نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا،حکمِ الہی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو۔
الفتح : 9

عباس رضی اللہ عنہ کا حسنِ ادب

عباس چچا تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھتیجے تھے
عباس، عمر میں بڑے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے تھے
مگر
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استاد اور معلم تھے
تو سیدنا عباس رضى الله عنه سے پوچھا گیا :
أيُّما أكبر، أنت أم النَّبيُ صلى الله عليه وسلم؟
”آپ بڑے ہیں یا نبی صلى الله عليه وسلم؟“
فرمایا :
هو أكبر منِّي، وأنا وُلدت قبله.
رواه الطبراني، كما قال الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (9/273)، والحاكم (3/362)، قال الهيثمي: رجاله رجال الصَّحيح.
(سير أعلام النبلاء للذهبي : 80/2)
”بڑے تو وہی ہیں، اگرچہ پیدا پہلے میں ہوا تھا۔“

جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتیں تو کہتیں "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں”

ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق صحیح بخاری میں ہے :
وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُهُ إِلَّا قَالَتْ : بِأَبِي
(صحيح البخاري : 324)
کہ آپ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتیں تو کہتیں "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں

میرے باپ کی بجائے آپ کا چچا اسلام قبول کرتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی

عمر بن شبہ، ابویعلی، حاکم اور ابو بشر وغیرہ نے محمّد بن سلمة، عن هشام بن حسان، عن محمّد بن سيرين، عن أنس کی صحیح سند سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد محترم ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا قصہ بیان کیا ہے
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
جب انہوں نے اسلام قبول کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«ما يبكيك؟»
تو انہوں نے کہا :
لأن تكون يد عمك مكان يده و يسلم و يقرّ اللَّه عينك أحبّ إليّ من أن يكون.
آج اگر میرے باپ کی بجائے آپ کے چچا ہوتے اور وہ اسلام قبول کرتے اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں تو یہ مجھے زیادہ پسند تھا

تم سب آزاد ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال ہو

ایک جنگ میں بنو مصطلق قبیلے کے بہت سے لوگ مسلمانوں نے گرفتار کر لیے، ان میں قبیلے کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ کو آزاد کر کے ان سے شادی کر لی
سیدہ عائشہ‬ ؓ بیان کرتی ہیں:
جب لوگوں نے یہ خبر سنی کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ جویریہ ؓ سے شادی کر لی ہے۔ تو انہوں نے جو قیدی ان کے قبضے میں تھے سب یہ کہہ کر چھوڑ دیے اور ان کو آزاد کر دیا۔ کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ دار ہیں۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور عورت اپنے خاندان کے لیے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو۔ اس کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کے ایک سو گھرانے آزاد کیے گئے تھے
سنن ابی داؤد 3931

دروازے پر ہی بیٹھ گئے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا:  بیٹھ جاؤ ، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے  ( جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے )  اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے
ابو داؤد 1091

صرف چہرہ دیکھ کر فیصلہ تبدیل کر لیا

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی حلہ ہدیہ میں دیا تو میں نے اسے پہن لیا۔
فَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي
بخاری 2614
لیکن جب غصے کے آثار روئے مبارک پر دیکھے تو اسے اپنی عورتوں میں پھاڑ کر تقسیم کردیا

جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب کرتے ہیں

حدیث جبرائیل علیہ السلام میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور نبی سلام کے سامنے اس طرح مؤدب بیٹھے کہ اپنے گھٹنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کی طرف کیے، دوزانو ہو کر بیٹھے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ کر انتہائی مؤدب ہو کر بیٹھ گئے
[ مسلم : ٨]

براق بھی سہم گیا

معراج کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہونے کے لیے براق کے قریب ہوئے تو براق نے تھوڑی سی مستی دکھائی، جس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کے براق ! تجھے شرم نہیں آتی کہ تجھ پر کائنات کا بہترین سوار سواری کرنے لگا ہے، جس پر براق کے پسینے چھوٹ گئے، گردن جھکا دی اور پسینہ اس کے جسم سے بہنا شروع ہو گیا۔”

یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مسند البزار، کنز العمال، دلائل النبوة للبيهقي، جامع الأحاديث للسيوطي، تفسير قرطبي سيرة ابن هشام سيرة ابن كثير وغیرہ میں منقول ہے۔ پسینہ کے الفاظ کے بغیر اسے امام البانی اللہ نے "الاسراء والمعراج” میں ذکر کیا ہے ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب یہ ہے کہ آپ کے حکم سے آگے مت بڑھیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
الحجرات : 1

فرمایا :
«وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا »
[ الأحزاب : ۳۶ ]
’’اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔ ‘‘

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے کیسے رہ سکتا تھا

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز باجماعت سے پیچھے رہ گئے اور صحابہ کو آپ کے قریب پہنچ جانے کا پتہ نہ چلا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جماعت کھڑی کردی گئی دوران نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور پہلی صف میں شامل ہو گئے ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلئِ امامت پر ہی رکے رہنے کا اشارہ کیا مگر ابوبکر پھر بھی پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر بقیہ جماعت کروائی اور پھر فارغ ہونے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جب میں نے اشارہ کردیا تھا کہ جاری رکھو تو پھر آپ کیوں پیچھے ہٹے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :
مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
بخاری 2690
ابو قحافہ کے بیٹے کے لائق نہیں تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھاتا رہتا

اے عبداللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے کوئی نہ نکلے

ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ میں (اپنے باپ) عمر رضی اللہ عنہ کے ایک نئے اور سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ اکثر وہ مجھ سے کنٹرول اوور ہو کر سب سے آگے نکل جاتا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹ کر پیچھے واپس کردیتے۔ وہ پھر آگے بڑھ جاتا تو آپ پھر اسے ڈانٹ کر پیچھے کردیتے
بخاری رقم :2115
اور مجھے کہتے :
يَا عَبْدَ اللَّهِ، لَا يَتَقَدَّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ.
بخاری :2610
اے عبداللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے کوئی نہ نکلے

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ فتح السلام میں لکھتے ہیں :
"اس حدیث سے صحابہ کے ادب کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں برداشت ہی نہ تھا کہ کسی کی سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے آگے نکل جائے”

اسی طرح دوڑ مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے جب ایک اونٹنی آگے نکل گئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے احساسات و جذبات کیا تھے

میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر طواف نہیں کروں گا

صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے پاس عثمان رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر بھیجا تھا۔
قریش مکہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا :
إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَطُفْ بِهِ
اگر آپ بیت اللہ کا طواف کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں

تو آپ نے فرمایا :
مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتَّى يَطُوفَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مسند احمد 18431 وسندہ صحیح
میں (اکیلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر) کبھی بھی طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر کا طواف نہ کرلیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز پست رکھی جائے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔
الحجرات : 2

صحیح بخاری میں اس آیت کا سبب نزول بیان ہوا ہے، ابن ابی مُلیکہ فرماتے ہیں:

’’دو سب سے بہتر آدمی قریب تھے کہ ہلاک ہو جاتے، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما ، دونوں نے اپنی آوازیں بلند کیں جب بنو تمیم کے شتر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ تو ان دونوں (بہترین آدمیوں) میں سے ایک نے بنی مجاشع کے اقرع بن حابس (کو بنو تمیم کا امیر مقرر کرنے) کا اشارہ کیا اور دوسرے نے ایک اور کا اشارہ کیا۔ نافع نے کہا، مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’تم نے صرف میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔‘‘ اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: « يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ » ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو۔‘‘
[ بخاري، کتاب التفسیر، باب : «لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبي » : ۴۸۴۵ ]

عمر رضی اللہ عنہ، تو گویا چپ ہی ہوگئے

ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے فرمایا، پھر اس آیت کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی نہیں دیتی تھی جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دوبارہ پوچھتے نہیں تھے۔‘‘

ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تو گھر میں ہی بیٹھ گئے

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جب یہ آیت اتری :
« يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ»
اب ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی آواز بہت بلند تھی تو وہ کہنے لگے :
’’میں ہی اپنی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کیا کرتا تھا، میرا عمل تو ضائع ہو گیا، میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘
اور وہ غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ دیکھا تو ان کے بارے میں پوچھا۔ کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں تلاش کر رہے تھے، تمھیں کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگے :
’’میں ہی ہوں جو اپنی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند کرتا تھا اور اونچی آواز سے بات کرتا تھا، میرا عمل ضائع ہو گیا اور میں اہلِ نار سے ہوں۔‘‘
لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ لاَ، بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ]
’’نہیں، بلکہ وہ اہلِ جنت سے ہے۔‘‘
[ مسند أحمد : 137/3، ح : ۱۲۴۰۸ ] اس کی سند صحیح ہے۔

حدیث رسول کا ادب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ادب ہے

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

کسی مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا تقاضا ہے کہ اس کے مقابلے میں کسی شخص کا قول ذکر نہ کیا جائے اور نہ اسے ردّ کرنے کے لیے کسی قسم کے عقلی ڈھکوسلے پیش کیے جائیں، کیونکہ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنا ہے، بلکہ مخالفت کی وجہ سے یہ اس سے بھی سنگین بے ادبی ہے

عالم جلیل، محدث عبد الرحمن معلمی رحمہ الله فرماتے ہیں:

« ایک مومن کو چاہیے کہ نبی صلی اللّٰه علیه وسلم سے ثابت شدہ احادیث کا ویسا ہی احترام کرے جیسا اگر نبی صلی اللّٰه علیه وسلم موجود ہوتے تو وہ ان کا کرتا ».
[ آثاره : ٩٢/٤ ]

حدیث بیان کرتے وقت یہ نہ کہو کہ رسول نے فرمایا بلکہ کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

امام شافعی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :
يكره للرجل أن يقول: قال الرسول،
ولكن يقول: قال رسول الله، صلى الله عليه وسلم،
تعظيما له.
[مناقب الشافعي للبيهقي]
آدمی کے لیے مکروہ ہے کہ وہ یوں کہے: رسول نے فرمایا۔
اسے یوں کہنا چاہیے: رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا؛ کہ آپ ﷺ کی تعظیم کا یہی تقاضا ہے!

باوضو ہوکر ہی حدیث بیان کرتے

امام مالک بن انس رحمہ اللہ حدیث کا اس قدر ادب و احترام کرتے کہ ہمیشہ باوضو ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے۔

إسناده صحيح.
أخرجه الخطيب في "الجامع” (٩٧٧) و أبو نعيم في "الحلية” (٣١٨/٦) وابن عبدالبر في "جامع بيان العلم و فضله (٢٣٩٥)

ثقة تابعي امام قتادۃ بن دعامۃ رحمہ اللہ ہمیشہ باوضو ہو۔کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے.

إسناده صحيح.
أخرجه ابن عبد البر في "جامع بيان العلم و فضله” (٢٣٩٣)

امام سلیمان بن مھران الأعمش رحمہ اللہ جب حدیث بیان کرنے کا ارادہ فرماتے اور وہ بے وضو ہوتے تو تیمم کر لیتے۔

إسناده صحيح.
أخرجه البيهقي في "المدخل” (٦٩٥) و الخطيب في "الجامع” (٩٧٦) و ابن عبد البر في "جامع بيان العلم و فضله” (٢٣٩٠)

لیٹ کر حدیث بیان نہ کرتے

سید التابعین امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ بیماری کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے۔ان سے ایک حدیث کے بارے پوچھا گیا کہنے لگے:مجھے بٹھاؤ میں ناپسند کرتا ہوں کہ لیٹے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کروں۔

إسناده صحيح.
أخرجه الفسوي في "المعرفة” (٤٧٠/١) والخطيب في "الجامع” (٩٧٢) و ابن عبد البر في "جامع بيان العلم و فضله” (٢٣٩٦)
حافظ عبدالرحمن المعلمي

جب بھی حدیث بیان کرتے تو مسکرا پڑتے

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ جب بھی حدیث بیان کرتے تو مسکراتے
ام درداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے ان سے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا :
«ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث حديثا إلا تبسم في حديثه»
مكارم الأخلاق للطبراني (٢١).
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب بھی حدیث بیان کرتے تھے تو مسکراتے تھے

حدیثِ رسول کی وجہ سے رو پڑتے

مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ﻛﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻨﻜﺪﺭ ﺳﻴﺪ اﻟﻘﺮاء ﻻ ﻳﻜﺎﺩ ﺃﺣﺪ ﻳﺴﺄﻟﻪ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺇﻻ ﻛﺎﺩ ﻳﺒﻜﻲ
(التاريخ الأوسط:(١٥٢٣)، التاريخ الكبير:١/ ٢١٩،حلية الأولياء:٣/ ١٤٧،صحيح)
سید القراء محمد بن المنکدر کی حالت یہ تھی کہ جب بھی ان سے کسی حدیث کے متعلق کوئی شخص سوال کرتا تو آپ کی حالت ایسے ہوجاتی کہ گویا رو پڑتے

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہنسے تھے

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہوئے، رکاب میں ”بسم اللہ” پڑھ کر پاؤں رکھا، سواری کی پیٹھ پر بیٹھ کر ”الحمداللہ” پڑھا، پھر دُعا پڑھ کر ہنس دیئے، کسی نے کہا :
امیر المومنین! ہنسنے کا سبب؟
تو فرمایا :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ .
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 252/5، وسندہ، صحیحٌ)
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا ۔”

مجھے پسند ہے کیونکہ یہ میرے نبی کو پسند تھا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا۔ میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ
صحيح البخاري | 2092
اس دن سے میں بھی کدو پسند کرتا چلا آ رہا ہوں

ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
كَانَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ.
انس رضی اللہ عنہ خوشبو رد نہیں کرتے تھے
اور کہتے ہیں کہ انس کہتے ہیں :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ.
بخاری : 2582
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو رد نہیں کیا کرتے تھے

متقی وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز پست رکھتا ہے

فرمایا :
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔
الحجرات : 3

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھنے کا ادب

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے اصحاب کی ایک مجلس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَسَكَتَ النَّاسُ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرَ
(صحيح البخاري : 2842)
لوگ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایسے خاموش بیٹھے ہوتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں

نظر بھر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہی نہ دیکھ سکے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ
(مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 321)
اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا

اونٹنیوں نے آپ کے ادب میں سر جھکا لیے

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ، أَوْ سِتٌّ، فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ
سنن أبي داود | 1765،حكم الحديث: صحيح
کہ عیدکے دن پانچ یاچھ اونٹنیاں نحر کے لیے پیش کی گئیں ۔آپ صلی الله عليه وسلم جب نحر کرنے کے لیے آگے تشریف لائے تو ہر اونٹنی آپ کی طرف گردن بڑھانے لگی تا کہ آپ صلی الله عليه وسلم اسے پہلے ذبح کریں۔

ایک پالتو جانور کیسے آپ کا ادب کرتا تھا

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
كَانَ لِآلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحْشٌ، فَإِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ دَخَلَ رَبَضَ فَلَمْ يَتَرَمْرَمْ مَا دَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ ؛ كَرَاهِيَةَ أَنْ يُؤْذِيَهُ
(مسنداحمد:(24818،25169)،سندہ حسن لذاتہ۔)
رسول الله صلی الله عليه وسلم کے گھر والوں کے ہاں ایک پالتو جانور ہے جو رسول الله صلی الله عليه وسلم کی غیر موجودگی میں خوب کھیلتا، اچھلتا کودتا، بھاگتا دوڑتا لیکن جب اس پالتو جانور کو اندازہ ہوتا کہ آپ صلی الله عليه وسلم تشریف لے آے ہیں تو اس ڈر سے کہ آپ صلی الله عليه وسلم کو تکلیف پنہچے گی آرام سے بیٹھ جاتا اور جب تک رسول الله صلی الله عليه وسلم گھر میں تشریف فرما رہتے بالکل حرکت نہ کرتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں شور نہ کرو

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں مسجد میں کھڑا تھا کہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دو آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ جب میں انہیں لے آیا تو آپ نے ان سے پوچھا :
مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا
تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو
وہ کہنے لگے :
مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ
ہم طائف سے آئے ہیں
آپ نے کہا :
لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بخاري 470
اگر تم اسی شہر کے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا اس وجہ سے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو

امام مالک رحمہ اللہ کے دور کا ایک خوبصورت واقعہ

تاریخ میں ہے کہ ایک بار حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے زمانے کا بادشاہ امیر المؤمنین ابو جعفر المنصور نے مسجدِ نبوی میں کسی سلسلے میں بحث کی اور اس کی آواز بلند ہو گئی ، تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
اے امیر المؤمنین ! اس مسجد میں آواز بلند نہ کریں۔ اللہ نے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ ادب سکھایا ہے :
لَا تَرْفَعُوْا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ
اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو۔
اور ایک جماعت کی تعریف اس طرح کی ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
اور پھر فرمایا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وفات کے بعد بھی اسی طرح ہے جیسے زندگی میں ہوتی ہے۔
(ترتیب المدارک للقاضی عیاض : ۱ ؍ ۶۸ ، خلاصۃ الوفاء للسمھودي : ۱ ؍ ۵۱ )

شہر مصطفی کا ادب ملحوظ رکھو

استاذ مکرم شیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ تعالیٰ ،جن دنوں مدینہ طیبہ میں بحیثیت متعلم قیام فرما تھے ان کے والد گرامی مولانا عبدالعزیز سعیدی رحمہ اللہ نے بذریعہ خط انہیں نصیحت کرتے ہوئے لکھا

"ایک بات جو بار بار ذہن میں آتی ہے کہ تم مدینہ منورہ میں نہایت ادب اور وقار سے چلو پھرو ۔ اکثر اوقات ننگے پاوں چلا کرو، ممکن ہے کہ کوئی پتھر یا سنگریزہ جس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم چومے ہوں ، تمہارے قدموں سے مس ہوجائے۔”
( تذکرہ سعیدیہ صفحہ 126 )

حجروں کے باہر سے آوازیں دینے والے کم عقل قرار پائے

إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔
الحجرات : 4

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے آواز نہ دو جیسے آپس میں آوازیں دیتے ہو

لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا
رسول کے بلانے کو اپنے درمیان اس طرح نہ بنالو جیسے تمھارے بعض کا بعض کو بلانا ہے۔
النور : 63

ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کا ایک معنی ہے : رسول کا بلانا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں بلائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح معمولی نہ سمجھو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلائیں تو حاضر ہونا واجب ہوتا ہے، جب کہ آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کا یہ حکم نہیں ہے۔
اور دوسرا معنی ہے : تمھارا رسول کو بلانا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نام لے کر مت بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر بلاتے ہو، بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ، یا ایسے القاب سے بلاؤ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم ہو اور ایسے لہجے میں مت بلاؤ جس میں تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، بلکہ آواز نیچی رکھ کر ادب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاؤ۔

اللہ تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے کا انداز

اللہ رب العزت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر اور تعظیم و تکریم کا اظہار فرماتے ہیں، جو قرآن حکیم میں جا بجا موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے الگ اور ممتاز انداز میں مخاطب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو ان کے نام لے کر مخاطب فرمایا ہے، جیسا کہ یادم ، ينوح يا ابرهيم ، یموسی ، يدَاوُد ، يزكريا ، یحییٰ ، یعیسی وغیرہ سے مخاطب فرمایا ہے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا تو آپ کا نام لے کر نہیں بلکہ "يَأَيُّهَا الرَّسُولُ” ، "يَأَيُّهَا النَّبِيُّ”
"يَأَيُّهَا المُزَّمِّل” ، "يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ”
جیسے خوبصورت اور معزز و مکرم اعزازات کے ساتھ خطاب فرمایا کہ اللہ رب العزت خود آپ کی عظمت و تو قیر کر کے مخلوق کو بھی یہی حکم فرماتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ادب

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازوں پر ناخنوں سے دستک دی جاتی تھی (تاکہ نوک کرنے کی آواز بلند نہ ہوجائے)
(الأدب المفرد للبخاری 1080)

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس لفظ سے مخاطب کرنے سے منع کر دیا جس سے آپ کی بے ادبی کا دروازہ کھلتا تھا

مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کرنے کے لیے لفظِ راعنا استعمال کرتے تھے جس کا معنی ہے "ہماری طرف توجہ فرمائیں”
یہودی بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرنے لگے ، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ کو تھوڑا لمبا کرتے ہوئے بدل دیتے، یعنی "راعنا” کی بجائے "راعینا” کہتے، جس کا معنی ہے "ہمارا چرواہا” یوں یہ لفظ گالی بن جاتا۔
جیسا کہ سورہ نساء میں ہے
وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ
اور(وہ یہودی) اپنی زبانوں کو پیچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَا (کہتے ہیں)
یعنی زبان کو توڑ مروڑ کر "راعنا” کو لمبا کرتے ہوئے ”رَاعِيْنَا“ کہتے، جو توہین کا کلمہ ہے

تو اللہ تعالیٰ نے لفظِ "راعنا” سے ہی منع کر دیا تاکہ یہود کو اس کے غلط استعمال کا موقع ہی نہ ملے
فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ’’رَاعِنَا‘‘ (ہماری رعایت کر) مت کہو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (ہماری طرف دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
البقرة : 104