مسلمان کو کافر قرار دینے پر وعید

1023 سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کی نبیﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا:

((لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ، وَلَا يُرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ إِنْ لَمْ يَكُن صَاحِبُهُ كَذٰلِكَ))

’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر فسق یا کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ ہو تو یہ تہمت کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے۔‘‘

صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے:

((عَدُوَّ اللهِ، وَلَيْسَ كَذٰلِكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ)) (أخرجه البخاري:6045، ومسلم:61)

’’اگر کوئی کسی شخص کو کہتا ہے: اے اللہ کے دشمن! حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ (الزام) اسی (کہنے والے) کی طرف لوٹ جائے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: جو راستہ اسلام میں داخل ہونے کا ہے یعنی لا الہ الا للہ کا اقرار، وہی راستہ اس سے نکلنے کا ہے، یعنی اس کا انکار، جب تک کوئی مسلمان ارکان اسلام یا قرآن کا انکار نہ کرے وہ بہر حال مسلمان ہی رہتا ہے، کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس بارے میں بہت محتاط رہنے کا حکم ہے۔ اس جرم کی سزا بعض اوقات یہ ملتی ہے کہ آدمی خود کا فر بہت ہو جاتا ہے۔ أعاذنا الله منه.

1024۔ سیدنا عبد اللہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ! فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا))  (أخرجه البخاري:6104 ومسلم:60)

’’جس شخص نے اپنے کسی بھائی کو کہا: اے کا فر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔

1025۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

((اِئْتُوا رَوْضَةً خَاخٍَ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةٌ، مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا))

’’خاخ کے  باغ کی طرف جاؤ، وہاں اونٹ پر سفر کرنے والی ایک عورت ہوگی، اس کے پاس ایک خط ہے، تم وہ خط اس سے لے لو۔‘‘

ہم لوگ روانہ ہوئے، ہمارے گھوڑے ہمیں لے کر تیز دوڑ رہے تھے تو اچانک ہمیں وہ عورت نظر آگئی۔ ہم نے اس سے کہا: خط نکالو۔ وہ کہنے لگی: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: جو خط تمھارے پاس ہے اسے ہمارے حوالے کر دو، ورنہ ہم تمھارے کپڑے اتار دیں گے تو اس نے اپنی بندھی ہوئی مینڈھیوں کے اندر سے خط نکال کر دے دیا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس میں یہ تھا:  (وہ خط) حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے کچھ مشرکین کے نام تھا۔

وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے ایک معاملے (فتح مکہ کے لیے روائی کے ارادے) کی خبر دے رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((یا حاطب ماهذا))  ’’اے حاطب! یہ کیا (معاملہ) ہے؟‘‘

انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ا میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں، میں (کسی اور قبیلے سے آ کر) قریش کے ساتھ منسلک ہونے والا شخص تھا۔ آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی وہاں قرابت داریاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) اپنے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جب میں ان کا ہم نسب ہونے سے محروم ہوں تو میں ان پر کوئی احسان کر دوں جس کی بنا پر دو میرے رشتہ داروں کی حمایت و حفاظت کریں۔ یہ کام میں نے کفر کی بنا پر یا اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے نہیں کیا ہے۔ نہ اسلام کے بعد کفر پر راضی ہو کر کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((صدق)) ’’اس نے سچ کیا ہے۔‘‘

حضرت عمر نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے چھوڑ ہے، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّهُ قُدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهُ اطَّلَعَ عَلٰى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ . (أخرجه البخاري:3007، 2474، 4890، ومسلم: 2494)

’’یہ بدر میں شریک ہوا تھا، تمہیں کیا پڑا کہ شاید اللہ نے اوپر سے اہل بدر کی طرف نظر فرمائی اور کہا۔  (اب) تم جو عمل چاہو، کرو۔ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔‘‘

اس پر اللہ عز وجل نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ﴾ (الممتحنة1:60)

’’اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ‘‘

توضیح وفوائد: یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل مکہ کو نبی ﷺ کی طرف سے حملے کی اطلاع دی۔ نبی ﷺکو علم ہوا تو آپ نے اطلاع لے جانے والی عورت کو پکڑنے کا حکم دیا جس کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ جنگی راز فاش کرنا کبیرہ گناہ اور صریحا غداری ہے لیکن رسول کریم ﷺ  حاطب رضی اللہ تعالی عنہ  کو دائرہ اسلام  سے خارج قرار نہیں دیا، نیز معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کے منافقوں یا کافروں جیسے فعل کو دیکھ کر اجتہاد کرتے ہوئے کہہ دے کہ وہ منافق یا کافر ہے تو اس کا مواخذہ نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ صحیح بات واضح ہونے کے بعد اپنی رائے پر اڑا نہ رہے اور اس کا مقصد اپنے آپ کو بہت پاکیزہ جتانا اور دوسرے کو حقیر گرداننا نہ ہو۔ یہی بات حدیث: 1026 میں بھی مذکور ہے۔

1026۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے، نبی ﷺ کی ان کے گھر تشریف آوری کے قصے کے متعلق مروی ہے،  وہ  بیان کرتے ہیں:…….. ( میرے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی آمد کی اطلاع پاکر) اہل محلہ میں سے کئی آدمی میرے گھر میں جمع ہو گئے۔

ان میں سے ایک شخص کہنے لگا: مالک بن دخیْشِن کہاں ہے؟ کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((ولَا تَقُلْ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لَا إِلَهُ إِلَّا اللهُ ، يُرِيدُ بِذلِكَ وَجْهَ اللهِ)) (أخرجه البخاري:425، و مسلم:33)

’’ایسا مت کہو۔ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ وہ خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے لا إِلهَ إِلَّا الله کہتا ہے۔‘‘

وہ شخص بولا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، بظاہر تو ہم اس کا رخ اور اس کی خیر خواہی منافقین کے حق میں دیکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((فإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، يَبْتَغِي بِذٰلِكَ وَجْهَ اللهِ))

’’جوشخص اللہ رب العزت کی رضا مندی اور خوشنودی کے لیے کا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے، اللہ تعالی نے اس شخص پر آگ کو حرام کر دیا ہے۔‘‘