محمدﷺ بحیثیت صادق

انسان کے اخلاق کی سب سے عظیم خوبی صداقت اور سچائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے سچائی اور سچ بولنے والوں کی تعریف کی۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يٰاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ﴾

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘ (التوبة 119:9)

اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو صداقت کی خوبی دے کر عزت و شرف سے نوازا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۝۴۱﴾

’’اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے۔ بے شک وہ نہایت سچا تھا، نبی تھا۔‘‘ (مریم41:19)

مزید فرمایا:﴿ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۠۝۵۰﴾

’’اور ان کے لیے سچائی کا بول (ذکر خیر ) بہت بلند کیا۔‘‘ (مریم 50:19)

سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿  اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ۝۵۴﴾ ’’بے شک وہ وعدے کا سچا اور رسول نبی تھا۔‘‘ (مریم 54:19)

سیدنا یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿ یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ ﴾

’’(قید خانے کے سابق ساتھی نے آکر کہا:‘‘ اے یوسف ! اے بہت ہی سچے‘‘ (یوسف 46:12)

اور محمد رسول اللہﷺ کو یہ دعا سکھائی ، فرمایا:

﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ﴾

’’اور کہیے: اے میرے رب !  داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا۔‘‘ (بنی اسراءیل 80:17)

سچائی ایمان کا ایک عظیم ستون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک سچے دل سے اللہ تعالی کو رب ، محمدﷺ کو نبی اور اسلام کو دین نہ مان لے۔

ہمارے رسول ﷺصادق و مصدوق ہیں۔ آپﷺ قیامت تک سچ بولنے والوں کے امام ہیں۔ اگرسچ انسانی شکل میں ہوتا تو وہ ہمارے رسول ﷺکی صورت میں ہوتا۔ آپ کی سانسوں اور حروف و کلمات سے سچائی ٹپکتی تھی۔

نبی ﷺ اپنے رب کے ہاں سے سچ لے کر آئے۔ آپ ﷺتمام فکر و نظر، اقوال و افعال اور احکام و اخبار میں سچے تھے۔آپﷺ کا کلام سچا، آپ کی سنت سچی، آپ کی خوشی غمی، آنا جانا، ہنسنا رونا اور سونا جاگنا،ہپر ایک معاملہ سچائی پر مبنی تھا۔ آپ اپنے رب کے ساتھ، اپنی ذات کے ساتھ، اپنے اہل و عیال کے ساتھ، اپنے دشمنوں کے ساتھ اور تمام لوگوں کے ساتھ سچ بولنے والے تھے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

سُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ الْمَهَابَةَ بُرْدَهُ

فِيْ صَمْتِهِ وَوَقَارِهِ وَحَيَائِهِ

هٰذَا الَّذِي شَهِدَ الزَّمَانُ بِصِدْقِهِ

حَتّٰى شُهُودُ الصِّدْقِ مِنْ أَعْدَائِهِ

’’پاک ہے وہ ذات جس نے آپ ﷺ کی خاموشی، وقار اور حیا میں رعب و ہیبت کو آپ کی چادر بنا دیا۔ آپ کی صداقت کی گواہی زمانہ دیتا ہے۔ اپنے تو کیا دشمن بھی آپ کی صداقت کے گواہ ہیں۔‘‘

 آپ ﷺ کی سچائی کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ نے اللہ تعالی کی طرف سے علم غیب کے بارے میں خبر دی۔

اللہ تعالی نے آپﷺ کو اپنی رسالت کا امین بنایا تو امت کو حرف بحرف بغیر کمی بیشی کے پیغام رسالت پہنچایا اور اپنے رب کی امانت پوری طرح ادا کر دی۔   آپ ﷺ کا ہر قول وفعل اور حال صداقت پر مبنی ہے۔ آپﷺ جنگ و صلح خرید و فروخت، عهد و پیمان، خطبہ وخطوط، فتاوی و واقعات، زبان و تحریر اور روایت و درایت میں ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو جھوٹ سے محفوظ و مامون رکھا اور برے اخلاق سے بچایا۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی زبان سیدھی اور درست رکھی۔ آپ کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اور ہر حدیث درست اور صحیح ہے۔ آپ ایسے صادق و مصدوق ہیں کہ کوئی غلط بات یا جھوٹ آپ سے ثابت نہیں۔ آپ نے کبھی ظاہر و باطن میں فرق نہیں رکھا بلکہ سچائی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی آنکھوں کے اشاروں میں بھی سچائی تھی۔ جب آپﷺ کے پاس ایک واجب القتل شخص کو لایا گیا تو آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں اسے قتل کرنے کا آنکھوں سے اشارہ ہی کر دیتے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:

((لَا يَنبَغِي لِلنَّبِيِّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ))

’’کسی نبی کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارہ کرے۔ ‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث 2693)

آپ ﷺکی سچائی کی گواہی آپ کی زوجہ سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی دی۔ وہ آپ کو سب لوگوں سے زیادہ جانتی تھیں اور انھیں دن رات آپ کی رفاقت کا شرف حاصل تھا۔ جب پہلی وحی کے بعد آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے تو انھوں نے کہا: ہرگز نہیں، آپ خوش ہو جائیں۔ اللہ کی قسم! اللہ آپ کو بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچ بولتے ہیں۔ (صحيح البخاري، تفسير القرآن، حديث: 4953)

سیده خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس قدر یقین کے ساتھ تسلی دینے کی بنیاد ہی کا اعلی اخلاق تھا جس میں سچائی سر فہرست میل تھی۔ وہ سمجھتی تھیں کہ سچا انسان کبھی ضائع نہیں ہوتا۔

آپﷺ بعثت سے پہلے ہی قریش کے ہاں صادق و امین کے لقب سے معروف تھے۔ بعثت کے ابتدائی دنوں میں آپ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے اور قریش کے مختلف سرداروں کو دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

((أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هٰذَا الْجَبَلِ أَكُنتُمْ مُصَدِّقِيَّ، قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا))

’’تمھارا کیا خیال ہے اگر میں تمھیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا خیال کرو گے؟ سب نے بیک زبان جواب دیا: ہمیں بھی آپ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔‘‘ (صحیح البخاري، تفسير القرآن، حدیث : 4971)

نبی کریم ﷺکی سچائی کی یہ کتنی شاندار اور عظیم گواہی ہے کہ سب بیک زبان آپ کی صداقت کا اقرار کرتے ہیں جبکہ آپ چالیس سال ان کے درمیان رہے۔ وہ نبوت سے پہلے آپ کی سیرت سے آگاہ تھے۔ انھوں نے آپ کے قول فعل، حال، سفر و حضر، خرید و فروخت اور ناراضی و رضا مندی میں آپ کی صداقت کی گواہی دی ہے۔

آپ ﷺکا کوئی مشرک، منافق یا اہل کتاب دشمن آپ کی پوری زندگی کا ایک جھوٹ، ایک لغزش، دھوکا اور کوتاہی ثابت نہیں کر سکا۔ وہ ہزار کوششوں کے باوجود آپ کا کوئی عیب تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ جب رومی بادشاہ ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے تم نے کبھی اسے جھوٹ بولتے پایا ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر ہر قل نے کہا: ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے۔ (صحيح البخاري، الجهاد والسير، حديث : 2940)

سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت رسول اکرمﷺ کے دشمن تھے۔ آپ کے ساتھ حالت جنگ میں بھی تھے مگر اس کے باوجود انھوں نے رسول اکرم ﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ دشمن ہونے کے باوجود آپ کی صداقت کی گواہی دی۔ اور ہر قل جو عیسائی تھا، اس نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ سچائی  آپ ﷺ کی نبوت کی عظیم علامت ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص لوگوں کے بارے میں تو جھوٹ نہ بولتا ہو گر اللہ تعالی کے بارے میں وہ جھوٹ بولے۔

سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو میں بھی لوگوں کے ساتھ زیادت کے لیے حاضر ہوا۔ جب میں نے نبی ﷺ کے چہرہ اقدس پر توجہ سے نظر ڈالی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹ بولنے والے کا چہرہ نہیں۔ (سنن ابن ماجه، الأطعمة، حديث (3251)

 ایک روایت میں ہے کہ جس دن نبی اکرم ﷺکے لخت جگر سید نا ابرا ہیم رضی اللہ تعالی عنہ فوت ہوئے ، اس دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ لوگوں نے کہا: ابراہیم ﷺ کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے۔   آپ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا :

((إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ))

’’ بلا شبہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں اور انھیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔‘‘ (صحیح مسلم، الكسوف، حدیث: 901)

نبی اکرمﷺ کی صداقت، صاف گوئی اور تواضع ملاحظہ کریں۔ اگر آپ کے علاوہ کوئی دنیادار ہوتا تو اسے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا موقع سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتا۔ شہرت اور شان و شوکت کے حصول کے لیے کہتا کہ جیسے تم نے دیکھا اور سنا ہے ایسے ہی ہے۔ لیکن یہ نبوت تھی جو اپنی خوبصورت اور اعلیٰ شکل میں موجود تھی۔

لوگوں کی گواہی نہ ہو تو بھی آپﷺ کی صداقت کے لیے رب العالمین کی گواہی کافی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَ ۙ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ﴾

’’بلاشبہ  یقینًا اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم حالت امن میں اپنے سر منڈاتے اور بال کرواتے ہوئے مسجد الحرام میں ضرور بالضرور داخل ہوگئے۔‘‘ (الفتح 27:48)

آپ ﷺکے تو خواب بھی سچائی پر مبنی تھے، پھر بیداری میں آپ کی روایت کی صداقت کا کیا اعلیٰ درجہ ہوگا ؟!

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۳۳﴾

’’ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ متقی ہیں۔‘‘ (الزمر 33:39)

سچائی لانے والے ہادی کا ئناتﷺ ہیں۔ سچائی اللہ تعالی کی کتاب ہے جو باطل سے اس طرح مبرا ہے کہ آگے پیچھے کہیں سے باطل اس کے قریب بھی نہیں آسکتا۔ اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی، وہ قیامت تک آنے والے آپ کے پیروکار ہیں۔

نبیﷺ نے تو زندگی بھر مزاح میں بھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ مزاح کرتے تھے مگر اس میں بھی صرف سچی بات کرتے تھے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا: ((إِنِّي لَأَمْزَحُ وَلَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا))

’’میں مزاح ضرور کرتا ہوں اور اس میں بھی صرف سچی بات کرتا ہوں۔‘‘ (المعجم الكبير للطبراني 13262)

دل لگی اور مزاح میں آپ ﷺکے سچ بولنے کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی سواری عنایت فرمائیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ہم تجھے اوٹنی کا بچہ دے دیتے ہیں۔ ‘‘ وہ بولا: میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟  اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اونٹ کو بھی اونٹنی ہی جنم نہیں دیتی ؟! (سنن أبي داؤد، الأدب، حديث: 4998)

 آپ ﷺ نے مزاح میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا اور فرمایا :

(( وَيْلٌ لِّلَّذِيْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَّهُ))

’’ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں۔  ہلاکت ہے اس کے لیے، ہلاکت ہے اس کے لیے !‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث: 4990)

اللہ تعالی نے آپ کو غصے اور خوشی و رضا مندی میں بھی جھوٹ سے محفوظ رکھا۔ غصے میں عام طور پر انسان تو ازن کھو بیٹھتا ہے اور عقل سو بہانے تراش لیتی ہے مگر آپ ﷺ نے غصے میں بھی سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔

خوشی اور رضا مندی کے موقع پر لوگ گفتگو میں بے احتیاطی برتتے ہیں اور تساہل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ نے اس موقع پر بھی ہمیشہ سچ بولا اور صداقت کا دامن تھامے رکھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ سے جو چیز سنتا تھا، اسے یاد کرنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا لیکن قریشیوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا: تو رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتا ہے جبکہ آپ ﷺتو ایک بشر ہیں اور غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا اور رسول اللهﷺ کو یہ بات بتا دی۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو لکھ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری زبان سے صرف حق ہی نکلتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، العلم، حديث: 3646)

رسول اکرمﷺ امن و جنگ میں بھی ہمیشہ سچ بولتے۔ امن و سلامتی اور خوشی کے موقع پر اکثر لوگ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ منقولات و روایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں مگر آپ ﷺ ان حالات میں بھی ہمیشہ سچ بولتے اور کمی بیشی اور مبالغہ آرائی کے بغیر سچائی کا دامن تھامے رکھتے۔

مخالف فریق کو ہرانے اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے لوگ جھوٹ اور بہتان کا سہارا لیتے ہیں مگر اس امام معصومﷺ نے اس موقع پر بھی حق اور سچ بات کی۔ آپ ﷺکا فرمان ہے:

((الْحَرْبُ خُذْعَةٌ)) ’’جنگ چال اور دھوکا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجهاد و والسير، حديث : 3030)

 مگر اس سب کے باوجود آپ ﷺ نے بھی کسی جنگ میں جھوٹ نہیں بولا۔ جس طرح آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ سچ بولا ، اس طرح دشمنوں سے بھی رہی بولا کیونکہ آپ کو یہ نشان امتیاز دے کر بھیجا گیا:

﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾

’’اور آپ کے رب کی بات صدق اور عدل میں مکمل ہے۔‘‘ (الأنعام 115:6)

آپ ﷜ﷺخبریں دینے میں سچے اور احکام میں عادل ہیں۔ ابن ہشام اور ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہما نے السيرة النبوية میں ذکر کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺاپنے صحابہ شاندار کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ کے سامنے مشرکوں کا گشتی دستہ آگیا۔ انھوں نے پوچھا: تم کن سے ہو؟؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((نحْنُ مِنْ مَّاءٍ)) ’’ہم پانی سے ہیں۔‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کہا: یمن کے کئی قبائل ہیں، شاید ان میں سے ہوں اور آپ کا راستہ چھوڑ کر چل دیئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ﴾ ’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے بنائی۔‘‘ (الأنبياء 30:21)

اور ایک مقام پر فرمایا: ﴿فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ۝۵ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍۙ۝۶﴾

’’چنانچہ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (الطارق 86: 5،6)

آپ ﷺ نے ان سےسچی بات کی۔ اہل علم کی زبان میں اسے تعریض (توریہ ) کہتے ہیں اور یہ جھوٹ سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ ﷺ نے سچائی کا دامن بھی نہیں چھوڑا اور دشمن سے بھی بچ گئے۔

آپ ﷺ نے ایک ایسی سچ بولنے والی نسل تیار کی جو صرف حق اور سچی بات کرتی تھی۔ سچائی کے حوالے سے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم کے حیرت انگیز واقعات ہیں۔ انھوں نے تلوار کی دھار کے نیچے بھی سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔ سچائی پر جان دینا گوارا کر لیا مگر جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔ سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں انھیں سولی پر چڑھایا جا رہا ہے اور مشرکین ان سے یہ چاہتے کہ ناحق بات کہیں۔ وہ انکار کر دیتے ہیں اور نبی اکرمﷺ کی تعلیم و تربیت اور راہ نمائی کے مطابق سچائی پر جان قربان کر دیتے ہیں اور شہید بن کر اپنے رب کے حضور پیش ہو جاتے ہیں۔ (صحيح البخاري، المغازي، حديث: 4086)

سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھیں ! شاہ حبشہ کے ہاں پناہ گزیں ہیں۔ آپ کے ساتھ چند دیگر صحا بہ رضی اللہ تعالی عنہم بھی ہیں۔ قریش مکہ کا نمائندہ نجاشی کو غصہ دلانے اور مسلمانوں کو حبشہ سے نکال کر مشرکین مکہ کے حوالے کرنے کے لیے نجاشی سے کہتا ہے: اے بادشاہ! یہ لوگ عیسی علیہ السلام کے بارے میں بہت بڑی بات کہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ وہ بندے ہیں۔

اس کے خیال میں یہ نجاشی کے عقیدے کے مخالف بات تھی۔ نجاشی نے مسلمانوں کو بلایا اور اس کے بارے میں وضاحت طلب کی۔ حالات کی سنگینی اور بے پناہ مشکلات کے باوجود انھوں نے اس سچائی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا جو اللہ کے نبی  ﷺ نے انھیں سکھائی تھی۔ انھوں نے حق بات کہی اگر چہ وہ اس بادشاہ کے عقائد کے خلاف ہی تھی۔ قرآن میں جیسے تھا، انھوں نے کمی بیشی کے بغیر دربار میں بلا خوف و خطر بیان کر دیا۔ نہ ڈرے نہ اپنے اصولوں اور سچائی سے انحراف کیا۔

آپﷺ نے مومنوں کو ہر قول و فعل میں سچائی اختیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

((عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصَّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصَّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِندَ اللهِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَابًا))

’’تم سچ پر قائم رہو کیونکہ سچ نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا اور کوشش سے بچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور (جہنم کی) آگ کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان مسلسل جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 2607)

آپﷺ نے ایک موقع پر اپنی امت کو سچائی کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا:

((اضْمَنُوْا لِيْ سِتًّا مِنْ أَنفُسِكُمْ أَضْمَنُ لَكُمُ الْجَنَّةَ، اُصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَ أَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُّمْ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغَضُوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ))

’’تم لوگ مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں : (1) جب بات کرو تو سچ بولو (2) جب وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)  جب تمھارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو ۔ (4) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔ (5)  اپنی آنکھیں نیچی رکھو۔ (6)  اپنے ہاتھ روکے رکھو۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 22757)

آپ اللہ نے فرمایا: ((إِنَّ الصِّدْقَ طُمَا نِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ))

’’بلاشبہ سچائی اطمینان اور جھوٹ شک ہے۔‘‘ (مسند احمد، حدیث : 1723)

آپ ﷺنے نہایت معمولی خاندانی معاملات میں بھی کچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ سیدنا عبد اللہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا کہ ادھر آؤ، میں تمھیں چیز دوں گی۔ رسول اللہ ﷺاس وقت ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے میری والدہ سے پوچھا: ’’تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟‘‘ انھوں نے بتایا کہ میں اسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے کہا: ’’اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حديث (4991)

آپ ﷺ نے خبر دی کہ خرید و فروخت میں سچ بولنے سے برکت پیدا ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے سے برکت مٹ جاتی ہے، چنانچہ  آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بیچنے اور خریدنے والے (دونوں) کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوئے ہوں۔ اگر وہ آج کہیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپا ئیں تو ان کی خرید و فروخت سے برکت جاتی رہے گی۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث: 2210)

آپ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))

’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانا آگ بنالے‘‘ (صحيح البخاري، الجنائز، حدیث:1291)

 آپ ﷺ پر جھوٹ باندھنا عام آدمی پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں۔ آپ معصوم نبی ہیں اور آپ پر جھوٹ باندھنا شریعت پر جھوٹ باندھنا اور وحی پر تنقید ہے۔

آپﷺ ظاہری دلائل کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے۔ ان کے باطن اور نیتوں کے معاملات اللہ تعالی کے سپرد کر دیتے کیونکہ نیتوں کے معاملات اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ حاکم صرف ظاہری طور پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ غیب اور باطن کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے، پھر آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضُكُمْ أَنْ يَّكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ بِذٰلِكَ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِّنَ النَّارِ فَلْيَأْخُذَهَا أَوْلِيَتْرُكْهَا))

’’میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا موقف واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، یوں میں یقین کر لوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی دوسرے مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔‘‘

(صحيح البخاري، الأحكام، حديث (7181)

آپ ﷺ نے ہماری راہنمائی کی کہ اعمال کا دارو مدار یکی نیت پر ہے اور اس کے مطابق اللہ تعالی بندے کا محاسبہ کرے گا اور نجات و ہلاکت کا انحصار اسی پر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلْغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ))

’’جس نے اللہ تعالی سے صدق دل کے ساتھ شہادت کا سوال کیا، اللہ تعالی اسے شہداء کے مرتبے پر فائز کرے گا، خواہ وہ اپنے بسترہی پر فوت ہو۔‘‘ (صحیح مسلم، الإمارة، حديث: 1909)

میں آپ ﷺکی سچائی پر تفصیلی گفتگو کے بعد آخر میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں:

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کائنات میں محمد بن عبداللہﷺ سے زیادہ کوئی سچا ہے جنھیں اللہ تعالی نے جہان والوں تک اپنی وحی پہنچانے کے لیے چن لیا جبکہ وحی کی پہلی شرط ہی سچائی ہے ؟!

اگر ایسی کوئی ہستی نہیں تو پھر یہ پختہ اعتقاد رکھیں کہ  آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ سچے اور نیک ہیں۔

درود و سلام ہوں قیامت تک آنے والے سچوں کے امام اور مخلص لوگوں کے قائد و پیشوا محمد رسول اللہﷺ پر۔

…………..