مشرکین کے لیے استغفار کرنا منع ہے

104۔سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: جب ابو طالب فوت ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔ وہاں اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابوامیہ بن مغیرہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ  نے ابو طالب سے فرمایا:

((يَا عَمِّ قُلْ: لَا إِلٰهَ إِلَّا الله كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللهِ)) ’’

چچا جان! کلمہ توحید لا الہ الَّا الله کہہ دو تو میں اللہ کے ہاں تمھاری گواہی دوں گا۔‘‘

ابو جہل اور عبد اللہ بن ابو امیہ بول پڑے: ابو طالب! کیا تم (اپنے باپ) عبد المطلب کے طریقے سے پھرتے ہو؟ رسول اللہﷺ انھیں بار بار کلمہ توحید کی تلقین کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے حتی کہ ابو طالب نے آخر میں کہا: میں عبد المطلب کے طریقے پر ہوں اور لا الہ الَّا اللہ کہنے سے انکار کر دیا جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((أَمَا وَاللَّهِ لَاسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أَنْهَ عَنْكَ))

’’اب میں اس وقت تک تمھارے لیے اللہ تعالی سے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے۔‘‘

اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۝﴾

’’نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔ ‘‘

اور اللہ تعالی نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝﴾ ’’اے نبی! بے شک آپ جسے چاہیں؟ ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے  چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ سیدھی راہ پانے والوں کے بارے میں زیادہ آگاہ ہے۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:1360، 3884، 4675، 4772، 6681، ومسلم: 24)

توضیح و فوائد: کافر اور مشرک کے لیے اس کی زندگی میں ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے لیکن جب اس کا خاتمہ شرک اور کفر پر ہو تو اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا جائز نہیں۔

105۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا

تو رسول اللہ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کی طرف لپکا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن کیسی کیسی بکواس کی تھی؟ میں اس کی باتیں شمار کرنے لگا۔ رسول اللہﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

((أَخِّرْ عَنِّى يَا عُمَر))، ’’عمر! تم یہاں سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘

جب میں زیادہ اصرار کرنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا:

إِنِّي خُيِّرْتْ فَاخْتَرْتُ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرُ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا)) (أَخْرَجَةُ البخاري:1366، 4671، ومُسْلِمٌ:2774)

’’مجھے اختیار دیا گیا ہے، لہٰذا میں نے استغفار کرنا اختیار کر لیا ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ میرے سترے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اللہ اسے معاف کر دے گا تو میں ستر دفعہ سے زیادہ اس کے لیے استغفار کرلوں گا۔‘‘

راوی حدیث کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور واپس تشریف لے آئے۔ ابھی چند لمحے ہی ٹھہرے ہوں گے کہ سورہ توبہ کی دو آیات نازل ہو گئیں:

﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِهٖ ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ۝﴾

’’(اے حبیب!) جب کوئی ان منافقین میں سے مر جائے، تو آپ اس پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار بے اطاعت رہے ہیں۔ ‘‘

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: مجھے بعد میں تعجب ہوا کہ میں اس دن رسول اللہ ﷺ کے حضور ایسی جرأت کس طرح کر بیٹھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول (ہر مصلحت کو) خوب جانتے ہیں۔

توضیح و فوائد: کلمه گو مسلمان جب تک صریح کفر اور شرک کا ارتکاب نہ کرے، اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور اس کے لیے دعا بھی جائز ہے۔ منافقین کا علم صرف رسول اکرمﷺ کو تھا۔ اب کسی کی بد اعمالیوں کی بنا پر اس پر منافق کا حکم نہیں لگانا چاہیے۔ ہم صرف ظاہر دیکھنے کے پابند ہیں باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس حدیث میں سورۂ توبہ کی دو آیات کا ذکر ہے تو دوسری آیت ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ…﴾ ہے۔

106۔سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں، میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لیے بخشش طلب کرتے ہوئے سنا۔ میں نے اس سے کہا: کیا تو اپنے مشرک والدین کے لیے بخشش چاہ رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے استغفار نہیں کیا ؟ میں نے یہ بات نبی ﷺ کو بتائی تو یہ آیت اتری:

﴿مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۝۱۱۳ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ؕ ﴾

’’نبی اور ایمان والوں کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش طلب کریں اگر چہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے

دعائے مغفرت مانگنا وہ صرف وعدے کے سبب تھا جو انھوں نے اس سے وعدہ کر لیا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بالکل بے تعلق ہو گئے۔‘‘(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 771، 1085، والترمذي:3101، والنسائي:2038)

 توضیح و فوائد: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے والد کو دعوت توحید پیش کی تو انھوں نے بڑا سخت رد عمل ظاہر کیا جس کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی اور جاتے جاتے انھوں نے والد سے کہا کہ جب تک مجھے ممانعت نہیں کی جائے گی، میں آپ کے لیے دعا کرتا رہوں گا، پھر جب انھیں منع کر دیا گیا تو انھوں نے دعا ترک کر دی۔

.……………