مشرک کے لیے ہدایت کی دعا کرنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا جبکہ وہ مشرک تھیں۔ ایک دن میں نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہہ دیں جو مجھے سخت ناگوار گزریں، میں روتا ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اللہ کے رسول! میں اپنی ماں کو اسلام کی طرف بلاتا رہتا تھا اور وہ انکار کرتی تھیں۔ آج میں نے انھیں پھر اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے آپ کے بارے میں ایسی باتیں کہہ دیں جو مجھے بے حد بری لگیں۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی:

((اَللّٰهُمَّ اهْدِ أَمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ)) ’’اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دے؟‘‘

 میں اللہ کے نبی کی دعا سے خوش خبری لیتا ہوا (وہاں سے) نکلا۔ جب میں (گھر) آیا اور دروازے کے پاس پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی اور کہنے لگی: ابو ہریرہ وہیں رکے رہو۔ اور میں نے پانی گرنے کی آواز سنی، (ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: انھوں نے غسل کیا، اپنی لمبی قمیض پہنی اور جلدی میں دوپٹے کے بغیر آئیں، دروازہ کھولا اور کہنے لگیں: ابوہریرہ! أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ’’میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘، پھر میں رسول اللہ ﷺ کی طرف واپس چل دیا، میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو خوشی سے رو رہا تھا، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول خوش خبری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا کر دی۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد وثنا کی اور اچھی باتیں کہیں۔ (ابو ہریرہ اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو اپنے مومن بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور وہ (مومن) ہمیں محبوب ہوں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے دعا فرمائی:

اللَّهُمَّ حَبِبْ عُبَيْدَكَ هٰذَا – يَعْنِي:أَبَا هُرَيْرَةً وَأُمَّهُ إِلٰى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ. وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ))

’’اے اللہ! تو اپنے اس چھوٹے سے بندے، یعنی ابو ہریرہ، اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا محبوب اور مومنوں کو ان کے لیے محبوب بنا دے۔“ (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2491)

چنانچہ کوئی مومن پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنا یا مجھے دیکھا ہو اور مجھ سے محبت نہ کی ہو۔

108۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! قبیلہ دوس نے نافرمانی کی ہے اور (قبول اسلام سے) انکار کر دیا ہے، آپﷺ ان کے لیے بددعا کریں۔ تب (بعض لوگوں کی طرف      سے) کہا گیا کہ قبیلہ دوس تو برباد ہو جائے گیا۔ (لیکن) آپﷺ نے فرمایا: ((اَللّٰهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِهِمْ))

’’اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت نصیب فرما اور انھیں (حق کی جانب)  لے آ۔‘‘(أَخْرَجَهُ الْبُخَارِي:2937، 4392، 6397، ومسلم:2524)

توضیح و فوائد: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے مشرکوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے ان کے لیے بد دعا کرنے کی بجائے ان کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے کیونکہ ان کا اسلام لانا ہی مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہے نہ کہ ان کا تباہ ہونا۔ کوئی آدمی اگر جہالت اور صحیح اسلامی تعلیمات سے بے خبری کی وجہ سے اسلام اور نبیﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو اس کی جہالت سے درگزر کرنا چاہیے اور اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے۔

…………………..