محمدﷺ بحیثیت وفادار

اللہ تعالیٰ نے اپنے معزز رسولوں کی وفاداری کی خصوصی تعریف فرمائی، چنانچہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ؗ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ۝۵۴﴾

’’اور کتاب میں اسمعیل کا ذکر کیجیے، بے شک وہ وعدے کا سچا اور رسول نبی تھا۔‘‘ (مریم 54:19)

سیدنا ابراہیم  علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿وَابْرَاهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰی﴾

’’اور (کیا ان باتوں کی خبر نہیں دی گئی جو ) ابراہیم کے (صحیفوں میں ہیں؟) جس نے اپنا عہد پورا کیا۔‘‘ ( النجم37:53)

وفاداری چونکہ انبیاء کی صفت اور اولیاء اللہ کی پہچان ہے، اس لیے خاتم الرسل محمد بن عبد اللہﷺ وفاداری کے ورثے کی بقاء لوگوں کے باہمی عہد و پیمان کی پاسداری اور احترام کے لیے تشریف لائے۔ مقدس وحی کے ذریعے وفا کی حقیقت اور مبادیات دلوں میں رائج اور پختہ کہیں اور اہل ایمان کو باری تعالی کا یہ حکم سنایا:

﴿يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ﴾ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوا معاہدے پورے کرو۔‘‘ (المائدة 1:5)

اور اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا﴾

’’اور تم عہد پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (بنی اسرآئیل 34:17)

آپ ﷺ نے اہل وفا کو جنت کی خوشخبری دی، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷﴾

’’اور (نیکی ان کی بھی ہے جو ) جب عہد کر لیں تو اپنا عہد پورا کریں اور تنگدستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کریں۔ وہی لوگ سچے اور وہی پر ہیز گار ہیں۔‘‘ (البقرة 177:2)

آپ ﷺ نے وعدہ وفا کرنے والوں کو خوشخبری دی کہ وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ﴾

’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (المؤمنون (8:23)

 آپﷺ غداری سے منع کرتے اور فرماتے: ((لِكُلِّ غَادِرٍ لَوَاءٌ يَّوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ))

’’ہر غداری کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الحيل، حديث: 6966)

 آپ ﷺ نے خیانت سے اللہ کی پناہ مانگی، فرمایا: ((وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ))

’’اور میں خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلاشبہ یہ بہت بری خصلت ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة،حديث:1547)

آپﷺ نے وفا کے منافی اور اس مضبوط عمارت کو گرانے والی ہر صفت اور اخلاق سے اظہار لاتعلقی کیا ہے

چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:

((أَرْبَعٌ مَّنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا، أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنْ أَرْبَعٍ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتّٰى يَدْعَهَا إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ))

’’چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس کے اندر ہوں وہ خالص منافق ہے یا چار خصلتوں میں سے اگر ایک خصلت بھی ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اس سے باز آجائے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔‘‘ (صحيح البخاري، المظالم، حديث (2459)

دینے والوں میں سب سے زیادہ فیاض اور فضیلت والوں میں سب سے کئی رب العالمین ہے۔ اس پاک رب کا حق یہ ہے کہ اس کا شکر بجالایا جائے۔ اس کی ناقدری نہ کی جائے اور ہمیشہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں۔ ہمارے رسول ﷺ ولایت و عبودیت کے ہر مقام پر اپنے رب کے سب سے زیادہ وفادار تھے۔ آپﷺ کی پوری زندگی رب ارض و سماء کی وفاداری سے معمور اور اس کی تعریف و ثنا سے پر ہے۔آپ ﷺ اپنے دل سے بھی اللہ تعالی کے وفادار تھے۔ اپنے رب کی عبادت اخلاص سے کی اور اپنے دل کو اپنے مولا کے ذکر کے ساتھ پاک رکھا۔ آپ زبان سے بھی وفادار تھے۔ ہمیشہ بلند و بالا پروردگار کی تقدیس بیان کی اور لطیف و خبیر رب کی بکثرت تسبیح کرتے رہے۔ آپ ﷺ اللہ تعالی کے حکموں کی پیروی کر کے بھی وفاداری کرنے والے تھے۔ جب رب تعالی نے آپ کو حکم دیا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۝۱

قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝﴾

’’اے کپڑے میں لپٹنے والے! رات میں قیام کیجئے مگر تھوڑا سا۔‘‘ (المؤمل 73: 1،2)

تونبیﷺ نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ سے عرض کی گئی: اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خط میں معاف کر دی ہیں، پھر اس قدر مشقت کیوں ؟ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟‘‘ (صحيح البخاري، التفسير، حديث: 4136)

آپ ﷺنے اس وقت بھی اپنے رب کی پوری وفاداری کی جب آپ کو اللہ تعالی نے حکم دیا:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۝۶۷﴾

’’اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دیجیے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ بلاشبہ اللہ کا فرقوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (المائدة 67:5)

آپ ﷺ نے نہایت اچھے طریقے سے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کی۔ رسالت پوری طرح پہنچائی۔ امانت ادا کی۔ امت کی خیر خواہی کی۔ صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی اور ان کے لیے اللہ تعالی کا صحیح دین واضح کیا۔

 آپ ﷺ کے تمام اعضاء بھی اللہ تعالیٰ کے وفادار تھے۔ آپ نے انھیں اللہ کے لیے سپرد کر دیا کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو ایسا عطیہ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا اور ایسا انعام عطا فرمایا جو اگلے پچھلے انسانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء، سید الاولیاء اور زمین و آسمان کی ہر مخلوق سے افضل بنایا۔

آپﷺ اپنی ماں کے ساتھ بھی وفاداری کی۔ ان کی نیکی نظر انداز کی نہ ان کا احسان فراموش کیا۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی۔ آپ روئے اور اپنے اردگرد والوں کو بھی رلایا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث (976)

آپﷺ اپنی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ سے بھی وفاداری اور حسن سلوک کیا۔ ابو طفیل رضی اللہ تعالی عنہ  کا بیان ہے کہ اچانک ایک عورت آئی اور نبی ﷺ  کے قریب آگئی تو آپ نے اس کے لیے اپنی چادر بچھا دی اور وہ اس پر بیٹے گئی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون تھی ؟ صحابہ نے بتایا کہ یہ آپ کی ماں تھی جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔ (سنن أبی داود، الأدب، حديث: 5144)

آپ ﷺ نے سیدہ حلیمہ سعدیہ  رضی اللہ تعالی عنہا کی بیٹی اور اپنی رضاعی بہن شیماء کو بھی عزت دی اور اسے خوب عطیات و تحائف دیے۔ غزوہ حنین اور فتح طائف کے بعد ان کی قوم ہوازن کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا۔ ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ان کو نہایت عزت سے اپنے پاس ٹھہرایا۔ (الإصابة لابن حجر)

آپﷺ کی وفا کا ایک نمونہ سید ناعلی رضی اللہ تعالی عنہ  کے ساتھ آپ کے حسن سلوک میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو بچپن میں مسلمان ہوئے۔ جوان ہو کر دعوت کو پھیلا یا۔ نبی اکرم ﷺ کے لیے اپنی جان تک حاضر کر دی۔ شجاعت و بہادری کی داستان رقم کی اور ہر قابل ذکر مقام پر آپ کے شانہ بشانہ رہے۔ رسول اکرم ﷺنے بھی ان کی قدر کی اور خیبر کے موقع پر فرمایا: ((لأغطيَنَ الرَّايَةَ، غَدًا رَّجُلًا يُّحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ))

’’کل میں جھنڈا ضرور ایسے شخص کو دوں گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري فضائل أصحاب النبي ﷺ، حديث: 3702)

اور ایک موقع پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے  فرمایا: ((أَمَا تَرْضٰى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟))

’’ کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے ہاں تمھارا وہی مقام و مرتبہ ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام کے ہاں تھا؟‘‘ (صحيح البخاري، فضائل أصحاب النبي ، حديث: 3706)

آپﷺ نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی وفاداری کی جو آغاز دعوت میں   آپ ﷺ سفر بنیں۔ ہر مشکل گھڑی غم اور پریشانی کے دنوں میں نہ صرف آپ کا ساتھ دیا بلکہ آپ کی ہمت و حوصلہ کو بڑھایا۔ اپنے مال، مشوروں اور صبر و استقامت سے آپ کو قوت بخشی۔ جب وہ فوت ہوئیں تو آپ شدید غم زدہ ہوئے یہاں تک کہ اس سال کو عام الحزن کا نام دیا گیا۔

آپ نے نہ تو ان کا تذکرہ کرنا چھوڑا، نہ ان کے لیے دعا کرنا بھولے اور نہ ان کی محبت و ہمدردی فراموش کی۔ ان کی وفات سے پہلے انھیں جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ انھیں سلام کہہ رہا ہے اور جنت میں موتیوں سے بنے ایک گھر کی خوشخبری دیتا ہے جس میں نہ کوئی شور ہے اور نہ تھکاوٹ کا گزر ہے۔ (صحیح مسلم ، فضائل الصحابة حديث: 2432)

آپ ﷺسیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اس قدر وفادار تھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا نہ ان کی موجودگی میں نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں تھیں مگر انھیں باقی بیویوں کی نسبت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا  پر زیادہ رشک آتا  تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بہت ذکر کرتے ، ان کی تعریف کرتے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک کرتے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ مجھے کبھی کسی خاتون پر ایسا رشک نہیں آتا تھا جیسا سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا پر آتا تھا، حالانکہ آپﷺ کے میرے ساتھ نکاح کرنے سے تین سال پہلے وہ فوت ہو چکی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اکثر  آپ ﷺ سے ان کا ذکر سنتی تھی۔ آپﷺ کے رب عزوجل نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ ان کو جنت میں (موتیوں کی) شاخوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دیں۔ اور بے شک آپ بکری ذبح کرتے، پھر اس (کےپارچوں) کو ان کی سہیلیوں کی طرف بھیج دیتے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث 2435)

 ایک دن سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن سیدہ بالہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اجازت مانگی تو نبی اکرم ﷺنے ان کی آواز سن کر فرمایا:

’’اللہ ! ہالہ بنت خویلد ‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث:2437)

آپ ﷺ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بہت زیادہ شفقت اور وفا کرنے والے تھے۔ آپ آخری دم تک ان سے

وفادار رہے۔

 آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے بھی حسن سلوک کے ذریعے سے وفاداری کی۔ آپ ﷺ ان سے صلہ رحمی کرتے۔ ان کے لیے دعائیں کرتے۔ ان کی خوشی سے خوش ہوتے۔ ان کی پریشانی سے پریشان ہوتے۔ ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کرتے۔ ان کے جنازوں میں شامل ہوتے۔ ان میں سے جو شادی کرتا، اسے مبارک باد دیتے۔ فقیر کو نوازتے۔ مسکین کی مدد کرتے اور ضرورت مند کی سفارش کرتے۔ ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح آپ کی صلہ رحمی اور وفا کا فائدہ ضرور پہنچا۔

آپ ﷺکی وفا کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنے ہر صحابی کے کارنا مے اور قربانی یاد رکھتے کہ کس نے کس مقام پر خرچ کیا، کس نے کیسی اذیت کا سامنا کیا، اور پھر ہر ایک کی اس کے مطابق قدر کرتے۔ آپ ﷤ﷺکے پہلے صحابی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہوا کو دیکھ لیں جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ہجرت میں اپنی جان اور مال اسلام کی نصرت کے لیے نبی ﷺ  کو پیش کیا۔ آپﷺ بھی ہمیشہ سید نا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو آگے آگے رکھتے۔ ان کا تذکرہ کرتے۔ ان سے خوش ہوتے اور ان کی اسلام میں سبقت کا پورا پورا لحاظ رکھتے۔ ان کی وفاداری عظمت اور شرافت کے پیش نظر فرمایا: إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا لَّا تْخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خلِيلًا، وَلٰكِنْ اُخُوَّةُ الإِسْلَامِ، لَاتُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةَ أَبِي بَكْرٍ))

’’بلاشبہ مال کے تعاون اور میرا ساتھ دینے کے معاملے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ اور اگر میں کسی کو خلیل (ہم راز یا دلی دوست بناتا تو ابوبکر کو لیل بناتا لیکن ہم دونوں کے درمیان ) اسلام کی اخوت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والی کسی کھڑکی کو باقی نہ رہنے دینا، سوائے ابوبکر کے گھر کی کھڑکی کے (اسے بند نہ کیا جائے۔)‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث (2382)

آپ ﷺ مرض الموت میں بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ وفاداری کرنا نہیں بھولے۔ آپﷺ نے فرمایا:  ((مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ))

’’ابو بکر سے کہیں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔‘‘ (صحيح البخاري، الأذان، حديث (682)

آپ ﷺنے انصار کے ساتھ بھی وفا کی جنھوں نے مدینہ میں آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی مدد کی اور جان و و مال آپ پر قربان کیا۔ آپ نے بھی ان کے لیے محبت اور مدح و تعریف کے دریا بہائے بلکہ انصار کی محبت کو ایمان کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ((حُبُّ الْأَنْصَارِ آيَةُ الْإِيمَانِ، وَبُغْضُهُمْ آيَةُ النَّفَاقِ))

’’انصار سے محبت ایمان کی نشانی اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، الإيمان، حدیث:74)

آپﷺ نے ان کے لیے دعا کی اور فرمایا:

((اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ))

’’اے اللہ انصار کی مغفرت فرما۔ انصار کے بیٹوں کی مغفرت فرما۔ انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کی مغفرت فرما۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حديث (2506)

آپﷺ نے اُن کی تعریف میں یہاں تک فرمایا:

((الْأَنْصَارُ شِعَارُ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنتُ امْرَأً مِّنَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهُمْ))

’’انصار قریب تر ہیں اور لوگ ان کے بعد ہیں۔ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور کھاٹی میں چلوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الزكاة،حدیث:1061)

آپﷺ  اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے ان معنوں میں بھی وفادار تھے کہ جن کمزور مسلمانوں نے اسلام کے آغاز میں دشمنوں سے مار کھائی، اللہ کی راہ میں اذیتیں برداشت کیں اور مصائب و آلام کے پہاڑ ان پر ڈھائے گئے، آپ ﷺ نے ان کی قربانیوں کو یاد رکھا۔ سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو مؤذن، رفیق اور ساتھی بنایا۔ انھیں خوشخبری دی کہ ان کے جوتوں کی آہٹ میں نے جنت میں سنی ہے۔ اسی طرح سیدنا عمار بن یاسر، صہیب بن سنان اور خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہم وغیرہ کمزور، صابر اور رب العالمین کی راہ میں صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہنے والے دیگر مسلمان ہیں۔

سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ لیں۔ انھوں نے اللہ کی راہ میں اذیتیں برداشت کیں۔ وہ ہجرت کے بعد مدینہ میں فوت ہو گئے۔ جب ان کے بعد آپﷺ بیٹی سیدہ زینب فوت ہو ئیں تو آپﷺ نے انھیں قبر کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم جا کر ہمارے بہترین پیش رو عثمان بن مظعون سے جاملو۔‘‘ (مسند احمد، حدیث: 2127)

 آپ ﷺ نے اپنے تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ وفاداری کی۔ ان کے بارے میں اچھائی کی وصیت کی اور فرمایا:

((لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنْ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أَحَدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ))

’’میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے سر یا نصف مد کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (صحيح البخاري، فضائل الصحابة، حديث: 3673)

آپ ﷺ نے اپنے تمام صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم کو وفا کے دامن میں لیا۔ سب نے آپ کے ساتھ خوش و خرم، انس و محبت سے اور راضی خوشی زندگی گزاری۔ انھیں آپ کے ساتھ رہ کر ہر طرح کا امن و ایمان اور احسان وسلامتی کا احساس تھا۔ بلاشبہ رسول اکرم ﷺکی وفاکئی نسلوں سے ضرب المثل چلی آرہی ہے۔ یہ ایسا مضبوط محل اور منفرد اخلاق ہے جس۔ کی گواہی دوستوں سے پہلے دشمنوں نے بھی دی ہے۔ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبول اسلام سے پہلے میں بلاد روم (شام) میں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا خط ہر قل کو پہنچا تو اس نے نبی ﷺ کے متعلق معلومات لینے کے لیے ہمیں بلایا۔ اس نے جو سوال کیے، ان میں یہ بھی تھا: کیا اس نے کبھی غداری کی ہے؟ ابو سفیان نے کہا: نہیں۔ ابوسفیان سے بات چیت کے اختتام پر ہرقل نے کہا: میں نے آپﷺ سے پوچھا کہ اس نبیﷺ نے کبھی غداری کی ہے؟ تو آپ کا خیال ہے کہ وہ غداری نہیں کرتے۔ اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں کہ وہ کسی سے غداری نہیں کرتے۔ (صحیح البخاري، بدء الوحي حديث:7)

نبی اکرمﷺ کی وفاداری کی یہ گواہی سید نا ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے قبول اسلام سے پہلے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے تمام دشمن جنھوں نے آپ کے ساتھ عہدو پیمان کیے، وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک، سب آپ کی وفاداری کے گواہ ہیں۔ حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، آپ نے کبھی عہد و پیمان توڑا نہ خیانت کی اور نہ کبھی وعدہ خلافی کی۔   آپ ﷺ نے خبر دی کہ قیامت کے دن ہر خیانت اور غداری کرنے والے کے مد مقابل اللہ تعالی ہوگا۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

((ثلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، رَجُلٌ أَعْطٰى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكُلَ ثَمَنَهُ ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفٰى مِنْهُ ، وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ))

’’میں قیامت کے دن تین آدمیوں کا دشمن ہوں گا: ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا، پھر بے وفائی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھائی۔ اور تیسرا وہ جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا لیکن اس کی مزدوری پوری نہ دی۔‘‘ (صحيح البخاري، البيوع، حديث: 2227)

آپ ﷺغداری اور خیانت کرنے والے سے اظہار براءت کرتے تھے، آپ کا فرمان ہے:

((مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَّمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا))

’’جو شخص کسی عہد والے کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہوگی۔‘‘ (صحیح البخاري، الجزية والموادعة، حديث: 3166)

آپ ﷺنے اپنے قول و فعل اور حال سے غداری ، خیانت، فسق و فجور اور جھوٹ سے منع کیا۔ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے دلوں میں وفا کا بیج بویا اور انھیں دشمنوں سے بھی وفا کرنے کی وصیت کی۔ جب آپﷺ کوئی فوجی دستہ بھیجتے تو انھیں الوداع کرتے وقت خاص طور پر وفا کی تاکید کرتے اور فرماتے: ((لَا تَغْدِرُوا)) ’’غداری نہ کرنا‘‘ (سنن أبي داود، الجهاد، حدیث:2613)

یہ وصیت صرف مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کے متعلق نہیں تھی بلکہ ان دشمنوں کے بارے میں بھی غداری نہ کرنے کی تاکید تھی جو جنگ کرنے اور اذیت دینے سے بھی باز نہ آتے ہوں اور مسلسل سازشیں کرتے ہوں۔ یہ وفائے نبوی کتنی خوبصورت اور نمایاں ہے جو آپ کے صحابہ کرام، خاندان اور پیروکاروں تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار دشمنوں تک وسیع ہے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ میں اور میرے واللہ حسیل رضی اللہ تعالی عنہ  (جو ایمان کے لقب سے معروف تھے ) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا: تم محمد (ﷺ) کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ان کے پاس نہیں جا رہے، ہم تو مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ہم سے اللہ تعالی کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ ﷺکے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالی سے مدد مانگیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1787)

آپ ﷺ نے تو بعض مشرکوں کے ساتھ بھی وفاداری کی۔ انھوں نے جو احسان آپ پر کیے، آپ انھیں زندگی بھر نہیں بھولے۔ ان میں سے ایک ابو الجنتری بن ہشام ہے جو قریش کے سامنے کھڑے ہو گئے اور نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا۔ اس ظالمانہ عہد و پیمان کو توڑنے کی کوشش کی جو قریش نے رسول اکرم ﷺاور مسلمانوں کے خلاف کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کے ساتھ وفا کی اور اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا۔ بدر کے معر کے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے علم ہے کہ جو ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگوں کو نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے جو ہم سے لڑنا نہیں چاہتے، لہذا تم میں سے جس کا بنو ہاشم کے کسی آدمی سے سامنا ہو تو وہ اسے قتل نہ کرے۔ جو ابو المتری بن ہشام سے ملے تو اسے بھی قتل نہ کرے اور جس کے سامنے عباس بن مطلب آجائیں تو وہ انھیں بھی قتل نہ کرے کیونکہ انھیں بھی زبردستی نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘‘ (البداية والنهاية: 348/3)

اسی طرح آپ ﷺ نے مطلعم بن عدی کو بھی اس کی اچھائی کا صلہ دیا۔ اس نے طائف سے آپ کی واپسی کے وقت آپ کو پناہ دی اور آپ کا دفاع کیا یہاں تک کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف کر لیا۔ پھر مطعم بن عدی حالت شرک میں مر گیا۔ جب بدر کا معرکہ پیش آیا اور ستر مشرک قید ہو کر رسول اکرمﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺنے فرمایا:

((لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٌّ حَيًّا ، ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هٰؤُلَاءِ النَّتْنٰى، لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ))

’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حديث: 3139)

آپ نے شاہ حبشہ نجاشی کو بھی اس کی اچھائی کا بدلہ دیا جس نے پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ میں آپ کے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ انھیں پناہ دی۔ ان کی عزت افزائی کی اور پھر اسلام لے آیا۔ جب رسول اکرم ﷺ کے پاس ان کی وفات کی خبر آئی تو آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے فرمایا :

’’تمھارا بھائی فوت ہو گیا ہے، لہذا اٹھو اور اس کی نماز جنازہ پڑھو۔‘‘ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے لیے دعا کی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث (953)

یہ آپﷺ کی وفا ہی تھی کہ آپ نے مسلمان کی مشرک کو دی گئی پناہ کو بھی قبول فرمایا۔ سیدہ ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا نے فتح مکہ کے موقع پر ایک مشرک کو امان دی۔ وہ فرماتی ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام ہانی جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔“ (صحیح البخاري، الصلاة، حديث (357)

یہ ایک خاتون ہیں اور مشرک کو پناہ دیتی ہیں مگر آپ ﷺ اس کی پناہ کی لاج رکھتے ہیں۔ اس کی ضمانت اور گارنٹی کو پورا کر کے وفا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ وفا اور عہد و پیمان کی حفاظت میں اپنی مثال آپ تھے۔ وفا تو گویا آپ ہی سے سیکھی جاتی ہے اور رواداری و مروت آپ ہی کے اخلاق وصفات سے ماخوذ ہے۔ آپﷺ جیسی شرافت، عظمت اور صفات حمیدہ کا تصور کسی دوسرے انسان میں کہاں ممکن ہے؟!

یہ بھی آپ کی وفا کا مظہر ہے کہ آپ اپنے وطن سے محبت اور لگاؤ رکھتے تھے۔ جب آپ ﷺمکہ چھوڑ کر جانے لگے تو رو پڑے اور اس کی طرف دیکھ کر فرمایا:

((وَاللَّهِ! إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ

’’اللہ کی قسم! تو بلاشبہ اللہ تعالی کی بہترین زمین اور اللہ تعالی کی محبوب ترین زمین ہے اور اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘ (جامع الترمذي، المناقب، حديث: 3928)

چنانچہ آپ﷤ کی اپنے وطن سے محبت، بچپن کی یادیں، لڑکپن اور جوانی کے گزرے دن ہمیشہ مکہ کا اشتیاق اپنے دل میں زندہ رکھتے۔ دلائل النبوۃ میں ہے کہ ایک دفعہ اُصیل ہذلی آپ سے ملنے مدینہ طیبہ آیا تو آپ نے اس سے مکہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اذخر (گھاس) اُگی ہوئی ہے یا اس طرح کی کوئی بات بتائی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وطن سے یاد آپ کی وفاداری اور حفظ عہد پر دلالت کرتی ہے۔

اب میرا قلم رک رہا ہے اور اس کی سیاہی خشک ہو رہی ہے۔ میں سید الانبیاءﷺ کی وفا کے مزید واقعات بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن شاید میری آنکھوں سے بہتے آنسو پاکیزہ اور معطر درود و سلام کے ساتھ اس امی نبیﷺ کا جو حق باقی ہے، اسے ادا کریں۔ خطیب اپنے خطبوں میں، شعراء اپنی نظموں میں اور فصحاء اپنے کلاموں میں وفاداری کے امامﷺ کی وفا کے جتنے بھی قصیدے پڑھتے رہیں، آپ کی ذات اس سے کہیں بلند و بالا ہے۔