نفلی روزوں کی فضیلت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴﴾ (البقرة: 184)
شریعت اسلامیہ میں اکثر عبادات دو قسموں پر ہیں، فرضی عبادات اور نفلی عبادات۔
فرضی عبادات:
فرضی عبادات وہ ہیں جو انسان پر فرض واجب اور ضروری ہیں، جس طرح پنجگانہ نماز زکوۃ اور ماہ رمضان کے روزے وغیرہ اور نفلی عبادات وہ ہیں جو انسان پر فرض اور واجب تو نہیں لیکن ان کی زبردست ترغیب دی گئی ہے اور ان پر بھاری اجر وثواب کی بشارت اور خوشخبری سنائی گئی ہے۔ جس طرح نمازتہجد، نماز ضحی، سنن راتبہ، نفلی صدقه و خیرات اور نفلی روزے وغیرہ۔
آج کے خطبہ جمعہ میں نفلی عبادات میں سے صرف نفلی روزوں کا تذکرہ کیا جائے گا کیونکہ تمام نفلی عبادات کی نسبت نفلی روزوں کا اہتمام کرنے والے لوگ بہت کم ہیں حالانکہ نفلی روزوں کی فضیلت دوسری بہت ساری نفلی عبادات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
قرآن وحدیث میں نفلی روزوں کی فضیلت دو طرح سے بیان کی گئی ہے:
1۔ مجموعی فضیلت 2۔ جزوی فضیلت
پہلے نفلی روزوں کی مجموعی اور عمومی فضیلت آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں:
نفلی روزوں کی مجموعی فضیلت:
قرآن کریم میں کئی مقامات پر نیک بندوں کے خصائل حمیدہ اور اوصاف جمیلہ میں بکثرت نفلی روزے رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سورہ التوبہ آیت نمبر 112 میں فرماتے ہیں:
﴿ اَلتَّآىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [التوبة: 112]
’’(مومن بندے) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ہیں اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے۔‘‘
اور اللہ رب العزت سورۃ الاحزاب آیت نمبر 35 میں فرماتے ہیں:
﴿ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىِٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۳۵﴾ [الاحزاب:35]
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والیاں ان (سب) کے لیے اللہ تعالی نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
غور فرمائیے! ان دونوں مقامات پر رب ارض و سماء نے اہل ایمان کی خوبیوں خصلتوں اور اچھی صفتوں میں ایک اچھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ بکثرت روزے رکھتے ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں روزوں کی مجموعی فضیلت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔
متفق علیہ حدیث ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازے کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے اس دروازے سے صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب الريان للصائمين (1896) و مسلم (1152) والترمذي (765) و ابن ماجه (1640)]
اور بخاری ومسلم کی ہی دوسری روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’آدم کے بیٹے کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یعنی حدیث قدسی ہے کہ سوائے روزہ کے بلاشبہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ انسان اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری رضا مندی کے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی جب اس کی اس کے پروردگار سے ملاقات ہوگی اور روزے دار کے منہ کی مہک اللہ کے ہاں کستوری کی مہک سے بہتر ہے اور روزہ (گناہوں سے) محفوظ رکھتا ہے اور جب تم نے روزہ رکھا ہو تو فحش گفتگو سے احتراز کیا جائے اور نہ جھگڑا کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اسے گالیاں دے یا اس سے لڑائی کرے تو اسے (معذرت کرتے ہوئے) کہے، میں روزے سے ہوں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب هل يقول إني صائم اذا شتم (1904)]
نفلی روزوں کی جزوی اور انفرادی فضیلت:
رسول اللہ ﷺ نے مختلف مہینوں اور دنوں کے نفلی روزوں کی مختلف انداز میں فضیلت اور شان بیان فرمائی ہے۔
ماہ محرم کے نفلی روزے:
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ) [صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب فضل صوم المحرم (1163) وابوداؤد (2429) والترمذى (740) واحمد (342/2)]
’’رمضان کے بعد زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے (نزدیک) محرم کے ہیں۔‘‘
لیکن آج لوگوں نے ماہ محرم میں بے شمار بدعات وخرافات بنا رکھی ہیں اور ان بدعات و خرافات میں خوب کھایا اور کھلایا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس مہینے میں بکثرت روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔
ماہ شعبان کے روزے:
بخاری ومسلم کی روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بیان کیا:
(كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا) [صحيح البخاري، كتاب الصيام، باب صوم شعبان (1969) و مسلم (1156) و ابوداؤد (2434)]
’’کہ آپ شعبان کے اکثر دنوں کے روزے رکھتے تھے اور شعبان کے صرف چند دنوں کے روزے نہیں رکھتے تھے۔‘‘
لیکن آج لوگوں نے ماہ شعبان کو بدعات وخرافات اور آتش بازی کا مہینہ بنا لیا ہے اور جو کام رسول اللہ ﷺ اس مہینے میں کیا کرتے تھے (یعنی بکثرت نفلی روزے رکھنا) وہ کام آج لوگ نہیں کرتے۔ الٹا آتش پرستوں کی نقل میں آتش بازی جیسا شیطانی کھیل کھیلتے ہیں۔ اور شب براءت جیسی بدعات و خرافات پر پہرہ دیتے ہیں۔ اور دعوئی محبت رسول ﷺ کا کرتے ہیں۔
ماہ شوال کے چھ روزے:
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے سال بھر روزے رکھئے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صوم سنة أيام من شول . (1164)]
بعض لوگ شوال کے ان چھ روزوں کے بارے ایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان روزوں کی ابتداء عید کے دوسرے دن سے کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ بلکہ ماہ شوال کے اندر اندر جب بھی یہ روزے رکھے یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی۔
عشرہ ذوالحجہ کے روزے:
سنن نسائی کی حدیث ہے حضرت حفصہ رضی اللہ تالی عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ چار کام کبھی نہیں چھوڑتے تھے:
1۔ عاشوراء کا روزہ
2۔ ماہِ ذو الحجہ کے پہلے عشرے کے روزے۔
3۔ ہر مہینے میں تین روزے۔
4۔ فجر سے پہلے دوسنتیں۔[سنن النسائي، كتاب الصيام، باب كيف يصوم ثلاثة أيام من كل شهر(220/41)]
ان دس دنوں کے اعمال صالحہ کی فضیلت:
صحیح البخاری کی ایک حدیث میں ہے جس کے راوی حبر الامہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ہیں:
(مَا مِنْ أَيَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ العشرة) [سنن أبي داؤد، كتاب الصيام، باب في صوم العشر (2434) والترمذي (158/2) و ابن ماجه (1731)]
’’کسی دن کا کوئی عمل صالح اللہ تعالی کو اتنا پیارا اور محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے دس دنوں کا نیک عمل اللہ کو پیارا اور محبوب ہے۔‘‘
عاشوراء کا روزه:
صحیح مسلم کی حدیث ہے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر. (1162) و ابوداؤد (2325) واحمد (296/5)]
سبحان اللہ! کتنی بڑی فضیلت ہے کہ ایک روزے سے سال بھر کے (صغیرہ) گناہوں کی بخشش ہو جائے ۔
آج لوگ عاشوراء والے دن لوگوں کو زبردستی پانی پلاتے ہیں، شیرینی کھلاتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے تو اس دن روزہ رکھا ہے۔ یہ عجیب محبت رسول ﷺ ہے۔
یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) کا روزہ:
صحیح مسلم کی روایت ہے نبیﷺ نے عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق فرمایا:
’’مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ اس سے پہلے سال اور اس کے بعد کے سال کا کفارہ ہے۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام …. (1192) و ابن ماجه (1730) والحميدي (429)]
اس دن کی اور بھی بڑی فضیلت کتب حدیث میں موجود ہے۔
سوموار اور جمعرات کے دن کا روزہ:
حضرت ابو قتادہ میں اور کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے سوموار کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا آپ ﷺ نے فرمایا:
(فِيْهِ وَلِدْتُ، وَفِيهِ انْزِلَ عَلَّى) [صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر (1162)]
’’میں اس دن پیدا ہوا اور اس دن ہی مجھ پر وحی نازل کی گئی۔‘‘
اور ترمذی میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَأُحِبُّ أَنْ تُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ) [سنن ابی داؤد، كتاب الصوم، باب في صوم الاثنين والخميس (2436) و احمد (201/5)]
’’سوموار اور جمعرات کے دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میرا روزہ ہو۔‘‘
اللہ اکبر! رسول اللہﷺ نے تو اپنی پیدائش والے دن روزہ رکھا لیکن آج محبت رسول ﷺ کے کھوکھلے دعویداروں نے اس دن کو عید اور جشن کا دن بنا دیا ہے عجیب عقیدت ہے؟
جمعہ کے دن کا روزہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جمعہ کے دن کا روز ہ بہت کم ہی چھوڑتے تھے۔ [جامع الترمذي، كتاب الصوم، باب ما جاء في صوم يوم الجمعة، رقم: 742]
ہر مہینے میں تین روزے رکھنا:
صحیح مسلم میں حدیث ہے حضرت معاذi عدویہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ مہینے میں کون سے دنوں کے روزے رکھتے تھے ؟ انہوں نے بتایا آپ کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے کہ مہینے کے کن دنوں کے روزے رکھیں۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاث أيام من كل شهر (2744) والترمذي (763) و ابوداؤد (2453) و این ماجه (1709)]
یوں زیادہ تر آپ یہ تین روزے چاند کی13،14 اور 15 تاریخ کو رکھا کرتے تھے۔ ان روزوں کی آپ بڑی ترغیب دیا کرتے تھے آپ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:
(صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ)
’’ ہر ماہ میں تین روزے رکھنا یہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہیں۔‘‘
اس لیے:
(صُمْ كُلَّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ)
’’ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر (2746) والترمذي (749)]
یہ صوم داؤدی ہے، یعنی حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک
دن ناغہ کرتے تھے۔
ممنوعه نفلی روزے
صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے ہاں البتہ جب اس سے پہلے یا اس کے بعد والے دن کا روزے رکھے۔‘‘[صحيح البخاري كتاب الصيام، باب صوم يوم الجمعة (1975) ومسلم (1144) والترمذي (119/3)]
اور صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’راتوں میں سے جمعہ کی رات قیام کے ساتھ اور دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ خاص نہ کیا کرو۔ ہاں! اگر اس تاریخ کو تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھتا تھا تو پھر درست ہے۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الصيام، باب كراهة صيام يوم الجمعة منفردا (1143) والبيهقي (302/4)]
عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
(نَهَى رَسُولُ اللَّهِ مَا عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ) [صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب صوم يوم الفطر (1991) وابن ماجه (1721) واحمد (34/3)]
’’نبی میں ہم نے عید الفطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘
اور صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’عید الفطر اور عید الاضحی کے دودنوں کے روزے (جائز) نہیں ہیں۔‘‘[بخاری، الصوم، باب صوم يوم الفطر (1991) ومسلم (1138) و ابن ماجه (1721)]
عیدالاضحیٰ کے بعد تین دن (جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں) کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ایام تشریق (11،12،13 ذو الحجہ کے دن) کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔‘‘[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب النهي عن صوم يوم الفطر.]
صرف ہفتے کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے:
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ اپنی بہن صماء سے بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ہفتہ کے دن روزہ نہ رکھو مگر وہ روزہ جو تم پر فرض ہے اگر تم میں کوئی شخص کھانے کو کچھ نہیں پاتا سوائے انگور کے چھلکے کے یا کسی درخت کی ٹہنی کے تو اسے ہی چبا لے تاکہ ہفتہ کا روزہ ثابت نہ ہو۔[صحیح سنن أبی داؤد، كتاب الصوم، باب النهي أن يخص يوم السبت يصوم (2116) والترمذي (744) والدارمي (19/2) و ابن ماجه (726)]
سال بھر مسلسل روزے رکھنا ممنوع ہے:
اس کے متعلق تو رسول اللہﷺ نے بڑے سخت الفاظ ارشاد فرمائے:
(لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ) [صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر (1159) و احمد (164/2)]
یعنی اسے ایک روزے کا بھی ثو اب نہیں ملے گا۔
گویا کہ ’’اس نے نہ روزہ رکھا نہ افطاری کی۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
(لَا صَامَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ) [صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب صوم داوه (1979) و مسلم (1159) و ابن حبان (3571) و احمد (164/2)]
’’جس نے ہمیشہ سال بھر روزے رکھے اس نے (یوں مجھے) روزہ رکھا ہی نہیں۔‘‘
من گھڑت نفلی روزے:
بعض لوگوں نے اپنی طرف سے بعض روزے بنا رکھے ہیں۔ مثلاً:
معراج شریف کا روزہ:
قرآن وسنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں یہ بدعت ہے اس پر اجر و ثواب کی بجائے دوسری نیکیوں کے ضائع ہونے کا امکان ہے۔ معراج کا روزہ کہاں سے آ گیا۔ جبکہ واقعہ معراج کی تاریخ ہی قرآن وحدیث میں کہیں درج نہیں کہ کس مہینے کی کون کی تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا۔
شب براءت کا روزه:
ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھنے کا ثبوت تو کتب حدیث میں موجود ہے جس طرح آپ آج کے خطبہ میں بھی سن چکے ہیں) لیکن اس ماہ میں صرف شب براءت (نصف شعبان) کا روزہ رکھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں یہ بدعات و خرافات میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وسنت کے مطابق بکثرت نفلی روزے رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور بدعات و خرافات سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔