔ اس شخص کو مبارک ہو جس کا دل اللہ تعالی اور اس کے نبیﷺ کی محبت سے لبریز ہے۔
نبی اکرمﷺ سے محبت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے تمھیں ایمان کی مٹھاس نصیب ہوگی جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ …. مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا))
’’تین چیزیں جس میں ہوں وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرے گا جسے اللہ اور اس کا رسول باقی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الإيمان، حديث:21)
یہ مٹھاس تمھارے لیے اطاعت کے امور بجالانا اور منکرات سے بچنا آسان کر دے گی۔ اللہ کی ملاقات کا شوق پیدا ہو گا اور اس کی عبودیت اور اطاعت سے خوش ہو کر اس کی قضا و قدر پر راضی رہنا آسان ہوگا۔
رسول اکرم ﷺکی محبت کا ایک صلہ یہ ہے کہ روز قیامت جنت الفردوس میں آپ کی رفاقت اور ساتھ نصیب ہوگا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺسے پو چھا اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اس کے لیے کوئی بہت زیادہ نماز، روزے اور صدقہ تو تیار نہیں کیا لیکن میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ضرور رکھتا ہوں۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا: ((أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)) ’’تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث (6171)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اکرمﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے کسی قوم سے محبت کی مگر (اعمال میں ) ان کے ساتھ نہ مل سکا؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ((الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ))
’’آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی۔ ‘‘ (صحيح البخاري، الأدب، حديث: 6168)
اگر تم جنت الفردوس میں نبی اکرمﷺ کے ہم نشین اور رفیق بنا چاہتے ہو تو صدق دل سے آپ ﷺسے محبت کرو اور آپ کی اتباع کرو۔ ہمارے رب نے ہمیں یہ عظیم خوشخبری اور عمدہ انعام دیا ہے کہ جس نے اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی، اسے آپ ﷺ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا ساتھ نصیب ہو گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ۶۹﴾
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، وہ سب ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، (یعنی) انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ، اور یہ لوگ اچھے رفیق ہوں گے۔‘‘ (النساء 69:4)
پاک ہے وہ ذات جس نے کریم نبیﷺ کی محبت کو دل و جان میں جاگزیں کیا اور اسے ایسا سچا جذ بہ بنایا جو آنسوؤں کے ساتھ چھلکتا ہے۔ جو شخص اللہ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے، وہ یقیناً احمد مجتبیﷺ کی رسالت کا بھی گواہ ہے۔ کوئی روح اس وقت تک پاکیزہ نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ ﷺپر درود و سلام سے معطر نہ ہو۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی محبت ہمارے دلوں میں ایسے جاری کر دی ہے جیسے خون ہماری رگوں میں گردش کرتا ہے تاکہ آپ کام ہمیں اس سے بھی زیادہ عزیز ہوں جتنا پیاسے شخص کو سخت گرمی میں میٹھا ٹھنڈا پانی عزیز ہوتا ہے۔
ہم اللہ تعالی سے اس کے بابرکت ناموں کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں نبی ﷺ سے محبت کے بدلے میں عزت کا تاج پہنائے۔ اپنے منتخب بندوں اور سلف صالحین کے ساتھ جنت کے بالا خانوں میں اکٹھا کرے۔ دل و جان، ماں باپ اور اولاد کی محبت سے بڑھ کر آپ کی محبت عطا فرمائے۔ آپ ﷺکی محبت ہمارے رنگ و ریشہ اور خون میں شامل کر دے۔ ہمیں آپ کے گروہ میں شامل فرمائے، آپ کا ساتھ نصیب کرے، آپ کی سنت کی پیروی کی توفیق دے اور آپ کی ملت پر ثابت قدم رکھے۔
اے اللہ اپنے حبیب، نبی، رسول اور خلیل محمد بن عبداللہ ﷺ پر ایسی رحمت و سلامتی نازل فرما جس سے ہمارے غم اور پریشانیاں دور ہو جائیں۔ ہمیں شرح صدر نصیب ہو۔ ہمارے کام آسان ہو جائیں۔ ہمارے گناہوں کی بخشش ہو جائے۔ ہمارے عیبوں کی اصلاح ہو جائے۔ ہمارے دلوں کو شفا، سانسوں کو مہک اور مونبوں کو پاکیزگی نصیب ہو جائے۔ یا اللہ! آپ ﷺ پر دائمی، پاکیزہ طیب و طاہر درود و سلام نازل فرما!