نفل نماز کے احکام

عَنْ عَبدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَى وَجْهِ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهَا المَكْتُوبَةَ. (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب التقصير، باب ينزل للمكتوبة، صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب جواز صلاة الناقلة على الدابة في السفر حيث توجهت)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ اپنی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
وَعَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ عَلَى الرَّاحِلَةِ يُسَبِّحُ، يُؤمِي بِرَاسِهِ قِبَلَ أَیَّ وَجْهٍ تَوجَّهَ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي الصَّلاةِ المَكْتُوْبَة . (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب الجمعة، باب ينزل للمكتوبة، صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب جواز صلاة النافلة على الشابة في السفر حيث توجهت.)
عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر نقل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ سر کے اشاروں سے پڑھ رہے تھے اس کا خیال کئے بغیر کہ سواری کا منہ کدھر ہوتا ہے لیکن فرض نمازوں میں آپ اس طرح نہیں کرتے تھے۔
وَعَنْ عَبدِاللهِ بن شَقِيق قَالَ : سأَلتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللهِ الله عَنْ تَطَوَّعِهِ ؟ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصلّى بالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلَّى بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّى رَكْعَتَيْنِ، وَيُصَلَّى بِالنَّاسِ العِشَاء وَيَدْخُلُ بَیْتِی فَیُصَلِّى رِكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّى مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الوِتَر وَكَانَ يُصَلَّى لَيْلاً طَوِيْلاً قَائِمًا وَلَيْلاً طَوِيلاً قَاعِدًا، وَكَانَ إِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِم رَكَعَ وَسَجَدَ وهُوَ قَائِم وَإِذا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ وَسَجدَ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ. (اخرجه مسلم)
(صحیح مسلم كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب جوار النافلة قائما وقاعدا وفضل بعض الركعة قائمًا و بعضها….)
عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ کی نفل نماز کیسے ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے پھر نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ پھر گھر میں آکر دو رکعت پڑھتے، اور لوگوں کے ساتھ مغرب پڑھتے پھر گھر میں آکر دور کعت پڑھتے، اور عشاء لوگوں کے ساتھ پڑھ کر گھر میں آتے اور دو رکعت پڑھتے، اور رات کو نو (۹) رکعت پڑھتے اس میں وتر شامل ہوتی اور بڑی رات تک کھڑے ہو کر پڑھتے اور بڑی رات تک بیٹھ کر پڑھتے جب قراءت کھڑے ہو کر کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب قراءت بیٹھ کر کرتے تو سجدہ اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر ہو جاتی تو دو رکعت پڑھ لیتے۔
وَعَنْ عَبد الله بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ : صَلاةَ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب جواز الناقلة قائما وقاعدا وفعل بعض الركعة قائما وبعضها….)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کو بیٹھ کر نماز پڑھنے پر آدھا ثواب ملتا ہے۔
تشریح:
اللہ تعالی نے نفل نماز کے بعض احکام کو فرض نمازوں سے مختلف قرار دیا ہے اور یہ صرف مسلمانوں کی آسانی اور ان کے آرام کے لئے ہے تا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور جس حالت میں ہوں اگر نفل نماز کی نیت رکھتے ہوں تو با سانی اسے ادا کر سکیں جیسے نفل نماز کا سواری پر ادا کرنا مباح قرار دیا ہے گرچہ اس کا رخ کسی بھی طرف ہو اسی طرح بیٹھ کرنا نماز ادا کرنا لیکن کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا افضل ہے۔ بعض افراد طاقت رکھنے کے باوجود بھی نقل نماز کو بیٹھ کر پڑھنا افضل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کو بیٹھ کر نماز ادا کرنے پر کھڑے ہونے کے مقابل میں نصف ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں سنت نبوی ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ نفل نماز سواری پر پڑھنا جائز ہے خواہ اس کا رخ کسی طرف بھی ہو۔
٭ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے۔
٭ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑا ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابل آدھا ثواب ہے۔
٭٭٭٭٭