نیکیوں میں آگے بڑھو
اہم عناصر :
❄مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے ❄جنتی شخص
❄میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ❄ہم پیچھے رہ گئے
❄نفع بخش سودا ❄آیت کے نزول پر فوری عمل ❄سلام کرنے جاتے ہیں
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [المائدہ: 48]
ذی وقار سامعین!
ایک مومن اور مسلمان کی زندگی میں صرف دینداری ہوتی ہے ، دنیا داری کا لفظ اس کی زندگی میں شامل نہیں ہوتا ، دنیا داری بس ایک ضرورت کے تحت اس کی زندگی میں شامل ہوتی ہے ، اس لئے ایک مومن اور مسلمان کو ہر وقت نیکیاں اکٹھی کرتے رہنا چاہیے ، اس کی زندگی کا مقصد نیکی کرنا ہونا چاہیے ، کیونکہ نیکی کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ، اس کا اندازہ چند آیات سے لگایا جا سکتا ہے:
❄مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ [النحل: 97]
❄لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ: ان لوگوں کے لیے جنھوں نے بھلائی کی اس دنیا میں بڑی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو کہیں بہتر ہے اور یقیناً وہ ڈرنے والوں کا اچھا گھر ہے۔ [النحل: 30]
❄مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ترجمہ:جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے جزا نہیں دی جائے گی، مگر اسی کی مثل اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ [الانعام: 160]
❄إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا
بے شک اللہ ایک ذرے کے برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر ایک نیکی ہوگی تو اسے دوگنا کر دے گا اور اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ [النساء: 40]
❄مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: جو شخص نیکی لے کر آیا تو اس کے لیے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو برائی لے کر آیا تو جن لوگوں نے برے کام کیے وہ بدلہ نہیں دیے جائیں گے مگر اسی کا جو وہ کیا کرتے تھے۔ [القصص: 84]
❄مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
"جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس سے بہتر بدلہ ہے اور وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔ اور جو برائی لے کر آئے گا تو ان کے چہرے آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔ تم بدلہ نہیں دیے جاؤ گے مگر اسی کا جو تم کیا کرتے تھے۔” [النمل: 90-89]
قران مجید میں بھی اللہ تعالی نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں؛
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ [المائدہ: 48]
آقا علیہ السلام نے احادیث میں بھی نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور نیکی کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
❄عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحْقِرَنَّ مِنْ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ ترجمہ: حضرت ابوذر سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: "نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے (مسلمان) بھائی کو کھلتے ہوئے چہرے سے ملو۔”[مسلم: 6690]
❄حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کردی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کردیا ہے ۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں دس گنے سے سات سوگنے تک نیکیاں لکھی ہیں اوراس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کرلیا تو اپنے یہاں اس کے لئے ایک برائی لکھی ہے۔ [بخاری: 6491]
پتہ چلا کہ اسلام کا منشاء اور چاہت یہ ہے کہ ایک مسلمان اور مومن زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل و کرم سے یہ بات سمجھیں گے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نیکیاں حاصل کرنے کی کتنی تڑپ تھی اور وہ کتنا بڑھ چڑھ کر نیکیاں حاصل کرتے تھے۔
مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا يَوْمَ بَدْرٍ كُلَّ ثَلَاثَةٍ عَلَى بَعِيرٍ فَكَانَ أَبُو لُبَابَةَ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ زَمِيلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَكَانَتْ إِذَا جَاءَتْ عُقْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَا: نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ قَالَ: «مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي وَمَا أَنَا بِأَغْنَى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا» .
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ، غزوہ بدر کے دن ہم تین تین آدمی ایک اونٹ پر سوار تھے ، ابولبابہ اور علی بن ابی طالب ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھی تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، جب (پیدل چلنے کی) رسول اللہ ﷺ کی باری آتی تو وہ عرض کرتے ، آپ کی طرف سے ہم پیدل چلتے ہیں ، آپ ﷺ فرماتے :’’ تم دونوں مجھ سے زیادہ قوی ہو نہ میں اجر حاصل کرنے میں تم دونوں سے زیادہ بے نیاز ہوں ۔‘‘ [مسند احمد: 3901 اسنادہ حسن]
جنتی شخص
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟”ابو بکر نے کہا :میں۔آپ نے فرمایا:”آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟”ابوبکر صدیق نے کہا:میں،آپ نے پوچھا:” آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟”ابو بکر نے جواب دیا:میں نے،آپ نے پوچھا:” تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟”ابو بکر نے کہا: میں نے۔رسول اللہ نے فرمایا:”کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتاہے۔” [مسلم: 2374]
میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي فَقُلْتُ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قُلْتُ مِثْلَهُ قَالَ وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قُلْتُ لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا
ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا ۔ چنانچہ میں نے ( دل میں ) کہا : اگر میں ابوبکر سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال ( آپ ﷺ کی خدمت میں ) لے آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ میں نے کہا : اسی قدر ( چھوڑ آیا ہوں ) اور پھر سیدنا ابوبکر اپنا کل مال ( آپ ﷺ کے پاس ) لے آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ کہا : میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔ تب مجھے کہنا پڑا ، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ۔ [ابوداؤد: 1678 حسنہ الالبانی]
ہم پیچھے رہ گئے
سیدناابو ہریرہ نے فرمایا کہ نادار لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیرورئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن مال ودولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کر تے ہیں۔ عمرہ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں ( اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے ) اس پر آپﷺ نے فرمایا؛
لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کروگے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالوگے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤگے سوائے ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح ( سبحان الله) تحمید ( الحمدلله) تکبیر ( الله اكبر) کہا کرو۔ [بخاری: 843]
نفع بخش سودا
سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
كَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّة
”جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔ ”
آپ ﷺ نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا:؛
یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُهُ بِنَخْلَة فِی الْجَنَّة فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ كَلِمَة تُشْبِهُهَا [مسند احمد: 11903صححہ الالبانی]
اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آؤ، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔
آیت کے نزول پر فوری عمل
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیرحاء ( ایک باغ ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول کریم ﷺ بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون اتری ( تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو ) تو ابو طلحہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیر حاءہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے پنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ [بخاری: 2318]
سلام کرنے جاتے ہیں
حضرت طفیل بن ابی کعب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتے تھے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے۔ طفیل کہتے ہیں جب ہم بازار میں پہنچتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر ایک ردی بیچنے والے پر اور ہر دکاندار پر اور ہر مسکین پر اور ہر کسی پر سلام کرتے۔ ایک روز میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا. میں نے کہا تم بازار میں جا کر کیا کرو گے؟ نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو۔ نہ کسی اسباب کو پہنچتے ہو. نہ کسی کا مول تول کرتے ہو۔ نہ بازار کی مجلسوں میں بیٹھتے ہو. اس سے بہتر ہے یہی بیٹھے رہو ، ہم تم باتیں کریں گے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا اے پیٹ والے (طفیل رضی اللہ عنہ کا پیٹ بڑا تھا) بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔ [مؤطا امام مالک: 1859 صحیح]