موحدین میں سے سب سے پہلے کون لوگ جہنم میں جائیں گے
وعَن أبِي هُرَيرَة رَضِيَ الله عنه، قَالَ: سَمِعتُ رَسُول الله . يَقُولُ: إن أوّلَ النَّاسِ يُقضٰى يَومَ القِيَامَة عَلَيهِ ، رَجُلٌ استُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى استُشُهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِاَن يُّقَالَ: جَرِىءٌ، فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهِ حَتّٰى اُلقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ العِلْمَ وَعَلَّمَهُ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِىَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَها، قَالَ: فَمَا فَعَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ العِلْمَ وَ عَلَّمْتُه وَقَرَأتُ فِيْكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَ لٰكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ العِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ وَقَرَأتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِيٌ، فَقَد قِيْلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِىَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ أَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِىَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا انْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ فَعَلْتَ ليُقَالَ هُوَ جَوادٌ، فَقَدْ قِيل ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ثُمَّ اُلْقِيَ فِي النَّارِ. (أخرجه مسلم)
(اخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: كتاب الإمارة، باب من قاتل للرياء والسمعة استحق النار)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن پہلے جس شخص کا فیصلہ ہوگاو و شہید ہوگا جب اس کو اللہ تعالی کے پاس لائیں گے تو اللہ تعالی اسے اپنی نعمت کی پہچان کرائے گا پس وہ پہچان لے گا پھر اللہ تعالی پوچھے گا تو نے اس نعمت کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ بولے گا میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو لڑا تھا اس لئے کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا پھر حکم ہوگا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، دوسرادہ شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا، اس کو اللہ تعالی کے پاس لائیں گے تو اللہ تعالی اسے اپنی نعمت یاد دلائے گا پس وہ نعمت اسے یاد آجائے گی پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور سکھلایا اور تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا، اللہ تعالی فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لئے علم حاصل کیا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں، پس تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا پھر حکم ہوگا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس کو اللہ تعالی نے سب طرح کا مال خوب دیا تھا وہو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالٰی اس کو اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور اسے یاد آجا ئیں گی پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو نے اس کے بدلے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا تھا مگر میں نے تیرے واسطے خرچ کیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ بھی کہیں تو تجھے لوگوں نے دنیا میں سخی کہہ دیا پھر حکم ہوگا اور منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تشریح:
اسلام نے اعمال کے قبول ہونے کے لئے دو معیار تعین کر رکھا ہے اگر انسان کا عمل اس معیار پر اترتا ہے تو وہ دربار الہی میں قبول کیا جائے گا ورنہ اسے رد کر دیا جائے گا پہلا معیار یہ ہے کہ عبادت خالص اللہ تعالی کے لئے کی جائے اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اور نہ ہی اس کا کوئی دوسرا مقصد ہو۔ اور دوسرا معیار یہ ہے کہ عبادت سنت رسول اے کے مطابق کی جائے۔ اب اگر ان دونوں معیاروں اور شرطوں میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو دو عمل اللہ تعالی کے نزدیک قبول نہیں ہوگا۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے مذکورہ حدیث میں انہیں باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے والے اور اللہ کے راستے میں دل کھول کر خرچ کرنے والے لوگ جہنم میں داخل کئے جائیں گے کیونکہ ان لوگوں نے اپنے کاموں کو خالص اللہ تعالی کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ان کا مطلب دنیا میں شہرت کمانا اور لوگوں کو دکھانا تھا جو انہیں دنیا میں عطا کیا گیا۔ اللہ تعالی ہمیں ریا کاری اور شہرت طلبی سے بچائے۔
فوائد:
٭ اعمال میں ریا کاری خطرناک چیز ہے۔
٭ جن اعمال میں ریا کاری ہے وہ قبول نہیں ہوگا۔
٭ قیامت کے دن ریا کاری کرنے والے سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔
٭٭٭٭