نکاح کے مسائل

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً﴾ (رعد: 138)
’’اور آپ (ﷺ) سے پہلے ہم نے بہت سے رسولوں کو بھیجا۔ اور ان کو ہم نے بیویاں عنایت کیں اور اولاد بھی عطا کی۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ ہر نبی اور رسول نے نکاح کیا ہے اور ان کی اوار بھی پیدا ہوئی ۔ یہ نکاح کرنا تمام نبیوں کی سنت مستمرہ ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھے ۔[1]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصُّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ رِجَاء)[2]
’’اے نو جوانو! جو تم میں سے نان و نفقہ اور نکاح کی طاقت رکھتا ہو۔ اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نظر کو نیچی رکھتا ہے اور بدکاری سے محفوظ رکھتا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو تو اسے روزہ رکھنے چاہئے اسلئے کہ اس سے اس کی نفسانی خواہشیں دب جائے گی۔“
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مسلم کتاب النكاح باب استحباب النكاح۔
[2] صحیح بخاري، کتاب النكاح، باب من لم يستطع الباءة فليصم (66…)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ثلاثة حق علي الله عونهم المكاتب الذي يديد الاداء، الناكح الذي يريد العفاف، والمجاهد في سبيل الله)[1]
تین شخصوں کی اعانت اللہ تعالی کے ذمہ ضروری ہے۔ غلام مکاتب جو مال کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اور نکاح کر کے بارئی سے بچنا چاہتا ہو۔ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد۔‘‘
(اذا تزوج العبد فقداستكمل نصف الأيمان فليتق الله في النصف الباقي)[2]
’’جب بندہ نکاح کر لیتا ہے تو آدھے ایمان اور دین کو پورا کر لیتا ہے اب وہ باقی آدھے ایمان کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
(تزوجو الودود ال……………….)
’’زیادہ اولاد جننے والی اور محبت کرنے والی عورت سے نکاح کرو۔ کیونکہ میں تمہاری وجہ سے امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(إذا مات الانسان انقطعت عمله الا من ثلاثة إلا من صدقة جارية او علم ينتفع به او ولد صالح يدعو له)[2]
’’انسان کے مر جانے کے بعد اس کے سارے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن ان تین چیزوں کا برابر ثواب ملتا رہے گا۔ صدقہ جاریہ، نفع بخش علم اورنیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرے۔‘‘
ان حدیثوں سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
(1) نکاح کرنے سے آدمی زنا بد کاری اور نظر بازی سے محفوظ رہتا ہے۔
(2) اللہ تعالی اس کا معینو مدد گار رہتا ہے ۔
(3) اپنے آدھے دین اور ایمان کو بچا لیتا ہے۔
4۔ اس سے اولاد پیدا ہو گی ۔ امت محمدیہﷺ میں اضافہ ہوگی۔ جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو دیگر امتوں پر مباحات کا موقع ملے گا۔
(5) اس سے اللہ اور رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ گناہوں سے پاک وصاف ہو کر اللہ تعالی سے ملے گا۔
(6) اس سے اگر نیک اولاد پیدا ہوگی تو مرنے کے بعد دعا کرتی رہے گی۔ جس کے سبب سے ماں باپ کو ثواب ہوتا رہے گا۔
(8) اگر اولاد بچپن میں مرگئی تو والدین کے حق میں سفارش کرے گی ۔ اللہ تعالیٰ اس کی سفارش منظور فرما کر والدین کو جنت میں داخل فرمائے گا۔
(9) اس سے دل کو راحت ہوتی ہے اور نفس کی خواہش پوری ہوتی ہے جس سے زندگی آسانی سے گزر جاتی ہے۔
(10) کھانا پکانے اور دیگر امور خانہ داری میں اس سے امداد ملتی ہے۔
(11) بیوی بچوں کی تربیت اور نان و نفقہ کی تکلیف برداشت کرنے کی وجہ سے اجر عظیم اور ثواب جزیل کا مستحق ہو جاتا ہے۔
(12) اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَمُ تَرَ لِلْمُتَحَابِينِ مِثْلَ النِّكَاح)[1]
’’نکاح کے مثل محبت دو محبت کرنے والوں میں اور کسی چیز میں نہیں دیکھو گے۔“ نکاح ہی جانبین میں محبت کرنے کا ذریعہ ہے۔
(13) نکاح کی عام مہذب اور متمدن قوموں میں اسلامی نکاح کا رواج نہیں ہے لیکن اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا ۔
(14) نکاح نہ کرنے سے دنیا میں بہت فتنہ وفساد پھیلتا ہے۔ نکاح سے فتنہ دب جاتا ہے۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا:
(إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُم مَّنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضُ …….)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن ماجه: كتاب النكاح، باب ماجاء في فضل النكاح (1847)
[2] ترمذي، کتاب النکاح باب من ترضون دينه فزوجوه۔ (169/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب کوئی ایسا نیک چلن اور دیندار آدمی تمہارے پاس نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اخلاق سے تم راضی ہو تم اس کا نکاح کر دو۔ اگر نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔‘‘
نکاح کرنا فرض، سنت اور حرام بھی ہے۔ شہوت کے غلبہ کی وجہ سے اگر زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ اور حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہے اور نان و نفقہ اچھی طرح ادا کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا سنت موکدہ ہے۔ ایسی صورت میں نکاح نہ کرنے پر گنہگار ہوگا۔ یہ تقریباً تمام انبیاء کی سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جونکاح سے اعراض کرے وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔ اور اگر زنا کا اندیشہ ہے تو زنا سے بچنے کے لئے نکاح کرنا فرض ہے اور اگر وہ نان و نفقہ کی طاقت بھی نہیں رکھتا اور نہ زوجیت کے حق ہی کو ادا کر سکتا ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔
نیک سیرت و نیک صورت کنواری محبت کرنے والی عورتوں سے نکاح کرنا افضل ہے یعنی چال چلن کی اچھی دیندار اور خوبصورت دوشیزہ ہو۔ اولا د جننے والی ہو۔ بانجھ نہ ہو کم مہر والی اور کم خرچ والی، نسب والی اور اپنے خاوند سے محبت کرنے والی ہو۔
رسول اللهﷺ نے نیک اور دین دار سے نکاح کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
(تنْكَحُ الْمَرَاةُ لِاَرْبَعِ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظُفَرُ بِذَاتِ الدِّينِ.)[2]
’’ان چار باتوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال اور اس کے حسب و جمال اور دین کے سبب سے تم دین والی کو ترجیح دے کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرو۔“
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
(عَلَيْكُمْ بِالْاَ بْكَارِ فَإِنَّهُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا وَ أَنْتَقُ أَرْحَامًا وَارْضَى بِالْيَسِيرِ)[3]
’’تم دوشیزہ اور کنواریوں سے نکاح کرو۔ اس لئے کہ وہ شیریں دہن اور زیادہ بچے جنے والی اور تھوڑی سی چیز سے زیادہ خوش ہونے والی ہوتی ہیں۔“
اور فرمایا:
(إِنَّ الدُّنْيَا كُلَّهَا مَتَاعٌ وخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأةُ الصَّالِحَةُ.)[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، کتاب النکاح باب الترغيب في النكاح (5063)
[2] بخاري، کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين (5090)
[3] ابن ماجه ،کتاب النکاح باب تزويج الابكار (1861)
[4]صحیح مسلم: کتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دنیا کی سارہ چیزوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ فائدے کی چیز نیک عورت ہے۔‘‘
شرعی حیثیت نے جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے تو اسے دیکھ لینا مستحب ہے اور رسول الله ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُو إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَل)[1]
’’جب کسی عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو تو اگر دیکھنا ممکن ہو تو دیکھ لینا چاہئے“
رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر عرض کیا کہ حضور میں ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا:
(هَلْ نَظَرْتَ إِلَيْهَا) ’’تم نے اسے دیکھ بھی لیا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
(فَانظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أحْرٰى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا)[2]
’’تم دیکھ لو۔ اس سے تم دونوں کے درمیان محبت والفت قائم رہے گی۔‘‘
اور اس کے علاوہ کسی اور اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمان مرداپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ ( نور )
رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی مرد کی ستر یعنی شرمگاہ کون دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کی ستر کی طرف دیکھے۔ اور جس لڑکی سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے تو اس کی رضا مندی کو معلوم کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سے اجازت نہیں لی گئی ۔ اور اس نکاح سے اس کی رضا مندی ظاہر نہیں ہوئی تو یہ نکاح صحیح نہیں ہو گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لَا تُنكَح الايِّمُ حَتَّى تُسْتَأمَرَ وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداؤد، کتاب النکاح باب في الرجل ينظر الى المرأة وهو يريد تزويجها: ‎190/2)
[2] مسند احمد: 246/4، ترمذی: كتاب النكاح باب ماجاء في النظر الى المخطوبة: (169/2)
[3] مسلم: كتاب الحيض، باب تحريم النظر إلي العوارت(768)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلى الله عليه وسلم وَكَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْكُت)[1]
’’بے خاوند والی کا نکاح نہ کیا جائے یہانتک کہ اس سے صاف صاف امر دریافت نہ کر لیا جائے اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لے لی جائے لوگوں نے کہا، وہ شرم سے بات نہ کرے گی اس کی اجازت کیسے معلوم ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا چپ رہنا ہی اجازت ہے۔“
آپﷺ نے فرمایا:
(الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا)[1]
’’کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں دریافت کر لینا چاہئے اگر وہ خاموش رہے تو یہی اس کی اجازت ہے اور اگر انکار کر دے تو زبردستی نکاح جائز نہیں ہے۔“
اگر باپ بھی بیوہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے نکاح کر دے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہو گا۔
حضرت خنساء بنت حزام رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
(إِنَّ آبَاهَا زَوّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَاَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَها)[3]
’’ان کے باپ نے ان کا نکاح کر دیا تھا اور اس سے وہ راضی نہیں تھیں وہ بیوہ تھیں رسول اللہﷺ کے پاس آئیں آپ ﷺ نے ان کا نکاح رد کر دیا۔‘‘
اور اگر کنواری کا بغیر اس کی مرضی کے نکاح کر دے تب بھی یہی حکم ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
((إِنَّ جَارِيَةً بِكْرًا اَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ أَنَّ آبَاهَا زَوْجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ)[4]
ایک کنواری لڑکی نے آ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس کہا کہ میرے باپ نے میری مرضی کے بغیر میرا نکاح کر دیا تو آپﷺ اسے اختیار دیا اگر چاہے تو تو ڑ دے یا باقی رکھے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب النکاح، باب لا ينكح الاب وغيره البكر و الثيب الا برضاهما (5136)
[2] ترمذی، کتاب النكاح، باب ماجاء في اكراه اليتيمة على التزويج (181/2)
[3] بخاري، کتاب النکاح، باب اذا زوج الرجل ابنته وهى كارهة فنكاحها مردود (5138)
[4]ابوداؤد: كتاب النكاح، باب في البكر يزوجها ابوها ولا يستامرها (2088).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حتی الامکان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کر دینے میں جلدی کرنا چاہئے۔ تاکہ کسی قسم کا گناہ ان سے نہ سرزد ہونے پائے۔
لڑکی کے نکاح کے لئے ولی (یعنی سر پرست) کا ہونا ضروری ہے جسے باپ دادا وغیرہ۔ بغیر ولی کی سر پرستی کے کسی لڑکی کا نکاح درست نہیں ہو سکتا۔ خواہ وہ بالغہ ہو یا صغیرہ ہو۔ اور نہ عورت خود بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيّ)[1]
’’سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔“
اور فرمایا:
(أيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ نَفْسَهَا بِغَيْرِ اِذْنِ وَلِيْهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ)[2]
’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا تو اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ وَ لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةَ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَها)[3]
’’کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہیں کر سکتی اور نہ ہی خود اپنا نکاح بغیر ولی کے کر سکتی ہے کیونکہ جو عورت خود اپنا نکاح کر لیتی ہے وہ زنا کار ہے۔‘‘
نکاح میں دو گواہوں کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
﴿وَأَشْهِدُوْاذَوَى عَدْلٍ مِنْكُمْ﴾ (سوره طلاق: 2)
’’دوا چھے گواہوں سے گواہی دلاؤ۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِي وَشَاهِدَى عَدْلٍ)[4]
’’بغیر ولی اور دو سچے اور نیک گواہوں کے نکاح نہیں ہوسکتا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (394/4، ترمذی، كتاب النكاح، باب ماجاء لا نكاح الا بولى
[2] ترمذي، کتاب النکاح، باب ماجاء لا نكاح الا بولى: (176/2)
[3]ابن ماجه: کتاب النکاح، باب لا نكاح الا بولى (1882)
[4] بيهقي، كتاب النكاح، باب لا نكاح الا بشاهدين عدلين۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(الْبَغَايَا اللَّاتِي يَنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيّنَةٍ)[1]
’’جو عورتیں بغیر گواہ کے اپنا نکاح کر لیتی ہیں وہ زانیہ ہیں۔“
نکاح میں کفو کا ہونا بہتر ہے۔ اس کے معنی مثل اور برابری کے ہیں۔ اور نکاح میں کفو اور برابری سے مراد یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی دین میں برابر ہوں۔ یعنی دونوں مسلمان ہوں اور حسب و نسب و مال و جمال حرفت و پیشہ میں برابری ہو جائے تو اچھا ہے۔ اگر نہ ہو تو ضروری نہیں۔
بہر حال نکاح میں دینی اور اسلامی برابری ضروری ہے۔ صحابۂ صحابیات کا نکاح بغیر حسب و نسب و مال کے کر دیا جاتا تھا۔
پیغام دینا سنت ہے۔ اور جب پیغام دینے سے دونوں طرف سے راضی ہو جائیں اور بات پکی ہو جائے تو دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس پر پیغام دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَلَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَتْرُكَ الْخَاطِبُ قَبْلَهُ أَوْ يَاذَنَ لَهُ الْخَاطِبُ)[2]
’’اور اپنے مسلمان بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے البتہ اگر وہ اپنے پیغام کو چھوڑ دے یا دوسرے پیغام دینے والے کو اجازت دے تو جائز ہے۔“
نکاح کرنے والا اگر خود ہی پیغام دے تو جائز ہے۔[3]
عدت کے اندر پیغام دینا حرام ہے۔ (البقرہ – 235)
جس چیز اور مال کے بدلے میں نکاح کیا جاتا ہے اس کو مہر اور صداق کہتے ہیں نکاح میں مہر کا دینا ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً﴾ (النساء: 24)
’’جن عورتوں سے نکاح کرو ان کے مقرر شدہ مہر ان کو دو۔‘‘
اور فرمایا:﴿وَاٰتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ (نساء: 4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء لا نكاح الا ببينة۔
[2] بخاري: كتاب البيوع، باب لا يبيع على بيع اخيه (2139)
[3] مفہوم موجود ہے لیکن کس روایت کی طرف اشارہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور تم عورتوں کے مہروں کو خوشی خوشی ادا کرو۔‘‘
حضرت سہل بن سعد نے روایت کی ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آکر عرض کرنے لگی کہ حضورﷺ میں نے اپنے آپ کو آپ ﷺ کے حوالے کر دیا ہے جو آپﷺ میرے متعلق فیصلہ فرمائیں گے مجھے منظور ہے۔ آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر سر نیچے جھکا لیا۔ وہ عورت وہیں بیٹھ گئی۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا، اگر آپ ﷺ کو ضرورت نہیں ہے تو میرا ہی اس سے نکاح کرا دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیرے پاس مہر دینے کے لئے کچھ ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو اپنے عزیزوں کے پاس جا کر کچھ لے آ۔ وہ گیا اور واپس آ کر کہنے لگا۔
(وَاللهِ يَارَسُولَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا)
خدا کی قسم یارسول اللﷺ مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: پھر دیکھ۔
(وَلَو خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ)
’’اگر چہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی وہی لے آ۔“
وہ پھر لوٹ کر آیا کہنے لگا خدا کی قسم لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ہے۔ البتہ یہ میری لنگی حاضر ہے چادر نہیں تھی ۔ آدھی لنگی اس کو دے دوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا۔ بھلا اس لنگی سے کیا ہو سکتا ہے اگر تو اس کو پہنے تو عورت پر کچھ نہیں رہے گا وہ ننگی رہے گی ۔ اور اگر عورت پہنے تو تیرے پاس کچھ نہیں رہتا ہے۔ یہ سن کر وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ بہت دیر تک بیٹھا رہا۔ دیر کے بعد اٹھ کر چلا۔ آپ ﷺ نے دیکھا لیا کہ وہ پیٹھ موڑ کر چل دیا تو فرمایا۔ اس کو بلا لو۔ وہ بلایا گیا۔ جب وہ حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(( مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآن.)
’’تجھے قرآن کی کون کون سی سورتیں یاد ہیں۔“
کئی سورتیں اس نے گنوا دیں ۔ آپﷺ نے فرمایا:
(قَدْ زَوَّجُناكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآن) [1]
اس قرآن کے بدلے میں میں نے اس عورت کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا۔ جا کر قرآن اس کو سکھا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب النكاح، باب السلطان ولی (5135)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے لئے ضروری ہے کہ ولی اور دو گواہوں اور دیگر ضروری رکنوں اور شرطوں کے پائے جانے کے بعد سب لوگوں کے سامنے ایجاب و قبول ہو۔ یہ ایجاب و قبول نکاح کے رکنوں میں سے ایک رکن ہے۔ جو پہلے کہے وہ ایجاب کہلاتا ہے۔ اور اس کے جواب میں جو دوسرا لفظ بولے اسے قبول کہتے ہیں ایجاب مرد کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔ اس طرح قبول مرد کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔
اگر عاقلہ بالغہ عورت کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تیری زوجیت میں دے دیا تو یہ ایجاب ہے عورت کی طرف سے اور مرد نے کہا کہ میں نے اپنی زوجیت میں تجھے قبول کر لیا ہے تو یہ قبول ہے مرد کی طرف سے اور اگر کوئی باپ اپنی نابالغہ صغیرہ بچی کے لئے ایجاب کرے تو وہ یوں کہے میں نے اپنی بیٹی کو تیری زوجیت میں دے دیا۔ اور اگر نکاح کرنے والی کا کوئی وکیل ہے تو وکیل یوں کہے کہ میں نے اپنی موکلہ کو تیری زوجیت میں دے دیا۔ قبول کرنے والا اگر خود ہی اپنا نکاح کر رہا ہے تو یوں کہے کہ میں نے تجھے یا اسے اپنی زوجیت میں دے دیا ہے اور دوسرا کہے میں نے اس پانچ سوروپے مروجہ کے عوض اپنی زوجیت میں قبول کر لیا ہے اور اس ایجاب و قبول کے ساتھ ساتھ مہر کا ذکر بھی آجانا چاہئے۔ جیسے ایجاب کرانے والا مثلاً: باپ یوں کہے کہ میں نے اپنی لڑکی محمودہ کو پانچ سو روپے مروجہ مہر کے بدلے میں تیری زوجیت میں قبول کر لیا ہے اور مجلس عقد نکاح میں یہ ایجاب و قبول کم سے کم دو ایسے گواہوں کے سامنے ہونا ضروری ہے جو ایجاب و قبول کو اپنے کانوں سے سنیں تا کہ وہ ضرورت کے وقت گواہی دے سکیں۔ اور ایجاب و قبول صریح لفظوں سے ہونا چاہئے ۔ اشارہ و کنایہ سے ٹھیک نہیں ہے۔ ایجاب و قبول سے پہلے سب لوگوں کے سامنے اس مسنونہ خطبہ کو پڑھنا سنت ہے۔
اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَتَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ رَضُ يُصْلِلَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدْ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عبدہ ورسوله اَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدَى مُحَمَّدٍ عَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَ الْأُمُورِ مُحْدَثَا تُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ، مَنْ ضَلَالَةٍ فِي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابوداود، كتاب النكاح، باب في خطبة النكاح 204/2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
النَّارِ. اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ. بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ، مَنْ يُّطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ يَّعْصِهِمَا فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ يَاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُو اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا – يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُو اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) (النساء: 102) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُو اتَّقُو اللَّهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا- يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُّطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا. (الاحزاب: 69 تا 71) (وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ رَغِبٌ عَنْ سُنَّتِي فليسَ مِنِّى وَقَالَ تَزَوَّجُو الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَانِي مُكَاثِرُ بكُمُ الأمم)
’’(اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور ان سے پھیلا دئیے بہت سے جوڑے مرد اور عور تیں۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے جس سے تم مانگتے ہو اور رشتہ داروں کا خیال رکھو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ اے ایمان والو! ڈرنے کی طرح ڈرواللہ سے اور مسلمان ہو کر مرو۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو اللہ تمہارے کاموں کو سنوار دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی‘‘ (احمد ترندی)
رسول الله ﷺ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے اعراض کیا تو وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔ اور بھی فرمایا، محبت کرنے والی عورتوں اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو۔ کیونکہ تمہاری وجہ سے میں اور امتوں پر فخر کروں گا۔“
اس خطبہ کے بعد ایجاب و قبول کرایا جائے۔ یعنی لڑکے سے مخاطب ہو کر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے اپنی بیٹی مسماۃ مسعودہ کو اپنی ولایت میں تمہاری زوجیت میں پانچ سو مہر کے بدلے میں نکاح کر دیا ہے آپﷺ نے قبول کر لیا ؟ وہ جواب دے کہ میں نے اتنے مہر کے بدلے اپنی زوجیت میں اسے قبول کر لیا ہے۔ اس کے بعد دونوں کو یہ دعا دی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]ترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء في خطبة النكاح: (178/2 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بَارَكَ اللهُ لَكَ بَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ)[1]
’’اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے۔ اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں میاں بیوی کے درمیان بھلائی میں اتفاق پیدا کرے۔“
اگر استطاعت ہے تو حسب توفیق لڑکی کو کچھ ضروری سامان دے دینا چاہئے۔ تاکہ وہ اپنے خاوند کے گھر ان کو برت سکے ۔ جس کو اصطلاح میں جہیز کہتے ہیں یہ سنت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(جَهَّزَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيْلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةِ آدَمٍ
حَشْوُهَا إِذْخَر)[2]
’’رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جہیز میں یہ چیزیں عنایت فرمائی تھیں، ایک چادر حاشیہ دار اور ایک مشک اور چھڑے کا تکیہ جس کا بھراؤ اذخر گھاس کا تھا۔“
اور ریا نمود کے لئے جہیز دینا جائز نہیں ہے۔
آداب مباشرت میں سے یہ ہے کہ شب زفاف کی پہلی ملاقات کے وقت سلام کے بعد بیوی کی پیشانی کے بال پکڑ کر یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔
(اللَّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَخَيْرَمَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِهَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ.)[3]
اے اللہ! میں تجھ سے اس بیوی کی بھلائی مانگتا ہوں۔ اور اس چیز کی بھلائی جس پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے ۔ اور اس کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے۔‘‘
جماع کے وقت ہم بستری سے پہلے یہ دعا پڑھنی بھی مسنون ہے۔
(بِسْمِ الله اللهمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَنَ مَارَزَقْتَنَا)[4]
’’اللہ کے نام سے میں کام شروع کرتا ہوں، الہی تو ہم کو شیطان سے بچا اور جو چیز تو عنایت فرمائے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] دارمي، کتاب النکاح، باب اذا تزوج الرجل ما يقال له (2174) ابوداؤد، كتاب النكاح، باب ما يقال للمتزوج: (207/2)
[2] مستدرك حاكم، كتاب النكاح، باب جهاز فاطمة رضي الله عنها: (185/2)
[3] ابن ماجه: كتاب النكاح، باب ما يقول الرجل اذا ادخلت عليه اهله (1918)
[4] بخاري، كتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنود (111) 3182)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان کو اس سے دور کر۔‘‘
جماع سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔ (اللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ للشَّيْطن فِيمَا رَزَقْتَنِي نَصِيباً)[1]
’’اے اللہ! جو چیز تو ہمیں عنایت فرمائے اس میں شیطان کا کوئی حصہ نہ ہو۔“
حیض کی حالت میں جماع حرام ہے۔ جماع کے بعد اگر سونے کا ارادہ ہے تو وضو کر کے سونا چاہئے۔ جماع کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ شب زفاف کے بعد ولیمہ کرنا سنت ہے۔ ولیمہ التیام سے مشتق ہے جس کے معنی اجتماع اور جمع ہونے اور ملنے کے ہیں۔ میاں بیوی کے اجتماع و ملاقات کے بعد شکریہ کے طور پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک ولیمہ واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت اور بعض کے نزدیک مستحب ہے۔ حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ آنحضرت ﷺنے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے فرمایا تھا۔
(أَوَلَمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ) [2] ’’ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری ہو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کے نکاح کے بعد ولیمہ کیا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
(مَا أَولَمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِهِ مَا أَوْلَم عَلَى زَيْنَبَ أولَمْ بِشَاةٍ.)[3] رسول اللہﷺ نے جتنا بڑا زبر دست ولیمہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے عقد میں کیا تھا اتنا بڑا ولیمہ کسی اور بیوی کا نہیں کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ولیمہ میں بکری ذبح کی تھی ۔“
اور آپ ﷺ نے بعض بیویوں کا ولیمہ ستو اور کھجور وغیرہ کا کیا تھا۔ یہ اپنی حیثیت پر موقوف ہے سنت کی پیروی مقصود ہو ریاء ونمود ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ [4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مصنف ابن ابی شیبه: کتاب الدعاء، باب ما يدعو به الرجل اذا دخل على اهله-
[2] بخاري: کتاب النکاح، باب الوليمة ولو بشاة (5167)
[3] بخاري: كتاب النكاح، باب الوليسة ولو بشاة (5168)
[4] بخاري: کتاب النکاح باب من اولم باقل من شاة (5172)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا جب ولیمہ کی دعوت تم کو دی جائے تو آؤ۔ [1]
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
(شَرُّالطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ يُدْعَى لَهَا الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكَ لَهَا الْفُقَرَاء)[2]
’’سب کھانوں میں ولیمہ کا کھانا برا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور محتاجوں کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘
اور جس جگہ فسق و فجور اور خلاف شرع کام ہوتا ہے اور دعوت دینے والے فاسق ہوں تو ان کی دعوت میں نہیں جانا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ولَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ﴾
(گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔)
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام اعمال قرآن وسنت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
﴿وَاخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب النكاح، باب حق أجابة الوليمة (5173)
[2] بخاري: کتاب النکاح، باب من ترك الدعوة (5177)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔