نیک اعمال کو ضائع ہونے سے بچائیں

{قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (103)
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا}
کہہ دو: کیا ہم تمہیں ایسے لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں [103]
وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیشک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔
[الكهف: 103، 104

ایک شخص سخت دھوپ اور گرمی میں دور دور سے پانی لا کر ایک بڑے برتن میں جمع کرتا ہے اور خوش ہوتا ھے کہ میں بہت پانی جمع کر رہا ہوں لیکن اس برتن کے پیندے میں سوراخ ہے ،جتنا پانی اوپر سے ڈالتا ھے اتنا ہی نیچے سے نکل جاتا ھے کافی محنت کرنے کے بعد جب دیکھتا ہے کہ رزلٹ زیرو ھے اور برتن خالی کا خالی ھے تو اپنی محنت پر افسوس کرتا ہے

بظاہر نیکی کرنے والے بعض لوگوں کی یہی کیفیت ھےکہ وہ جس برتن میں نیکیاں جمع کر رہے ہوتے ہیں اس کے پیندے میں سوراخ ہوتا ھے جو ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیتا ھے

عزیز بھائیو❗ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں رمضان میں بہت سے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائ ھے
روزے ،نمازیں، تروایح، تہجد ،صدقہ ،تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر کئی عبادات ہم کرتے رہے
لیکن اب ہمیں اپنی ان نیکیوں کی حفاظت کے لیے دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے نیکیوں کو جمع کرنے والے برتن میں سوراخ تو نہیں ھے اگر ھے تو فی الفور وہ سوراخ بند کیے جائیں

کیونکہ شیطان ہر وقت انسان کی تاک میں ہے ، وہ انسان کے خلاف ہر خیر کے راستے پر گھات لگائے ہوئے ہے تا کہ اس کے نیک اعمال غارت کر دے، انسان کی نیکیاں غارت کرنے کے لیے اس نے کئی سوراخ بنا رکھے ہیں

اللہ تعالی نے شیطان کی انسانیت سے عداوت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16)
ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
اس نے کہا بسبب اس کے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں ان کے خلاف تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا۔[16]
پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے ان کی داہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے آؤں گا ، پھر ان میں سے اکثر کو توں شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]

آج ہم شیطان کی طرف سے لگائے ہوئے چند ایسے نقب اور سوراخوں کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کے ذریعے سے ہماری نیکیوں کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے

1⃣
شرک

اللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک بنانا اتنا بڑا گناہ ھے کہ اگر زمین و آسمان کے درمیان کا مکمل خلاء نیکیوں سے بھر دیا جائے تو ان سب کو ختم کرنے کیلیے ایک رائی کے برابر شرک ہی کافی ہے

وَلَـقَدۡ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَ‌ۚ لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ۞
اور بلا شبہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔
الزمر 65

2⃣
ارتداد
انسان کی موت مرتد ہونے کی حالت میں آئے تو اس سے بھی سارے اعمال غارت ہو جاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ}
اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے۔ [البقرة: 217]

لہذا فیس بک اور سوشل میڈیا پر ملحدوں اور بے دین لوگوں کی پھیلائی ہوئی ارتدادی پوسٹوں سے ہشیار اور چکنا رہنا انتہائی اہم ہے

3⃣
دین سے نفرت بھی انسان کے سارے اعمال فنا کر دیتی ہے

، فرمانِ باری تعالی ہے:
{ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ}
اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے نفرت کی تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔
[محمد: 9]

داڑھی ،برقعے ،پردے،شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنے، مدارس وغیرہ سے نفرت کرنے اور کرنے والوں سے دور رہیے

4⃣
نیک عمل اللہ اور اس کے رسول کے طریقے سے ہٹ کر کرنا

عبادت کا کوئی بھی عمل خواہ وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر اس کا طریقہ کتاب وسنت ثابت نہیں ہوگا تو وہ قبول نہیں ہوگا
فرمایا
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ }
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔[محمد: 33]

عَنْ عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ مردودہے۔
[صحيح مسلم 3/

لھذا اپنی
نمازیں ،روزے ،تہجد ،حج ،زکوت وغیرہ سب عبادات اسی طریقے پر بجا لائیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ھے

5⃣
ریا کاری

انسان کے نیک اعمال کو ضائع کرنے والی بہت ہی خطرناک چیز ریاکاری ھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
” إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ ” قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ” الرِّيَاءُ، يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً ”
[مسند أحمد ط الرسالة 39/ 39 رقم23630]

’’ میں‌ تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں‌ وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو

{ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (4) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (5) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ (6) }
[الماعون: 4 – 7]
ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے (٤) جو اپنی نماز سے غافل ہیں (٥) جو ریاکاری کرتے ہیں

قیامت کے دن سب سے پہلے جن تین قسم کے لوگوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا وہ تینوں ریاکار ہونگے

(1) قرآن کا حافظ (جو حافظ بنتا ہے دکھاوے کے لئے ، خود کو قاری صاحب کہلوانے کے لئے نہ کہ اللہ کے دین کی خدمت کے لئے)

(2) شہید (جو اس لئے میدان جنگ میں لڑے کہ لوگ اس کو بہادر کہیں اور اس کی واہ واہ ہو ، نہ کہ اللہ کی راہ میں شہادت کی تمنا)

(3) مالدار (جو دکھاوے اورجھوٹی عزت کمانے کے لئے بہت صدقے خیرات اور صلہ رحمی کرتا ہو)

6⃣
تنہائی میں گناہ کرنا اور لوگوں کے سامنے نیک بننا

بعض لوگ ظاہر میں دین دار اور عبادت گزار ہوتے ہیں لیکن وہ تنہائی میں گناہوں سے اپنے دامن کو نہیں بچاتے۔ ایسے لوگوں کی دینداری انہیں کچھ کام نہ آئے گی۔ ان کی عبادت اور نیکیوں کی ﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی قیمت نہ ہوگی ۔
روز قیامت ان کی ساری نیکیاں بے وقعت و بے حیثیت اور رائیگاں ہوسکتی ہیں ۔

عَنْ ثَوْبَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ :
” لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي، يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ". قَالَ ثَوْبَانُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا ؛ أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ. قَالَ : ” أَمَا إِنَّهُمْإِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا ".

: سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا) اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم  کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں ) ابن ماجہ، اسے البانی نے صحیح کہا ہے

: إِذَا مَا خَلَوْتَ، الدَّهْرَ، يَوْماً، فَلَا تَقُلْ
خَلَوْتُ وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيبُ
کسی دن خلوت میں ہو تو یہ مت کہنا میں تنہا ہوں، بلکہ کہو: مجھ پر ایک نگران ہے
ولاَ تحْسَبَنَّ اللهَ يَغْفَلُ سَاعَةً
وَلَا أنَ مَا يُخْفَى عَلَيْهِ يَغِيْبُ
اللہ تعالی کو ایک لمحہ کیلیے بھی غافل مت سمجھنا، اور نہ یہ سمجھنا کہ اوجھل چیز اس سے پوشیدہ ہوتی ہے۔
اس لیے اپنے پروردگار کی اطاعت پر ثابت قدم بن جاؤ،

موجودہ دور میں تنہائی میں سب سے زیادہ گناہوں کا سبب موبائل فون ھے لہذا اس کے درست استعمال کو ہر صورت یقینی بنایا جائے

7⃣
فرض نماز چھوڑنا

اب تو رمضان کی برکت اور نیکیوں کے ماحول کی وجہ سے نمازیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا ھے
جو کبھی فجر نہیں پڑھا کرتے تھے وہ تہجد پڑھ رہے ہیں اور جنہوں نے کبھی قرآن کھول کر نہیں دیکھا تھا وہ دو دو تین تین قرآن ختم کر رہے ہیں
لیکن
یونہی رمضان گزرتا ھے تو عید کے دن سے ہی مسجدیں ویران ہو جاتی ہیں لوگ فرض نماز تک چھوڑ دیتے ہیں جسکی وجہ سے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
َ ” مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً حَتَّى تَفُوتَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ” .
جس نے بغیر عذر کے فرض نماز چھوڑ دی تو تحقیق اس کے عمل ضائع ہو گئے
[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » فِي التَّفْرِيطِ فِي الصَّلَاةِ … رقم الحديث: 3358]
السنن الصغير للبيهقي – الصفحة أو الرقم: 1/326 ، كشف اللثام – الصفحة أو الرقم: 2/25

: (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ) (البقرة: 238)
نمازوں کی حفاﻇت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو

حدیث:
عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي المَلِيحِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِصَلاَةِ العَصْرِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ»
(صحیح البخاری 1/ 115رقم 553 )
ابوقلابہ، ابوملیح سے روایت کرتے ہیں کہ ہم کسی غزوہ میں ابر کے دن بریدہ کے ہمراہ تھے، تو انہوں نے کہا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے، تو سمجھ لو کہ اس کے نیک عمل ضائع ہو گیا

8⃣

حرام مال کھانا

حرام خور چاہے جتنی مرضی عبادت کر لے وہ ہر گز قبول نہیں ہوگی

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ ” (صحیح مسلم 2/ 703 رقم 1015)
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا اللہ نے فرمایا اے رسولو! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں اور فرمایا اے ایمان والو ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پریشان بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو

9⃣
لوگوں پر ظلم کرنا ،خون بہانا ،گالیاں دینا ،کسی کو مارنا ،کسی کا ناجائز مال کھا جانا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ
مسلم
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے پوچھا: (کیا جانتے ہو مفلس کون ہے؟) صحابہ نے عرض کیا: ہمارے ہاں وہ شخص مفلس ہے جس کے پاس دولت اور ضروریات زندگی نہ ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میری امت میں  وہ شخص مفلس ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا، اور [ساتھ میں]اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال ہڑپ کیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا، تو ان میں سے ہر ایک کو اس کی نیکیاں دی دے جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور ابھی حساب باقی ہو گا  تو دوسروں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اِسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا) مسلم

ان کی مثال دنیوی امتحانوں کی منفی پیمایش ( negative marking) سے  دی جاسکتی ہے۔ جن میں غلط جوابات کے نمبر ،صفر نہیں بلکہ منفی ہوتے ہیں ،جو صحیح جوابات کے نمبر بھی کاٹ لیتے ہیں

0⃣1⃣
المن والاذی
کسی پر احسان نیکی اور صدقہ وغیرہ کرنے کے بعد اسے جتلانا یا تکلیف دینا
فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (البقرة: 264)
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وه اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے، ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راه نہیں دکھاتا

عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمَنَّانُ الَّذِي لَا يُعْطِي شَيْئًا إِلَّا مَنَّهُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْفَاجِرِ وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ
مسلم

1⃣1⃣
مسلمان بھائیوں سے قطع تعلقی اختیار کرنا

کوئی بھی دو مسلمان بھائی جو آپس میں تین دن سے زائد ناراض ہوں خواہ کتنی نیکیاں کرلیں اللہ تعالی انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
” لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ: فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ "

کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ (ناراضگی کی وجہ سے) چھوڑے رکھے۔ وہ دونوں ملتے ہیں تو یہ بھی منہ موڑ لیتا ہے اور وہ بھی رخ پھیر لیتا ہے۔ اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
صحیح البخاری: 6077

: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
” تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ وَاثْنَيْنِ، فَيَغْفِرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، لِكُلِّ امْرِئٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا امْرَأً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "

ہر سوموار اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، اللہ ﷯ اس دن میں ہر اس شخص کو معاف فرما دیتے ہیں جو اللہ ﷯ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا ہو، مگر وہ شخص جسکے اور اسکے بھائی کے درمیان بغض ہے (انہیں معاف نہیں کیا جاتا) ، کہا جاتا ہے ان دونوں کو رہنے دو، حتى کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو رہنے دو، حتى کہ یہ صلح کر لیں۔
صحیح مسلم: 2565

2⃣1⃣
زبان کا غلط استعمال
زبان سے غیبت چغلی اور اللہ تعالی کی نافرمانی والی باتیں کرنا انسان کے اعمال کو تباہ کر دیتیں ہیں۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنْ النَّارِ قَالَ لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَالَ ثُمَّ تَلَا ( تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ ) ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ
ترمذی

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوا، ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے؟ آپ نے فرمایا: ”تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو“۔ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے ( راستے ) نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا نماز ( تہجد ) پڑھنا“، پھر آپ نے آیت «تتجافى جنوبهم عن المضاجع» کی تلاوت «يعملون» تک فرمائی ۱؎، آپ نے پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتا دوں؟“ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول ( ضرور بتائیے ) آپ نے فرمایا: ”دین کی اصل اسلام ہے ۲؎ اور اس کا ستون ( عمود ) نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے“۔ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتا دوں؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: ”اسے اپنے قابو میں رکھو“، میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

🌹🌹🌹