نماز کے لئے آرام و سکون سے جانا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلاَةِ وَعَلَيْكُم بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا (متفق عليه)
(صحیح بخارى: كتاب الأذان، باب لا يسعى إلى الصلاة وليأت بالسكينة والوقار، صحيح مسلم: كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار وسكينة والنهي عن اتياتها سعیاً)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لئے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہر حال) لازم پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَاهُ أَخبَرَهُ قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ جَلَبَةً فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا: اسْتَعْجَلَنَا إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ فَلَاتَفْعَلُوا، إِذا أَتَيْتُمُ الصَّلاةَ فَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا سَبَقَكُم فَأَتِمُّوا۔ (أخرجه مسلم).
(صحیح مسلم: کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار وسكينة والنهي عن إتیانها سعيا)
ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے خبر دی ہے کہ ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ ﷺ نے جلبہ: یعنی تیز چلنے کی آواز یا چیخ سنی تو فرمایا کہ یہ شور کیسا ہے ؟ تو صحابہ کرام نے کہا ہم لوگوں نے نماز کے لئے جلدی کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کرو، جب تم نماز کے لئے چلو تو سکون اور وقار کو لازم پکڑے رکھو، پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
تشریح:
نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد آنے کے کچھ آداب ہیں جن کی رعایت ہر نمازی کو کرنی چاہئے بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ پہلی رکعت یا کسی بھی رکعت کو پانے کے لئے انسان بہت ہی تیزی کے ساتھ مسجد میں آتا ہے اور اگر امام رکوع کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے قدموں کو تیزی سے رکھتا ہے یا کھانستا ہے تا کہ امام کو پتہ چل جائے کہ کچھ افراد رکوع میں شامل ہونا چاہتے ہیں تاکہ وہ رکوع میں دیر تک رہے۔ ایسا کرنا اچھا نہیں ہے کیونکہ اسے سوچنا چاہئے کہ وہ ایک اہم عبادت کے لئے نکلا ہے جس میں وہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے چلنے کے انداز کو پرسکون اور پُر وقار بنائے اور جتنی نماز اسے ملے اسے ادا کرے اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پوری کرے کیونکہ یہی چیزیں اس کی نماز میں خشوع و خضوع کا باعث ہوں گی۔
اللہ تعالی ہمیں نماز کے لئے اطمینان اور آرام سے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ نماز کے لئے سکون و اطمینان سے چلنے کا حکم ہے۔
٭ نماز کے لئے تیزی سے چلنا منع ہے اگر چہ رکوع پانے ہی کے لئے کیوں نہ ہو۔
٭ نماز کا جو حصہ مل جائے پڑھ لینا چاہئے اور جو حصہ چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کر لینا چاہئے۔
٭٭٭٭