مشرک کی توبہ قبول ہونے اور اسلام لانے کے بعد اس کے سابقہ اعمال کا معاملہ

130۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت: ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ۝ یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ۝﴾

’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور وہ کسی نفس کو بھی جسے (مارنا) اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے، ناحق قتل نہیں کرتے اور وہ زنا نہیں کرتے، اور جو کوئی یہ کام کرے گا، وہ گناہ کی سزا پائے گا۔ یوم قیامت اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا۔“

 مکہ میں نازل ہوئی تو مشرکوں نے کہا:ہمیں اسلام کس بات کا فائدہ دے گا جبکہ ہم اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرا چکے ہیں اور اللہ کی حرام کردہ جانوں کو قتل بھی کر چکے ہیں؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝﴾

’’سوائے اس شخص کے جس نے توبہ کی، ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو انھی لوگوں کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(أَخْرَجَةُ الْبُخَارِيُّ:4764، وَمُسْلِمٌ:3023)

131۔سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! ان نیک کاموں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو میں زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی، غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کی صورت میں کرتا رہا۔ کیا ان اعمال کا بھی مجھے ثواب ملے گا ؟ حکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((أَسْلَمْتَ عَلٰى مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ)) (أخرجه البخاري:1438، 2220، 2538، ومسلم:123)

’’جو کچھ بھلائی تم گزشہ دور میں کر چکے ہو اسے باقی رکھتے ہوئے تم اسلام لائے ہو۔‘‘

132۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((أَوْفِ بِنَدْرِكَ)) ’’اپنی نذر پوری کرو۔‘‘(أخرجه البخاري: 2043، 3144،4320، 6697، ومسلم: 1656)

133۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: کچھ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے ہیں کیا ہم سے ان کا مؤاخذہ بھی ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أَمَّا مَنْ أَحْسَنَ مِنْكُمْ فِي الْإِسْلَامِ فَلَا يُؤَاخَذُ بِهَا، وَمَنْ أَسَاءَ أُخِذَ بِعَمَلِهِ فِي الجَاهِلِيَّة وَالْإِسْلَام)) (أخرجه البخاري: 6921، ومُسْلِمٌ:120)

’’جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے تو جاہلیت کے گناہوں پر کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور جو شخص مسلمان ہو کر بھی برے کام کرتا رہا اس سے پہلے اور بعد والے دونوں گناہوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔ ‘‘

توضیح و فوائد: اسلام شرک و کفر والے سارے گناہ مٹا دیتا ہے بشرطیکہ اسلام لانے کے بعد گناہ کی زندگی ترک کر دی جائے لیکن اگر کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے بعد گناہ نہیں چھوڑتا تو اس سے سابقہ گناہوں کا بھی مؤاخذہ ہوگا۔ اسی طرح شرک و کفر کی حالت میں اچھے اعمال کرنے والا اگر مسلمان ہو جاتا ہے تو اسے سابقہ اچھے اعمال کا ثواب بھی ملے گا، نیز معلوم ہوا کہ اگر حالت کفر میں کسی اچھے کام کی نذر مانی ہو اور اسلام میں بھی وہ کام جائز ہو تو سابقہ نذر کو پورا کرنا چاہیے۔

…………..