نماز کی اہمیت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ فِیْ جَنّٰتٍ ۛؕ۫ یَتَسَآءَلُوْنَۙ۝۴۰
عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ۝۴۱
مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ۝۴۲
قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ۝۴۳
وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ۝۴۴
وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىِٕضِیْنَۙ۝۴۵
وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ۝۴۶
حَتّٰۤی اَتٰىنَا الْیَقِیْنُؕ۝۴۷
فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَؕ﴾ [المدثر: 40 تا 48]
کلمہ پڑھنے کے بعد انسان کے مسلمان ہونے کی سب سے بڑی نشانی نماز کی پابندی کرتا ہے۔ کیونکہ باقی تمام عبادات ہر کسی پر فرض نہیں اور ہر روز ادا نہیں کی جاتیں۔ زكوة صاحب نصاب پر سال کے بعد فرض ہوتی ہے۔ روزہ سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینے (رمضان) میں فرض ہے۔ حج صاحب استطاعت پر عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے۔ اس لیے یہ تمام عبادات مسلمان کی نمایاں نشانی اور کھلی پہچان نہیں بن سکتیں۔ صرف نماز ایک ایسی عبادت ہے جو دن رات میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ اور یہ مسافر پر بھی فرض ہے اور مقیم پر بھی فرض ہے یہ تندرست پر بھی فرض ہے اور بیمار پر بھی فرض ہے یہ امیر پر ادا فرض ہے اور غریب پر بھی فرض ہے۔ یہ حاکم پر بھی فرض ہے اور محکوم پر بھی فرض ہے یہ مرد پر بھی فرض ہے اور عورت پر بھی فرض ہے۔ یہ حالت امن میں بھی فرض ہے اور حالت خوف (جہاد و قتال) میں بھی فرض ہے تلواریں چل رہی ہوں۔ نیزے گھمائے جا رہے ہوں۔ تیروں کی بوچھاڑ ہو۔ بم برس رہے ہوں۔ ٹینک بارود برسا رہے ہوں توپیں آگ اگل رہی ہوں۔ ایسے سنگین حالات میں بھی نماز کی چھٹی نہیں ہے۔
اس لیے نماز ایک مومن مسلمان کی نشانی علامت اور پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرتا آپ اسے کلمہ پڑھانے اور عقائد و ایمانیات سکھلانے کے بعد سب سے پہلے نماز کی پوری تعلیم اپنے تھے۔[صحیح مسلم.]
لہٰذا آج کے خطبہ میں اہمیت نماز کو تین شکلوں میں واضح کیا جائے گا
1۔ خصوصیات نماز
2۔ نماز قائم کرنے کے فوائد و نتائج
3۔ نماز چھوڑنے کے نقصانات
1۔ خصوصیات نماز:
٭ نماز تحفہ و معراج: صحیحین میں اسراء و معراج کی مفصل روایت میں ہے کہ معراج کی رات آپﷺ کو رب ارض و سماء کی طرف سے جو تین تحفے ملے۔ ان میں ایک تحفہ یہ تھا کہ آپ پر اور آپ کی امت پر پچاس نماز میں فرض کی گئیں، پھر آپ حضرت موسی علیہ السلام کے مشورے پر بار بار اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تخفیف اور آسانی کا مطالبہ کرتے رہے۔ آخر کار پچاس میں سے صرف پانچ نماز میں رہ گئیں تو خالق کائنات نے کہا:
(هِی خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَىَّ) [جامع الترمذي، كتاب الصلاة، باب كم فرض الله على عباده من الصلوات (213) و احمد (161/3) و صحیح ترمذی (176)]
’’اب پچاس میں سے پانچ رہ گئی ہیں، (لیکن ہمارے ہاں یہ پچاس ہی ہیں) ہماری بات بدل نہیں جاتی۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ آپ کی امت پانچ نمازیں ادا کرے میں تو اب پچاس نمازوں کا دوں گا۔
غور کیجئے! اسلام کے تمام احکامات اوامر و نواہی، فرائض و واجبات اور عبادات و معاملات زمین پر نازل ہوئے۔ لیکن نماز وہ فریضہ ہے جو رب کائنات نے اپنے محبوب پیغمبر، خلیل ثانی، خاتم النبیین، سید المرسلین، جناب محمد رسول اللہﷺ کو ساتوں آسمانوں کے اوپر سدرۃ المنتہی کے قریب بلا کر بطور تحفہ عطاء فرمایا۔
٭ نماز تمام ادوار میں تمام آسمانی ادیان میں فرض کی گئی، جس طرح اذان کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں مذکور ہے کہ آپﷺ نے نماز کو ’’الصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ‘‘ کا نام دیا۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ نماز ہر دور میں ہر آسمانی شریعت میں نافذ کی گئی ہے۔
٭ نماز کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بينَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ) [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان إطلاق قسم الكفر على من ترك الصلاة (82)]
’’مسلمان بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘
٭ نماز دین اسلام کے ان بنیادی ارکان میں سے ہے جن پر اسلام کی باقی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ (بخاری و مسلم میں ہے) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [بُنِي الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَایْتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب بنى الإسلام على خمس (8) و مسلم (16)، والترمذي (269)]
’’اسلام (کے محل) کی بنیاد پانچ (ستونوں) پر رکھی گئی ہے یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
یعنی نماز ان بنیادی ستونوں میں سے ہے جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
٭نماز رسول اللہ ﷺ کی وصیت ہے: کتب حدیث میں حضرت علی بن ابی طالب، حضرت انس بن مالک اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام اور آخری لمحات میں بار بار تاکید فرماتے رہے:
(الصَّلَاةُ الصَّلَاةُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)
’’(اے امت مسلمہ) نماز کی پابندی کرنا اور غلام لونڈیوں کے حقوق کی پاسداری کرتا۔‘‘
بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تو یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ جب تک آپ ﷺ کی زبان اطہر میں بولنے کی سکت رہی آپ بار بار یہی فرماتے رہے: (الصَّلَاةُ الصَّلَاةُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ) [سنن ابن ماجه، كتاب الوصايا، باب وهل أوى رسول الله عنه (2697) و صحيح ارواء الغليل (2178)]
آج باپ دادا کی جائز ناجائز وصیتوں پر پہرہ دیا جاتا ہے لیکن پیغمبروں کے امام پوری اولاد آدم کے سردار جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تاکیدی وصیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
٭نماز تمام اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب عمل ہے: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں: میں نے رسول الله ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ محبوب اور پیارا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (الصَّلَاةُ لِوقْتِها) ’’وقت پر نماز ادا کرنا‘‘[جامع الترمذي، كتاب الصلاة، باب ماجاء في الوقت الأول من الفضل (170) و ابو داؤد(362)]
غور فرمائیے! یہ نماز کی کتنی بڑی خصوصیت ہے کہ نماز تمام اعمال سے بڑھ کر اللہ کے ہاں محبوب اور پسندیدہ عمل ہے۔
نماز قیامت کے دن نوز کامیابی کی دلیل اور ذریعہ نجات ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دن نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس نے نماز کی خوب پابندی کی تو یہ نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور (روشنی) کامیابی کی دلیل اور ذریعہ نجات ہوگی۔‘‘[مسند احمد (199/2) والدارمي (301/2) و مجمع البحرين (528)]
2۔ نماز قائم کرنے کے فوائد و نتائج:
1۔ نماز کی پابندی متقیوں کامیاب مؤمنوں اور عزت دار جنتیوں کی نشانی ہے۔ اللہ رب العزت سورة البقرہ کی ابتدائی آیات میں فرماتے ہیں:
﴿الٓمّٓۚ۝۱
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ۛۖۚ فِیْهِ ۛۚ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَۙ۝۲
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُونَ﴾ [البقرة: 1-3]
’’الف لام میم اس کتاب (کے منزل من اللہ تعالی ہونے) میں کوئی شک نہیں۔ پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ المؤمنون میں ارشاد ربانی ہے:
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَ﴾ [المؤمنون:1-2]
’’یقینًا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔‘‘
اور آیت نمبر9 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلٰوَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ﴾ [المؤمنون:9]
’’جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔‘‘
اور سورة المعارج آیت نمبر (34-35) میں ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ، أُولٰئِكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ﴾ [المعارج: 34-35]
’’اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گئے۔‘‘
2۔ نماز کی پابندی حصول رحمت کا ذریعہ ہے۔ سورہ نور آیت نمبر (56) میں ہے:
﴿وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ [النور: 56]
’’نماز کی پابندی کرو زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
3۔ نماز گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’پانچ نمازیں اور جمعہ کی نماز اگلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے اگلے رمضان کے روزوں تک ان (صغیرہ) گناہوں کو مٹا دیں گے جو ان کے درمیانی عرصہ میں ہوئے۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے‘‘[صحیح مسلم، كتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس (233) والترمذي (214)]
اور متفق علیہ روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار غسل کرتا ہو تو کیا اس (کے بدن) پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گی؟“
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے جواب دیا۔ اس کے (جسم پر) کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔
آپﷺ نے فرمایا:
’’اسی طرح پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ ان کے ساتھ گناہوں کو معاف کر دے گا۔‘‘[صحیح البخاری، کتاب مواقيت الصلاة، باب الصلوات الخمس كفارة (528) و صحیح مسلم (667)]
نماز اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان
کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو پس تم (سجدے کی حالت) میں کثرت کے ساتھ دعا کرو۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود، رقم: 1083]
اس حدیث کا یہ مطلب بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب نماز میں ہوتا ہے یعنی سجدہ بول کر نماز مراد لی گئی ہے۔ نماز اللہ کے ساتھ ہم کلامی و سر گوشی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز ادا کرنے) کے لیے کھڑا ہو تو وہ اپنے آگے نہ تھوکے اس لیے کہ وہ جب تک نماز میں رہتا ہے اللہ تعالی سے سرگوشی کرتا ہے۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب دفن الخاصة في المسجد، رقم: 416]
معلوم ہوا جس کے دل میں اللہ کی سچی محبت ہو گی وہ نماز میں ہرگز سستی نہیں کر سکتا کیونکہ جس سے محبت ہو اس سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے اور نماز اللہ کے ساتھ سرگوشی مناجات اور ہم کلامی ہے۔
نماز اللہ تعالیٰ کے دیدار کا ذریعہ ہے: حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا: ’’بلاشبہ تم اپنے پروردگار کو (قیامت کے دن) دیکھو گے جیسا کہ تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو تم اس کو دیکھنے میں کوئی تنگی نہیں پاؤ گے۔ پس اگر تم سے ہو سکے تو تم سورج طلوع ہونے سے پہلے کی نماز یعنی نماز فجر میں اور اس کے ڈوبنے سے پہلے کی نماز یعنی نماز عصر میں ہرگز کوتاہی نہ کرو (یعنی ان دونوں نمازوں کو اپنے وقت پر ضرور ادا کرو۔) پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت کی:
﴿وَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا﴾
جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اپنے رب کی تسبیح وتحمید سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے بیان کرو۔‘‘
یعنی طلوع شمس سے پہلے فجر کی اور غروب شمس سے پہلے عصر کی نماز پڑھو۔[صحيح مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاة الصبح والعصر]
نماز جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ ہے: صحیح مسلم میں ہے، حضرت ربیع بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے رات بھر مستعد رہتا تھا۔ آپﷺ کے پاس آپ کے وضو کا پانی اور دوسری ضرورت کی اشیاء مسواک وغیرہ) لاتا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’سوال کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں ﷺ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اس کے علاوہ (بھی تیرا کوئی سوال) ہے؟‘‘ میں نے کہا: بس یہی سوال ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(فَاَعِنِّى عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ) [صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث علیه (189) و نبوداود (1320) والبيهقي (486/2)]
’’تو تجھے اپنے نفس کے مقابلہ میں زیادہ نوافل ادا کر کے میری مدد کرنا ہوگی۔‘‘
یعنی تو بکثرت سجدے کر کے نفلی نمازیں ادا کر کے میری معاونت کر تاکہ میں تیری اس خواہش اور آرزو کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا اور سفارش کر سکوں۔
نماز دل کے سکون اور راحت کا ذریعہ ہے: امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کرتے تھے:
(أَرِحْنَا يَا بِلالُ) [سنن ابی داود، كتاب الادب، باب في الصلاة العتمة (1985) صحيح عند الألباني]
’’بلال اٹھو اذان کہو اور ہمیں راحت پہنچاؤ۔‘‘
لیکن آج لوگوں کو اذان سنتے ہی درد سر شروع ہو جاتا ہے سینے میں گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے اور نماز بارگراں نظر آتی ہے۔
نماز دکھوں دردوں اور پریشانیوں کا علاج ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
(كانَ النَّبِيُّ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى) [سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة باب وقت قيام النبيﷺ بالليل (1319) و صحیح ابی داود (261/1)]
’’کہ جب نبیﷺ کو کوئی کام غمناک کر دیتا تو آپ نماز پڑھتے۔‘‘
آج ہم دکھوں دردوں اور تکلیفوں کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن دکھوں دردوں کا یہ نبوی طریقہ علاج اختیار نہیں کرتے۔
نماز بے حیائی فحاشی و عریانی اور ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے۔ اللہ رب العزت سورة العنكبوت آیت نمبر (45) میں فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ [العنكبوت: 45)
’’بلا شبہ! نماز بے حیائی اور گناہ سے روکتی ہے۔‘‘
اس کی کم از کم شکل یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا دوران نماز تو گناہوں بے حیائیوں اور برائیوں سے بچا ہوتا ہے۔ اور اگر نماز خشوع خضوع کے ساتھ تمام شروط و آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کی جائے تو نماز کے بعد بھی اس کی یہ تاثیر باقی رہتی ہے اور یہ بات مشاہدے سے بھی ثابت ہے کہ نمازی آدمی بے نماز کی نسبت بہت سارے گناہوں سے محفوظ ہوتا ہے۔
تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ.
پابندی نماز کے یہ دس فوائد بطور نمونہ بیان کیے گئے ہیں ورنہ نماز کے مزید بہت سارے فوائد و منافع قرآن وسنت میں مذکور ہیں۔
3۔ نماز چھوڑنے کے نقصانات:
1۔ نماز نہ پڑھنا دخول جہنم کا موجب ہے۔ سورۃ المدثر میں رب کائنات ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ۝۳۹ فِیْ جَنّٰتٍ ۛؕ۫ یَتَسَآءَلُوْنَۙ۝۴۰ عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ۝۴۱ مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ۝۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ۝۴۳ وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ۝۴۴ وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىِٕضِیْنَۙ۝۴۵ وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ۝۴۶ حَتّٰۤی اَتٰىنَا الْیَقِیْنُؕ۝۴۷﴾ [المدثر: 39تا 47]
’’مگر دائیں جانب والے جنتوں میں ہوں گے۔ وہ مجرموں سے سوال کریں گے۔ کہ تمہیں کون سی چیز نے (جہنم کے طبقہ) سقر میں داخل کیا۔ تو وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہیں تھے۔ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ہم کھیلنے والوں کے ساتھ مل کر کھیلا کودا کرتے تھے اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے حتی کہ ہمیں موت آگئی۔‘‘
غور کیجئے! جہنمی خود دخول جنم کا سبب یہ بتلائیں گے کہ ہم نمازی نہیں تھے۔
2۔ نماز نہ پڑھنا ہر قسم کی سفارش سے محرومی کا ذریعہ ہے۔ گزشتہ مضمون کے آخر میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ﴾ [المدثر: 18]
’’ان (بے نمازوں) کو کسی قسم کی کوئی سفارش نفع نہیں دے گی۔‘‘
لمحہ فکریہ:
کسی قدر خطرناک سزا ہے کل قیامت کے دن آٹھ قسم کی سفارشیں ہوں گی۔ (امام الانبیاء کی سفارش، عام انبیاء ورسل کی سفارش، شہید کی سفارش، ملائکہ کی سفارش، قرآن کی سفارش، نابالغ بچے کی سفارش وغیرہ) لیکن بے نماز تمام قسم کی سفارشوں سے محروم رہے گا:
﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَؕ۝۴۸﴾ [المدثر: 48]
3۔ نماز میں فیل ہونے والا تمام عبادات میں فیل تصور کیا جائے گا سنن ابی داؤد میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا اگر نماز میں کامیاب ہو گیا تو پھر دوسری عبادات دیکھی جائیں گی اور اگر نماز میں فیل ہو گیا تو اللہ رب العزت فرمائیں گے۔ اس کے باقی اعمال والے رجسٹر بھی بند کر دو یعنی جو نماز میں فیل وہ تمام عبادات میں فیل۔‘‘[سنن النسائي، كتاب الصلاة، باب المحاسبة على الصلاة (466)]
4۔ عمدًا نماز چھوڑنا کفر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ تَرَكَ الصَّلٰوةَ مُتَعَمِّداً فَقَدْ كَفَرَ) [جامع الترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في ترك الصلاة (2621) و ابن ماجه (1079) صحیح]
’’جس شخص نے جان بوجھ کر (عمد ا ارادۂ قصداً) صرف ایک نماز چھوڑی اس کفر کیا۔‘‘
5۔ ایک نماز ضائع کر دینا گھر بار سب کچھ تباہ ہونے کے برابر ہے۔ متفق علیہ روایت ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الَّذِي تَفُوْتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَكَأَنَّمَا وَتِرَاهْلُهُ وَمَالُهُ) [صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب أثم من فاتك العصر، رقم: 552 ومسلم رقم 1417]
’’جس شخص سے عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کا گھر اور مال تباہ و برباد ہو گیا۔‘‘
لیکن آج بیسیوں اور سینکڑوں نمازیں ضائع کرنے والے بے حس بے پرواہ اور غافل ہو چکے ہیں وہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی تباہی و بربادی مول لے رہے ہیں اور کتنے سارے دنیاوی و اخروی فوائد و منافع سے محروم ہو رہے ہیں۔
6۔ نماز چھوڑنا تو کجا نماز میں سستی کرنا بھی منافقت ہے اللہ رب العزت سورة النساء آیت نمبر (142) میں فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ [النساء: 142]
”بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور وہ (نماز میں) اللہ کا ذکر تھوڑا ہی کرتے ہیں۔‘‘
اور رب ارض و سماء نے سورۃ الماعون آیت نمبر (4،5) میں فرمایا:
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ۝۴
الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْن﴾ [الماعون:4،5]
’’ان نمازیوں کے لیے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
’’یہ منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا رہتا ہے سورج (کے غروب ہونے) کا انتظار کرتا ہے۔ جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے (سرکے) دونوں کناروں کے درمیان ہوتا ہے تو منافق (نماز کے لیے) کھڑا ہوتا ہے اور جلدی جلدی چار رکعت ادا کرتا ہے ان میں بہت ہی کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب استحباب التبكير بالعصر (622)]
لیکن آج نماز میں یہ سستی لوگوں کا معمول بنا ہوا ہے بلکہ لوگ مستقل بے نماز ہو کر مسلم مؤمن، محب دین اور محب رسول کہلواتے ہیں جبکہ نماز میں سستی اور غفلت بھی منافق کی نشانی اور علامت ہے۔
7۔ نماز میں سستی صدقہ و خیرات کے قبول نہ ہونے کا سبب ہے۔ رب ارض و سماء نے سورہ توبہ آیت نمبر (54) میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰی وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ﴾ [التوبة: 54]

’’کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
استغفر الله! نماز میں سستی کرنا قبولیت صدقات و خیرات کی راہ میں رکاوٹ ہے:
8۔ نماز چھوڑنے سے اسلامی اخوت قائم نہیں رہتی۔ سورۃ توبہ آیت نمبر(11) میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ [التوبة:11]
’’اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم تو جاننے والوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔‘‘
معلوم ہوا نماز کی پابندی کے بغیر کوئی شخص اسلامی اخوت میں منسلک نہیں ہو سکتا اور مسلم معاشرے کا فرد نہیں بن سکتا۔
9۔ نماز چھوڑنے والے کا خطرناک انجام ہوگا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز پر پیشگی اختیار نہ کی اس کے لیے (قیامت کے دن) روشنی دلیل اور نجات نہیں ہوگی اور وہ قیامت کے دن قارون فرعون ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔‘‘[مسند أحمد (199/2) و الدارمي (301/2) و مجمع البحرين (528) حديث صحيح.]
اللہ اکبر! لمحہ فکریہ ہے! نماز کتنی ساری خصوصیات والی عبادت ہے اور نماز کی پابندی کسی قدر فوائد و منافع کی ضامن ہے اور نماز میں سستی اور کوتاہی دنیا و آخرت میں محرومی وسیاہ بختی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں پکا سچا باعمل نمازی مسلمان بنائے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔