مشرک کا موحد سے بحث و جدال اور اس کی مذمت

270۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((سَيَأْتِي عَلٰى أُمَّتِي زَمَانٌ تَكْثُرُ فِيهِ الْقُرَّاءُ، وَتَقِلُّ الْفُقَهَاءُ، وَيُقْبِضُ الْعِلمُ ويكثرُ الْهَرْجُ))

’’میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں قاری زیادہ ہوں گے اور فقہاء کم، علماء فوت ہو جائیں گے اور ہرج زیادہ ہوگا۔‘‘

صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہرج کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((اَلْقَتْلُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ يَأْتِ بَعْدَ ذٰلِكَ زَمَانٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ رِجَالٌ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيهِمْ. ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذٰلِكَ زَمَانَ يُجَادِلُ الْمُنَافِقُ الْكَافِرُ الْمُشْرِكْ بِاللهِ الْمُؤْمِنَ بِمِثْلِ مَا يَقُوْلُ)) (أخرجه الحاكم:457/4، وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله: 156/1، وأورده السيوطي فيه الدر المنثور:56/6)

’’تمھارے درمیان قتل زیادہ ہوگا، پھر اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ ایسے لوگ قرآن پڑھیں گے جو ان کی پسلیوں سے نیچے نہیں جائے گا، پھر اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ منافق، کافر اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا مومن آدمی کے ساتھ انھی باتوں اور دلائل سے بحث و جدال کرے گا جن دلائل اور باتوں سے مومن کیا کرتا تھا۔‘‘

271۔سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي أَخَافُ عَلٰى أُمَّتِي اثْنَتَيْنِ الْقُرْآنَ وَاللَّبَنَ، أَمَّا اللَّبَنُ فَيَبْتَغُونَ الزِيقَ فَيُجَادِلُونَ بِهِ الْمُؤْمِنِينَ)) (أخرجه أحمد: 17421)

’’مجھے اپنی امت پر دو چیزوں کے متعلق اندیشہ ہے: قرآن اور دودھ۔ دودھ کے حصول کے لیے وہ دیہاتوں اور جنگلوں کی طرف نکل جائیں گے۔ خواہشات کے پیچھے پڑیں گے اور نمازیں ترک کر دیں گے۔ اور جو قرآن ہے تو اسے منافقین سیکھ لیں گے، پھر اس کے ذریعے سے مومنوں سے جھگڑا کریں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد: قرآن کے وہی معانی اور مفاہیم معتبر ہیں جو رسول اکرم اور صحابہ و تابعین نے سمجھے ہیں۔ اپنی مرضی کے مفہوم کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ منافقین بھی قرآن کے دلائل سے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ بعض روایات میں ہے کہ وہ چرب زبانی کی وجہ سے اہل ایمان پر غالب آ جائیں گے، اس لیے قرآن کو مسیح سلف ہی کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

272۔سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ))

’’کچھ لوگ ہدایت پر تھے، پھر اس کے بعد انھوں نے گمراہی اختیار کر لی تو انھیں جھگڑے ہی نصیب ہوئے۔‘‘

پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ﴾ ’’بلکہ ہی لوگ جھگڑالو ہیں۔‘‘  (الزخرف58:43) (أخرجه الترمذي: 3253، و ابن ماجه: 48)

273۔سیدنا  ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں، رسول اللہ اللہ نے فرمایا:

((أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَن تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِن كَانَ مَازَحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلٰى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ)) (أخرجه أبو داود: 4800،والبيهقي:241)

’’جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے تو میں اس شخص کے لیے جنت کی ایک جانب بنے ہوئے محل کا ذمہ دار ہوں۔ اور جو شخص پوری طرح جھوٹ چھوڑ دے حتی کہ مزاح میں بھی جھوٹ نہ بولے، تو میں ایسے شخص کے لیے جنت کے درمیان میں ایک محل کا ذمہ دار ہوں۔ اور جوت ار ہوں۔ اور جو شخص اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے تو اس شخص کے لیے جنت کی اعلیٰ منازل میں ایک محل کا ذمہ دار ہوں۔‘‘

274۔ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:  ((أَلا تُصَلِّيانِ؟) ’’تم دونوں نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے۔؟‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے، اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا، پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ ﷺ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: ﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ ’’انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“ (الکهف54:18) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 1127، 7347،7465، ومُسْلِمٌ:775)

275۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، وہ نبی اکرمﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ)) (أخرجه البخاري: 2457، ومُسلِم: 2668)

’’اللہ تعالی کو سب سے زیادہ ناپسند وہ شخص ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔“

توضیح و فوائد:  دعوت دین کو پھیلانا اور اس کے لیے بحث و مباحثہ کرنا شرعاً جائز ہے، لیکن فضول بحث سے بچنے کا حکم ہے، خصوصاً جب فریق مخالف ہٹ دھرم ہو تو معذرت کر لینے ہی میں عافیت ہے۔ مقصد حق واضح کرتا اور شبہات کا ازالہ ہو دوسرے کو زیر کرنا نہ ہو۔ یہ بحث مسلمانوں کے درمیان ہو یا کفار و مشرکین سے، بہر صورت اگر بحث جھگڑے کی طرف جا رہی ہو تو حق پر ہوتے ہوئے بھی اسے ختم کر دینا چاہیے۔ یہی صورت حال دنیاوی معاملات میں بھی ملحوظ رکھنی چاہیے، جھگڑے سے بہر صورت بچنا چاہیے اس سے صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

……………..