پر فتن دور میں کرنے کے کام

پر فتن دور میں کرنے کے کام

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اس عظیم فتنے سے بچ جائو جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میںسے ظلم کیا اور جان لو کہ اللہ بہت سخت سزا والا ہے۔
الأنفال : 25

*فتنہ کا معنی و مفہوم*

فتنہ کا مادہ فَتْن ہے اس کے لغوی معنی ہیں سونے کو آگ میں تپاکر کھرا کھوٹا معلوم کرنا
اور فتنہ کا معنی "آزمائش میں ڈالنا” بھی ہے
یوں کہہ لیں کہ جب فتنے آتے ہیں تو یہ اہل ایمان کو بھٹی کی طرح تپاتے،پرکھتے اور آزماتے ہیں ،پھر جو مومن اس بھٹی میں صبر و ثبات اختیار کرتا ہے ایک وقت کے بعد وہ خالص کندن بن جاتا ہے اور یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب مومن کا ایمان اور منافق کا نفاق کھل کر سامنے آتا ہے

اللہ تعالیٰ نے فتنوں کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :
وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
الأنبياء : 35

اور فرمایا :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔
العنكبوت : 2

*فتنوں کی مذمت*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے
البقرة : 141

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ "
بخاری : 1878
"میں تمہارے گھروں کے درمیان فتنوں کے مواقع کو یوں دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں۔”

*فتنے امت محمدیہ کے لیے عذاب ہیں*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُمَّتي أُمَّةٌ مَرحومةٌ لا عَذابَ عليها في الآخرةِ، جَعَل اللهُ عَذابَها في الدُّنيا: القتْلُ والزَّلازلُ والفِتَنُ.
المستدرك على الصحيحين (٨٥٩٢) • أبو داود (٤٢٧٨)، وأحمد (١٩٦٧٨)
"میری اُمّت پر اللہ کی رحمت ہے، اس پر آخرت میں عذاب نہیں ہوگا، اللہ نے اس کا عذاب دنیا میں مقرر کر دیا ہے: قتل، زلزلے اور فتنے۔”

*فتنوں کی کثرت قیامت کی نشانیوں میں سے ھے*

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ
بخاری : 1036
کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

*جو فتنوں سے بچا لیا گیا وہ خوش نصیب ہے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنِ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنِ جُنِّبَ الْفِتَنَ
ابو داؤد : 4263 صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ
بیشک وہی شخص سعادت مند ہے جسے فتنوں سے بچا لیا گیا،
بیشک وہی شخص سعادت مند ہے جسے فتنوں سے بچا لیا گیا،
بیشک وہی شخص سعادت مند ہے جسے فتنوں سے بچا لیا گیا۔

*اگر کوئی دنیا سے ایسے دنوں میں چلا جائے کہ جن دنوں میں فتنے نہ ہوں تو کیا ہی خوب ہے*

حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنَّ للفتنةِ وَقَفاتٍ وبَعَثاتٍ، فمَن استطاعَ منكم أنْ يَموتَ في وَقَفاتِها فلْيَفعَلْ.
المستدرك على الصحيحين 8553
فتنے آتے ہیں پھر کچھ وقفہ کرتے ہیں پھر آجاتے ہیں اگر کوئی وقفے کے دنوں میں فوت ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہے

*پر فتن دور اور ہمارے کرنے کے کام*

پرفتن دور میں اپنی فکر کریں، اور لوگوں کی بے جا باتوں اور گمراہیوں کو زیادہ سر پر سوار نہ کریں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچائو لازم ہے، تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے، جب تم ہدایت پا چکے، اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
المائدة : 105

1️⃣ *دعا کا اہتمام کیا جائے*

ہم کیا ہیں؟
انتہائی بے بس اور کمزور
علم بھی کمزور، یقین بھی دھندلا، عبادت بھی سطحی سی اور دل میں خواہشات کا راج الغرض کہ کسی بھی وقت پھسل سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ اپنے آپ کو خالق کاینات کے حوالے کر دیا جائے جو سب طاقتوروں سے طاقتور ہے

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا :
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لَا يَنْجُو فِيهِ إِلَّا مَنْ دَعَا بِدُعَاءِ الْغَرِيقِ
(مصنف ابن أبي شيبة، ٣٧١٣٤)
لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا جس میں صرف وہی نجات پائے گا جو ڈوبنے والے کے مانند (خلوصِ دل سے) دعا کرے گا!

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ)
’’ تم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان سے بھی اور جو باطن ہوں ان سے بھی۔‘‘

*اے اللہ ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا*

یہ دعا بکثرت کیا کریں :
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر، اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی بے حد عطا کرنے والا ہے۔
آل عمران : 8

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :
[ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ! ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰي دِيْنِكَ ]

ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ جب بھی فتنوں کا تذکرہ کرتے تو یہ دعا کرتے
اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ عَنْ دِينِنَا

*اے اللہ مجھے فتنوں میں مبتلا کیے بغیر فوت کردینا*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا بھی ملتی ہے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ ".
ترمذی : 3235 صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ

"اے اللہ! میں تجھ سے نیکی کے کام کرنے، برائیوں سے بچنے، مساکین سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں، اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے بغیر فتنے میں ڈالے وفات دے دے۔ میں تجھ سے تیری محبت، ان لوگوں کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتے ہیں، اور ایسے عمل کی محبت مانگتا ہوں جو تیری محبت کے قریب کرے۔”

2️⃣ *زیادہ سے زیادہ عبادت کریں*

فتنوں سے بچنے کے لیے عبادات کا خصوصی اہتمام بے حد مفید ہے

*فتنوں کے دور میں عبادت کا اہتمام کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کے لیے چل پڑے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ
( صحیح مسلم : 2948)
"ہر طرف پھیلی ہوئی قتل وغارت گری کے دوران عبادت(پر توجہ مرکوز) کرنا،میری طرف ہجرت کرنے کی طرح ہے۔”

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتنوں سے گھبراہٹ اور عبادت کے لیے اپنی ازواج مطہرات کو اٹھانا*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں :
اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَزِعًا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات گھبرا کر بیدار ہوئے اور فرمانے لگے :
: ” سُبْحَانَ اللَّهِ، مَاذَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْخَزَائِنِ ؟ وَمَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْفِتَنِ ؟
"میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں ! اللہ نے کیسے خزانے نازل فرمائے ہیں؟ اور کیسے فتنے نازل کیے؟
پھر آپ نے فرمایا :
مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ – يُرِيدُ أَزْوَاجَهُ – لِكَيْ يُصَلِّينَ
بخاری : 7069
کون ہے جو کمرے والیوں کو جگائے؟”
"تاکہ وہ نماز پڑھیں۔”

*جلدی جلدی نیک اعمال کیے جائیں
فرمایا*

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا»
مسلم : 313
’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے ، ( نیک ) اعمال کرنے میں جلدی کرو ۔ ( ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر ، اپنا دین ( ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتا ہو گا ۔‘‘

3️⃣ *نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو پکڑا جائے*

*سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے*

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے جو اس میں سوار ہو گیا بچ گیا اور جو پیچھے رہ گیا غرق ہو گیا۔
مجموع فتاوىٰ :11/ 623

*جو سنت کو چھوڑے گا وہ گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا*

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے :
لَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ
مسلم : 1488
اگر تم اپنے نبی کے طریقہ کو چھوڑ دو گے تو تم ضرور گمراہ ہو جاؤ گے۔“

*سنت کی مخالفت کرنے والوں کو فتنے دبوچ لیتے ہیں*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔
النور : 63

*اختلافات اور فتنوں کے دور میں سنت رسول کو مضبوطی سے تھام لو*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ
ابوداؤد : 4607
"تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم پر لازم ہے میری سنت اور ہدایت یافتہ، راشد خلفاء کی سنت کو اختیار کرنا۔ اسے مضبوطی سے تھامے رکھو، اور اسے داڑھوں سے پکڑ لو۔”

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنها ستكون فتنة.
عنقریب فتنہ بھرپا ہوگا
صحابہ نے پوچھا :
كيف نصنع
تب ہمارے کرنے کا کیا کام ہے
تو آپ نے فرمایا :
تَرْجِعُونَ إلى أَمْرِكُمُ الأول
السلسلة الصحيحة 3165
تم اپنے پہلے معاملے یعنی قرآن و سنت کی طرف لوٹ جانا

*حافظ ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں:*

إِذَا وَقَعَتِ الْفِتَنُ فَتَمَسَّكْ بِالسُّنَّةِ وَالْزَمِ الصَّمْتَ، وَلَا تَخُضْ فِيمَا لَا يَعْنِيكَ، وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْكَ فَرُدَّهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقِفْ وَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ.
(سیر أعلام النبلاء : ١٤١/٢٠)
”جب فتنے رُونُما ہوں تو سنت کو تھام لو، خاموشی کو لازم پکڑو، اور لا یعنی چیزوں میں مشغول مت رہو، ہر آنے والی مشکل کا حل الله و رسول کی باتوں میں تلاش کرنا، اور خاموش رہ کر بس یہی کہنا کہ الله بہتر جاننے والا ہے.“

4️⃣ *پرفتن دور میں استقامت اختیار کی جائے*

اپنے دین پر قائم رہنا اپنی شکل و صورت کو اسلامی رکھنا چند ٹکوں کی خاطر اپنے دین کو نہیں بیچنا کیونکہ باقی سب کچھ مل جائے گا لیکن ایمان کی نعمت ایک دفعہ چلے گئی دوبارہ کیا پتہ کہ ملتی ھے یا نہیں ملتی لہذا ایمان کی فکر کریں دین اسلام پر قائم رہیں اور ذیادہ سے ذیادہ نیکیوں میں آگے بڑھ جائیں

*استقامت فی الدین کے بدلے تنزلِ ملائکہ اور ابشار جنت کا مژدہ سنائی دیتا ہے*

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جائو جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔
فصلت : 30

*پر فتن دور میں ایمان پر قائم رہنا جہنم سے بچاؤ اور جنت میں داخلہ کا ذریعہ ہے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ
رواہ مسلم
اور ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک دوسرے کو ہلکا (یعنی معمولی) بنادیں گے
اور (جب) فتنہ آئے گا تو مؤمن کہے گا: "یہی تو ہے جو مجھے ہلاک کردے گا”،
پھر وہ فتنہ ختم ہو جائے گا۔
پھر (دوسرا) فتنہ آئے گا، تو مؤمن کہے گا: "یہی! یہی (ہے وہ خطرناک فتنہ)”۔
پس جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ آگ سے دور کر دیا جائے اور جنت میں داخل ہو،
تو اُس کی موت اُسے اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو،
اور لوگوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے ساتھ کریں۔

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ أَلْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ ، يُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِيْنِهِ ، فَإِنْ كَانَ فِيْ دِيْنِهِ صَلاَبَةٌ زِيْدَ فِي بَلاَئِهِ، وَ إِنْ كَانَ فِيْ دِيْنِهِ رِقَّةٌ خُفِّفَ عَنْهُ، وَمَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی يَمْشِيَ عَلٰی ظَهْرِ الْأَرْضِ لَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ ]
[مسند أحمد : 172/1، ح : ۱۴۸۵۔ ترمذي : ۲۳۹۸، و صححہ الألباني ]
’’(آزمائش میں سب سے سخت) انبیاء ہوتے ہیں، پھر صالحین، پھر لوگوں میں سے جو افضل ہو، پھر جو اس کے بعد افضل ہو، آدمی کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمائش میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو تو اس سے تخفیف کی جاتی ہے اور آدمی کی آزمائش جاری رہتی ہے، حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔‘‘

5️⃣ *خاموشی اختیار کی جائے*

شیخ صالح آل شیخ فرماتے ہیں :
سلف (یعنی پہلے زمانے کے نیک لوگ) فتنوں کے وقت خاموشی کو زیادہ اختیار کرتے تھے اور بات کم کیا کرتے تھے اسی وجہ سے ان کے کلمات محفوظ رہتے اور نقل کیے جاتے۔
جبکہ خلف (بعد کے لوگ) کی باتیں بہت زیادہ ہیں، اور فتنوں میں تو ان کی باتیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں،
اور یہ (کثرتِ کلام) سلف کے طریقے سے علم کی کمی کی علامت ہے۔
[الطَّرِيقُ إِلَى النُّبُوغِ العِلمِيِّ (صـ309)].

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ
بخاری : 6018
اور جو کوئی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔

*خبریں پھیلانے کا شوق تھوک دیں اور اگر کبھی کوئی خبر ملے تو اس میدان کے متعلقہ ذمہ داران تک پہنچائیں*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
النساء : 83

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرمایا :
[كَفٰي بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَّا سَمِعَ ]
[ مسلم، المقدمۃ : ۵ ]
’’آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے (بلاتحقیق) آگے بیان کر دے۔‘‘

*عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مثالی عمل*

ابن عمر رضی اللہ عنہ کسی مجلس میں کوئی بات ارشاد فرمانا چاہتے تھے مگر پھر آپ نے وہ بات نہ کہی، بعد میں جب آپ سے خاموش رہنے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا :
فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ
بخاری : 4108
لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”لَا تَكُونُوا عُجُلًا مَذَايِيعَ بُذُرًا“.
’’جلد باز، باتوں کو پھیلانے والے اور راز فاش کرنے والے نہ بنیں۔‘‘
(الأدب المفرد للبخاري : ٣٢٧، صحیح)

6️⃣ *فتوں کے دور میں گھروں میں ٹکے رہو*

*گھر میں ٹکے رہنے میں ہی بچاؤ ہے*

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا النَّجَاةُ
اے اللہ کے رسول، نجات (کا ذریعہ) کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” اَمْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ ".
ترمذی : 2406، صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ
"اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہو جائے (یعنی زیادہ باہر نہ نکلو)، اور اپنی خطا پر رویا کرو۔”

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ
ابو داؤد : 4262
اپنے گھروں میں چپکے بیٹھے رہو۔

امام بربهاري رحمه الله فرماتے ہیں :
” إذا وقعت الفتنة فالْزم جوف بيتك ، وفِرَّ من جوار الفتنة ، وإياك والعصبية ، وكل ما كان من قتال بين المسلمين على الدنيا فهو فتنة ، فاتَّقِ الله وحده ﻻشريك له وﻻ تخرج فيها ، وﻻ تقاتل ۔۔۔”
[شرح السنة ‏(١٤٧/١ )]
جب فتنے رونما ہو جائے تو آپ اپنے گھر کو لازم پکڑو اور فتنے کے قریب بھی نہ پھٹکو اور عصبیت سے بچو ہر وہ لڑائی جو مسلمانوں کے درمیان دنیا کی وجہ سے ہو وہ فتنہ ہے پس اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو اور ایسے فتنہ میں نہ نکلو

*گھروں میں ٹکے رہو اور فتنوں کی طرف جھانکنے کی بھی کوشش نہ کرو*

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي ، وَمَنْ يُشْرِفْ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ، وَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ "
بخاري : 3601
"عنقریب فتنے برپا ہوں گے، اس میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو شخص ان (فتنوں) کی طرف جھانکے گا، وہ اسے اپنی طرف کھینچ لیں گے، اور جو کوئی پناہ کی جگہ یا جائے پناہ پائے، تو اُسے وہاں پناہ لے لینی چاہیے۔”

سنن أبي داود کی ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب ایسے فتنے رونما ہو جائیں تو) :
فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَإِنْ دُخِلَ – يَعْنِي – عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ
ابوداود 4259 صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ
اپنے کمان توڑ دو، اور اپنی تاریں کاٹ دو، اور اپنی تلواروں کو پتھروں سے مارو؛ پس اگر وہ ــ مطلب ــ تم میں سے کسی کے پاس داخل ہو تو وہ ایسے ہو جیسے آدم کے سب سے اچھے بیٹے۔

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : اے ابو عبد اللہ! جب وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں آپس میں قتل و غارت کریں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
فرمایا :
آمُرُكَ أنْ تَنظُرَ أقْصى بَيتٍ مِن دارِكَ فتَلِجَ فيه، فإنْ دَخَل عليكَ، فتَقولُ: ها بُؤْ بإثْمي وإثْمِكَ، فتكونَ كابنِ آدَمَ.
المستدرك على الصحيحين للحاکم (٨٥٩٤)
میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنے گھر کے سب سے دور والے کمرے کی طرف رکھ کر دیکھ اور اُس میں داخل ہو جا؛ پھر اگر وہ تمہارے پاس داخل ہو تو کہہ دے : "ہا بُؤْ — میرا اور تیرا گناہ تیرے ہی سر پر "۔
اس طرح تو آدم کے بیٹے کی مانند ہوگا۔

7️⃣ *اپنا ہاتھ روک کر رکھیں*

*فتنوں کے دور میں جو اپنا ہاتھ روک کر رکھے وہ کامیاب ہو گا*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ أَفْلَحَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ
ابو داؤد
عرب کے لیے ہلاکت ہے ایک شر (آزمائش) سے جو قریب آ چکا ہے،
کامیاب وہی ہے جو اپنا ہاتھ روک لے۔

*حضرت عثمان رضی اللہ عنہ طاقت کے باوجود اپنا ہاتھ روک کر رکھا*

ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فہم و فراست میں سے یہ تھا کہ جب اس کو معلوم ہوا کہ مجھے ضرور مارا جائیگا ۔ تو انہوں نے لڑائی سے اپنے آپ کو روکا اسی طرح اپنے مدافعہ سے بھی لوگوں کو روکا۔ تاکہ مسلمانوں میں لڑائی واقع نہ ہو انتہائی کام یہ ہوگا کہ میں بھی مارا جاؤں گا تو انہوں نے یہ پسند کیا کہ مسلمانوں میں لڑائی ہوئے بغیر وہ مارا جائے
[الطرق الحكمية ص: ۲۹]

*مسلمانوں کی باہمی جنگوں میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا کردار*

آپ نے بھی جنگ صفین میں نہ علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور یہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کوئی عام صحابی نہیں تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت محبوب تھے
رسول اللہ ﷺ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ, دونوں کو گود میں اٹھا لیتے اور فرماتے: اے اللہ! تو انہیں اپنا محبوب بنا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری:3735)
اسکے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:
اسامہ رضی اللہ عنہ پر کوئی اعتراض مت کرنا یہ مجھے بہت زیادہ پیارا یے (صحیح بخاری:4468) (ترمزی:3816)
یہی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے تھے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے میں جان کی بازی بھی لگا سکتا ہوں لیکن جنگ صفین مسلمانوں کی آپسی جنگ ہے اس لیے میں شرکت نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ جنگ مجھے صحیح معلوم نہیں ہوتی
(صحیح بخاری:7110)
اور ہاں یہ وہی اسامہ رضی اللہ عنہ ہیں یہ جب بلکل چھوٹے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا سےفرمایا تھا:
اے عائشہ! تم اسامہ سے محبت کیا کرو میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں

حضرت اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خود یہ نصیحت کی تھی کہ جب مسلمانوں میں باہم فتنہ و فساد اختلاف برپا ہو جائے تو لکڑی کی تلوار بنا لینا, اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق لکڑی کی تلوار بنا لی یے میں جنگ میں شرکت نہیں کر سکتا
(ابن ماجہ: 3960) (جامع ترمزی: 2203)

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے اس تیسرے گروہ میں شامل تھے جنہوں نے جنگ صفین میں کسی بھی گروہ کا ساتھ نہیں دیا تھا کیوں کہ انکے پاس امام کائنات رسول اللہ ﷺ کی وصیت تھی کہ جنگ ہو تو پہاڑوں پہ چڑھ جانا لڑائی میں حصہ مت لینا
” محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ عنقریب فتنہ ، افتراق اور اختلاف ( رونما ) ہو گا ۔ جب یہ صورت حال پیش آئے تو تلواریں توڑ دینا اور پہاڑوں پہ چڑھ جانا”
(ابن ماجہ 3962)

8️⃣ *صبر کیا جائے*

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ
اور اپنے رب ہی کے لیے پس صبر کر۔
المدثر : 7

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ
ترمذي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِن وَّرَائِکُمْ أَیَّامَ الصَّبْرِ، لِلْمُتَمَسِّکِ فِیْہِنَّ بِمَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرُ خَمْسِیْنَ مِنْکُمْ ))
’’ تمھارے بعد صبر کے ایام آنے والے ہیں۔ان میں جو شخص اُس دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے گا جس پر تم قائم ہو، تو اسے تم میں سے پچاس افراد کا اجر ملے گا۔‘‘

صہیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهٗ كُلَّهٗ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهٗ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ وَإِنْ أَصَابَتْهٗ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ ]
[ مسلم : 2999 ]
’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، وہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘

*اور جو کسی فتنے میں مبتلا ہو کر صبر کرے اس کے کیا کہنے*

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَلَمَنِ ابْتُلِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَبَرَ فَوَاهًا
أبو داود
اور جو شخص کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا پھر اس نے صبر کیا، تو واہ! (کیا ہی شان دار ہے وہ)۔

اور آپ نے مزید فرمایا :
فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ
بخاری
پس صبر کرو یہاں تک کہ تم مجھ سے حوض (کوثر) پر آ ملو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
« إنّنَا في زَمنٍ تَمُوجُ فِيه الفِتَن، وتَتَلاحَقُ فِيه النَوازِل والمِحَن، وعامَة الفِتَن سبَبُها أمرَان: قلّة العِلم، وضَعفُ الصَّبر ».
[ المُستَدرَك عَلَىٰ مَجْمُوع الْفَتَاوَى (٥/١٢٧) ]
بے شک ہم ایسے دور میں ہیں جہاں فتنے موج زن ہیں، اور مصیبتیں اور آزمائشیں پی در پی آ رہی ہیں،
اور اکثر فتنوں کا سبب دو چیزیں ہیں: علم کی کمی، اور صبر کی کمزوری۔

9️⃣ *آخری حل*

*نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پرفتن دور میں دنیا سے الگ ہو کر پہاڑوں پر چلے جانے کو مومن کا بہترین مال قرار دیا*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنْ الْفِتَنِ
عنقریب مسلمان کا بہترین مال بکریوں کی صورت میں ہوگا، جنھیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے نازل ہونے کی جگہوں پر چلا جائے گا، وہ فتنوں سے بچنے کی خاطر اپنے دین کے ساتھ راہِ فرار اختیار کرے گا۔

*فتنوں کے دور میں کنارہ کشی اختیار کرنے والا بہتر مسلمان ہے*

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي
رواہ البخاری
فتنے آئیں گے، اُس میں بیٹھا ہوا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا،
اور کھڑا ہوا اُس چلنے والے سے بہتر ہوگا،
اور چلنے والا اُس دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔

*سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ*

سعد بن ابی وقاص اپنی اونٹنیوں میں مشغول تھے کہ ان کا بیٹا عمر ان کے پاس آیا۔ جب سعد نے اسے دیکھا تو کہا: "میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سوار کے شر سے۔”
وہ (عمر) نیچے اُترا اور کہا: "آپ اپنی اونٹوں اور بکریوں میں لگے ہوئے ہیں، اور لوگ بادشاہی کے لیے آپس میں جھگڑ رہے ہیں!”
تو سعد نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا: "چپ رہ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
: ” إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ ".
مسلم : 2965
"بے شک اللہ اُس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار ہو، بے نیاز ہو، اور چھپا ہوا (گمنام) ہو۔”

*محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جنگل کی طرف نکل گئے*

سیدنا ابوبردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو جنگل میں بیٹھے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا آپ یہاں جنگل میں کیا کر رہے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا لڑائی شروع ہو چکی یے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی تھی
عنقریب فتنہ، تفرقہ بازی اور اختلاف پیدا ہو گا، اور اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو تم اپنی تلوار لے کر پہاڑ پر چڑھ جانا اور تلوار پتھروں پہ مار مار کر توڑ دینا
وہ وقت آن پہنچا ہے اور لڑائی شروع ہو چکی یے اور جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، میں اسی پر عمل کر رہا ہوں
(مسند احمد 12809)