مسلم حکمرانوں کا احترام اور اطاعت
عَنْ عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ رضى اللهُ عَنهُ قَالَ : دَعَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَبَا يَعْنَاهُ فَكَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا، أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي مَنْشَطِنَا ومكرهنا وعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا وَأَلَّا تُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، قَالَ: إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُم مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ، (أخرجه البخاری و مسلم).
(صحیح بخاری: کتاب الفتن، باب قول النبي سترون بعدى أمورا تنكرونها، صحیح مسلم: کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في المعصية.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بلایا پس ہم نے آپ سے بیعت کی ، آپ نے جو عهد لیے ان میں یہ بھی تھا کہ ہم خوشی اور نا خوشی میں اور سختی اور آسانی میں اور اپنی حق تلفیوں میں بھی سمع و طاعت پر بیعت کریں گے اور ولی الامر سے ہم جھگڑا نہ کریں گے مگر جب تم کھلا کھلا کفر دیکھو جس پر اللہ تعالی کی جانب سے تمہارے پاس حجت ہو۔
وَعَنْ عُوف بن مَالِكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ عَن رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: خيار المتكم الَّذِينَ تُحِبُّونَهم وَيُحِبُّونَكُم وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَليهِم وَشِرَار ايمتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهم وَيُبْغِضُونكم وتلعنونهم ويلعنونكم . قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا تُنَابِذُهُم بِالسُّيُوفِ ؟ فَقَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلاَةَ، وَإِذَا رَأَيْتُم مِنْ وُلَاتِكُم شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ، فَاكْرَهُوا عَمَلَهُ، وَلَا تَنْزِعُوا يدًا مِنْ طَاعَة . (اخرجه مسلم).
(صحيح مسلم: كتاب الإمارة، باب خيار الأئمة وشرارهم)
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں جن سے تمہیں محبت ہو اور وہ بھی تم سے محبت رکھتے ہوں اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہوں اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ اور برے حاکم وہ ہیں جن سے تم کو بغض ہو اور وہ بھی تم سے عناد رکھتے ہوں تم ان پر لعنت کرتے ہو وہ تم پر لعنت کرتے ہوں۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایسے برے حاکموں کو تلوار سے نہ دفع کریں؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز کو قائم کرتے رہیں اور جب تم اپنے حاکموں میں ایسی کوئی بات دیکھو جو تمہیں نا پسند ہو تو اس کے عمل کو نا پسند کرو لیکن اپنا ہاتھ اطاعت سے باہر نہ کھینچوں (یعنی بغاوت نہ کرو)۔
وَعَنْ أمِّ سَلَمَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ : إِنَّهُ يسْتَعْمَلْ عَلَيْكُمْ أَمْرَاء فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ بَرِي، وَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلٰكِنْ مَنْ رَضِىَ وَتَابَعَ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نُقَاتِلُهُم؟ قَالَ: لَا، مَا صَلُّوا، (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم: كتاب الإمارة، باب وجوب الإنكار على الأمراء فيما يخالف الشرع وترك قتالهم.)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم پر ایسے امیر مقرر ہوں گے جن کے تم اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے بھی ، پھر جس نے برے کام کو برا جانا دو گناہ سے بچ گیا اور جس نے برا کہا وہ بھی بچ گیا لیکن جو راضی ہو اور اس کی پیروی کی (وہ تباہ ہوا)۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم ان سے لڑیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
وَعَن ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عنهما أن رَسُولُ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيْرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِر، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًامَاتَ مِيتَةً جَاهِلِية. (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الفتن، باب قول النبيﷺ سترون بعدي أمورا تنكرونها، صحیح مسلم: کتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفن وفي كل…)
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس کو اپنے امیر سے کوئی بات ناگوار گزرے تو صبر کرے، کیونکہ سلطان سے جو ایک بالشت بھی نکل گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
تشریح:
اسلام نے ہمیں مسلم حکمرانوں کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے ان کی مخالفت اور بغاوت سے سختی سے منع کیا ہے کیونکہ ان کی بغاوت کرنے سے معاشرے میں فتنہ و فساد بر پا ہوگا قتل و خونریزی ہوگی ، ملک وملت کو نقصان پہنچے گا، ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن ہوگا، عوام بے روز گار ہو جائے گی ، لوٹ کھسوٹ بڑھ جائے گی ، کرپشن بالکل عام ہو جائے گا ہر طرف افراتفری کا عالم ہوگا اور لوگوں کو دینی و دنیوی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حاکم وقت کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بغاوت سے بچائے۔
فوائد:
٭ مسلم حکمراں کی بغاوت حرام ہے۔
٭ جس نے مسلم حکمراں کی مخالفت کی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔
٭٭٭٭