نفلی روزے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة : 184)
پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
روزوں کے بعد روزے رکھتے رہنا قبولیت کی نشانی ہے
شيخ صالح بن فوزان الفوزان-حفظه الله تعالى-فرماتے ہیں:
"ﺭﻣﻀﺎﻥ میں اور رمضان کے علاوہ بھی نیک اعمال کی قبولیت کی علامات میں سے ہے کہ انسان نیکی کے بعد نیکی کرے۔ اگر ایک مسلمان کی حالت رمضان کے بعد بھی نیک ہو اور وہ اعمالِ صالحہ کی کثرت کرتا ہو تو یہ اس کے رمضان کے اعمال قبول ہونے کی علامت ہے۔
اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، نیکیوں کے بعد گناه کرے، یعنی رمضان کے جانے کے بعد وہ گناہوں، غفلتوں اور اللہ کی نافرمانی میں مشغول ہو جائے تو یہ رمضان کے اعمال قبول نہ ہونے کی دلیل ہے!”
[ ﻣﺠﺎﻟﺲ ﺷﻬﺮ ﺭﻣﻀﺎﻥ ❪١١٩❫ ]
مسلسل روزے رکھنے والوں کے لیے جنت میں خصوصی فلیٹ تیار ہیں
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرٰی ظُهُوْرُهَا مِنْ بُطُوْنِهَا وَ بُطُوْنُهَا مِنْ ظُهُوْرِهَا فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ هِيَ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ!؟ قَالَ هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَ أَدَامَ الصِّيَامَ وَ صَلّٰی لِلّٰهِ بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ ] [ ترمذي، صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ غرف الجنۃ : ۲۵۲۷، و قال الألباني حسن ]
’’جنت میں ایسے اونچے محل ہیں جن کے باہر کے حصے ان کے اندر کے حصوں سے اور اندر کے حصے باہر کے حصوں سے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ایک اعرابی نے اٹھ کر پوچھا : ’’اے اللہ کے نبی! وہ کن کے لیے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لیے جو پاکیزہ گفتگو کریں اور کھانا کھلائیں اور روزوں پر ہمیشگی کریں اور اللہ کے لیے نماز پڑھیں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘
أَدَامَ الصِّيَامَ : سے فرضی روزے مراد نہیں لیے جا سکتے بلکہ اس سے یہی مراد ہے کہ وہ فرضی روزوں کے علاوہ دیگر نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرنے والا ہو کیونکہ فرضی تو سب ہی رکھتے ہیں اور اگر یہاں بھی فرضی روزے ہی مراد لیں تو پھر یہ باقی لوگوں سے ممتاز کیسے ہوا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نفلی روزے رکھتے تو مسلسل رکھتے ہی چلے جاتے
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ فَيُقَالُ : لَا يُفْطِرُ. وَيُفْطِرُ فَيُقَالُ : لَا يَصُومُ (سنن النسائي |2359،صحيح)
رسول اللہﷺ بسا اوقات لگاتار روزے رکھتے تھے حتیٰ کہ کہا جاتا: آپ چھوڑیں گے نہیں اور کبھی چھوڑنے لگتے حتیٰ کہ کہا جاتا: آپ رکھیں گے نہیں
نوافل کے فوائد
01. نوافل، فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں
ظاہر سی بات ہے کہ جو شخص نوافل کا اہتمام کرتا ہے وہ فرائض کا اہتمام بالاولی کرے گا
جو عام حالات میں بڑھ چڑھ کر صدقہ و خیرات اور سخاوت کرتا ہے وہ فرض زکوٰۃ بھی بآسانی ادا کرلے گا
جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد حتی کہ تہجد اور إشراق کا خاص اہتمام کرتا ہے وہ فرض نمازیں بھی بآسانی ادا کرسکتا ہے
اسی طرح جو شخص پورا سال نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہے وہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے کبھی بھی نہیں گھبرائے گا
02. نوافل کا اہتمام کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ (صحيح البخاري |6502)
میرا بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں
03. نوافل، فرائض کی کمی پوری کرتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ ” (ترمذی:413، قال الألباني : صحيح)
قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے، اگر وہ درست ہوئی تو یقیناً و ہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا، پھر اگر فرائض میں کچھ کوتاہی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے نامہ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟ پھر اس کے سارے اعمال کا حساب اس طریقے پر ہوگا۔
گاڑی کے اضافی ٹائر (سٹپنی) کی مثال
گاڑی چار ٹائروں پہ چلتی ہے مگر ہر گاڑی والے نے اپنی گاڑی میں ایک پانچواں ٹائر بھی رکھا ہوتا ہے پانچویں ٹائر کا بوجھ کیوں برداشت کرتا ہے؟
صرف اس لیے کہ اگر ان چاروں میں سے کسی ایک کا مسئلہ بن گیا تو پریشانی میں پانچواں کام آجائے گا
اگر کسی سفر میں دس لیٹر فیول کی ضرورت ہو تو پندرہ لیٹر ڈلوا لیا جاتا ہے کہ اضافی پاس ہوگا تو ٹینشن نہیں ہوگی
لاہور سے کراچی جانا ہو اگر آنے جانے کا ٹوٹل خرچ دس ہزار ہے تو مسافر اپنی جیب میں بیس ہزار لے کر گھر سے نکلتا ہے اضافی دس ہزار کا بوجھ محض اس لیے برداشت کیا جاتا ہے کہ کسی ایمرجنسی پریشانی میں کام آئے گا
بعینہ یہی مثال نوافل کی ہے
اگر ہم آخرت کا سفر صرف فرائض کو لے کر کریں گے تو عین ممکن ہے راستے میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ جائے
لیکن
اگر نوافل بھی ساتھ ہوئے تو بہت امید ہے کہ یہ سفر بآسانی گزر جائے گا
اللہ عزو جل فرمائے گا :
دیکھو کیا میرے بندے کے نامہ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟
روزوں کے چند فضائل ملاحظہ کیجئے
01. روزے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ
’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘
02. روزے جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ. (نسائی : 2230، 2231)
’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘
03. جہاد کرتے ہوئے ایک روزہ رکھنے کی فضیلت
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنْ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا ( بخاري)
کہ جو شخص لوجہ اللہ ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے
04.روزہ دار کے لیے انتہائی خوشی کے دو لمحات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا :
إِذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ. (بخاری، : 1805،مسلم :1151)
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے اسے فرحت ہوتی ہے :
افطار کرے تو خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو روزہ کے باعث خوش ہوگا۔‘‘
05. اللہ کے نزدیک روزےدار کے منہ سے آنے والی خوشبو کی اہمیت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ (صحيح البخاري |1894)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔
06. قیامت کے دن روزہ سفارشی بن کر آئے گا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآَنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیَقُوْلُ الصِّیَامُ: اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ، قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ۔)) (مسند احمد: ۶۶۲۶)
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے اوقات میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا تھا، لہٰذا تو اب اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اور قرآن کہے گا: میں نے رات کے وقت اس کو سونے سے روکے رکھا تھا، لہٰذا اب تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، نتیجتاً دونوںکی سفارش قبول کی جائے گی۔
07.روزے دار کے لیے جنت میں خاص استقبالیہ لگایا جائے گا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”نمازی کو جنت میں داخل ہونے کے لئے ”باب الصلوٰۃ” سے بلایا جائے گا۔ جو مجاہد ہے اسے ”باب الجہاد” سے ندا دی جائے گی۔ جو شخص روزے دار ہے اسے ”باب الریّان” سے پکارا جائے گا۔ جو صاحب الصدقہ ہے اسے ”باب الصدقہ” سے جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"”إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَقُومُونَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ””.
، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔
چند نفلی روزے اور انکی فضیلت
01. شوال کے 6 روزے رکھیں اور 360 روزوں کا اجر حاصل کریں
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ ".
صحیح مسلم :1164، سنن الترمذي |759
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے پیچھے شوال کے چھے روزے رکھے تو یہ پورے سال کے روزے(رکھنے کی طرح) ہیں
شوال کے روزوں کا شیطان کو اہم پیغام
شوال کے روزوں سے گویا انسان شیطان کو مایوس کردیتا ہے کہ، وہ رمضان کے بعد انسان کو اللہ کی عبادت سے غافل کردے گا. بلکہ شوال میں بھی اللہ کی عبادت میں مصروف ومشغول ہو کر انسان یہ پیغام دیتا ہے، کہ وہ کسی خاص دن یا مہینے نہیں، بلکہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا چاہتا ہے۔
شوال کے روزے کب رکھنے چاہییں؟
02. شوال سے لیکر پورے مہینے میں ایک ساتھ ہی، یا الگ الگ کسی بھی وقت رکھے جاسکتے ہیں۔
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پورے شوال کے مہینہ میں جس طرح چاہے رکھ لیں، شروع، درميان، يا اخير میں مسلسل یا الگ الگ سب جائز ہے۔ مجموع الفتاویٰ (15/ 390)
رمضان کے کچھ روزے رہتے ہوں تو پہلے رمضان کے روزے رکھیں یا شوال کے
اگر رمضان کے روزےرہتے ہوں، تو پہلے وہ ادا کرنے چاہییں، پھر شوال کے روزے رکھیں، افضل اور بہتر طریقہ یہی ہے۔
یاد رہے، رمضان کی قضاء، اور شوال کے روزے، یہ الگ الگ رکھنے پڑیں گے. ایک رکھنے سے دوسرے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ دونوں ملا کر سال کے روزے بنتے ہیں۔
شوال کے روزوں کی قضاء نہیں ہے
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شوال کا مہینہ ختم ہونے کے بعد شوال کے چھ روزوں کی قضاء مشروع نہیں ہے، کیونکہ شوال کے چھ روزے سنت ہیں اور ماہ شوال کے ختم ہونے کے ساتھ ان کا وقت ختم ہو جاتا ہے خواہ عذر کی بنا پر نا رکھ سکے ہوں یا بلا عذر کے۔ مجموع الفتاویٰ (15/ 389)
اگر کوئی شخص عذر شرعی کی بنا پر شوال کے روزے مکمل نا کر سکے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جتنے دن روزہ رکھے ہیں ان شاء اللہ ان كا اجر ملے گا، اگر واقعی شرعی عذر کی بنا پر مکمل نہیں کر سکا ہے تو امید ہے مکمل اجر ملے لیکن بہر حال باقى روزوں کی قضاء نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (15/ 395)
کیا شوال کے روزوں اور سوموار جمعرات کے روزوں کو ایک نیت کے ساتھ جمع کرنا جائز ہے؟
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر شوال کے چھ روزے سوموار اور جمعرات کو رکھے جائیں تو دونوں اجر حاصل ہو جائیں گے شوال کے چھ روزوں کے بھی اور سوموار جمعرات کے روزوں کے بھی۔ (فتاوى نور على الدرب)
02. ذوالحجہ کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ (سنن أبي داود |2437)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے نو روزے رکھا کرتے تھے
نوٹ :اس سے مراد ذوالحجہ کے پہلے نو دن ہیں
03. عرفہ کا روزہ
اس مراد 9 ذوالحجہ کا روزہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ (صحيح مسلم |1162)
مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ یوم عرفہ کے روزے کی وجہ سے ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف کر دے گا
04. محرم کے روزے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ ؛ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ ؛ صَلَاةُ اللَّيْلِ ". (صحيح مسلم |1163)
رمضان کے مہینے کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں
05. یوم عاشوراء کا روزہ
اس سے مراد 9 محرم کا دن ہے اور بعض علماء کے نزدیک 9 اور 10 محرم کا روزہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ". (صحيح مسلم |1162)
مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ یوم عاشور کے روزے کی وجہ سے ایک گزشتہ سال کے گناہ معاف کر دے گا
عاشوراء کا روزہ رکھنے کا پختہ نبوی عزم
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ ؛ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ ". (صحيح مسلم |1134)
اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو ضرور 9 محرم کا روزہ رکھوں گا
06. شعبان کے روزے
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه (صحيح البخاري:1970)
کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کا تقریبا پورا مہینہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں
وَلَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا يَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا :
وَلَمْ أَرَكَ تَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ.
کہ آپ سب مہینوں کی نسبت شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہیں
تو آپ نے فرمایا :
” ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ". (مسند أحمد |21753،حكم الحديث: إسناده حسن)
اس مہینے میں اکثر لوگ روزوں سے غافل ہوتے ہیں جبکہ اس میں اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں
07. سوموار اور جمعرات کا روزہ
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
وَكَانَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمِ الْخَمِيسِ وَالِاثْنَيْنِ (مسند أحمد |24584)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات اور سوموار کے روزے کی خاص کوشش کیا کرتے تھے
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
” ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ، أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ (صحيح مسلم |1162)
میں اسی دن پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا تھا
سوموار اور جمعرات کو لوگوں کے اعمال رب تعالیٰ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں
اسامہ رضی اللہ عنہ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے تو ان سے ان کے غلام نے اس کی وجہ پوچھی کہ آپ بوڑھے ہونے کے باوجود یہ روزے کیوں رکھتے ہیں تو فرمانے لگے :
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوموار اور جمعرات کے روزے رکھا کرتے تھے اور جب آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تھی تو آپ نے فرمایا تھا :
” إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن أبي داود |2436)
کہ بندوں کے اعمال سوموار اور جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں
سنن نسائی میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” ذَانِكَ يَوْمَانِ تُعْرَضُ فِيهِمَا الْأَعْمَالُ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ". (سنن النسائي |2358)
کہ یہ وہ دو دن ہیں جن میں بندوں کے اعمال رب تعالیٰ کو پیش کیے جاتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّتَيْنِ ؛ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، (صحيح مسلم |2565)
لوگوں کے اعمال دو مرتبہ پیش کیے جاتے ہیں سوموار کے روز اور جمعرات کے روز
سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھلتے ہیں
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ : أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ". (صحيح مسلم |2565)
08 ہفتے اور اتوار کے دن کے روزے
ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے :
” إِنَّهُمَا يَوْمَا عِيدِ الْمُشْرِكِينَ، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أُخَالِفَهُمْ ". (مسند أحمد |26750)
کہ یہ مشرکین کی عید ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں
09. ایام بیض کے روزے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ ؛ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ (صحيح البخاري | 1981)
مجھے میرے دلی دوست (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین کاموں کی وصیت کی تھی :
01. ہر ماہ تین روزے رکھوں
02. إشراق کی دو رکعتیں پڑھوں
03. اور سونے سے پہلے وتر پڑھوں
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ ". فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ : { مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا }. الْيَوْمُ بِعَشَرَةِ أَيَّامٍ. (سنن الترمذي |762)
جس نے ہر ماہ تین روزے رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ ؛ هَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ ". (سنن النسائي | كِتَابُ الصِّيَامِ |2387)
سنن دارمی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” صِيَامُ الْبِيضِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِفْطَارُهُ ” (سنن الدارمي |1788،: إسناده صحيح)
ایام بیض سے کون سے دن مراد ہیں
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں :
” صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ، وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ ". (سنن النسائي |2420،حكم الحديث: حسن)
ہر ماہ تین روزے رکھنا گویا پورے سال روزے رکھنا ہے اور ایام بیض تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ ہیں
10.صومِ داودی، افضل ترین روزے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :
” فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ ” (صحيح البخاري |1976)
ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑو یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے اور یہ افضل ترین روزہ ہے
اور صحیح مسلم میں ہے آپ نے فرمایا :
” ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ” (صحيح مسلم |1162)
یہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے
11. ایک دن روزہ اور دو دن ناغہ
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو دن ناغہ کرنے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے (اسے بہت پسند کرتے ہوئے) فرمایا :
” لَيْتَ أَنَّ اللَّهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ ". (صحيح مسلم |1162)
کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی قوت عطا فرمائے
اور سنن نسائی میں ہے آپ نے فرمایا :
” وَدِدْتُ أَنِّي أُطِيقُ ذَلِكَ ". (سنن النسائي | كِتَابُ الصِّيَامِ |2387)
میرا دل کرتا ہے کہ میں ایسا کرنے کی طاقت پاؤں
12.نذر کے روزے
اگر کسی نے نذر مانی ہو کہ میرا فلاں کام ہو جائے یا فلاں مصیبت سے مجھے نجات مل جائے تو میں اتنے اتنے روزے رکھوں گا تو اگر وہ کام ہوجاتا ہے تو پھر اسے نظر پوری کرنا لازم ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا (الإنسان : 7)
جو اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہو گی۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ ". (صحيح البخاري |6696)
"جس نے نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا، اسے چاہئے کہ اللہ کی اطاعت (عبادت) کرے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے معصیت کا کام نہیں کرنا چاہئے۔”
کفارے کے روزے
13.قَسم کے کفارہ میں روزے
کسی کام کو کرنے کے ارادے اور نیت کے ساتھ قسم کھائے کہ میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا، پھر اگر وہ قسم پوری نہ کر سکے تو اس کا کفارہ اس طرح سے ہے کہ ۔
01.دس مسکینوں کو، عام روٹین میں گھروں میں پکنے والا درمیانے درجے کا کھانا کھلانا
02. یا انھیں کپڑے پہنانا
03. یا ایک گردن آزاد کرنا
پھر
اگر کوئی ان تینوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہ کرسکتا ہو تو تین دن کے روزے رکھے
فرمایا اللہ تعالیٰ نے :
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ (المائدة : 89)
14.نذر کے کفارے میں روزے
اگر کسی نے کوئی نذر مانی ہو اور اسے پورا نہ کر سکے تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كَفَّارَةُ النَّذْرِ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ ". (صحيح مسلم |1645)
نذر کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہی ہے
15. اپنے آپ پر کسی حلال چیز کو حرام کرنے کے کفارے میں روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر شہد (بخاري 4912) اور اپنی ایک لونڈی (نسائی 3411)کو حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا وہی کفارہ قرار دیا جو قسم کا کفارہ تھا
فرمایا اللہ تعالیٰ نے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (التحريم : 1)
اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (التحريم : 2)
بے شک اللہ نے تمھارے لیے تمھاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے اور اللہ تمھارا مالک ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے ۔
16. ظہار کے کفارے میں روزے
ظہار کا مطلب یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو کہہ دے کہ تو میرے لیے میری ماں(بہن، بیٹی) کی طرح حرام ہے
پھر اگر وہ اپنی بات سے رجوع پر تیار ہو تو کفارہ بالترتیب تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے :
01.اگر آدمی کے پاس طاقت ہو تو ہاتھ لگانے یعنی جماع سے پہلے ایک گردن آزاد کرے۔
02.اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو ہاتھ لگانے یعنی جماع سے پہلے دو ماہ پے در پے روزے رکھے
03. اگر ہاتھ لگانے سے پہلے دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنے کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (المجادلة : 3)
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (المجادلة : 4)
17.روزہ توڑنے کے کفارے کے روزے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أِنَّ النَّبِیَّ صَلَّ اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلاً فَطَّرَ فِی رَمَضَانَ أَنْ یُّعْتِقَ رَقَبَةَ أَو یَصُومَ شَھرَینِ أوْ یُطْعِم سِتِّینَ مِسْکِیْناً۔ (صحيح مسلم |1111)
’’رمضان میں جب ایک آدمی نے روزہ افطار کر لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یا تو غلام آزاد کرو یا پھر ساٹھ روزے رکھو یا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔‘‘
18.قتل خطا کے کفارے کے روزے
جب کوئی مسلمان غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دے تو اس مقتول مسلمان کے ورثاء کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں :
01.مسلمان ہوں
02. کافر ہوں (لیکن ایسے کافر کہ ان سے معاہدہ ہو یا ذمی ہوں)
03. حربی کافر ہوں
پہلی دو صورتوں میں دو حکم ہیں :
01. کفارہ
کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام ( مرد یا عورت) کو آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے
02. دیت یعنی خون بہا۔
تیسری صورت میں صرف ایک حکم ہے اور وہ کفارے کا حکم ہے اس میں مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ دشمن ہیں۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء : 92)
19.مناسکِ حج کی تکمیل سے پہلے احرام کھولنے کے کفارے کے روزے
شرعی حکم یہ ہے کہ حج یا عمرے کا احرام باندھ لینے کے بعد اس وقت تک سر نہ منڈواؤ (یعنی احرام نہ کھولو) جب تک کہ حج و عمرہ کے اعمال پوری طرح ادا نہ کر لو۔
لیکن اگر کسی بیماری یا عذر کی بنا پر (مناسک کی تکمیل سے پہلے ہی) سرمنڈوانے یعنی احرام کھولنے کی ضرورت پیش آ جائے تو سرمنڈوا کر تین چیزوں میں سے ایک بطور فدیہ انجام دو :
01. روزے
02. صدقہ
03. دم یعنی قربانی
فرمایا :
فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (البقرۃ :1969)
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمھیں اتنی زیادہ تکلیف ہو گئی ہے، کیا تمھارے پاس کوئی بکری (وغیرہ) ہے؟‘‘
میں نے کہا نہیں
تو آپ نے فرمایا :
’’تو تم تین روزے رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو نصف صاع (یعنی ایک کلو) اور سرمنڈوا دو۔‘‘ [ بخاری : 4517 ]
20.حج میں قربانی نہیں، تو دس روزے رکھو
جو لوگ مکہ کے رہائشی نہ ہوں بلکہ باہر سے عمرہ یا حج کے لیے آئے ہوں اگر تو وہ صرف عمرہ یا صرف حج (یعنی حج افراد) کریں پھر تو ان پر کوئی قربانی لازم نہیں آتی
لیکن
اگر وہ حج کے ساتھ ساتھ عمرہ بھی کریں (خواہ حج قران کی شکل ہو یا حج تمتع کی شکل ہو) تو چونکہ انھوں نے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ دو سفر کرنے کے بجائے ایک ہی سفر میں دونوں فریضے سرانجام دے دیے ہیں، لہٰذا یہ فائدہ اٹھانے پر انھیں لازمی قربانی دینا ہو گی جو کہ کم از کم ایک بکری ضرور ہے
اور اگر کسی کے پاس قربانی کی طاقت نہ ہو تو اسے ضرور دس روزے رکھنا ہوں گے، تین روزے ایام حج میں اور سات روزے جب اپنے گھر واپس جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
21. فوت شدہ کی طرف سے روزے
اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ ". (صحيح البخاري |1952)
جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے
22. چھوٹے بچوں کے روزے
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھوایا کرتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی چھوٹا بچہ رونے لگتا تو اسے کھلونا دے کر بہلاتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں
وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ (صحيح البخاري |1960)
معلوم ہوا کہ بطور مشق بچوں سے روزہ رکھوانا جائز ہے اگرچہ اس عمر میں وہ شرعی حکم کے مکلف نہیں ہوتے
23.غیر شادی شدہ حضرات کے لیے روزے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ (بخاری ،5066)
نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لئے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلیناچاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگا ہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑدے گا
نفلی روزہ بغیر کچھ کھائے پئے دن کے وقت بھی شروع ہو سکتا ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک روز میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا:
” يَا عَائِشَةُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ ؟ ".
’’کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘
میں نے کہا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ.
اے اللہ کے رسول ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے
تو آپ نے فرمایا:
” فَإِنِّي صَائِمٌ ". (صحيح مسلم |1154)
تب تو پھر میں روزے سے ہوں
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ پہلے بحالت روزہ نہ تھے کیونکہ آپ نے کھانا طلب کیا، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفلی روزے کی نیت میں دن چڑھے تک تاخیر کرنا جائز ہے
واضح رہے کہ نفلی روزے کی نیت دن میں اس وقت جائز ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافی کام یعنی فجر ثانی کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو، بصورت دیگر روزہ صحیح نہیں ہو گا۔ (فتاویٰ اصحاب الحديث)
نفلی روزہ جب چاہے توڑا بھی جا سکتا ہے
مہمان کی عزت افزائی، گرمی کی شدت ،کھانے کی خواہش یا اس طرح کے کسی اور سبب کی وجہ سے روزہ توڑنے کی ضرورت پیش آ جائے تو نفلی روزہ توڑا جا سکتا ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
"ہمارے پاس ہدیہ بھیجا گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،میں نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے اورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ محفوظ کرکے رکھا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"وہ کیا ہے؟”
میں نے عرض کی:
وہ حیس(کھجور،گھی اورپنیر سے بنا ہوا کھانا)ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسے لایئے”
تو میں اسے لے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھا لیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” قَدْ كُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا ". (صحيح مسلم |1154)
” میں نے روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔”
طلحہ نے کہا:
میں نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو انھوں نے کہا:
یہ اس آدمی کی طرح ہے جو ا پنے مال سے صدقہ نکالتا ہے،اگر وہ چاہے تو دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس کو روک لے۔
وہ چند ایام کہ جن میں روزہ رکھنا منع ہے
01. ہرروز روزہ رکھنا منع ہے
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم داؤدی رکھنے کی اجازت دی تو وہ کہنے لگے
إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
میں اس سے بھی زیادہ روزے رکھنے کی طاقت پاتا ہوں
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ". (صحيح البخاري |3418)
اس سے افضل کوئی روزہ ہے ہی نہیں
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّهْرَ ؟
اے اللہ کے رسول جو سارا سال روزے رکھے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے
تو آپ نے فرمایا :
” لَا صَامَ، وَلَا أَفْطَرَ "، أَوْ ” لَمْ يَصُمْ، وَلَمْ يُفْطِرْ ". (سنن الترمذي |767: صحيح)
اس نے نہ روزہ رکھا نہ چھوڑا
02. دو دن روزہ اور ایک دن ناغہ بھی درست عمل نہیں ہے
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر دو دن روزہ رکھنے اور تیسرے دن ناغہ کرنے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ ؟ (صحيح مسلم |1162)
بھلا اس کی طاقت کون رکھ سکتا ہے
اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ منع کی طرف تھا
03. عید کے دو دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَلَا صَوْمَ يَوْمَيْنِ ؛ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى (صحيح البخاري |1864)
دو دنوں یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی کا کوئی روزہ نہیں
04. ایام تشریق میں روزہ رکھنا منع ہے
ایام تشریق سے مراد گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہیں ان دنوں میں روزہ منع ہے کیونکہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ” (صحيح مسلم |1141)
ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں
صحيح مسلم میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے
"تَحْرِيمُ صَوْمِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ”
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے ساتھ اپنے باپ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے انہیں کھانا پیش کیا تو وہ کہنے لگے میں نے روزہ رکھا ہوا ہے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا :
كُلْ، فَهَذِهِ الْأَيَّامُ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِإِفْطَارِهَا وَيَنْهَانَا عَنْ صِيَامِهَا.
کھاؤ، یہ وہ دن ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان دنوں کے روزے چھوڑنے اور نہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے
قَالَ مَالِكٌ : وَهِيَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ (سنن أبي داود |2418)
مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس سے مراد ایام تشریق ہیں
05.اکیلے جمعے کا روزہ منع ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ (صحیح بخاری: 1985)
کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو.
یہ حدیث اس بات پر نص صریح ہے کہ اکیلے جمعہ کا روزہ رکھنا ممنوع ہے ہاں اگر اس کے ساتھ ایک پہلا دن یا بعد والا دن ملا لیا جائے تو جائز ہے
06. وصال کے روزے منع ہیں
وصال یہ ہے کہ آدمی ارادی طور پر دو یا اس سے زیادہ دن تک روزہ افطار نہ کرے، مسلسل روزہ رکھے نہ رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ (صحيح البخاري |1962)
نوٹ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود وصال کیا کرتے تھے لیکن آپ نے امت کو اس کی اجازت نہیں دی بالفاظ دیگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے
07. شک کے دن کا روزہ منع ہے
شک کے دن روزہ سے مراد شعبان کی تیسویں کا روزہ رکھنا ہے، جب شعبان کی انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے اور شک پڑ جائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟ اس شک کو بنیاد بنا کر اگلے دن تیسویں شعبان کا روزہ رکھنا شک کے دن کا روزہ رکھنا ہے
عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَامَ يَوْمَ الشَّكِّ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحيح البخاري | معلقا)
جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا ، اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی ۔
سنن ابو داؤد میں یہ تفصیل سے بیان ہے کہ صِلہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ہم حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے اور چاند نظر آنے کی خبر واضح نہ ہونے کی وجہ سے وہ دن مشکوک تھا ، ہمارے سامنے بکری کا گوشت پیش کیا گیا تو مجلس میں سے کچھ لوگ ایک طرف ہو گئے ، اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی
مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن أبي داود |2334)
08. استقبال رمضان کے روزے منع ہیں
رمضان سے ایک دو دن پہلے رمضان کے استقبال یا احتیاط وغیرہ کی نیت سے روزے رکھنا منع ہیں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ ". (صحيح البخاري |1914)
تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک دو دن پہلے روزے نہ رکھے ہاں کوئی ایسا آدمی جو روزے رکھتا چلا آ رہا ہے تو وہ ان دنوں میں بھی رکھ سکتا ہے
إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ….. :سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی جس کی پہلے سے سوموار، جمعرات کو روزہ رکھنے کی روٹین ہے اور اتفاقی طور پر رمضان سے ایک روز پہلے یہ دن آ گیا یا وہ صوم داؤدی کا فاعل ہے یا اس نے کوئی نذر مان رکھی تھی یا کوئی کفارہ پڑ گیا ہے تو ایسا شخص رمضان سے ایک دو دن پہلے بھی روزہ رکھ سکتا ہے
09.پندرہ شعبان کا خاص روزہ رکھنا درست نہیں ہے
ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے خاص پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو
جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں
10.بیوی، اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے
شادی شدہ عورت کا شوہر جب حاضر ہو تو اسے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
” لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ". (صحيح البخاري |5192)
شوہر موجود ہوتو عورت اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے
یاد رہے کہ یہ حکم نفلی روزے سے متعلق ہے فرضی یعنی رمضان کا روزہ رکھنے کے لیے شوہر سے اجازت ضروری نہیں ہے
11.عورت اپنے مخصوص ایام میں روزہ نہ رکھے
عورت جب اپنے مخصوص ایام سے گزر رہی ہو تو اس دوران اس کے لیے نفلی اور فرضی ہر طرح کے روزے رکھنے منع ہیں
ہاں البتہ یہ ہے کہ فرضی روزوں کی بعد میں قضاء دے گی